بدھ، 15 مئی، 2024

بیجا پور میں عادل شاہی دور حکومت

بیجاپور قلعہ بھارتی ریاست کرناٹک کے بیجاپور ضلع کے بیجاپور شہر میں واقع ہے۔ بیجاپور قلعہ میں تعمیراتی اہمیت کی تاریخی یادگاروں کی بہتات ہے جو عادل شاہی خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ بیجاپور میں تقریباً 200 سال تک حکمرانی کرنے والے عادل شاہی سلطانوں نے اپنی پوری طاقت صرف فن تعمیر اور متعلقہ فنون پر صرف کی تھی، ہر سلطان نے اپنے تعمیراتی منصوبوں کی تعداد، سائز یا شان میں اپنے پیشرو سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر، بیجاپور قلعہ اور قصبے کے اندر اور اس کے آس پاس نظر آنے والی عمارتوں کو بجا طور پر جنوبی ہندوستان کا آگرہ کہا جاتا ہےسلطان محمد شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں سلاطین عثمانیہ کا ایک جواں سال شہزادہ ایران سے دکن آیا اور وزیراعظم محمودگاوان کی وساطت سے ۱۴۸۱ء میں شاہی فوج کے سپاہیوں میں شامل کرلیا گیا، شہزادہ نہایت خوبرو، ذہن، بہادر اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھا اور اسی سبب، تیزی سے ترقی کرتے ہوئے سلطان محمود شاہ بہمنی کا مقربِ خاص بن گیا۔ شہزادہ نہ صرف شاہی خطابات اور عنایات سے بہرہ ور ہوتا رہا بلکہ ۱۴۸۵ء میں عادل خان کے خطاب سے سرفراز ہونے کے بعد بہمنی سلطنت کے صوبۂ بیجاپور کا حاکم مقرر کیا گیا۔


سلطان محمود شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں بہمنی سلطنت اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ملک میں فسادات اور خانہ جنگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پھر حکومت کے قدم جمنے نہیں پائے۔ اس افراتفری میں بہمنی سلطنت کے مختلف صوبے آزاد ہونے لگے، چنانچہ6 ۱۴۹۰ء میں یوسف عادل شاہ نے اپنی مطلق العنانی کا اعلان کرتے ہوئے، بیجاپور میں عادل شاہی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔سلطان یوسف عادل شاہ علماء اور اہل فن کا بڑا قدرداں تھا ، اس نے دور دراز کے ممالک سے اہل علم کو بیجاپور بلایا اور اُن کی ہمیشہ قدر و منزلت کرتا رہا۔ وہ خود بھی فارسی کا شاعر تھا۔ اس کا بیٹا سلطان اسمعٰیل عادل شاہ بھی نہایت علم دوست اور ہنر پرور تھا۔ اپنے باپ کی طرح اس نے بھی اہل علم و فن کی بڑی قدردانی اور سرپرستی کی۔ وہ بھی فارسی کا ایک اچھا شاعر تھا اور وفائی تخلص کرتا تھا۔ غرض عادل شاہی حکومت میں ابتدا ہی سے علم، ادب، شاعری اور فنونِ لطیفہ کو فیاضانہ سرپرستی حاصل رہی۔ یوسف عادل شاہ سے علی عادل شاہ ثانی تک بیجاپور کے جو چھ حکمرانگذرے ہیں، ان سبہوں نے شعر و ادب کی سرپرستی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور علم و ہنر کی اس قدردانی کے نتیجہ میں سرزمین بیجاپور کی ادبی فضاء اپنی ترقی کی معراج کو پہنچ گئی۔گجرات اور بیجاپور کا ادبی، تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی روایات کا تعلق ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ دکنی زبان و ادب اپنے ابتدائی تشکیلی مرحلوں اور اس کے بعد گجری روایتوں سے گذر کر عادل شاہی دور میں داخل ہونے تک اپنی انفرادیت قائم کرچکی تھی۔

سلطنت بیجاپور کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے گجرات کی ادبی روایات صوفیائے کرام کے ذریعہ بیجاپور پہنچ چکی تھیں۔ گجری زبان کے ذخیرۂ الفاظ ، طرزِفکر، مزاج ، لہجہ اور آہنگ پر سنسکرت اور ہندوی ادبی روایات کا بڑا گہرا رنگ اور اثر غالب رہا ہے، یہاں تک کہ فارسی طرز اور اس کے اثرات کا رنگ بھی تھا مدھم اور ماند پڑ گیا ہے، گویا گجری ادب اصل میں ہندوی اور سنسکرت کی ادبی روایات کی ایک طرح سے تجدید ہے۔ بہمنی دور کی ادبی اقدار اسی روایت کی ایک طرح سے توسیع ہے اور بیجاپور کا ادب بھی اس روایت اور مزاج کی تجدید اور توسیع مزید ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے جیسے فارسی طرز اور انداز گہرا ہوتا گیا ، قدیم ہندوی رنگ رفتہ رفتہ ہلکا اور پھیکا پڑتا گیا۔ یہہ وہ دور ہے جب کہ دکنی زبان اپنے عبوری اور صوفیانہ دور سے گذر کر ادبی دور میں داخل ہوچکی تھی۔شاہانِ دکن نے ہر دور میں ہمیشہ دکنی زبان و ادب کی سرپرستی اور خدمت کی ہے۔ سلاطین بیجاپور نے اس زبان کو واحد قومی زبان کی حیثیت سے قبول کرلیا تھا اور ابراہیم عادل شاہ کے دور میں دفتری اُمور بھی اسی زبان میں انجام دیئے جانے لگے۔

اِن بادشاہوں کے دربار میں جہاں فارسی شعرأ کا طوطی بولتا تھا دکنی زبان کے شعرأ بھی ان کے دوش بدوش اپنی فنی شخصیت کا لوہا منوارہے تھے۔ نہ صرف یہہ بلکہ ابراہیم عادل شاہ ثانی، جو خاص و عام میں ’’ جگت گرو‘‘ کے نام سے معروف تھا، اس کے طبعزاد ’’ کتابِ نورس‘‘ اور علی عادل شاہ ثانی شاہی کے کلیات اس باتکے واضح ثبوت ہیں کہ ان سلاطین بیجاپور کا فارسی زبان سے جو خاندانی رشتہ تھا ، وہ کم و بیش منقطع ہوچکا تھا، اور دکنی ہی اُن کی اپنی زبان ہوگئی تھی۔یوں تو عادل شاہی دور میں فنونِ لطیفہ نے ترقی کے اونچے زینے طے کئے لیکن ابتدا ہی سے شاعری کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی، بیجاپور کے اولین ادبی دور میں اگرچہ کہ ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے لیکن اس عہد کی کم و بیش ساری تحریروں پر مذہب اور تصوف کی گھری چھاپ موجود ہے،

اس دور کے صوفیائے کرام میں یوں تو بہت سارے نام ملتے ہیں لیکن ان میں قابل ذکر حضرت میراں جی شمس العاشق، حضرت برہان الدین جانم اور حضرت امین الدین اعلیٰ کے نام نامی ہیں۔مذہب اور تصوف کے دور کے بعد شاعری کے اظہار و بیان میں ایک طرح کی باقاعدگی اور موضوعات کا تنوع اُجاگر ہوتا گیا ۔ اخلاقی اقدار کی اہمیت شعرائے بیجاپور کے ہاں ہمیشہ اہم اور واضح رہی ، اظہار و ابلاغ کے اس انداز کو اجاگر کرنے میں انہوں نے محیرالعقول عناصر کو شامل کیا۔ تخیل کی بلند پروازی نہ صرف عشقیہ مثنویوں کی حد تک محدود رہی بلکہ اُن مذہبی قصوں میں بھی یہہ انداز اور طور واضح ہوتا گیا، جو روایتی انداز کے حامل ہیں۔ مقیمیؔ کی ’’ چندر بدن اور مہ یار‘‘ اور صنعتیؔ کی مثنوی ’’قصۂ بے نظیر‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔عشقیہ مثنویوں میں یہی انداز ہاشمیؔ کی ’’یوسف زلیخا‘‘ اور نصرتیؔ کی ’’ گلشنِ عشق‘‘ میں بھی موجود ہے۔ عاجزؔ کی ’’ یوسف زلیخا‘‘ اپنی منظر نگاری کے اعتبار سے بیجاپور کی ایک نمائندہ مثنوی

منگل، 14 مئی، 2024

دشمنی کی آخری حد۔علم دشمن استاد

 


کراچی کے دو طالبعلموں نے اپنا فرسٹ ائر کا رزلٹ معلوم ہونے کے بعد خود کشی کر لی ۔دونوں طالب علم میٹرک کے امتحان میں 80 سے 90 فیصد مارکس حاصل کرنے والے بہترین طالب علم تھے لیکن ان ہونہار بچوں کو جان بوجھ کر فیل کر دیا گیا ہے۔ کراچی کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ کراچی کا مستقبل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔بہت ہی افسوس کی بات ہے نوجوان نسل کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے کراچی جو منی پاکستان ہے جو ملک کو ستر فیصد ریوینیو دیتا ہے اسی کراچی کی نوجوان نسل کے ساتھ ظلم جسے مشینی خرابی کا نام دے کر  اپنی نا اہلی اور کراچی دشمنی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے فرسٹ ایئر کے رزلٹ نے پورے شہر کے طالب علموں اور ان کے والدین سے ان کے سنہرے خواب چھینے ہیں ۔آخر کراچی کے  طالب علموں سے کیا دشمنی ہےجو وہ مایوس ہو کر خودکشی کی جانب راغب ہو رہے ہیں ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے ہمارے بچوں سے انکا روشن مستقبل چھینا جا رہا ہے

 ہماری نسلوں میں مایوسی اور بیگانگی پیدا کی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل میں تعلیم کے بغیر کیسے صلاحیت اور قابلیت پروان چڑھ سکتی ہے اعلیٰ سوچ و فکر کس طرح بیدار ہو سکتی ہے؟اھر یہی حالات رہے تو نوجوان نسل کے پاس سوائے مایوسی کے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا کیا کراچی کے تعلیمی بورڈز تباہ و برباد ہو چکے ہیں ؟  ہے کوئی پرسان حال؟ ۔کراچی ہائر سیکنڈری بورڈ کے انٹر فرسٹ ایئر  کےنتائج میں 70 فیصد بچوں کو فیل کر دیا گیا۔لیکن اندرون سندھ  میں95 فیصد بچوں کو پاس کر دیا گیا ہے ۔ یہ بات اہم اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سندھ کے بیشتر لوگ جوتعلیم یافتہ نہیں ہی ان کے پاس  بھی جعلی تعلیمی اسناد موجود ہیں یعنی  اندھیر نگری چوپٹ تان اللہ رب العالمین نے اسلام کے لیے عطا کیا۔یہ ملک بہت خوبصورت اور بیش قیمت  وسائل سے مالامال ہے۔اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے  دیانتدار باصلاحیت اہل اور کرپشن سے پاک صالح حکمرانوں کی ضرورت ہے ۔ عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں نا اہل اور کرپٹ ٹولے کا راج رہا ہے۔ صلاحیت اور صالحیت رکھنے والے حکمران آج تک منتخب ہی نہیں ہوئےہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں متوقع  الیکشن  ایک بہترین موقع ہے  اور بہترین پاکستان بنائیں اس کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت 



۔ ملک کے تمام مسائل کا حل صرف نیک حکمران ہی حل کر سکتا قائداعظم محمد علی جناح کہتے تھے کہ ملک کو ترقی دینے کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں ملک کی تقدیر اور مستقبل بہتر بنانے کا راز مضمر ہے۔ہمیں نوجوانوں کو بے مقصد زندگی گزارنے سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ 8 فروری ملک بھر کی عوام کے لیے، ان کے بچوں یعنی پوری قوم کے مستقبل کے فیصلے کا اہم دن ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو حکومت میں نہ ہو کے باوجود ہر فلاحی کاموں میں مصروف نظر آتی ہے صرف ان کے پاس ہی دیانتدار کرپشن سے پاک  قبیلے برادری علاقائیت لسانیت کے تعصب  سے پاک باصلاحیت تعلیم یافتہ نمائندے موجود ہیں۔” جو پاکستان کے روشن مستقبل کی امید ہیں  اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔

مہنگائ کے بوجھ تلے والدین  کس طرح سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ان طالب علموں کو ایک نااہل استاد پرچہ چیک کئے بغیر ہر صفحہ پر کراس لگا رہا ہے۔۔  کوئ بتائے کہ طالب علم کے اس سال کا نقصان کون پورا کرے گا۔کیا ہمارے استاد اپنی فکری، شعوری،  دولت کو پیسے کے عوض بیچ چکے ہیں ۔ پاکستان میں ضمیر فروشوں کی منڈی لگی ہوئ ہے، ایوانوں، عدالتوں اور کچہری میں نوٹ پر ضمیر فروش جج، سینیٹر، وکیل سب بکتے ہیں۔ یہاں سود، رشوت، دھوکہ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ، کو ہوشیاری عقلمندی سمجھاجاتا ہےاور پر آشوب دور میں ہمارے معصوم طالب علم جہد مسلسل میں لگے رہتے ہیں صرف اس امید پر کہ ان کی اچھی تعلیم ان کو اچھا مستقبل دے گی لیکن ہمارے تعلیمی اداروں کے اندر ایسے بے رحم بھیڑئے آ بیٹھے ہیں جو۔ قبر کے تاریک گڑھے کی ہولناکی سے بھی بے خبر ہیں 

 

پیر، 13 مئی، 2024

شاہ ایران کا جشن شہنشاہی ۔ایک ہوشربا داستان پارٹ2


     تقریب میں مہمان مغربی ممالک سے بھی تھے اور سوویت بلاک سے بھی۔ امریکی نائب صدر، سوویت یونین کی طرف سے نکولائی پوڈگورنی۔ آسٹریا، فن لینڈ، سویٹزرلینڈ کے سربراہانِ مملکت۔ فرانس، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ کے وزرائے اعظم۔ پاکستان کے صدر یحیٰی خان، انڈیا کے صدر گیری، ترکی، ہنگری، برازیل، چیکوسلواکیہ، انڈونیشیا، لبنان، جنوبی افریقہ، ماریطانیہ، سینی گال، زائرے، یوگوسلاویہ، رومانیہ کے صدور آئے۔کینیڈا اور آسٹریلیا کے گورنر جنرل آئے۔ چین، جرمنی، پرتگال، پولینڈ نے بھی اپنے وزرائے خارجہ یا سفیروں کو بھیجا۔ پوپ نے بھی اپنا خصوصی نمائندہ بھیجا۔لیکن سب سے زیادہ نظریں دوسرے بادشاہوں پر تھیں۔ اتنے زیادہ بادشاہ، ملکائیں، شہزادے اور شہزادیاں ایک جگہ پر کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ ڈنمارک، بلجیم، نیپال اور گریس کے شاہی جوڑے۔ اردن، ناورے، ایتھیوپیا اور لیسوتھو کے بادشاہ۔ قطر، کویت، ابوظہبی کے امیر، عمان کے سلطان، افغانستان، لگزمبرگ، لیکٹنسٹائن، موناکو، فرانس، سویڈن، سپین، اٹلی، جاپان، مراکش، تھائی لینڈ، اردن اور ملیشیا سے شہزادے اور شہزادیاں۔برطانوی ملکہ الزبتھ نے اس میں شرکت نہیں کی کیونکہ بادشاہوں کے بادشاہ کہلانے والے کی میزبانی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن انھیں نے اپنے شوہر فلپ اور شزادی این کو بھیجا۔ چند جگہوں سے مہمان اندرونی پریشر کی وجہ سے نہیں آئے کیونکہ شاہ کو کئی ممالک میں ڈکٹیٹر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مہمانوں کو ائیرپورٹ سے لانے کے لیے 250 بلٹ پروف لموزین گاڑیاں منگوائی گئی تھیں۔


تقریب کا آغاز سائرس کے مزار پر تقریب سے ہوا۔ ملکہ فرح اور ولی عہد رضا کے ساتھ سٹیج پر شاہ نے جذباتی تقریر کی اور سائرس سے وعدہ کیا کہ ان کے جانشین اس تابناک ماضی کی وراثت کا صحیح طور پر حق ادا کریں گے۔ پہلی شام کو شاہ نے مہمانوں کو پرتعیش ضیافت دی۔ یہ بندوبست بڑے خیمے میں کیا گیا تھا۔ یہاں کے فانوس اور سونے کا ملمع چڑھائی گئی کٹلری ایک صدی پہلے کے کسی یورپی دربار کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ کھانے کو 70 میٹر لمبی سانپ کی طرح بل کھاتی ایک میز پر پیش کیا گیا۔ اس کا میزپوش سینے میں 125 خواتین نے چھ ماہ تک کام کیا تھا۔ عام مہمانوں، جیسے کہ سفیر یا سربراہان کے ساتھ آئے وفود کے لیے خیمے میں الگ چھوٹی میزیں تھیں۔ مشرق و مغرب، کمیونسٹ اور کیپیٹلسٹ، ترقی یافتہ اور ترقی پزیر، بادشاہتیں، سابق کالونیاں، سب کھانے پر اکٹھے تھے۔ مینو فارسی اور فرنچ میں لکھا تھا۔ اس میں جو چیزیں پکائی گئی تھیں، وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ ثابت مور، جن کو اپنے پروں کے ساتھ پیش کیا گیا، خاص توجہ کا باعث رہے۔ چھ سو مہمانوں کی یہ ضیافت چھ گھنٹے جاری رہی۔ مسلمان اکثریت والے ملک ایران میں الکوحل ناپسند کی جاتی تھی لیکن شاہ کی دعوت میں ڈھائی ہزار شمپین کی بوتلیں، ایک ہزار بورڈو کی بوتلیں، ایک ہزار برگنڈی کی بوتلیں شامل تھیں۔ شیمپین ساٹھ سال پرانی تھی جبکہ کوگنیک 1860 کی تھی۔ ان سب کو بحفاظت رکھنے کے لیے خاص سیلر تعمیر کروایا گیا تھا جہاں چار ہفتے انھیں محفوظ رکھا گیا تھا۔


 اس پارٹی میں ہر کوئی تھا لیکن ایرانی نہیں تھے۔ شاہ نے اپنے وزراء کو بھی نہیں بلایا تھا۔ صرف چند لوگ جو انتظامی امور دیکھ رہے تھے، موجود تھے۔ اگلے روز بڑا ایونٹ تھا۔ اس میں فارس کی عظیم سلطنت کے ڈھائی ہزار سال دکھانے کا شو ہوا۔ ایران کے پونے دو ہزار فوجیوں اور سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس کی تفصیلات پر بہت توجہ دی گی تھی کہ تاریخ دکھانے میں ٹھیک ماحول پیدا کیا جائے۔ ہر دور کے اپنے کاسٹیوم، داڑھیاں، وگ، یونیفارم، سواریاں، ہتھیار، جنگی جہاز، ٹوپیاں۔ یہ سب بنانے کے لیے ملٹری مورخین کے ملٹی نیشنل ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ تہران کی ملٹری ورک شاپ نے کئی طرح کے کاسٹیوم بنائے تھے۔ قدیم باجے اور بھولے بسرے موسیقی کے آلات بنائے گئے تا کہ وہ آوازیں صحرا میں گونجیں جو صدیوں سے نہں سنی گئی تھیں۔ زورکسس کے تین قدیم بحری جہازوں کے ریپلیکا بھی تیار کیے گئے۔ غروبِ آفتاب کے بعد فارس کی تاروں بھری رات میں روشنی اور آوازوں کی پرفارمنس مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اس میں مختلف فارسی حکمرانوں کی آوازوں میں فارس کے تابناک ماضی کو یاد کیا گیا۔ اور آخر میں آتشبازی کے شاندار مظاہرے کے ساتھ روشن ہونے والے آسمان کے بعد تقریب اختتام پزیر ہوئی۔

 تیسرے روز وی آئی پیز کو تہران لے جایا گیا۔ یہاں پر کچھ پروگرام رکھے گئے تھے جس میں شاہِ ایران کی یاد میں تعمیر کردہ شاہ یاد ٹاور کی افتتاحی تقریب بھی تھی۔ تقریب خود میں بہت کامیاب شو رہا۔ شاہ نے دنیا کو دکھایا کہ پارٹی کیسے کی جاتی ہے۔ ملکہ فرح کے لباس اور زیور دنیا بھر کی خبروں میں رہے۔ ایک اور مشہور موضوع ایتھیوپیا کے بادشاہ کا پالتو کتا تھا جس کا ہیروں جڑا پٹہ کئی ملکاوٗں کے زیورات سے زیادہ قیمتی تھا۔ دنیا کے ہر میگیزین میں اس پارٹی کو بڑی کوریج ملی۔ “دعوتوں کی ماں”، “صدی کی سب سے بڑی تقریب” جیسے عنوانات دئے گئے۔ کچھ دیر ایران میں بھی اس کے کامیاب انعقاد کی خوشیاں منائی گئیں۔ ایرانی ٹی وی سکرین پر شاہ کو دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے ملنے والی عزت دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ لیکن یہ سب زیادہ دیر نہیں رہا اور ایران کے اندر ان شاہ خرچیوں پر اعتراضات سامنے آنے لگے 


۔آیت اللہ خمینی، جو اس وقت عراق میں جلاوطن تھے، نے اس کو “شیطان کی دعوت” کہا۔ اس پارٹی میں استعمال ہونے والی شراب کی تفصیلات، ایرانیوں کی اس میں غیر موجودگی اور تقریب کی تفصیلات عام ایرانیوں کے لیے حیران کن تھیں۔ٹائم میگیزین نے اندازہ دس کروڑ ڈالر (آج 2020ءکے حساب سے 65 کروڑ ڈالر) لگایا۔ فرانس کے پریس نے اس سے دگنی لاگت کا اندازہ لگایا۔ شاہ کی انتظامیہ یہ اعداد سامنے آنے پر اس کی تردید کی اور کہا کہ خرچہ بہت کم ہوا ہے اور صرف ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر (آج کے حساب سے بارہ کروڑ ڈالر) ہے۔ شاہ نے کہا کہ خرچہ تو صرف وہ ہے جو کھانے پر آیا تھا۔ باقی تو ملک میں ہونے والی تعمیرات ہیں۔ اور ساتھ یہ کہ اس پارٹی میں آنے والوں نے جو عطیات دئے ہے اس سے ایران کے دیہاتوں میں تین ہزار سے زائد اسکول بنائے جائیں گے۔ یہ سب نیک مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔ 


اس تقریب نے شاہ کی عوامی سپورٹ میں بہت کمی کر دی۔ اپوزیشن پارٹیاں، جو نظریاتی اعتبار سے بہت فرق رکھتی تھیں، شاہ کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اس سے تین سال بعد شاہ نے عوام سے معذرت کی اور لوگوں سے معافی طلب کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری غلط فیصلوں، کرپشن اور ظلم کا جاری طریقہ بدلیں گے۔ لیکن تاخیر ہو چکی تھی۔ ایران میں جاری بغاوت کامیاب ہوئی۔ ۔ 1979 میں پہلوی خاندان کو انقلاب کے نتیجے میں ایران چھوڑنا پڑاتقریب کے مقام موجودہ صورت حالتقریب کے بعد خیموں کا شہر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہاں کرائے پر سرکاری اور نجی تقریبات منعقد ہوتیں۔ انقلاب کے دوران اس کو لوٹ لیا گیا۔ اب یہاں پر سڑکیں اور لوہے کی سلاخیں بچی ہیں۔ شاہ یاد مینار کا نام بدل کر آزادی ٹاور رکھ دیا گیا جو اب تہران کا ایک لینڈ مارک ہے ۔ ۔  

شاہ ایران کا جشن شہنشاہی۔ایک ہوشربا داستان پارٹ ۱

ایران میں جشن شہنشاہی منانے کے لئےخیموں کا ایک عارضی شہر بسانے کا۔ منصوبہ بنایا گیا جس کے لیے پیرس کی مشہور جینسن کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے رہائش کے لیے ائیر کنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے جس میں لگژری سویٹ ہوں اور انھیں روایتی ایرانی پردوں سے ڈھکا گیا۔ ہر خیمے میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاونج، ایک کچن تھا جس میں باورچی اور خدمت گار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھے۔ فرانسیسی آرکیٹکٹ، انٹیرئیر ڈیزائنر اور ہنرمندوں کو ایک سال سے زیادہ ان خیموں کی تعمیر پر لگا۔ ان کو پیرس کے ہوائی اڈے کے قریب تعمیر کیا گیا اور سینکڑوں جہازوں میں انھیں پرسیپولس پر پہنچایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکڑ پر پھیلا تھا۔ ایک سوشل خیمہ بنایا گیا تھا جس میں بار، ریسٹورنٹ، کسینو تھا۔ ایک اور سپیشل خیمے میں میک اپ سیلون، ہیرڈریسنگ سیلون سیٹ کیے گئے تھے۔ ان میں پیرس کے بہترین ہیرڈریسرز اور میک اپ کے ماہرین کو بلایا گیا تھا کہ وہ مہمانوں کو خدمات مہیا کریں۔ ان کی مہینوں تک خاص ٹریننگ کی گئی تھی کہ وہ تیز رفتاری سے کام کر سکیں۔ اور کیسے صرف چند منٹ میں تاج فٹ کر سکیں۔ پیرس سے فیشن ڈیزائنرز کی ایک ٹیم بھی بلوائی گئی تھی تا کہ اگر کسی کو اپنے لباس میں آخری وقت پر تراش خراش کروانی پڑے تو خدمات دستیاب ہوں۔ کھانے کے لیے فرانس کے مشہور میکسیم ڈی پیری سے معاملہ ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا بہترین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا تھا


‎  سلطنت فارس کے قیام کا 2500 سالہ جشن 12 سے 16 اکتوبر 1971ء کو ایران میں منایا گیا۔یہ دنیا کی تاریخ میں کی جانے والی شاندار ترین تقریبات میں سے ایک تھی۔اس تقریب میں دنیا کے ہر برِاعظم سے بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، شیخ، سلطان، سربراہانِ مملکت، وزیر، سفیر، بزنس کی اہم شخصیات سبھی اس محفل میں شریک ہوئے۔تقریب کا انتظام کرنے کے لیے ڈیڑھ سال پہلے اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ ایران میں انفراسٹرکچر موجود نہ ہونا ایک مسئلہ تھا۔ تقریب کے شایانِ شان ہوٹل نہیں تھے۔ سوچ بچار کے بعد اس کے لیے قدیم شہر پرسیپولس کے صحرا کا انتخاب کیا گیا۔اس صحرا کو جنگل میں بدلا گیا۔ درخت درآمد کیے گئے۔ پندرہ ہزار درخت جہازوں پر لائے گئے۔ پھولدار پودے لگائے گئے۔اٹلی کے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو بلایا گیا کہ وہ چار ہیکٹئر پر مشتمل خوشبودار باغ لگائیں۔ اس کے لیے مٹی منگوائی گئی۔ اس جگہ پر سانپ اور بچھو بہت تھے جو مہمانوں کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ تیس کلومیٹر تک کے علاقے پر کیمیکل چھڑکے گئے اور رینگنے والے جانوروں کے ٹرکوں کے ٹرک پکڑے گئے۔ اس دوران ایسی انواع بھی ملیں جو نامعلوم تھیں اور انھیں یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے دیا گیا۔اس جنگل کو آباد کرنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار چہچانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ بیس ہزار چڑیوں کو سپین سے منگوایا گیا لیکن پرندوں کی بڑی تعداد چند روز میں ہی مر گئی۔ وہ یہاں کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ صحرا میں گالف کورس بنایا گیا۔اس تقریب کا زیادہ تر کام مشہور یورپی کمپینیوں کے حوالے ہوا۔


۔ پارٹی کے وقت یہ ریسٹورنٹ دو ہفتے بند رہا۔ اس کا تمام سٹاف ایران میں دس روز پہلے پہنچ گیا تھا۔ فرانس سے اٹھارہ ٹن خوراک منگوائی گئی۔ ڈھائی لاکھ انڈے۔ 2700 کلوگرام گوشت اور بہت کچھ اور۔ یہاں تک کہ تیس کلوگرام خاویار بھی! مشہور ترین ہوٹلییر میکس بلوئے، اپنی ریٹائرمنٹ چھوڑ کر انتظامات سپروائز کرنے پہنچے۔ اس جگہ تک اتنا سامان پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سے پچاس کلومیٹر دور شیراز تھا جہاں ایئر فیلڈ تعمیر ہوا جہاں جہازوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ اس ائیرفیلڈ کو پرسیپولس سے ملانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی۔ سامان لانے کا کام ایرانی ائرفورس کے سپرد ہوا۔ چھ ماہ تک ایرفورس شیراز اور پیرس کے درمیان سامان کی ترسیل میں مصروف رہی۔ شیراز سے آرمی کے ٹرکوں میں سامان منزل تک پہنچا دیا جاتا۔ پردے اور قالین اٹلی سے آئے۔ باکاراٹ کرسٹلز پہنچے۔ برتن لموژے چائنہ کے بنوائے گئے جس میں پہلویوں کا کوٹ آف آرمز کنندہ تھا۔ تولیہ اور چادریں پورٹہو سے۔ پرچ اور پیالیاں رابرٹ ہاویلانڈ سے۔ اور مہنگی ترین شراب کی ہزاروں بوتلیں آئیں جن کا وزن بارہ ٹن تھا۔ کھانا پکانے کے لیے پیرس سے جو سامان آیا، وہ تیس ٹن وزنی تھا۔ جہاز اس کو سرد رکھنے کے لیے برف لے کر آئے۔ تیس میل کی سڑک کو روشن کرنے کے لیے ایرانی آئل کمپنی نے مشعلیں جلانے کا بندوبست کیا۔سیاحت کی وزارت نے شیراز میں دو نئے ہوٹل تعمیر کروائے۔ کروش اور درویش نامی ان ہوٹلوں میں کم اہم مہمانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ٹھہرایا گیا


‎سیکورٹی -د نیا کے اہم ترین لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ شاہ کی غیر مقبولیت کی دوسری کئی وجوہات بھی تھیں۔ شاہ کو طلبہ کی طرف سے سبوتاژ کیے جانے کا خطرہ تھا۔ سیکورٹی پر 65000 اہلکار تعینات ہوئے۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں کوئی کھانے میں کوئی چیز نہ ملانے میں کامیاب ہو جائے۔ کھانے کی حفاظت خاص طور سے کی گئی جس تک بہت کم لوگوں کو رسائی تھی۔ بیرے سوئٹزلینڈ سے منگوائے گئے۔ ایران کی سرحد کو تقریب کے دوران سیل کر دیا گیا۔ یونیورسٹیاں اور اسکول بند کر دئے گئے۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ تنظیموں میں متحرک لوگوں کو تقریب سے چند ماہ قبل احتیاط کے طور پر جیل میں ڈال دیا گیا -اس تقریب کی تشہیرپر خاص توجہ دی گئی۔ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلوں کے ساتھ اس کو براہِ راست دکھانے کی ڈیل کی گئی۔ ایران کے قومی فلم بورڈ نے اس تقریب پر فلم “فارس کے شعلے” کے نام سے بنائی جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ انگریزی ڈبنگ کے لیے ہالی وڈ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر اورسن ویلز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایرانی سفارتخانوں کو اس تقریب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک سال پہلے سے کانفرنس، پارٹی، سمپوزیم اور دوسری کلچرل تقریبات کے لیے کہا گیا۔ کئی کتابیں لکھوائی گئیں اور دنیا بھر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ کامیاب رہا اور دنیا بھر کے میڈیا میں یہ دعوت توجہ کا مرکز رہی۔ “کون آ رہا ہے؟ کیا پہن رہا ہے؟ کھانے میں کیا ہو گا؟” یہ قیاس آرائیاں خبروں کے طور پر لگتی رہیں 

اتوار، 12 مئی، 2024

بارود سے آلودہ یوکرینی گندم پاکستانی عوام کھائیں گے

 پاکستا ن کے ایمان دار غزائ ماہرین کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گندم کے ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلےسےموجودتھے،لیکن بارود میں رچی گندم بڑے آقا کے حکم پر درآمد کی ڈیل  کی گئ -اس کے علاوہ گندم کو 2600 سے 2900 فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہرکی گئیذرائع کے مطابق وفاقی اداروں نےہی پرائیویٹ کمپنیوں کو درآمدکرنےکی اجازت دی، وزارت خزانہ کےچندآفیشلز نےبھی اتنی بڑی درآمد کو چیک نہیں کیا-  گندم کی  کہانی کی ابتدا  تب شروع ہوئی جب باجوہ اور رجیم چینج کے بعد شہباز حکومت کے وزیر احسن اقبال نے یوکرین کی وہ گندم خریدنے کی ڈیل کی جسے دنیا میں کوئی اس لئے نہیں خرید رہا تھا کہ جنگ کے باعث اس میں بارود کے اثرات تھے گندم یوکرین کے سٹوریج ہاوسز میں پڑی پرانی ہو رہی تھی جو مال سیل پر کباڑ کے دام بکنے کیلئے تیار تھا اس کی مارکیٹ پرائس سے کئی گنا قیمت پر خریدنے کی ڈیل امریکی دباو پر ہوئی اس پر ظلم یہ کہ ساری لاٹ ہی خرید لی گئ کیونکہ حکم آقا تھا-اس پر عمل نگران دور میں ہوا اس پرمستزاد یہ کہ یہ گندم جن بحری جہازوں پر آئی انہیں کئی ہفتے اسے ان لوڈ کرنے میں اس لئے لگے کہ یہ بڑے بڑے جہاز گوادر کی بندرگا ہ پر اس لئے لنگر انداز ہوئے کہ کراچی کا سمندر بڑے جہازوں کے لئے گہرا نہیں ہے


پھر کراچی  پورٹ سے قریبا 50 کلومیٹر دور لنگر انداز بڑے جہازوں سے چھوٹے جہازوں میں گندم بھر بھر کر لائی جانے سے سمندری ہوا کی نمی اس میں رچ گئی کسان اور اکثر عوام جانتے ہیں کہ گندم کیلئے نمی زہر قاتل ہے یہ گندم ملک بھر کے پاسکو سٹوریج ہاوسز میں سٹور کر دی گئیمنصوبہ یہ تھا کہ یہ خراب ، جنگ زدہ اور سیلی گندم ملک میں سپلائی کریں گے اور مقامی تازہ اور صحت مند گندم ایکسپورٹ کر دینگے پاسکو کے پاس سٹوریج کی جگہ پر یوکرین کی خراب گندم نے قبضہ کر رکھا ہے اور صوبائی حکومتوں کے پاس کسان سے گندم خرید کر رکھنے کی جگہ ہی نہیں اسلئے تھوڑی بہت جو گندم خریدی وہ بھی فلور ملز کو ڈائریکٹ بھجوا دی گئیگندم اسکینڈل میں کس نے کتنا کمایا صوبائی حکومتیں سٹوریج نہ ہونے کے باعث بے بس ہیں لیکن انکی حکومت برقرار رکھنے کی مفاد پرستی انہیں سچ بتانے نہیں دیتی کہ پاکستان ، پاکستان کی زراعت اور ملکی مفاد کے ساتھ کس نے کتنا بڑا کھلواڑ کر دیا ہےمقامی فصل کا بڑا حصہ سٹوریج نہ ہونے سے خراب ہو جائیگا یا کسان اپنی فصل سڑک پر رکھ کر 200 روپے من بیچنے پر مجبور ہو گا اور حکومتی ایجنٹوں کے گدھ اس سے فائدہ اٹھائیں گےکیا یہ کسان اگلے سال گندم لگائے گا؟


 ایک اہم رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتیں فوڈ سیکیورٹی اور کامرس پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی نے گندم کی غیر قانونی درآمد کو روکنا تھاپنجاب میں گندم ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلے سے موجود تھے، گندم کو 2600 سے 2900فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہر کی گئی۔گندم درآمد سے متعلق انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ درآمدات26ستمبر 2023سے شروع ہوئی اور31مارچ 2024 تک جاری رہی جو لگ بھگ 6 ماہ کا عرصہ بنتا ہے، ہمارا ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے غریب لوگوں کے روٹی کھانے کے بھی حالات نہیں ایسےمیں گندم کا بحران  وہ بھی مصنوعی آج کا نہیں بلکہ گزشتہ 11 سال سے زائد عرصے میں مختلف ادوار میں یہ بحران شدت سے پیدا کیا گیا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران اس صورتحال سے کچھ سیکھ پائے ہیں یا نہیں؟، ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں وفاقی ادارے غیرضروری گندم درآمد کے ذمہ دار قراردیے گئے ہیں۔ذرائع   کا کہنا تھا کہ وفاقی وزارتیں فوڈسیکیورٹی ، کامرس پر مشتمل کمیٹی نے غیر ضروری درآمد کو روکنا تھا۔رپورٹ میں محکمہ خوراک پنجاب اور پاسکو کے چند آفیشلزکو بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے۔کمیٹی تجاویز میں کہا ہے کہ 43 لاکھ 65 ہزار220 میٹرک ٹنگندمموجودہونےکےباوجوددرآمد کی گئی، 35 لاکھ 87 ہزار 378میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔، تاہم آئندہ3روز میں مکمل رپورٹ حکومت کو پیش کردی جائے

جمعرات کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں گندم کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں وفاقی وزرا احد خان چیمہ، رانا تنویر حسین، محمد اورنگزیب، جام کمال خان، وزیرِ اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضال اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے وزیراعظم شہباز شریف  کو بتا یا کہ اللہ کے فضل و کرم سے رواں سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے اور اب اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گندم کی خریداری میں کسی قسم کی دیر نہ ہو۔انہوں نے ہدایت کی کہ گندم کی خریداری کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ جلد پہنچایا جائے۔و زیرِ اعظم نے گزشتہ برس گندم کی درآمد کے حوالے سے وزارت قومی غذائی تحفظ سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود گندم کی درآمد کا فیصلہ کن وجوہات کی بنا پر لیا گیا۔

۔ادارہ شماریات کے مطابق نئی حکومت کے پہلے ماہ 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، نگران دور میں27 لاکھ 58 ہزار 226 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی، مارچ 2024 میں57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔ادارہ شماریات نے بتایا کہ رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی گندم امپورٹ ہوئی، رواں مالی سال مارچ تک کل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، رواں مالی سال مارچ تک 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔اس سے قبل وزیراعظم نے گندم کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری قومی غذائی تحفظ اور تحقیق محمد آصف کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔وائے افسوس ہماری اندھی لالچ جو قبر کے اندھیروں سے اور جزا و سزا کے دن سے بے خوف اور بے نیاز ہے

آخر علاقائ بنیادوں پر قتل عام کیوں



صوبہ  پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو فش ہاربر جیٹی کے علاقے میں ایک رہائشی گھر میں رات کے وقت سوئے ہوئے سات حجاموں کو قتل کر دیا گیا-ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) گوادر امام بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان کے ضلع گوادر میں سربندر پولیس سٹیشن کی حدود میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سات افراد جان سے چلے گئے’میرا سب کچھ لٹ گیا، میرے گھر کی کفالت کرنے والے دونوں بیٹے مارے ’میرا سب کچھ اجڑ گیا۔ جس کا سب کچھ اجڑ جائے اس کے پاس اپنے غم اور دکھوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔‘یہ کہنا تھا پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے حیبب الرحمان کا جن کے دو بیٹے اور ایک بھتیجا بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے سربندر میں نامعلوم افراد کے حملے میں مارے گئے۔


بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے حیبب الرحمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے نہ صرف ان کے گھر بلکہ پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا۔حبیب الرحمان نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق ان کے خاندان سے ہے۔یاد رہے کہ بدھ کی رات بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔مقامی پولیس کے مطابق ان افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا اور یہ سربندر میں حجام کا کام کرتے تھے۔


’میرے گھر کی کفالت کرنے والے دونوں بیٹے مارے گئے‘

سربندر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں دو سگے بھائی سجاد اور حسیب بھی تھے۔ ان کے والد حبیب الرحمان خانیوال میں ایک سرکاری سکول سے نائب قاصد کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔حبیب الرحمان نے بتایا کہ ایک حادثے میں ان کا بازو متاثر ہونے کے بعد گھر کی کفالت ان کے بیٹے ہی کرتے تھے۔میرے دونوں بیٹے خاندان کا معاشی سہارا بننے کے لیے گھر سے سینکڑوں میل دور سربندر محنت مزدور کرنے گئے تھے۔‘


ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ان کے دونوں بیٹیوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھتیجا بھی مارا گیا جبکہ زخمی ہونے والا فرد بھی ان ہی کے خاندان کا ہے۔کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساڑھے تین بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر پر حملہ کیا، جہاں آٹھ افراد سو رہے تھے جن میں سے سات افراد جان سے چلے گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ گوادر پولیس کے مطابق لاشوں اور زخمی کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد سربندر میں حجام کی دکان پرمزدوری کرتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا


۔پولیس حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے گوادر میں سات افراد کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ ملک دشمنوں کا بزدلانہ فعل ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عزم کا بھی اظہار کیا۔انھوں نے بتایا کہ اس بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔


پولیس کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساڑھے تین بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے سربندر میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر پر حملہ کیا، جہاں آٹھ افراد سو رہے تھے جن میں سے سات افراد جان سے چلے گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ گوادر پولیس کے مطابق لاشوں اور زخمی کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد سربندر میں حجام کی دکان پرمزدوری کرتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے تھا۔پولیس حکام کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے گوادر میں سات افراد کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ ملک دشمنوں کا بزدلانہ فعل ہے،‘ ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عزم کا بھی اظہار کیا۔ علاقوں سے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد کوئٹہ سے تفتان جانے کے لیے مسافر بس میں بیٹھے تھے۔ ایس ایس پی نوشکی نے بتایا کہ انہی شرپسندوں کی طرف سے سلطان چڑھائی کے علاقے میں ایک اور گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ گاڑی کے نہ رکنے پر شرپسندوں نے گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے باعث گاڑی ایک کھائی میں گر گئ اس کے بعد بس پر فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کیا گیا


آخر خاص طور پر پنجاب کے لوگوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے وجوہات جاننے کے لئے کیا کسی دانشور کی ضرورت ہے-اس کا جواب بہت آسان ہے کہ مقامی لوگ جب محرومی کا حد درجہ شکار ہوتے ہیں تو وہ انتقام پر آمادہ ہوتے ہیں تو آج ہی سے مقامی نوجوانوں کو روزگار دے دیا جائے تومقامی آبادی بھی پرسکون ہو جائے گی اور پنجاب کے لوگ بھی ناحق قتل ہونے سے بچ جائیں گےپاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد سمیت کل 11 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔ایس ایس پی نوشکی اللہ بخش بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ نوشکی شہر سے اندازاً چھ کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں پیش آیا۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک بس سے اتارنے کے بعد انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے پہاڑی علاقے میں مسلح شرپسندوں نے کوئٹہ سے تفتان جانے والی ایک بس کو روک کر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا-زرا سوچیے اگر اس واقعہ کے بعد شر پسند پکڑے جاتے اور انہیں سزا ہوتی تو یہ دلخراش سانحہ کیوں پیش آتا لیکن حکومت اپاہج ہو تو امید رکھنا عبث ہے

پیر، 6 مئی، 2024

سید مصطفیٰ علی ہمدانی

 



یہ 1947ء کی بات ہے جب گھڑی کی سوئیوں کے 12 کے ہندسے پر آنے کے ساتھ کلینڈر پر تاریخ 14 اگست ہوئی تو ریڈیو پر ایک اعلان نشر ہوا، ‘السلامُ علیکم، پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں، 13 اور 14 اگست سنہ 47 عیسوی کی درمیانی شب ہے، 12 بجے ہیں، طلوعِ صبح آزادی۔جی ہاں ! قیامِ پاکستان کی نوید سناتی یہ آواز صدا کار مصطفٰی علی ہمدانی کی تھی۔نئی مملکت کے قیام کا اعلان سننے والے مسلمانوں‌ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ ہجرت بھی شروع ہوئی جس میں‌ لاکھوں افراد جانوں سے گئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والے اب آل انڈیا ریڈیو کی جگہ ریڈیو پاکستان پر مزید خبریں، ترانے اور ضروری اعلانات سماعت کررہے تھے۔پاکستان کی آزادی کا ریڈیو پر اعلان کرنے والے مصطفیٰ علی ہمدانی 1969 تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے لیکن    1971 میں بھارت سے غیر علانیہ جنگ کے دوران رضا ہمدانی رضاکارانہ طور پر ریڈیو پاکستان پر قوم کا جذبہ بڑھاتے رہے  لیکن پھر  سانحہ مشرقی پاکستان  ہوگیا۔

بعد میں اس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر انہوں نے ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسر کی تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔آج مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا اور ایک علمی و ادبی ماحول میں رہتے ہوئے 0ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق کیسے پیدا نہ ہوتا۔ 1939ء میں وہ تقسیم سے قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے تھے۔مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھاواپس روانہ ہو گئے


صطفٰی ہمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پر اردو میں پہلا اعلان آزادی ان کی آواز میں سنا گیا۔ اس اعلان کے الفاظ یہ تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام و علیکم 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوع صبح آزادی مصطفٰی علی ہمدانی محض ایک براڈکاسٹرنہیں بلکہ ایک صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ انیس سو تیس کے اواخر عشرے میں انھوں نے لاہور سے اپنا اخبار " انقلاب " بھی نکالا تھا۔ جو تقریباً ایک عشرے تک شائع ہوتا رہا۔ سید مصطفٰی ہمدانی کے خانوادے میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق صحافت اور ادب سے رہا ہے۔ ان میں ان کے برادرِ نسبتی رضا ہمدانی، بہنوئی فارغ بخاری شامل ہیں جبکہ ان کے فرزند صفدر علی ہمدانی نے ان سے ورثہ میں نہ صرف شاعری کو پایا بلکہ صحافت اور براڈ کاسٹنگ کے میدان میں بھی سرگرمِ عمل ہیں سید مصطفٰی علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو موچی دروازہ، لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام جناب صفدر علی ہمدانی تھا۔ مصطفٰی ہمدانی کے دادا ایران کے شہر ہمدان سے ہجرت کر کے کوئٹہ میں آباد ہوئے تھے۔  

  کوئٹہ کے قیامت خیز 1935 زلزلے کے بعد اس خاندان میں سے کچھ گھر انے پشاور ہجرت کر گئے اور باقی لاہور آ کر آباد ہوئے مصطفٰی   ہمدانی کے گھر میں شروع سے فارسی بولنے کا رواج تھا۔ مصطفٰی علی ہمدانی نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعد اورینٹیل کالج سے اورینٹیل لینگویجیز میں گریجویشن کی ( جو لسان شرقیہ میں مہارت کہلاتی تھی)۔ لسان فہمی کا یہ عالم تھا کہ بشمول انگلش ،اردو، عربی اور فارسی کے وہ سات زبانوں میں مہارت رکھتے تھے ۔ناصر قریشی نے اسی کتاب ‘‘یادوں کے پھول‘‘ کے ایک اور باب میں لکھا ہے‘‘1938ء کی بات ہے کہ ہمدانی صاحب نے کسی تقریر کے سلسلے میں ریڈیو لاہور پر نظرکرم کی اسٹیشن ڈائریکٹر نے ان کی آواز سن کر ماہرانہ مگر عاجزانہ انداز میں عرض کیا ’’جناب آپ کی آواز تو بنی ہی ریڈیو کے لیے ہے ‘‘ چنانچہ اگلے سال موصوف ریڈیو میں بطور اناؤنسر رکھ لیے گئے۔ 1938 میں انھوں نے اس وقت کے آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 1938 سے 1969 تک مسلسل مائیکروفون کے ذریعے کروڑوں عوام کے دلوں سے رابطہ رکھنے والے مصطفٰی علی ہمٰدانی 1969 میں ریڈیو پاکستان، لاہور سے چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ تاہم 1971 کی پاک بھارت جنگ میں جذبہ حب الوطنی نے گھر نہ بیٹھنے دیا اور وہ رضاکارانہ طور پر مائیکروفون پر آ گئے۔

 بعد ازاں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات اور ان کے بے حد مداح مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر وہ ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسرز کی تربیت کاکام کرتے رہے ۔مصطفٰی ہمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پر اردو میں پہلا اعلان آزادی ان کی آواز میں سنا گیا۔ اس اعلان کے الفاظ یہ تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام و علیکم 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوع صبح آزادی -مصطفٰی علی ہمدانی محض ایک براڈکاسٹرنہیں بلکہ ایک صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ انیس سو تیس کے اواخر عشرے میں انھوں نے لاہور سے اپنا اخبار " انقلاب " بھی نکالا تھا۔ جو تقریباً ایک عشرے تک شائع ہوتا رہا۔ سید مصطفٰی ہمدانی کے خانوادے میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق صحافت اور ادب سے رہا ہے۔ ان میں ان کے برادرِ نسبتی رضا ہمدانی، بہنوئی فارغ بخاری شامل ہیں جبکہ ان کے فرزند صفدر علی ہمدانی نے ان سے ورثہ میں نہ صرف شاعری کو پایا بلکہ صحافت اور براڈ کاسٹنگ کے میدان میں بھی سرگرمِ عمل  ہیں ۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر