میرے لئے یہ بات واقعئ باعث ِحیرت تھی جب میں نے پڑھا کہ کشمیر میں شیعہ مسلک شروع سے ایک علیحدہ مسلک نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اہلسنت اور شیعہ ملکر امام حسین کا غم مناتے تھے-لیکن اس دور سے پہلے یہاں اسلام کا وجود نہیں تھا اور پھر یوں ہوا کہ اس وادئ جنت نظیر میں صوفیائے کرام 'اولیا ءعظام کا ورود شروع ہوا -جن اولیائے دین کے قدم یہاں جم گئے ان کے یہاں اگلی پیڑھی پر مزید اولیا ء نے جنم لیا اور انہوں نے ہدایت اور رہنمائی کی خاطر عوام الناس کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ۔لیکن جتنے بھی خدا دوست سالک، رشی وصوفی وارد کشمیر ہوئے ان میں سے کسی نے بھی لوگوں پر اتنااثر نہیں ڈالا جتنا حضرت شاہ ہمدانؒ کی شخصیت نے ڈالاہے۔حضرت امیر کبیرؒ، سید السادات، جامع الکمالات، ولایت پناہ، معمار تقدیر، علی ثانی، شاہ ہمدانؒ، خاندان نبوت کے علم وعرفان کے پیکر ۱۲ رجب، ۷۱۴ ہجری کو ایران کے مشہور شہر ہمدان میں جلوہ افروز ہوئے۔
آپ بہ یک وقت ایک عالم، برجستہ مبلغ، پرہیز گار صوفی، متقی رہبر اور اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے۔ آپ روحانی پیشوا بھی تھے۔ آپ کے والد بزرگوار سید شہاب الدین ہمدان کے حاکم اعلیٰ تھے اور محاصرین نے آپکے علم وفضل اور زہد و تقوایٰ کی بہت تعریف کی ہے۔ حضرت سید نے پوری زندگی اسلام کی بقا اور اسکی نشر واشاعت کے لئے وقف رکھی۔ ان کی مساعی جمیل اور فیوض کا نتیجہ ہے کہ کشمیر میں اسلام کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے کے بجائے جگمگاتے ہوئے سورج کی طرح منور اور روشن ہوا۔ شاہ ہمدانؒ کی کشمیر آنے سے پہلے ہی ترکستان کے سید زادے شیخ شہاب الدین سہروردی کے شاگر حضرت بلال ؒ المعروف بلبل شاہؒ کے ہاتھوں رینچن شاہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کشمیر میں نہ صرف مسلم حکومت قائم ہوی بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور لسانی نظام میں بھی اسلامی عناصر کا غلبہ بڑھتا چلتا گیا۔ جب آپ کے مبارک قدم اس جنت نظیروادی پر پڑے اس کے ساتھ ہی امیروں، وزیروں اور دیگر اشخاص بھی شیعہ اسلام کے دائرے میں آگئے۔ اور اس ساتھ کشمیر میں فارسی نظم ونثر اور دیگر علوم وفنون کے ساتھ مساجد و خانقا ہیں بھی تعمیر ہوئی ان میں ایک خانقاہ سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر ہوئی جو بلبل لنگر کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ اس طرح کشمیر میں تبلیغ ' اسلام کے ابتدائ دور میں میر سید علی ہمدانیؒ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔
آپ نے کشمیر میں شیعیت اسلامی تعلیمات کا دائرہ بڑھایا جن سے متاثر ہو کر ہزاروں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور سنی مسلمان بھی اس سلسلے کی طرف راغب ہوتے چلے گئے۔ کشمیر کی شیعی فکر پر اثنا عشری مسلک کی تعلیمات کی گہری چھاپ ہے۔اس طرح کشمیر میں شیعہ اسلام پھیلانے میں میر سید علی ہمدانیؒ کا کردار رہا ہے،اور یہ تعلیمات تبت، لداخ اور بلتستان میں بھی پھیل گئیں-آج کے کشمیر میں انہی کی بدولت شیعہ پھل پھول رہے ہیں -تفصیلات کے مطابق اہل تشیع و اہل سنت ماہ محرم کے ابتدائی 10 دن کے دوران مختلف مقامات سے جلوس نکالتے ہیں جن کا آخری پڑاؤ سری نگر کے علاقے حسن آباد میں ہوتا ہے۔ لیکن ان علاقوں کے رہائشی افراد کا سڑکوں کے ذریعے رابطہ نہیں اس لئے اہل تشیع حسن آباد پہنچنے کے لیے متبادل راستے یعنی کشتیوں کے ذریعے آبی راستے استعمال کرتے ہیں۔
یہ جلوس ڈل جھیل کے اندرونی علاقوں کے کنڈی محلہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر جیسے ہی جلوس ان علاقوں سے گزرتا ہے دوسرے ڈل علاقوں کے لوگ بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جلوس ٹنڈ محلہ، کنڈ محلہ، صوفی محلہ، نالہ محلہ اور گچی محلہ جیسے کئی علاقوں سے گزرتا ہے۔ لوگ ان کشتیوں میں جمع ہوتے ہیں اور پھر حسن آباد کی طرف جاتے ہیں جہاں وہ 10 محرم کو ماتم کرتے ہیں۔ کشمیر کے شیعہ محرم کی پہلی سے دسویں تاریخ تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ دس دنوں کے بعد ہر شب جمعہ کو عزاداری کی جاتی ہے شیعہ کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ تلاوت، مرثیہ، نوحہ، جلوس، تعزیہ داری، علم شریف، ذوالجناح کے جلوس نکالتے ہیں۔ زیارات و سلام پڑھی جاتی ہے۔ واقعہ کربلا کے حوالے سے تقاریر کیے جاتے ہیں۔ کشمیرکے قریہ قریہ، نگر نگر سے 07 محرم الحرام کے جلوس برآمد ہو تے ہیں سرینگر کے تاریخی کاٹھی دروازہ سے مرکزی جلوس عزاء برآمد ہوتا ہےجس میں ہزاروں شیعہ و سنی عزادارن مظلوم کربلا کو پرسہ دیتے ہوئے سینہ زنی کرتے ہیں -
مقبوضہ کشمیر سے بھی اسی طرح وادی کے گوشہ گوشہ سے محرم الحرام کے جلوس برآمد ہوتے ہیں اور عزاداری عام طور پر امام بارگاہوں یا ماتم سرائیوں میں کی جاتی ہے۔ بعض اوقات عزاداری کے جلوس سڑکوں اور گلی کوچوں کے علاوہ لاتعدادکشتیوں کے زریعہ نکلتے ہیں ان کشتیوں پر یا حسین اور لبیک یا حسین کے بڑے بڑے بینر لگے ہوتے ہیں - اور سیاہ لباس میں ملبوس عزادار سیاہ پرچم کے علاوہ دیگر علم مبارک اپنے ہاتھوں میں بصد احترام تھامے ہوئے ہوتے ہیں اور کشتیوں پر ماتم اور نوحہ خوانی ہو رہی ہو تی ہے-کشمیر کے تمام اضلاع جیسے اننت ناگ بارہ مولا اور سرینگر میں عزاداری کے بڑے بڑے جلوس صبح 'صبح برآمد ہو تے ہیں سرینگر کے کوہ ماراں کے دامن میں واقع تاریخی کاٹھی دروازہ سے عزاداری کا مرکزی اور سب سے بڑا جلوس برآمد ہوتا ہے جس میں ہزار وں سوگوار شرکت کرتے ہیں جلوس حسن آباد کے تاریخی امام باڑہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے حسن آباد تک جانے کے لئے تمام کشتیوں کے عزادار جھیل ڈل کے کنارے اتر کر پیدل حسن آباد جاتے ہیں اور وہاں مجلس عزاء میں شامل ہوتے ہیں 1989 سے سرینگر کے ان دو بڑے مرکزی جلوسوں پر پابندی عائد تھی لیکن سرکاری پابندیوں کے باوجود عزادارن حسین پابندیوں کو خاطر میں نا لاتے ہوئے ان جلوسوں کو برآمد کرنے میں اپنے جان کی بازی لگا رہے تھے اور ہرسال بے شمار عزادار سرکاری فورسز کی بربریت سے زخمی ہوتے رہے اور سینکڑوں کی تعداد میں عزادارن کو گرفتار بھی کیا جاتا رہا ہے