اتوار، 28 جولائی، 2024

بچوں میں پیدائشی نقائص -ماں زمہ دار

 

ڈاون‮ ‬سنڈروم‮ ‬ کا حامل بچہ  ‮ ‬‮ ‬46‮ ‬کی‮ ‬جگہ‮ ‬47‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے-‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دراصل‮ ‬کروموسوم‮ ‬21‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دماغ‮ ‬کی‮ ‬نشونما‮ ‬میں‮ ‬تاخیر‮ ‬اور‮ ‬جسمانی‮ ‬معذوری‮ ‬کا‮ ‬سبب‮ ‬بنتا‮ ‬ہے۔‮ ‬ڈاون‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہونے ‬والے‮ ‬بچے‮ ‬تمام‮ ‬سماجی‮ ‬و‮ ‬اقتصادی‮ ‬حیثیت‮ ‬سے‮ ‬بالاتر‮ ‬ہوتے‮ ‬ہیں۔ اور بتایا جاتا ہےکہ ماں کی عمر 37 سے اوپر ہو تو اس قسم کا بچہ پیدا ہونے کے چانسز قوی ہوتے ہیں کا 

 کہا جاتا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ فرد اپنی ذات میں گم رہتا ہے، حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا  ہے۔   ان بچوں کو چیزوں کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔یہ معذوری عمر کے ابتدائی سالوں میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دماغ کی کیمسٹری میں کچھ خرابی کا اثر دماغ کے ان حصّوں پر پڑتا ہے جو رابطے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی‘ان کا کہنا ہے کہ آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے  اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کوبھی آٹزم تھا۔

امریکن سا ئکائٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق مندرجہ ذیل علامات اگر بچے کی عمر کے پہلے تین سالوں میں ظاہر ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اسے آٹزم ہے۔آپس میں تعلقات یعنی سماجی میل جول میں واضح طور پر عام بچوں سے پیچھے ہونا۔رابطے کی مہارت میں واضح طور پر اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا۔ماحول میں دلچسپی نہ لینا اور اردگر کی چیزوں پر توجہ نہ دینا ۔گزشتہ دنوں ہم نے آٹزم کا شکار18سالہ عمر کے والد سے ملاقات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے معمولات اور اس سے جڑے افراد کس طرح مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔عمرکے والد گزشتہ 28سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،وہ ایک ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں۔ہم جب ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے انتہائی پرتپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیااور ساتھ ہی تواضع کا سامان بھی سامنے رکھ دیا۔اپنے فرزند کی بیماری کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ گویا ہوئے:


میرے چار بچے ہیں،عمر میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس وقت اس کی عمر 18برس ہے ۔ہمیں عمر کی بیماری کا ابتدائی چار پانچ سال میں بالکل اندازہ نہیں ہو سکا،نہ ہی اس وقت آٹزم جیسی بیماری کا کسی اخبار یاٹی وی میں ذکر ہوتا تھا،یہی سبب ہے کہ اس کے مرض کی تشخیص میں کافی وقت لگا،یہ کارٹون بہت دیکھتا تھا ،کارٹون کی زبان انگریزی تھی تو جب اس نے بولنا شروع کیا تو یہ بھی کارٹون میں سنے ہوئے بامعنی جملے کہتا،  Taxi Wait for me۔ابتداء میں ہم نے انہیں معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر ۔پھر معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون کے پاس گئے،انہوں نے دو ڈھائی سو سوالات پوچھے اور مرض کی تشخیص کرتے ہوئے بتایا کہ اسے بیک وقت آٹزمADHD(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)اورHyperactivity Disorderہے۔انہوں نے ادویات دیئے اور علاج شروع کیا۔اسی عرصے میں کچھ لوگوں نے ہمیں روحانی علاج کا مشورہ دیا،ہم روحانی معالج کے پاس گئے


 تو انہوں نے ہمیں چالیس دن کا کورس بتایا اور ان کی شرط یہ تھی کہ ایک دن بھی ناغہ کیے بغیر ان کے پاس جانا ہے ،یہ یک مشکل مرحلہ تھا کہ کیوں کہ عامل صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ایک ایسے مقام پر تھے جہاں بس نہیں جاتی اور ٹیکسی والے بھی کم ہی جاتے تھے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر وہاں جانا شروع کیا،مگر وہاں جانا بھی ہمارے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا ،ان کے پاس جانے کا اس کے سوااور کوئی نتیجہ نہیں نکلا کہ عمر نے بھی ان کی طرح نقش بنانا اور بوتلوں میں پھونکنا سیکھ لیا۔ان عامل صاحب کو جب پتا چلا کہ میں ایک صحافی ہوں تو انہوں نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا ،ان کے عمل سے اعشاریہ ایک فیصد بھی مرض میں بہتری نہیں آئی۔پھر ایک صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ سورہ ملک اور سورہ واقعہ 23-23مرتبہ پڑھ کر پھونکا جائے ،ہم نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ بھی کیا۔ پہلے دن تلاوت میں پونے دو گھنٹے لگے،پھر اس عمل کو ہم نے معمول بنالیاکہ عشاء کی نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کے بعد دم کرتا،ڈھائی پونے تین ماہ ہم نے یہ عمل کیا مگر اس کا بھی اثر نہیں ہوا۔ایک اور صاحب نے ہمیں چند دعائیں بتائیں کہ یہ پڑھ کر کان میں پھونکیں مگر اس کا بھی نتیجہ نہیں نکلا۔


اس مرض کے حوالے سے کوئی اسکول بھی نہیں تھا جہاں ہم اسے داخل کراتے ،ایک مرتبہ ہمیں پتا چلا کہ ہل پارک کے قریب ماں عائشہؓ اسکول ہے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسکول بن رہا ہے مگر پک اینڈ ڈراپ نہیں ہے،یہ سہولت ہمارے پاس بھی نہیں تھی سو ہم نے گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا ساتھ ایک ڈرائیور بھی رکھا۔عمر پہلی مرتبہ اسکول گیا۔وہاں اسکول والوں کو عمر کی صحیح کیفیت کا اندازہ نہیں تھا ایک دن وہ اسکول سے باہر نکل گیا اور یہ ہوا کہ وہاں کے استاد کا اسکول انتظامیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور وہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے اس طرح یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔پھر ہم ایک حکیم صاحب کے پاس گئے انہوں نے بتایا کہ اس بچے کے دماغ کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا جب یہ سوجائے تو اس کے سر پر جَو کے آٹے کی گرم روٹی لیپ کریں یہ ایک ایسا عمل تھا جس کو عمرکے نیند کی کچی کیفیت کی وجہ سے بروئے کار لانا ممکن نہ تھا سو ہم ایسا نہیں کر سکے۔ایک اور صاحب نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ کل سورج گرہن ہے اور جب تک سورج گرہن رہے آپ ساحل پر لے جاکر دھڑ تک اسے ریت میں دبادیں،اس کی شعاعوں سے علاج ممکن ہے،یہ ایک مضحکہ خیر عمل محسوس ہوا مگر اپنے بیٹے کی محبت نے ہمیں اس پر بھی مجبور کردیا اور ہم نے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیامگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں  نکلا۔ پھر ہم نے کئی ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔  تحریر یہاں پر ختم ہے

میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک گھریلو خاتون ہوں میرا میڈیکل کے شعبے سے کوئ تعلق نہیں ہے لیکن کتابی علم سے وابستگی کی بدولت جو حاصل کرتی ہوں آپ کی نظر کر دیتی ہوں  


 


 

جمعہ، 26 جولائی، 2024

پیر علی محمد راشدی پار ٹ دوم-روداد چمن

   دنیا کے کسی ملک نے من حیث الجماعت  اس طرح سے رسوا کرنے کیلئے  اہتمام نہیں کیا جیسا کہ پروڈا جیسے  کالے قانون  کو محض حقیقی سیاستدانوں  کو بدنام کرنے کے لئے لاگو کیا گیا۔یہ صحیح اور مناسب چیز ہے کہ منتخب نمائندوں کا احتساب ہو،مگر جمہوری نظام کے تحت اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ مثلاً(1) ہر تیسرے چوتھے سال بلاتکلف بلاناغہ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ اور عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ غلط آدمیوں کو نکال کر نئے آدمی منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں۔(2) انتخابات کی کشمکش کے دوران مخالف و موافق پروپیگنڈہ ہوتا ہے،جس سے ہر امیدوار کی پچھلی کارکردگی کی تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے آخری فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو منتخب کیا جائے اور کس کو رد کیا جائے۔(3) اخبارات کو کامل و مکمل آزادی ہوتی ہے اور وہ سارا وقت غلط وزیروں اور بدعنوان منتخب نمائندوں کی پردہ دری کرتے رہتے ہیں اور عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے نمائندے کیا کچھ کر رہے ہیں۔(4) اسمبلیوں اور کونسلوں میں اپوزیشن پارٹیاں ہوتی ہیں۔ جن کا کام بھی یہی ہے کہ وہ برسر منصب وزیروں کے عیوب کو اچھال کر عوام کو باخبر رکھیں۔(5) سالانہ بجٹ پر بحث کے دوران وزیروں پر سخت سے سخت نکتہ چینی کی آزادی ہوتی ہے۔(6) عدم اعتماد کی تحریک یا بجٹ میں ایک روپیہ کی تخفیف کے ذریعے وزیروں کو کسی وقت بھی برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(7) عوام ہر وقت جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں کے ذریعے وزیروں کی زندگی تلخ کرسکتے ہیں۔غرض منتخب نمائندوں کے احتساب کے اس طریقہ کار کے تحت، اپنے نمائندوں سے باز پرس کا کام انہیں عوام کے اختیار میں ہی رہتا ہے،جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ نمائندہ میرا اور اس کی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں ہو۔ پروڈائی طریقے سے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری اپنے منتخب کرنے والے عوام سے ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے بنیادی مقاصد فوت ہو جاتے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل بدنیتی پر مبنی نہ ہو اگر احتساب کی بنیاد بدنیتی پر ہو تو اس کا اثر الٹا ہی نکلتا ہے اور اس سے احتساب کرنے والوں کی اپنی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے۔اب پروڈا کے فضائل اور اس کی ابتدا اور پھر انتہا پر نظر ڈالئے۔ پروڈا کی مشینری کو حرکت میں لانے کیلئے طریقہ یہ رکھا گیا کہ کسی جھوٹی سچی شکایت پر مرکزی حکومت کا مقرر کردہ گورنر، اپنے کسی وزیر کو ڈسمس کر کے اپنی مرضی کا ٹریبونل بٹھا کر اور اس سے رائے لے کر مرکزی حکومت سے اس وزیر کو کئی سال کیلئے نااہل قرار دلوانے کا مجاز تھا۔پروڈا کے مقدموں میں وزیروں کے خلاف ان کے سیکرٹری اور دوسرے زیردست گواہ بن کر آتے تھےاور اکثر یہ دکھاتے تھے کہ متعلقہ فائل پر ہم نے یہ رائے دی تھی اور اس سے اختلاف کر کے وزیر نے یہ فیصلہ دیا،جس سے بدعنوانی واقع ہوگئی۔

یاد رہے کہ پروڈا کی کارروائیاں سارے پاکستان میں ہوتی رہیں، مگر پاکستان بھر میں کسی سیاست دان کے خلاف، ہزار کوششوں کے باوجود، رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔رہا بدعنوانی کا الزام تو یہ ایک مبہم چیز تھی۔ مثلاً بدعنوانی کیا چیز ہے؟ بدعنوانی کا معیار کیا ہو؟ انتظامی امور میں کس فعل کو بدعنوانی قرار دیا جائے اور کس ’’خوش عنوانی‘‘ سے تعبیر کیا جائے؟ یہ ان افسروں اور ٹریبونلوں کی صوابدید پر منحصر رہا،وہ رات کو دن، دن کو رات قرار دے سکتے تھے۔ یعنی رسی جس کی گردن میں فٹ آجائے اس کو پھانسی پر چڑھادیا جائے۔!میں نہیں کہتا کہ مرکز کے جن سیاست دانوں نے پروڈا بنایا ان کی نیت خراب تھی، مگر پروڈا کا جو نتیجہ نکلا وہ کئی لحاظ سے افسوس ناک ثابت ہوا مثلاً(1) عوام کے منتخب وزیر محض پروڈا کی بے آبروئی سے بچنے کی خاطر نوکر شاہی کی کاغذی کارروائی کو عوامی مفاد کے تقاضوں پر ترجیح دینے لگے،اور اس طرح سے عوامی نمائندگی عملاً بے اثر اور نوکر شاہی عملاً مختار کل بن گئی۔ جمہوریت کو نوکر شاہی کے قدموں میں لٹا دینے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔(2) منتخب اسمبلیوں کو بیکار بنا دیا، کیونکہ جب اپنے وزیروں پر احتساب کا اختیار اس کے پاس نہیں رہا (جو جمہوری اصولوں کے تحت اسمبلیوں کا بنیادی حق تھا) اور یہ کام اوپر ہی اوپر ہونے لگا، تو اسمبلیاں محض نام کی رہ گئیں۔

(3) صوبوں میں لوگوں کے مابین اختلافات کو شہ مل گئی۔ جب احتساب کا اختیار عوام کے پاس نہیں رہا اور وزیروں کی تقرری و موقوفی، عوام کے ووٹوں پر منحصر نہیں رہی بلکہ اوپر والوں کے ہاتھوں میں آگئی تو وزیروں کے مخالفوں کے پاس یہی ایک حربہ رہ گیا کہ وہ جابےجا شکایتوں کا طوفان کھڑا کر کے، پروڈا کے تحت ان کو پکڑوا کر سیاسی میدان سے نکلوا دیں،یہی ہونے لگا اور بڑے پیمانے پر ہوتا رہا۔ مثلاً ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتا سیاست دان(میرے بغیر) ایسا نہیں رہا جو پروڈا کے تحت نااہل نہیں قرار دیا گیا۔ غرض ایک ایسی افراتفری پھیل گئی کہ صوبوں میں جمہوریت کی چولیں ہل گئیں اور صوبوں میں مرکز کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، یہی نوکر شاہی کا حقیقی مقصد تھا،جس کیلئے انہوں نے پروڈا کا نسخہ بنوایا تھا۔(4) جس طرح اوپر عرض کیا جا چکا ہے، پروڈا کی جملہ ہنگامہ آرائیوں کے باوجود کسی ایک سیاست دان کے خلاف بھی رشوت خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا،یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔(5) پورے پانچ چھ سال یہ ڈرامہ ہوتا رہا اور سارا عرصہ دنیا کے سامنے پاکستان کی تذلیل اور پاکستانی جمہوریت کی تحقیر ہرتی رہی،باہر کے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ عجیب اسلامی ملک بنا ہے،جس کو چلانے والے سیاست دانوں کی اکثریت صرف ایک سال کے اندر ہی اس قدر بددیانت ثابت ہو رہی ہے۔(6) چھ سال بعد دیکھا گیا کہ یہ ’’قانون‘‘ خود ہی خلاف قانون پاس ہوا تھا،لہٰذا اس کو منسوخ اور اس کے مجرومین کو اس کی پابندیوں سے آزاد سمجھا گیا

بلاوجہ سیاست دان چھ سال بے آبرو ہوتے رہے۔ لاکھوں روپیہ طرفین کا وکیلوں اور کاغذوں پر ضائع ہوتا رہا۔ مثلاً کھوڑو مرحوم کو اپنی طرف سے وکالت کیلئے الہ آباد ہائیکورٹ کے، سابق چیف جسٹس سر اقبال احمد کو بلانا پڑا،جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر کتنی دولت اس ڈرامہ پر خرچ ہوئی ہوگی۔(7) البتہ پروڈا کی افادیت، نوکر شاہی اور شخصی حکمرانوں کے نقطہ نظر سے، ایک بار ثابت ہو چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کا دور آیا اور سیاست کے میدان کو سیاست دانوں سے خالی کرنے کی پھر ضرورت محسوس ہوئی تو اسی پروڈا کی طرز پر ’’پوڈو اور ایبڈو‘‘ بنائے گئے جن کے تحت سہروردی مرحوم قیوم خان مرحوم، دولتانہ صاب اور دوسرے چوٹی کے رہنمائوں کا کام تمام کر دیا گیا۔ اور اس ایبڈو کی برکت سے سیاست کا میدان فیلڈ مارشل مرحوم اور ان کے چمچوں کیلئے کھلا رہ گیا جو پورے دس سال ملک پر مسلط رہے۔ تاوقتیکہ ’’چینی چور ی‘‘ کی منزل نہیں آئی(8) جن معتوب یا ’’بدعنوان‘‘ قومی نمائندوں کو پروڈا کے تحت نااہل ثابت کر دیا گیا تھا وہ پروڈا منسوخ ہوتے ہی، اپنے عوام کی مدد سے دوبارہ وزارتوں پر بیٹھ گئےاور ان کے بیٹھنے سے نہ تو کوئی زلزلہ آیا نہ پاکستان کے سر پر خدانخواستہ کوئی بم پھٹا۔بہرحال یہ تھا سلوک جو پاکستان بنتے ہی سیاست دانوں سے ہونے لگا۔


(پیر علی راشدی کی کتاب، ’’رودادِ چمن‘‘ سے ایک باب جو 1982ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شایع ہوا تھا)۔

ب

جمعرات، 25 جولائی، 2024

زعفران-کھانوں کی جان

   زرا غور کیجئے قدرت کی ان نعمتوں پر جو ہم نے اس سے مانگی بھی نہیں اور اس نے ہم کو بن مانگے عطا کر دی ہیں ان نعمتوں میں ایک بیش بہا نعمت زعفران ہے  آئیے زعفرا  ن اور اس کی خوبیوں کو دیکھتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ زعفران کے بیج دانے دار یا کسی اور شکل میں نہیں ہوتے۔ پھول- اس وقت شروع ہوتا ہے جب درجہ حرارت 15-20 ڈگری سیلسیس سے نیچے گر جاتا ہے۔ ہر علاقے میں پھولوں کا موسم مختلف پایا گیا ہے۔ نوٹ کریں کہ بلب (زعفران کے بیجوں کو بلب کہا جاتا ہے) دسمبر کے اوائل میں اور کچھ علاقوں میں پھول آنے کے لیے جنوری کے آخر تک لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ زیادہ بیج پیدا کرنے کے لیے پودے مارچ تک لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب اگست سے دسمبر تک کسی بھی موسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب لگاتے وقت درج ذیل نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے: معتدل آب و ہوا زعفران کے لیے بہترین ہے۔ ہے اور سرد موسم کے آتے ہی پھول کھلنے لگتے ہیں۔ زعفران کا بلب سردیوں میں اگنے لگتا ہے، زعفران کا بلب زمین میں بہت تیزی سے اگتا ہے۔ یہ 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 اور کھال 32 ہو جاتی ہے۔ ہر 2 یا 3 سال بعد انہیں نکال کر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں، اگر صحیح طریقے سے محفوظ کیا جائے تو زعفران کا بیج 20 سال تک زندہ رہتا ہے۔ اور مزید ہزاروں بلب پیدا کرتا ہے۔


زعفران کی فصل۔زعفران کے بیج کا سائز پیاز کے برابر ہوتا ہے-زعفران بے شمار فوائد کی حامل ایسی پر اثر اور غیر معمولی بوٹی ہے جسے سینکڑوں سالوں سے مختلف طبی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بوٹی گرم اور خشک مزاج کی حامل ہوتی ہے اور اس کے پودے کی مشابہت پیاز سے ملتی جلتی ہے۔ زعفران کو کیسر اور سیفران بھی کہا جاتا ہے۔یہ بہت زیادہ طبی فوائد کی حامل ہے کیوں کہ زعفران میں وٹامن اے، سی، میگنیشیم، پوٹاشیم، سیلینیئم، زنک، اور فاسفورس پائے جاتے ہیں۔ اس بوٹی کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ تھوڑا سا تلخ ہوتا ہے، لیکن اس میں بہت زیادہ خوشبو ہوتی ہے۔اس کا استعمال نہ صرف کھانوں کو خوشبودار اور لذیذ بناتا ہے بلکہ اس کو کپڑے رنگنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو کروکس سیٹیوس نامی پھول سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے اس پھول سے دھاگوں کی شکل میں اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کو اکٹھا کرنا کافی دشوار ہوتا ہے۔اس کی کاشت کرنے والے بہت احتیاط کے ساتھ اسے پھولوں سے چنتے ہیں اور پھر انہیں گرم کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ زعفران کی کاشت ہر جگہ ممکن نہیں ہوتی جو اسے دنیا کا مہنگا ترین مسالا بناتی ہے

کم از کم 12 بلب خریدیں۔ عام طور پر ایک گچھے میں چھ چھ بلب ایک ساتھ اگائے جاتے ہیں۔ گچھوں میں اگنے سے زیادہ پھول پیدا ہوں گے۔ لیکن آپ انہیں الگ سے بھی بڑھا سکتے ہیں۔ ان کے درمیان فاصلہ کم از کم چھ سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔ زعفران کے بلب اگست سے جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ برف پڑنے والی مٹی پر برف پڑنے سے چھ سے آٹھ ہفتے پہلے بلب لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں زیادہ براہ راست سورج کی روشنی حاصل ہو۔ مٹی میں ایک چھوٹا سا سوراخ کریں اور تقریباً بارہ سے سولہ انچ۔ مٹی کو اچھی طرح نرم کریں۔ اور پھر سرحد پر زعفران کے بلب لگائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پانی زمین میں جمع نہ ہو۔ ریتلی مٹی کا استعمال بہتر ہے۔ نمی برقرار رکھنے کے لیے۔ آٹھ انچ یا 20 سینٹی میٹر کا گڑھا بنائیں اور اس میں زعفران کا بلب رکھیں۔

مختلف کھادوں اور کیمیکلز کا مرکب کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یا آپ بایوٹیک سے کھاد کا پیکٹ بھی منگو سکتے ہیں۔ بلب لگاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ بلب کی پتلی یا کھلی سائیڈ کو اوپر رکھیں۔ - زعفران کا بلب لگانے کے بعد زمین کو اچھی طرح پانی دیں۔ . موسم سرما کی بارشوں کی وجہ سے پانی کی مناسب فراہمی برقرار ہے۔ زعفران کا بلب بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور سردیوں میں پھول آنے کے بعد اس سے بے شمار چھوٹے بلب نکلنے لگتے ہیں۔ ان کو الگ کر کے مزید فصلیں اٹھائی جا سکتی ہیں یا منڈی میں فروخت کی جا سکتی ہیں۔ اب ہم آپ کو بتائیں کہ زعفران کی فصل سے فی کنال کتنی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے؟ زعفران کی فی کنال پیداوار کا حساب لگانا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک ایکڑ میں زعفران کے کتنے پودے لگائے جاتے ہیں۔

ایک سادہ حساب یہ ہے کہ ایک کنال رقبہ پر تقریباً 10,000 زعفران کے پودے لگائے  جا سکتے  ہیں۔ اگر ایک پودا اوسطاً تین پھول دیتا ہے تو 10,000 پودے 30,000 پھول پیدا کرتے ہیں۔ زعفران کے 150 پھولوں سے ایک گرام خالص زعفران حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح 30 ہزار پھولوں سے 200 گرام خالص زعفران حاصل ہوگا۔ واضح رہے کہ زعفران کا ایک پودا ایک موسم میں 3 سے 15 پھول دیتا ہے۔ لیکن ہم نے کم سے کم یعنی 3 پھولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پیداوار کا حساب لگایا ہے۔زعفران کے بیجوں کو بلب کہتے ہیں۔زعفران کے بیج یا بلب کی شکل لہسن کی طرح ہوتی ہے۔واضح رہے کہ ایک ہی زعفران کے بیج یعنی بلب کو بار بار لگایا جاتا ہے اور اسے 10 سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔- دلچسپ بات یہ ہے کہ جب زعفران کا بلب زمین میں لگایا جاتا ہے تو ایک سال کے اندر وہ زمین میں اگنے لگتا ہے۔ . اپنے جیسے بہت سے بلب تیار کرتا ہے۔ عام طور پر زعفران کا ایک بلب ایک سال میں اپنے جیسے کم از کم 5 بلب پیدا کرتا ہے۔ اس طرح خالص زعفران کی پیداوار کے ساتھ ساتھ کسان کو زعفران کے اضافی بیج بھی ملتے ہیں، اگر ایک پودا پانچ بلب پیدا کرے تو ایک نہر میں 10 ہزار پودے 50 ہزار نئے بلب پیدا کریں گے اور اس کے مطابق اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ۔

خیرپور کا فیض محل-قابل دید عمارت


 خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی  اور جس وقت پاکستان کا قیام عمل میں آیا خیر پور میں پچاس سے زیادہ صنعتی یونٹس کام کر رہے تھے جس میں صرف مقامی افراد کا روزگار با آسانی مہیا تھا تعلیمی نظام سو فیصد تھا چوری ڈکیتی کوئ جانتا ہی نہیں تھا  کسانو کے چہرے مسکراتے تھے  -غرض یہ کہ خیرپور ایک مکمل فلاحی ریاست تھی-پھر ایک حکم کے زریعہ شب خون مارنے والوں نے صنعتی یونٹس کو تالا لگوا دیا اور خیر پور سے اس کی فلاحی شناخت چھین لی۔ چلئے ماضی کی بات پھر کبھی ابھی ہم بات کرتے ہیں خیر پور کے فیض محل کی’فیض محل‘‘ 200سالہ قدیم عمارت کو ’’لکھی پیلس ‘‘ بھی کہتے ہیں -تالپور حکم راں فن تعمیر سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی عمل داری میں بہترین معمار اور فن نقاشی کے ماہرین رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دور حکومت میں قبو یعنی خوب صورت مقابر تعمیر کرائے، جن میں میران تالپورکے مقبرے شامل ہیں۔ ۔ تالپور حکم رانوں کا ایسا ہی ایک قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار’’ فیض محل‘‘ بھی ہے، جو خیرپور کی ایک شان دار تاریخی عمارت ہے۔ خیرپور شہرکے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔فیض محل پاکستان کے شاندار فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے۔، اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔اسے آرام گڑھ اور ’’لکھی محل ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ مغلیہ طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کےچوتھےحکم ران تھے، جنہوں نے اپنی خدادادصلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حسین محل تعمیر کروایا، جو آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک بادشاہ، سیاست دان، جنگجو، سپاہی، شہسوار اور باغبان، میر فیض محمد خان تالپور وہ باغ و بہار شخصیت تھے، جن کو فنون لطیفہ سے بے حد لگائو تھا، اسی ذوق و شوق کا لازوال عکس فیض محل میں دکھائی دیتا ہے، جو اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے۔ان کے اس تعمیری شاہ کار کو ان کے نام کی مناسبت سے فیض محل کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ اس دور میں اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی اس لیے اسے ’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ 1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ کا خطہ فتح کیا، تو سندھ کے آخر ی حکم راں، مبر جارج علی مراد خان تالپورکے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طورپر سندھ انگریزوں کی عمل داری میں آگیا


تالپور حکم رانوں کا تعمیر کرایا ہوا، فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سےتعمیر کی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے زرد پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ فیض محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں، دروازوں، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیال، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔ فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی قائم ہے، ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈریسنگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے میں اپنی عزاداری اور محرموں کے  سلسلے میں شہرہ آفاق ہیں


اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بنادیتے ہیں۔ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نےفیض محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی شامل ہیں۔اگرچہ حکومت اور محکمہ قدیم آثار و محکمہ ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ آ

اس محل میں ایک عجیب سی کشش ہے، جو خیرپورکی سیر کے لیے آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران اس خوب صورت محل کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔مغلیہ فن تعمیر کا نمونہ ، یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے

 

 

 

 

منگل، 23 جولائی، 2024

گوند کتیرا کیوں فائدہ مند ہے

 


گوند کتیرا کو کتیرا سفید بھی کہا جاتا ہے، جب کہ کچھ علاقوں میں اسے براؤن یا بھوری گوند کہتے ہیں۔ گوند کتیرا ایک کانٹے دار درخت سے حاصل کیا جانے والا گوند ہے جو عام طور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، گوند کتیرا کے درخت کی اونچائی پندرہ میٹر تک ہو سکتی ہے۔ گوند کتیرا سب سے زیادہ ایران میں پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ یہ سوڈان، پاکستان، بھارت، ویتنام، اور انڈونیشیا میں بھی پایا جاتا ہے۔کانٹے دار درخت سے حاصل ہونے والے اس گوند کی کوئی خوشبو نہیں ہوتی جب کہ یہ بے ذائقہ ہوتا ہے۔ گوند کتیرا کو پودے کی اندرونی رطوبت کو خشک کر کے حاصل کیا جاتا ہے، اور اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ گوند کتیرا کا مزاج اول درجے میں سرد ہوتا ہے، اس لیے اسے زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔گوند کتیرا کو سینکڑوں سالوں سے صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، کیوں کہ گوند کتیرا کے غذائی اجزاء بہت مفید ہیں۔ ان اجزاء میں کیلشیم، پروٹین، میگنیشیم، اور کچھ خاص قسم کے الکلائڈز پائے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ گوند کتیرا میں اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی بیکٹیریل، اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

گوند کتیرا میں پائے جانے والے مفید غذائی اجزاء میتھی دانہ کی طرح قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ قوتِ مدافعت مضبوط ہونے سے جسم میں اضافی توانائی جمع ہوتی ہے اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے انسان کے چہرے پر جھریاں آنا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوند کتیرا کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ گوند کتیرا جِلد میں موجود خلیوں کو صحت مند رکھتا ہے اور ان جراثیم کو ختم کرتا ہے جو جِلد کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی بنیاد پر چہرے پر ظاہر ہونے والے دانوں اور داغ دھبوں سے بھی بچاتا ہے۔مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ-جِلد کے لیے بہترین-ناک سے خون بہنا-کمزوری کا خاتمہ-ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج-شوگر کے لیے مفید-دل کی صحت میں بہتری-قبض کا خاتمہ-وزن میں کمی کے لیے بھی مفید-گوند کتیرا کے فوائد-گرمیوں کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔جِلد کے لیے بہترین-بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے انسان کے چہرے پر جھریاں آنا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوند کتیرا کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ گوند کتیرا جِلد میں موجود خلیوں کو صحت مند رکھتا ہے اور ان جراثیم کو ختم کرتا ہے جو جِلد کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی بنیاد پر چہرے پر ظاہر ہونے والے دانوں اور داغ دھبوں سے بھی بچاتا ہے۔مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ-اگر آپ کے ناک سے اکثر خون بہتا ہے یا نکسیر پھوٹتی ہے تو گوند کتیرے کا پانی نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور گرم مزاج والی غذائیں وافر مقدار میں استعمال کرنے یا شدید گرمی کے موسم میں ناک سے خون بہنا شروع ہوتا ہے۔ گوند کتیرا کے پانی استعمال کرنے سے جسم کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے، جس کی وجہ سے نکسیر پھوٹنا بند ہو جاتی ہے۔گوند کتیرا بھی گنے کے رس کی طرح کمزروی کو دور کرنے کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے جو کافی عرصے سے طویل بیماری کا شکار رہے ہوں یا اینٹی بائیو ٹکس استعمال کر رہے ہوں۔ گوند کتیرا میں دوا جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بیماری کے بعد ہونے والی کمزروی کو ختم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ جو لوگ سگریٹ اور شراب نوشی سے چھٹکارا حاصل کرنے چاہتے ہوں، ان کے لیے بھی گوند کتیرا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔شدید گرمی کے موسم میں بہت سے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ گوند کتیرا کو ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج سمجھا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے آپ سخت گرمی اور لو سے محفوظ رہتے ہیں۔


طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کو گرمی کے موسم میں باقاعدگی کے ساتھ گوند کتیرا استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ  گوند کتیرا خون میں شوگر کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتا اور شوگر لیول کو متوازن رکھتا ہے۔دل کی صحت میں بہتر-جسم میں میٹابولزم سست ہونے کی وجہ سے فالتو چربی سے چھٹکارا پانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گوند کتیرا کے استعمال سے میٹابولز تیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے فالتو چربی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چربی ختم ہونے کی وجہ سے وزن میں بھی کمی آنا شروع ہوتی ہے۔گوند کتیرا کو بھی سنا مکی کی طرح دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو کولیسٹرول کی بیماری میں مبتلا ہوں، ان میں دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کولیسٹرول کا لیول بڑھنے کی وجہ سے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ گوند کا بااعدگی کے ساتھ استعمال کولیسٹرول کی سطح کو متوازن رکھتا ہے، جس کی وجہ سے ان تمام جان لیوا بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں -قبض کا خاتمہ-اگر آپ کو قبض کی علامات کا سامنا ہے تو گوندے کتیرے کو استعمال کرنا شروع کر دیں، کیوں کہ یہ قبض کا قدرتی علاج ہے، اس کے استعمال سے اس مرض کی علامات میں کمی آئے گی اور بواسیر کی علامات کی صورت میں بھی افاقہ ہو گا۔ یہ علامات ختم ہونے سے آپ کا معدہ اچھے طریقے سے افعال سر انجام دے گا اور ہاضمہ کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔وزن میں کمی کے لیے بھی مفیدخواتین کے لیے بھی مفیدایسی خواتین جن کو چھاتی کے مسائل-ہیٹ اسٹروک کا بہترین -شوگر کے لیے مفید-کمزوری کا خاتمہ-پیشاب کی بے قاعدگی میں انتہائ فائدہ مند ہوتا ہے

آ ٹزم کو سمجھنے کی ضرورت ہے

۔عموماً آٹِزم سے متاثرہ بچے کئی دوسرے طبی مسائل کاشکار بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ مسائل آٹِزم کی نوعیت کے حساب سے ہرفرد میں مختلف ہوتے ہیں۔ایسے حالات میں آٹِزم کے اثرات زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان بیماریوں اور آٹِزم کے ساتھ ان کے تعلق کو سمجھنا نہایت اہم ہےبائی پولر ڈِس آرڈر (Bipolar Disorder)اس مرض کا شکار افرادڈپریشن اور جنون کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ آٹِزم کے شکار افراد میں یہ مرض زیادہ عام ہوتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آٹِزم کو بائی پولر ڈس آرڈر سمجھ لیا جاتاہے یا بالکل اس کا الٹ ہوجاتاہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ ان دونوں کی علامات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔

ڈپریشن-آٹِزم سے متاثرہ افراد میں عمر کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کے امکانات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔آٹِزم سے متاثرہ زیادہ کام کرنے والے افرد میں بھی ڈپریشن زیادہ ہو سکتا ہے۔ ڈپریشن کی ان علامات کا خیال رکھنا چاہیے:آٹِزم سے متاثرہ فرد کی ان چیزوں میں دل چسپی ختم ہوجانا جو اسے کسی وقت بہت دل چسسپ لگتی تھیں۔  ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھ پانا -مسلسل اداس رہنا -خود کو بےکار سمجھنا -ناامید رہنا چڑچڑاپن -شدت پسند ہوجانا اور اکثر موت یا خودکشی کے بارے میں سوچتے رہنا آبسیسوکمپلسو ڈس آرڈر (OCD)محققین کے مطابق(OCD)  آٹِزم سے متاثرہ بچوں اور بڑوں میں زیادہ عام ہے لیکن اس کو آٹِزم والی چیزوں کو دہرانے والی عادات سے نہیں ملانا چاہیے بلکہ اس کی باقاعدہ تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔



 (Anxiety)آٹِزم کا شکار افراد میں سے 42 فیصد الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ مسلسل الجھن دل کی دھڑکن میں اضافے، پٹھوں میں کچھاؤ، معدے میں تکلیف اور سر درد کی وجہ بن سکتی ہے۔ معاشرتی حالات بھی آٹِزم سے متاثرہ افراد میں الجھن کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہی کام نئی جگہوں، ہجوموں اور نئے لوگوں میں رہنے سے بھی ہو سکتا ہے۔مرگی-اس کا بھی آٹِزم سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ لوگوں کو خصوصاً بچوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ انھیں ہو کیا رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کو بھی دورے پڑنے کے دوران سمجھ نہ آ سکے۔ دورے پڑنے کی نشانیوں کو ذہن نشین کر لینا چاہیے اور جلد از جلد مدد حاصل کرنی چاہیے۔ یہ نشانیاں درج ذیل ہیں:لمبے دورانیے کے لیے بلا وجہ گھورتے رہنا -شدید سر درد بے حد گھبراہٹ -بے ارادہ حرکات -معدے اور آنتوں میں خرابی (یہ خرابی آٹِزم سے متاثرہ بچوں میں  کئ  گنا زیادہ ہوتی ہے) معدے اور آنتوں میں خرابی-معدے اور آنتوں کی خرابی میں درج ذیل شامل ہیں:


آنتوں کی سوزش، پیٹ میں درد، دائمی قبض، معدے کے تیزاب کا خوراک کی نالی اور منہ میں آنا۔کھانے کے مسائل-یہ بھی آٹِزم سے متاثرہ بچوں میں بہت عام ہے۔ بچے کھانے کے معاملے میں بہت ہی نقطہ چیں ہو جاتے ہیں۔ کچھ چیزوں کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں اور بہت ہی محدود چیزیں کھاتے ہیں۔ کچھ تو مستقل طور پر ضرورت سے زیادہ کھانے لگتے ہیں۔ کچھ بچے نہ کھانے والی چیزیں بھی کھانے لگتے ہیں۔یہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن کا تعلق آٹِزم سے ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ خرابیاں ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹِزم سے متعلقہ کسی بیماری کا شکار ہے تو یہ جاننے کے لیے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں کہ کیا یہ واقعی آٹِزم کی وجہ سے ڈاون‮ ‬سنڈروم‮ ‬ایک‮ ‬نسلی‮ ‬کفیت‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬تب‮ ‬واقع‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے‮ ‬جب‮ ‬بچہ‮ ‬46‮ ‬کی‮ ‬جگہ‮ ‬47‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے-‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دراصل‮ ‬کروموسوم‮ ‬21‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دماغ‮ ‬کی‮ ‬نشونما‮ ‬میں‮ ‬تاخیر‮ ‬اور‮ ‬جسمانی‮ ‬معذوری‮ ‬کا‮ ‬سبب‮ ‬بنتا‮ ‬ہے۔‮ ‬ڈاون‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہونے‮ ‬والے‮ ‬بچے‮ ‬تمام‮ ‬سماجی‮ ‬و‮ ‬اقتصادی‮ ‬حثیت‮ ‬سے‮ ‬بالاتر‮ ‬ہوتے‮ ‬ہیں۔


آٹزم کی حتمی وجوہات کا تعین ابھی غیر واضح ہے۔ یہ عارضہ آپ کے دماغ کے ان حصوں میں مسائل سے پیدا ہوسکتا ہے جو حسیات سے آنےوالی معلومات اور زبان کی ترجمانی کرتے ہیں۔لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں آٹزم کا رجحان چار گنا زیادہ پایا جاتاہے۔ یہ کسی بھی نسل یا سماجی پس منظر کے لوگوں میں ہو سکتا ہے۔ خاندانی آمدنی، طرز زندگی، یا تعلیمی درجہ بچے کو آٹزم کےلا حق خطرے کو متاثر نہیں کرتے،تاہم چند خطرے والے عوامل درجہ ذیل ہیں:

جینز کے کچھ امتزاج بچوں میں آٹزم کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں کیونکہ یہ نسل در نسل بھی منتقل ہوتا ہے-بڑی عمر کےوالدین کے بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ایسی حاملہ خواتین جو بعض ادویات یا کیمیکلز جیسے الکحل یا اینٹی سیزر ادویات کا استعمال کرتی ہیں، ان کے بچے کےآٹسٹک ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ دیگر قابلِ فکر عوامل میں زچگی کے میٹابولک حالات جیسے ذیابیطس اور موٹاپا شامل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق آٹزم کو غیر علاج شدہ phenylketonuria جسے PKU بھی کہا جاتا ہے، ایک خاص انزائم کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہونے والا میٹابولک عارضہ اور روبیلا (جرمن خسرہ) سے بھی جوڑا جاتاہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ویکسین لگوانا آٹزم کا سبب بنتی ہےعام طور پر آٹزم کی علامات 3 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتی ہیں۔جبکہ کچھ بچوں میں اس کی علامات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہوجاتی ہیں۔

آٹزم کی عمومی علامات درجہ ذیل ہیں:

• نظریں نہ ملا سکنا۔• محدودمشاغل یا بعض موضوعات میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی۔ ایک ہی عمل بار بار کرنا، جیسے الفاظ یا جملے دہراتے رہنا، آگے پیچھے ہلنامخصوص آوازوں، چھونے، بو، یا منا ظر سے خاص حساسیت جو دوسرے لوگوں کو عام لگتی ہیں۔ دوسروں کو دیکھنے اور سننے سے لا تعلقی۔ جب کوئی دوسرا شخص کسی چیز کی طرف اشارہ کرے تو اس چیز سے نظریں چرانا ۔ ملنے یا گلے لگانےسے گریز کرنا۔• بولنے، اشاروں، چہرے کے تاثرات، یا آواز کے لہجے کو سمجھنے یا استعمال کرنے میں دشواری• گانا گانے کے انداز میں یا سپاٹ اور مشینی آواز میں بات کرنا۔• روٹین میں تبدیلیوں کو اپنانے میں دشواریآٹزم کے شکار کچھ بچوں کو دورے بھی ہو سکتے ہیں ۔

اتوار، 21 جولائی، 2024

جون بن حوی' بہشت جاودانی کے خریدار


 جون بن حوی' بہشت جاودانی کے خریدارکیسے بنے -اللہ نے ان کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ  وہ بالآخر امام عالی مقام تک پہنچ ہی گئے جون بن حوی  کا آبائ وطن  افریقہ  تھا لیکن  ان کی سکونت  علاقے نوبہ  میں تھی جہاں سے وہ  اپنے  وقت کے رواج کے مطابق بحیثیت غلام  فروخت کر دئے گئے اور اب  وہ فضل بن عباس بن عبد المطلب کے غلامی میں  تھے جنہیں مولا ئے کائنات  حضرت علیؑ نے  150 دینا میں خرید کر حضرت ابوذر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کو بخش دیا پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوزر   غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کیا تو جون بھی ان کے ہمراہ چلے گئے اور حضرت ابوزر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی وفات تک ان کے ساتھ رہے  حضرت ابوذر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کے سن وفات 32 ہجری کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور اہلبیتؑ کے ساتھ رہنے لگے۔

 وہ اسلحہ بنانے اور اسے مرمت کرنے کی مہارت رکھتے تھے چونکہ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ وہ شب عاشور حضرت امام حسینؑ کے خیمہ میں آپؑ کی تلوار جنگ کیلئے تیار کر رہے تھے۔ امام حسین  علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کا وہ مبارک کلام نقل کیا جائے کہ جس میں آپ اپنے اہلبیت اور اصحاب کی تعریف میں فرماتے ہیں: میں نے کسی کے اصحاب کو اپنے اصحاب سے بہتر اور باوفا نہیں پایا    حضرت ابوذر غفاری کی رحلت کے بعد مدینہ واپس چلے آئے اور حضرت علی علیہ السلام  کی خدمت میں رہنے لگے۔مولا علی علیہ السلام کی    شہادت کے بعد حضرت امام حسن مجتبٰی    علیہ السلام کی خدمت میں رہے۔ ان کی شہادت کے بعد  جون بن حوی حضرت امام حسین    کے پاس آئے، پھر یہ آپ کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک آپ کے ہمراہ رہے

۔ روز عاشورجون بن حوی'حضرت   امام حسین        علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام نے فرمایا میں تمہیں اس سرزمین سے جانے کی اجازت دیتا ہوں، تم اپنی جان کی حفاظت کرو، کیونکہ تم ہمارے ساتھ آئے تھے،   اب اپنی جان خطرے میں نہ ڈالو۔ حضرت جون نے عرض کی: اے فرزند پیغمبر میں خوشی و مسرت کے زمانے میں تو آپ کے ساتھ رہوں اور جب آپ پر مشکل وقت آن پہنچا ہے تو آپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جائوں!خدا کی قسم اگرچہ میرا جسم بدبودار ہے، میرا حسب نسب پست اور میرا رنگ سیاہ ہے، لیکن آپ مجھ پر رحم فرمائیں اور مجھے جن کی جادووانی زندگی سے بہرہ مند فرمائیں، تاکہ میرا جسم خوشبوادر ہو جائے، میرا حسب و نسب شریف اور میرا چہرہ نورانی ہو جائے، خدا کی قسم میں آپ سے اس وقت تک دور نہیں ہوں گا، جب تک میرا سیاہ خون آپ کے پاک خون کے ساتھ غلطان نہ ہوجائے۔ اس کے بعد حضرت جون نے جنگ شروع کی۔ جب میدان جنگ میں اترے تو ایسے آئے جیسے ایک غضبناک شیر اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے۔اور لاتعداد یذیدی سپاہ کو جہنم واصل کیا 

آخر کار دشمن کی فوجوں نے آپ کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ آپ تیر و تبر کے بے شمار  زخم کھا کر زمین پر گرے۔ امام ، جون کے پاس پہنچے اور جون کا سر اپنے دامن پر رکھا اور بہت گریہ فرمایا اور اپنا مبارک ہاتھ، جون کے چہرے اور جسم پر پھیرا اور دعا فرمائی، اے پروردگار! جون کے چہرے کو سفیدی عطا فرما۔ اس کی بو کو پسندیدہ بنا اور اسے خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ محشور فرما۔ واقعہ عاشورا کے دس روز بعد بنو اسد کی ایک جماعت نے حضرت جون  کی لاش مطہر کو تلاش کیا۔ اتنے عرصہ کے باوجود ان کا جسم مبارک معطر اور نورانی تھا   س کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا۔،    

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر