بدھ، 20 نومبر، 2024

بلتستان میں تاریخ عزاداری حصہ دوئم

 بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، اخوند خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، اخو بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، اخوند خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، اخوند حسین، اخوند حسن، محمد علی خان واحد، بوا شجاع، غلام مہدی مرغوب سمیت بے شمار شعرا نے نوحوں سمیت دیگر کئی اصناف میں بلتی شاعری کے حسن میں اضافہ کیا ۔1948ء میں اہالیان بلتستان نے ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کر لی تو اس دوران بلتیوں کی بڑی تعداد ہندوستان کے کئی شہروں سے ہجرت کر کے بلتستان آئی۔ ان میں سےبعض نے سکردو میں عَلم، تعزیے اور ذوالجناح کے ماتمی دستے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور بعض جوانوں نے 1951ء، 1952ء میں اردو نوحہ خوانی اور ماتم کا سلسلہ شروع کیا۔


 انہیں میں سے ایک موضع سکمیدان سے تعلق رکھنے والے جناب ذاکر علی جو ملک تھے جنہوں نے 1952ء میں محلہ سکمیدان میں باقاعدہ اردو نوحہ خوانی شروع کی انہوں نے دستہ آل عبا کے نام سے اردو ماتمی دستہ نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں بلتستان میں جلوسوں اور اردو نوحہ خوانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلتستان میں جلوس عاشورا اور جلوس اسد کوترویج دینے اور پھیلانے میں علامہ سید علی الموسوی اعلی اللہ مقامہ نے نمایاں کردار ادا کیا ان سے پہلے صرف کھر گرونگ ،گنگوپی،سکمیدان،چھومیک اور سزگرکھور کے عوام ہی شرکت کرتے تھے۔ آج ماہ اسد میں ۲۵ سے زیادہ جلوس عزا نکالے جاتے ہیں۔شیعیان بلتستان نواسہ رسول مظلوم کربلا سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کا عزاداری بے حد عقیدت و احترام سے سال میں دو بار مناتے ہیں۔ایک ماہ محرم الحرام میں اور دوسرا شمسی ماہ اسد میں۔


  بعض جگہوں پر لوگ اول سال سے ہی محرم کی مجالس کے لئے تبرکات کا انتظام کر رکھتے ہیں لوگ آٹا وغیرہ جدا کئے رکھ دیتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجلس کے وقت یہ ختم ہوجائے اور ہم تبرک دینے سے محروم رہ جائے۔آداب عزاداری کے اعتبار سے بلتستان کو ایک خاص مقام حاصل ہےیہاں شروع میں آداب مجلس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔ مجلس کی ابتدا درج ذیل فارسی اشعار سے ہوتی ہےازما سلام برتن صد پارہ حسین بر ہمراہان کشتہ و آوارہ حسین- بر خفتگان ماریہ و رفتگان شام آن اختران ثابت وسیارہ حسین  ایں خدمت وصال برایشان قبول باد صلوٰۃ بر رسول و بر آل رسول بادبرآں دو دست دادہ براہِ وفائے دوست عباس ؑ تشنہ کام جگر پارہ حسین ؑجب نوحہ خوانی اور سینہ زنی اپنے عروج کو پہنچ جائے تومجلس کو ختم کروانے کی خاطر کوئی فارسی کے یہ کلام بلند آواز میں پڑھ لیتے ہیں۔


داد از قتل حسین ؑ بیداد از زہر حسینؑ  -یوں اس کلام کے ختم ہونے پر سینہ زنی تمام ہو جاتے ہیں اور دعاوزیارت ابا عبداللہ الحسین کے بعد مجلس ختم ہوجاتی ہے۔محرم کے مجالس کی تقسیم بندی بھی کچھ خاص انداز میں ہے تین محرم تک اصحاب امام عالی مقام کا ذکر کیا جاتا ہےچہار محرم کو حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت ،پانچ محرم کو طفلان مسلم کی شہادت، چھے محرم کو علی اصغر کی شہادت ،سات کو شہزادہ قاسم کی شہادت ، آٹھ محرم کو علی اکبر کی شہادت ،نویں محرم کو حضرت عباس کی شہادت اور دس محرم کو مظلوم کربلا نواسہ رسول امام حسین کی شہادت پرھی جاتی ہیں ۔نویں محرم کی رات مختلف امام بارگاہوں سے جلوس اور شبیہ علم برآمد ہوتی ہے جب کہ شب عاشور کو بھی تمام عزاخانوں میں مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور بعد میں ماتمی جلوس برآمد کیے جاتے ہیں اور رات بھر ماتم کا سلسلہ جاری رہتا ہے-


 عاشور کی صبح سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر امام بارگاہوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں مجالس کے بعد تعزیہ، عَلم اور ذوالجناح کے جلوس نکالے جاتے ہیں اور جلوس کے ہمراہ نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہوئے اپنے علاقے میں موجود مقدس مقام کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب نماز ظہر کا وقت آئے تو باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے نماز کے فورا بعد دوبارہ جلوس کی صورت میں عزاداری کرتے ہوئے جاتے ہیں ۔جلوس کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا کر دوبارہ شام غریبان منانے امام بارگاہوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں انتہائی درد اور سوز کے ساتھ مرثیے اور مصائب پڑھے جاتے ہیں ۔اس طرح ایام عزاء کا اختتام ہوتا ہے


1 تبصرہ:

  1. بلتستان کے لوگوں کی اپنی ایک الگ مومنانہ شان ہے -اس شام میں غم حسین اور عشق حسین علیہ السلام شامل ہوتا ہے -اللہ اس قوم کی حفاظت فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر