حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ، تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو، اس کی طرف راہ چلنے کی۔(جامع ترمذی)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے، تو اللہ نے ان کو نوازا ہے۔ (ابن ماجہ، :۲۸۹۳)
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد اعلیٰ ایک پرائیوٹ گروپ کے حج آرگنائزر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے میں سعودی کنٹرولر ہیں، سہولت کار نہیں۔ ’وہ کنٹرول کرتے ہیں مگر سہولت نہیں دیتے۔‘محمد اعلیٰ کے مطابق اس سال حج کے دوران شدید گرمی میں ایک عام حاجی کو طوافِ زیارت کے علاوہ روزانہ کم از کم 15 کلومیٹرچلنا پڑ سکتا تھا جس میں گرمی اور تھکن کے ساتھ اسے ہیٹ سٹروک کا سامنا بھی ہو سکتا تھا اور جگہ جگہ پانی بھی میسر نہیں ہوتا -وہ بتاتے ہیں کہ وہ 18 مرتبہ حج کا قافلہ لا چکے ہیں اور ماضی میں مکاتب تک جانے کے جو یوٹرن تھے وہ کھلے تھے مگر اب وہ سارے راستے اور یوٹرن بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام حاجی کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا خیمہ زون ون میں اے کیٹگری میں ہے تب بھی اسے اپنے خیمے تک جانے کے لیے گرمی میں کم از کم ڈھائی کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔محمد اعلیٰ کہتے ہیں کہ اگر اس راستے پر کسی کے ساتھ ایمرجنسی ہو جائے تو 30 منٹ تک کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا اور کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ زندگی بچائی جا سکے اور نہ ہی ایسے راستوں پر جگہ جگہ پانی کے پوائنٹس ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ زبان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم اس کے حل کے لیے پاکستانی کیمپوں میں حکومت کے سکاؤٹس موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی حاجی غلط راستے پر چلا جائے تو اس میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی میں جن میں کئی مصری شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں اور بظاہریہ وہی افراد ہیں جو عمرے کے طویل دورانیے کے ویزوں پر آئے اورانھوں نے رک کر غیر قانونی حج ادا کیا۔محمد اعلیٰ کا کہنا ہے ’چونکہ ان مصری شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے حج ادا کیا تو ان کے پاس خیموں وغیرہ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، لہذا انھیں گرمی میں کھلے آسمان تلے رہنا تھا
حج کے سلسلے میں سعودی عرب میں موجود پاکستانی خاتون حنا (فرضی نام سات کلومیٹر طویل راستے پر پانی تھا نہ کوئی سایہ‘) بھی ایسے ہی مسائل کی نشاندہی کرتی دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں منی سے عرفات کے میدان میں لے جایا گیا، اس روز ہمیں حاجیوں کی اموات کی خبریں ملنا شروع ہوئیں کہ گرمی سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں بنے کیمپوں میں بیٹھنے کی جگہ بہت محدود تھی۔ شدید گرمی میں لوگوں کو باہر بیٹھنا پڑا یا اندر جگہ لینے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا پڑا‘۔حنا نے بتایا کہ ’کیمپوں میں لوگوں کو ایسے ہی رکھا گیا تھا جیسے کسی فارم میں مرغیوں یا جانورو ں کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا ہے، بستروں کے درمیان گزرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور سینکڑوں افراد کے لیے گنتی کے چند واش روم تھے‘۔خیموں کی صورتحال کے متعلق لوگوں نے بتایا کہ خیموں میں اے سی تو تھے لیکن خواتین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے گھٹن تھی جس پر وہاں لڑائی دن بھر دیکھنے کو ملتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں مدد کرنے والا تو دور کوئی شکایت سننے والا بھی نہیں تھا۔ ’نہ آپ کسی کو شکایت کر سکتے ہیں نہ ہی مدد لے سکتے ہیں ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کا عادی ہے‘۔وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاونین یہاں بے بس دکھائی دیے اور کہتے رہے کہ ’مکتب تو سعودیہ کے کنٹرول میں ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ان سے خود بات کر لیں‘۔ اور سعودی کیمپ منیجرز کہتے تھے کہ ’بس یہی ہے۔ جس کے اندر گزارہ کریں ہمارے پاس یہی سہولیات ہیں‘۔حنا کا کہنا تھا کہ مزدلفہ میں رات گزار کر اگلی صبح انھیں ٹرین کے ذریعے جمرات کی جانب لے جایا گیا لیکن وہاں سے واپسی کا سفر شدید تکلیف دہ بن گیا۔ ’ہمیں سات کلومیٹر طویل راستے پر بھیجا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ اور بہت سے حاجیوں کی طبیعت اس مقام پر خراب ہوئی‘حنا بتاتی ہیں کہ وہاں سعودی حکومت کی گاڑیاں موجود تو تھیں لیکن بیمار اور گرمی سے بے ہوش ہونے والے عازمین کی مدد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جا رہی تھیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ حاجیوں کے منیٰ سے جمرات کے مختصر فاصلے کو طے کرنے کے لیے جو راستے بنائے گئے تھے وہ اس طرح سے ڈیزائن کیے گئے تھے کہ حجاج کو کئی میل اضافی سفر کرنا پڑا۔شدید گرمی میں جب لو چل رہی تھی تو عازمین کو کئی گھنٹوں پیدل چلایا گیا‘۔ حنا نے دعویٰ کیا منیٰ سے رمی کےلیے جمرات تک جانے اور آنے میں انھیں 26 کلومیٹر چلنا پڑا جبکہ وہ راستہ جس کی طوالت صرف پندرہ منٹ کی تھی وہ پولیس نے بند کیا ہوا
’رضاکار یہی کہتے رہے کہ سب سعودی حکام کے ذمہ ہے‘آمنہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ منیٰ سے واپس آئے انھیں واپسی میں کئی گھنٹے لگے ہیں اور ان تھکے ہارے حاجیوں کو رہائش سے قریبی مقام تک نہیں پہنچایا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایک کلومیٹر کے لیے ٹیکسیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں اور ’منیٰ سے مکہ تک ٹیکسی والے 2000 ریال مانگ رہے تھے‘۔آمنہ کا دعویٰ ہے کہ حجاج کے لیے ابتدائی طبی امداد کی سہولیات بظاہر تو موجود تھیں لیکن مدد کرنے والا عملہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔’گاڑیاں تو وہ لے لے کر گھومتے ہیں لیکن انھیں ڈرپ تک نہیں لگانا آتی۔‘آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کے گروپ میں ایک شخص کلیسٹروفوبیا کا شکار (رش والی جگہوں پر گھبراہٹ کا شکار ہونے والے افراد) تھا جس کی طبیعت خراب ہونے پر جب طبی امداد کی ضرورت پڑی تو دی جانے والی مدد ناکافی تھی۔جمرات میں رش دیکھ کر ان کی سانس اکھڑنے لگی اور انھیں آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جمرات میں تو ایمرجنسی سہولت میسر تھی مگر واپسی پر ان کی حالت پھر خراب ہوئی تو مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔’ہم سٹرک کنارے بیٹھے سعودیوں سے ایمبولینس مانگ رہے تھے مگر وہ بس یہی کہتے رہے، بلاتے ہیں بلاتے ہیں۔ بالاخر ایک ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر نے دو سیکنڈ بھی نہیں دیکھا اور بولا انھیں کچھ نہیں ہوا اور چلا گیا۔‘حجاجِ جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو جمرات کہا جاتاہے۔آمنہ کہتی ہیں کہ 25 منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا تو ’ہم نے انھیں دھمکایا کہ ہم ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بتائیں گےتب جا کر جمرات کی اجازت ملی
بتایا جا رہا ہے کہ اس دفعہ خدامین حجاج کی تعداد انتہائی کم تھی اور اکثریت کا تعلق سندہ سے تھا۔ ھر ھر جگہ کرپشن کی داستانیں سنا رھی ھے ۔ چاھے وہ بلڈنگز ھوں یا پھر کھانے کا کنٹریکٹ ۔حج میڈیکل مشن دو ڈاکٹرز کو چھوڑ کر سارے کا سارا حج کرنے گیا ھوا تھا ۔ حاجی میڈیکل مشن میں موجود ڈاکٹرز سے دست و گریبان تھے ۔ پورے حج کے دوران ایک بھی خادم الحجاج لوگوں کی راھنمائی کے لئے موجودنہیں تھا ۔ ھم نے اپنی پوری بلڈنگ میں پورے حج کے دوران کسی ایک بھی حج آفیشلز کو نہیں دیکھا ۔ آپ جو بھی شکائت کریں جواب ھوتا ھے matter resolved.
جواب دیںحذف کریںھر جگہ یہی تلقین ھوتی ھے کہ صبر کریں ۔