سندھ کی پاکیزہ دھرتی پر جنم لینے والے علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر گزرے ہیں - اس زمانے کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم مکتب آخوند عبدالعزیز سے حاصل کی -اس کے بعد علامہ آئی آئی قاضی نے عربی، اسلامی تعلیمات، فارسی زبان اور شاعری اور صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی بطور موذن اذان دینے لگےاس مرحلے کے بعد اسکول کی تعلیم حاصل کی- 1907ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے جہاں سے آپ نے اقتصادیات اور نفسیات کی تعلیم حاصل کی۔ 1910ء میں جرمنی گئے۔ علامہ 1951ء میں سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ آپ نے 1959ء میں استعفا دیا اور سندھی ادبی بورڈ کے لیے کتابیں لکھنے لگے۔وہ بین الاقوامی طور پر مانے ہوئے شخص تھے، ان سے متاثر ہونے والوں میں علامہ اقبال، ذاکر حسین (ہندوستان کے سابق صدر)، مولانا ابو الکلام آزاد اور جارج برنارڈ شا قابل ذکر ہیں آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔
گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا- ۔ 1902 میں 16 سال کی عمر میں ہم علامہ قاضی آئی آئی کو صوفیوں کی صحبت میں دیکھتے ہیں۔ 1902 میں علامہ آئی آئی قاضی صوفی فقیر احمد تھیبو کے حلقے میں شامل ہوئے۔ صوفی ازم کی تعلیمات کا اثر علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت پر بہت گہرا ہوا اور آپ اسلام کے مبلغ بن گئے۔18 سال کی عمر میں 1904 میں مقامی سندھی فائنل امتحان بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیا، فارسی لازمی مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1905 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1906
میں 20 سال کی عمر میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر ایک سال وہاں قیام کرنے کے بعد واپس آگئے۔ 1907 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ لندن میں قاضی صاحب نے پہلے ایک سال پرائیویٹ اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اگلے سال 1909 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخل ہوگئے۔علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر تھے۔ آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا، ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں قاضی عبداﷲ انصاری عرب سے ہجرت کرکے پاٹ ضلع دادو سندھ اور ان کے بھائی عبدالسمیع روہڑی میں قیام پذیر ہوئے۔علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔
1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔قاضی صاحب اور ایلسا قاضی کی پہلی ملاقات سے متعلق ایک واقعہ بعض کتابوں میں آیا ہے کہ ایک بار علامہ قاضی جب ریلوے اسٹیشن آئے تو وہاں پر ٹرین چلنے کے قریب تھی، ہڑبونگ میں وہ چلتی ہوئی ٹرین پر سوار ہوگئے مگر جب دیکھا تو وہاں سوائے ایک لڑکی کے اور کوئی نہ تھا۔ وہ لڑکی ایلسا قاضی تھی، علّامہ قاضی کو بے حد شرم محسوس ہوئی کہ ایک اکیلی لڑکی پورے ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ وہ وہاں نشست پر بیٹھنے کے بجائے دروازے کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایلسا قاضی کو حیرت ہوئی کہ یہ نوجوان بیٹھ نہیں رہا جب کہ وہ اسے بیٹھنے کو بھی کہہ چکی ہیں، اور یوں وہ ان کی شرافت سے متاثر ہوئیں اور بعد میں ان کی علمی قابلیت اور کام بھی ان کے سامنے آیا۔ یوں ان کے مابین الفت کا جو تعلق استوار ہوا اس میں علمی ذوق و شوق کی وجہ سے احترام اور قدر افزائی بھی شامل ہوگئحیدر آباد: سندھ کے لوگوں میں تعلیمی وسیاسی شعور بیدار کرنے میں سندھی ادیبوں کا اہم کردار ہے۔ ان شخصیات میں ایک ایسا نام بھی شامل ہے جو سندھی قوم کا محسن ہے، جس کی سندھ کے لیے تعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ امداد علی امام علی قاضی اور ان کا ادبی نام علامہ آئی آئی قاضی ہے
ایلسا قاضی سندھی زبان نہیں جانتی تھیں لیکن انھوں نے ایک معاون کے ذریعے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کو سمجھ ترجمہ کیا۔ انھوں نے شاہ جو رسالو کو انگریزی زبان میں منتقل کیا۔ ایلسا، جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین لندن ہجرت کر گئے جہاں ایلسا نے اپنی تعلیم حاصل کی اور اسی زمانے میں ان کی ملاقات علّامہ قاضی سے ہوئی جو پاکستان کے ایک مشہور نامور ادیب، مفکر اور محقق تھے، آئی آئی قاضی نے ان سے جرمنی میں 1910 میں شادی کی۔ شادی کے بعد دونوں زیادہ عرصہ لندن میں رہے۔ اور 1951ء میں علامہ قاضی نے سندھ یونیورسٹی کی صدارت قبول کی تو ان کے ساتھ سندھ آگئیں۔ یہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مگن رہیں۔ 28 مئی 1967 کو ایلسا قاضی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔