تقریب میں مہمان مغربی ممالک سے بھی تھے اور سوویت بلاک سے بھی۔ امریکی نائب صدر، سوویت یونین کی طرف سے نکولائی پوڈگورنی۔ آسٹریا، فن لینڈ، سویٹزرلینڈ کے سربراہانِ مملکت۔ فرانس، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ کے وزرائے اعظم۔ پاکستان کے صدر یحیٰی خان، انڈیا کے صدر گیری، ترکی، ہنگری، برازیل، چیکوسلواکیہ، انڈونیشیا، لبنان، جنوبی افریقہ، ماریطانیہ، سینی گال، زائرے، یوگوسلاویہ، رومانیہ کے صدور آئے۔کینیڈا اور آسٹریلیا کے گورنر جنرل آئے۔ چین، جرمنی، پرتگال، پولینڈ نے بھی اپنے وزرائے خارجہ یا سفیروں کو بھیجا۔ پوپ نے بھی اپنا خصوصی نمائندہ بھیجا۔لیکن سب سے زیادہ نظریں دوسرے بادشاہوں پر تھیں۔ اتنے زیادہ بادشاہ، ملکائیں، شہزادے اور شہزادیاں ایک جگہ پر کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ ڈنمارک، بلجیم، نیپال اور گریس کے شاہی جوڑے۔ اردن، ناورے، ایتھیوپیا اور لیسوتھو کے بادشاہ۔ قطر، کویت، ابوظہبی کے امیر، عمان کے سلطان، افغانستان، لگزمبرگ، لیکٹنسٹائن، موناکو، فرانس، سویڈن، سپین، اٹلی، جاپان، مراکش، تھائی لینڈ، اردن اور ملیشیا سے شہزادے اور شہزادیاں۔برطانوی ملکہ الزبتھ نے اس میں شرکت نہیں کی کیونکہ بادشاہوں کے بادشاہ کہلانے والے کی میزبانی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن انھیں نے اپنے شوہر فلپ اور شزادی این کو بھیجا۔ چند جگہوں سے مہمان اندرونی پریشر کی وجہ سے نہیں آئے کیونکہ شاہ کو کئی ممالک میں ڈکٹیٹر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مہمانوں کو ائیرپورٹ سے لانے کے لیے 250 بلٹ پروف لموزین گاڑیاں منگوائی گئی تھیں۔
تقریب کا آغاز سائرس کے مزار پر تقریب سے ہوا۔ ملکہ فرح اور ولی عہد رضا کے ساتھ سٹیج پر شاہ نے جذباتی تقریر کی اور سائرس سے وعدہ کیا کہ ان کے جانشین اس تابناک ماضی کی وراثت کا صحیح طور پر حق ادا کریں گے۔ پہلی شام کو شاہ نے مہمانوں کو پرتعیش ضیافت دی۔ یہ بندوبست بڑے خیمے میں کیا گیا تھا۔ یہاں کے فانوس اور سونے کا ملمع چڑھائی گئی کٹلری ایک صدی پہلے کے کسی یورپی دربار کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ کھانے کو 70 میٹر لمبی سانپ کی طرح بل کھاتی ایک میز پر پیش کیا گیا۔ اس کا میزپوش سینے میں 125 خواتین نے چھ ماہ تک کام کیا تھا۔ عام مہمانوں، جیسے کہ سفیر یا سربراہان کے ساتھ آئے وفود کے لیے خیمے میں الگ چھوٹی میزیں تھیں۔ مشرق و مغرب، کمیونسٹ اور کیپیٹلسٹ، ترقی یافتہ اور ترقی پزیر، بادشاہتیں، سابق کالونیاں، سب کھانے پر اکٹھے تھے۔ مینو فارسی اور فرنچ میں لکھا تھا۔ اس میں جو چیزیں پکائی گئی تھیں، وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ ثابت مور، جن کو اپنے پروں کے ساتھ پیش کیا گیا، خاص توجہ کا باعث رہے۔ چھ سو مہمانوں کی یہ ضیافت چھ گھنٹے جاری رہی۔ مسلمان اکثریت والے ملک ایران میں الکوحل ناپسند کی جاتی تھی لیکن شاہ کی دعوت میں ڈھائی ہزار شمپین کی بوتلیں، ایک ہزار بورڈو کی بوتلیں، ایک ہزار برگنڈی کی بوتلیں شامل تھیں۔ شیمپین ساٹھ سال پرانی تھی جبکہ کوگنیک 1860 کی تھی۔ ان سب کو بحفاظت رکھنے کے لیے خاص سیلر تعمیر کروایا گیا تھا جہاں چار ہفتے انھیں محفوظ رکھا گیا تھا۔
اس پارٹی میں ہر کوئی تھا لیکن ایرانی نہیں تھے۔ شاہ نے اپنے وزراء کو بھی نہیں بلایا تھا۔ صرف چند لوگ جو انتظامی امور دیکھ رہے تھے، موجود تھے۔ اگلے روز بڑا ایونٹ تھا۔ اس میں فارس کی عظیم سلطنت کے ڈھائی ہزار سال دکھانے کا شو ہوا۔ ایران کے پونے دو ہزار فوجیوں اور سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس کی تفصیلات پر بہت توجہ دی گی تھی کہ تاریخ دکھانے میں ٹھیک ماحول پیدا کیا جائے۔ ہر دور کے اپنے کاسٹیوم، داڑھیاں، وگ، یونیفارم، سواریاں، ہتھیار، جنگی جہاز، ٹوپیاں۔ یہ سب بنانے کے لیے ملٹری مورخین کے ملٹی نیشنل ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ تہران کی ملٹری ورک شاپ نے کئی طرح کے کاسٹیوم بنائے تھے۔ قدیم باجے اور بھولے بسرے موسیقی کے آلات بنائے گئے تا کہ وہ آوازیں صحرا میں گونجیں جو صدیوں سے نہں سنی گئی تھیں۔ زورکسس کے تین قدیم بحری جہازوں کے ریپلیکا بھی تیار کیے گئے۔ غروبِ آفتاب کے بعد فارس کی تاروں بھری رات میں روشنی اور آوازوں کی پرفارمنس مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اس میں مختلف فارسی حکمرانوں کی آوازوں میں فارس کے تابناک ماضی کو یاد کیا گیا۔ اور آخر میں آتشبازی کے شاندار مظاہرے کے ساتھ روشن ہونے والے آسمان کے بعد تقریب اختتام پزیر ہوئی۔
تیسرے روز وی آئی پیز کو تہران لے جایا گیا۔ یہاں پر کچھ پروگرام رکھے گئے تھے جس میں شاہِ ایران کی یاد میں تعمیر کردہ شاہ یاد ٹاور کی افتتاحی تقریب بھی تھی۔ تقریب خود میں بہت کامیاب شو رہا۔ شاہ نے دنیا کو دکھایا کہ پارٹی کیسے کی جاتی ہے۔ ملکہ فرح کے لباس اور زیور دنیا بھر کی خبروں میں رہے۔ ایک اور مشہور موضوع ایتھیوپیا کے بادشاہ کا پالتو کتا تھا جس کا ہیروں جڑا پٹہ کئی ملکاوٗں کے زیورات سے زیادہ قیمتی تھا۔ دنیا کے ہر میگیزین میں اس پارٹی کو بڑی کوریج ملی۔ “دعوتوں کی ماں”، “صدی کی سب سے بڑی تقریب” جیسے عنوانات دئے گئے۔ کچھ دیر ایران میں بھی اس کے کامیاب انعقاد کی خوشیاں منائی گئیں۔ ایرانی ٹی وی سکرین پر شاہ کو دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے ملنے والی عزت دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ لیکن یہ سب زیادہ دیر نہیں رہا اور ایران کے اندر ان شاہ خرچیوں پر اعتراضات سامنے آنے لگے
۔آیت اللہ خمینی، جو اس وقت عراق میں جلاوطن تھے، نے اس کو “شیطان کی دعوت” کہا۔ اس پارٹی میں استعمال ہونے والی شراب کی تفصیلات، ایرانیوں کی اس میں غیر موجودگی اور تقریب کی تفصیلات عام ایرانیوں کے لیے حیران کن تھیں۔ٹائم میگیزین نے اندازہ دس کروڑ ڈالر (آج 2020ءکے حساب سے 65 کروڑ ڈالر) لگایا۔ فرانس کے پریس نے اس سے دگنی لاگت کا اندازہ لگایا۔ شاہ کی انتظامیہ یہ اعداد سامنے آنے پر اس کی تردید کی اور کہا کہ خرچہ بہت کم ہوا ہے اور صرف ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر (آج کے حساب سے بارہ کروڑ ڈالر) ہے۔ شاہ نے کہا کہ خرچہ تو صرف وہ ہے جو کھانے پر آیا تھا۔ باقی تو ملک میں ہونے والی تعمیرات ہیں۔ اور ساتھ یہ کہ اس پارٹی میں آنے والوں نے جو عطیات دئے ہے اس سے ایران کے دیہاتوں میں تین ہزار سے زائد اسکول بنائے جائیں گے۔ یہ سب نیک مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔
اس تقریب نے شاہ کی عوامی سپورٹ میں بہت کمی کر دی۔ اپوزیشن پارٹیاں، جو نظریاتی اعتبار سے بہت فرق رکھتی تھیں، شاہ کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اس سے تین سال بعد شاہ نے عوام سے معذرت کی اور لوگوں سے معافی طلب کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری غلط فیصلوں، کرپشن اور ظلم کا جاری طریقہ بدلیں گے۔ لیکن تاخیر ہو چکی تھی۔ ایران میں جاری بغاوت کامیاب ہوئی۔ ۔ 1979 میں پہلوی خاندان کو انقلاب کے نتیجے میں ایران چھوڑنا پڑاتقریب کے مقام موجودہ صورت حالتقریب کے بعد خیموں کا شہر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہاں کرائے پر سرکاری اور نجی تقریبات منعقد ہوتیں۔ انقلاب کے دوران اس کو لوٹ لیا گیا۔ اب یہاں پر سڑکیں اور لوہے کی سلاخیں بچی ہیں۔ شاہ یاد مینار کا نام بدل کر آزادی ٹاور رکھ دیا گیا جو اب تہران کا ایک لینڈ مارک ہے ۔ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں