Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
بدھ، 1 مئی، 2024
پیار کا وعدہ ففٹی،ففٹی پار ٹ1
منگل، 30 اپریل، 2024
میں کیا کروں ؟ایک بیٹی کا سوال
کراچی میں کاؤنسلنگ کے کیسز پر کا م کرتے ہوئے بعض بڑے ہی دکھ بھرے کیسز میرے سامنے آئے ،،کاش آج کی لڑکی سمجھ سکے کہ شادی کی اہمیت کیا ہوتی ہے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی ہے سسرال کے ہر ستم کو سہہ جانے کا درس اس کے دل کے ورق 'ورق پر لکھا ہو تو شائد ہمارے معاشرے میں یہ ستم گر داستانیں جنم ہی نالیں
آیئے ایک کہانی ا یک بیٹی کی زبانی سنتے ہیں
میں کیا کروں ؟
میں بیرونِ ملک مقیم ہوں ،یہ میری دوسری شادی ہے ،میرے پہلے شوہر انتہائ خوبرو اور مجھ سے عمر میں صرف دو سال بڑے تھے - وہ ہماری امی کے قریبی عزیز تھے میری ساس بہت ظالم اور انا پرست تھیں اور میرے شوہر ماں کے تابعدار تھے سال پیچھے اللہ نے میری گود بھر دی تب میری ساس نے دھوم دھام سےمیری نومو لود بیٹی کا عقیقہ کیا لیکن میرے ماں باپ تک کو نہیں پوچھا گیا بس اخبار کے ایک ٹکڑے کی ایک پڑیا میں لپیٹ کر عقیقہ کا گوشت بھیج دیا گیا جسے میری امّی نے واپس کر دیا ،،خیر سوا مہینہ کا زچّہ خانہ سسرال میں پورا کر کے مجھے میکہ بھیجا گیا کہ میں اپنے گھر والوں سے مل کر آجاؤں میری امّی کو عقیقہ میں نا بلائے جانے کا غبار تھا سو جب میرے شوہر مجھ سے اور بیٹی سے ملنے آتے امّی ان سے اچھّا برتاؤ نہیں کرتی تھیں-ابھی مجھے آئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ میرے شوہر مجھ سے اور اپنی بیٹی سے ملنے ہمارے گھر آنے لگے اور امّی کی کڑوی باتیں اور ان کا پھیکا رویہّ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے کہا گھر واپس چلو دوسری طرف سے میری ساس بھی میرے شوہر کے کان بھر کر ان کو ہمارے گھر بھیجتی تھیں اس طرح چند روز میں ہی بات بڑھ گئ اور میری امّی نے مجھے سسرال واپس بھیجنے سے انکار کر دیا اور میرے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر دیا
امّی کے جواب میں میرے شوہر نے بھی اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا میری بیٹی مجھے واپس کردو اور میں ابھی خلع نامہ پر سائن کر دیتا ہوں اور میری امّی نے میری گود سے میری سوا مہینے کی بیٹی لے کر میرے شوہر کے حوالے کی اور خلع نامہ پر ان کے دستخط لے لیئے ،میرے جہیز کا تنکا تنکا میرے گھر پر چند روز بعد واپس آ گیا -جب تک جہیز واپس نہیں آیا تھا میرے دل کو ناجانے کیوں یقین نہیں آتا تھا کہ میں طلاق جیسے حادثہ سے گزر چکی لیکن جس دن جہیز واپس آیا مجھےبلکل ایسا لگا کہ میرا جنازہ کسی نے میری قبر سے واپس باہر پھینک دیا ہو مجھے اسی رات سے دورے پڑنے لگے اور میں چیختی ہوئ اٹھ اٹھ کر گھر سے بھاگنے لگی ،میری بیٹی مجھے لا دو،میری بیٹی مجھے لادو ،،پھر میرا نفسیاتی علاج شروع ہوا اور میں برس بھر میں نارمل زندگی میں لوٹ سکی ایسے میں ایک صاحب جو باہر رہتے تھے ان کا رشتہ میرے لئے آیا امّی نے میری مرضی پوچھی میں نے کہا امّی جینا ہی تو ہے تو بس یہاں یا وہاں بات برابر ہے آپ کے سر سے میرا بوجھ اتر جائے گا سو میری شادی اپنے باپ کے برابر اس شخص سے ہو گئ جو پہلے سے ایک 15 برس کے بیٹے کا باپ تھا پھر وہ مجھے بھی باہر لے آیا یہاں بھی ایک ہی سٹریٹ پر بھری پُری انتہائ جھگڑالو سسرال ملی جو میرے شوہر پر حاوی تھی اللہ نے یہاں بھی مجھے اولاد عطا کر دی لیکن میرے شوہر مجھے اٹھتے اور بیٹھتے طعنہ دیتے ہیں کہ تم کتنی ظالم عورت ہو اپنی ننھی بچّی کو کتنے آرام سے جدا کر دیا مجھے تمھارا قطعئ اعتبار نہیں کل کلاں کو میرے بچّے بھی میرے حوالے کر کے چلتی بنو گی ،
لڑکی نے بتا یا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میرے موجودہ شوہر میرے ماں باپ کو ہر دوسرے تیسرے دن کال کر کے انہیں زہنی ازّیت پہنچانے کو کہتے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو جہاز میں بٹھا رہا ہوں طلاق نامہ گھر پر مل جائے گا میری بوڑھی ماں میرا بیمار اور ضعیف باپ ان کے دلوں پر ایسی کالز سن کر کیا گزرتی ہو گیپھر اس نے کہا آنٹی یقین جانئے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ میں اپنے شوہر کی طعنہ زنی سے بچنے کو کہاں جاؤں -میں نے لڑکی کو کچھ نصحتیں کیں اور روحانی علاج میں سورہء نساء پڑھنے کی تاکید کی اور گھر میں ہر پکنے والے کھانے پر یا ودودُ پڑھ کر دم کرنے کو کہا -کچھ مہینوں بعد لڑکی جب کراچی آئ تب ا مجھ سے بھی ملنے آئ اوراس نے بتایا کہ اس کی زندگی میں کلام الٰہی کی بر کت سے یہ تبدیلی آئ کہ وہ ماں کی بیماری پر کراچی آسکی ہے اور اس کے شوہر نے اسے خود سے بھیجا -پھر اس نے مجھے بتایا کہ سورہء نساء پڑھنے کی برکت سے شوہر کا دل موم ہو گیا ہے اوراب وہ ازیّت بھری باتیں بھی نہیں کرتے ہیں،،میں نے لڑکی کی باتوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس سے کہا تم اپنے سماج کو اپنی زندگی کے اس تلخ تجربہ سے کیا پیغام دو گی: توو ہ کہنے لگی شادی کے بعد ہر لڑکی بس یہ سمجھ لے کہ میکہ اس کی شادی کے بعد کہیں ایسی جگہ ہجرت کر گیا جہان تک اس کی سسرال کی شکایات کی رسائ ناممکن ہےتبھی لڑکی اپنا گھر بسا سکتی ہے ،
میں اپنی زندگی کے اجڑنے کی زمّہ دار اپنی ماں سے شکایات کرنے کو ٹہراتی ہوں اور ساتھ ہی اپنی امّی کو بھی پورا پورا قصوروار کہتی ہوں کہ انہوں نے میری شکایات کرتے رہنے کی حوصلہ افزائ کیوں کی مجھے سمجھایا کیوں نہیں کہ ہر لڑکی کو انہی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہےاور اس پر ستم یہ کیا میری ماں نے کہ میری گود سے میری لختِ جگر چھین کر مجھے شوہر سے طلاق دلوائ ، میری امّی چاہتیں تو مجھے سمجھا سکتی تھیں کہ ہر لڑکی اپنی شادی شدہ زندگی کےابتدائ برس ا سی طرح مرتے جیتے گزارتی ہے اس لئے تم بھی گزارو ،لڑکی خاموش ہو گئ اور کہانی تمام ہو گئ اور میرے اپنے دل پرگہرا اثر چھو ڑگئ- ننھی بچّی نے جب اپنی ماں کے سینے پر اترنے والا اپنا دسترخوان ڈھونڈا ہو گا تو کیا ہوا ہو گا-اس کہانی میں لڑکی تمام وقت بولتی رہی تھی اور بہت بولنے والی ماں کے لب بلکل خاموش تھے اور نظریں زمین پر جھکی رہی تھیں
پیر، 29 اپریل، 2024
ایک گوہر نایاب'حمایت علی شاعر
زندگی میں کبھی 'کبھی اتنے خوبصورت اتّفاقات آ جاتے ہیں کہ زہن کے پردے پر تمام عمر ان لمحات کا نقش قائم رہتا ہے-تو ہوا یوں کہ انیس ننانوے کی پہلی سہ ماہی چل رہی تھی اور میں الحمد للہ جنوری اور فروری میں تینوں بچّوں کی شادیوں سے فراغت پا کر بیٹھی تھی کہ میرے والد کا نارتھ ناظم آباد سے فون آیا 'و الد کہ رہے تھے کہ اورنگ آباد سےوحید الحسن بھائ صاحب آئے ہیں اگر تم ملنا چاہو تو آ جاؤ - ابا جان کا فون سن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا -اس وقت بڑی بہو اپنے میکے گئ ہوئ تھی اور چھوٹی میرے پاس تھی میں نے چھوٹی بہو سے کہا کہ بیٹا تم ڈرائور کو بلا کر اپنے میکے چلی جاؤ تو میں اپنے والد کے پاس ہوآؤں -بہو نے جواب دیا آپ اپنے والد کے پاس چلی جائیے میں اکیلے رہ لوں گی -چنانچہ میں اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئ اور اپنے منجھلے تایا سید وحید الحسن عابدی سے ملی -تایا جان بہت دیر مجھے اپنے سینے سے لگائے رہے اور پھر میں نے اپنے تایا جان سے بہت سی باتیں کیں انہوں نے لکھنے کے لئے قلم اور پیپر رکھّا ہوا تھا وہ جو سوال کرتے گئے میں ان کوجواب دیتی گئ اور وہ لکھتے گئے -بچّوں کی تعلیم بہووں کی تعلیم بیٹیوں کی تعلیم دامادوں کی تعلیم انہوں نے تعلیم پوچھی میں تعلیم کے ساتھ عہدے بھی بتاتی گئ اور تایاجان سبحا ن اللہ ماشاللہ کہتے گئے - پھر تایا جان نے مجھ سے کہا کہ ان کو حمائت علی شاعر نے اپنے گھر بلایا ہے -اگر تم چلنا چاہو تو ساتھ چلو اور مین بغیر چوں چرا کے اپنے تایا جان اور والد صاحب کے ہمرا جناب حمائت علی شاعر کے گھر پہنچ گئ -
وہ ملاقات بہت ہی خوبصورت تھی جس میں میرے والد اور حمائت علی شاعر اور میرے تایا جان اپنے بچپن کی باتوں اور شرارتوں کو یاد کر کےدل کھول کر ہنس رہے تھےاسی ملاقات میں مجھے معلوم ہوا کہ درپن اور سنتوش کی فیمیلی بھی انہی کی گلی کی رہائشی تھی -اس ملاقات کے بہانے جناب حماءت علی شاعر نے بہت ہی پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا -اس نشست میں جناب حما ئت علی شاعر اور میرے درمیان شاعری اور ادب لطیف پر بہت سیر حاصل گفتگو ہوئ اور انہوں نے مجھے ہدائت کہ کہ میں نثری ادب یاد رکھوں یا نہیں یاد رکھوں لیکن مجھے اپنی شاعری ضرور یاد رکھنی ہے ملاقات کے اختتام پر انہون نے اور میں نےدوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا 'لیکن جیسا کہ میں نے اوپر زکر کیا کہ حال ہی حال میں بچوں کی شادیا ں ہوئیں تھیں اس لئے میری گھریلو مصروفیات دوچند تھیں اور پھر وہ کینیڈا آ گئے اور میں بھی کینیڈا آ گئ اور ہماری ملاقات کی آرزو تشنہ ہی رہ گئ کیونکہ وہ مسی ساگا میں رہائش پذیر تھے اور میری سکونت ایڈمنٹن میں تھی جس کا فاصلہ
پانچ گھنٹے کی فلائٹ پر ہے-اب کچھ جناب حمائت علی شاعر کے بارے میں
میں نے ا پنے بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ حیدر آباد کی سرزمین چونکہ آتش فشانی ہے اس لئے یہاں پر ہیرے بکثرت پائے جاتے ہیں قارئین کو یاد بھی ہو گا کہ شہرہء آفاق ہیرا کوہ نور بھی سرزمین دکن سے برامد ہوا تھا ،،جب آگے میری عمر نے شعور کی سیڑھِی پر قدم رکھّا اور مجھے زمانہ آ شنائ ملی تب معلوم ہوا کہ سر زمین دکن صرف اپنے تہہ زمین خزانوں میں ہی ہیرے نہیں رکھتی بلکہ اس کے اوپر کی آباد دنیا بھی ہیرے اور جواہرات سے مرصّع ہے جنوبی ہندوستان کے شہرحیدرآباد کے ایک ضلع اورنگ آباد میں ایک میر خاندان سے تعلّق رکھنے والے معزّز فرد سیّد تراب علی کے گھر میں چودہ جولائ سنہء انّیس سو چھبّیس کو ایک بچہ پیدا ہوا جس کا پیدائشی نام حمایت تراب علی رکھّا گیا جو اپنے تخلّص کی بنیا د پر حمائت علی شاعر زبان زد عام ہو گیا ہےجی ہاں تو میں بات کر رہی ہوں اس سرزمین کے شعراء کی جن کا سرا والئ ء دکن قلی قطب شاہ سے شروع ہو ا اور پھر اس قافلے نے اپنا سفر روکا نہیں ہجرت کے قافلے میں شامل ہو کر ہندوستان سے لے کر پاکستان کی سر زمین تک حمائت علی شاعر بن کر محیط ہو گیا ' انہوں نے پاکستان کی سر زمین پر اپنی لیاقت اور ہونہاری کے جھنڈے گاڑے-
2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔ گیت نگار اسکرپٹ رائٹر،لاتعداد فِلمی گیتوں کے خالق ، ڈرامہ نگار، ہدایت کار، فلم ساز اور نا جانے کتنے گن جو میری رسائ میں نہیں آ سکے ہیں جبکہ ان کی نثری تصانیف"شیخ ایاز" شخص وعکس کھلتے کنول سے لوگ 'بنگال سے کوریا تک نے اردو بینوں میں بہت پذیرائ ملی مشاعروں میں ان کی خوش الحانی اور ترنّم کا جداگانہ اور دل کو موہ لینے والا انداز لوگ ابھی تک یاد کرتے ہیں انہوں نے روایات سے انحراف بھی نہیں کیا اور معاشرے کی دھڑکتی ہوئ نبض کو بھی سنبھالے رکھاوہ لاتعداد تصانیف کے مصنّف ہیں اور ان کی کئ تصانیف کے کئ کئ ایڈیشن چھپتے رہے قرض تشنگی کا سفر آگ میں پھول ، حرف حرف روشنی شکست آرزو د چراغ محفل (مختلف شعرا کے کلام)، عقیدت کا سفر (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)،آئینہ در آئینہ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)،، کھلتے کنول سے لوگ(دکنی شعرا کا تذکرہ)،ہارون کی آواز (نظمیں اور غزلیں)، تجھ کو معلوم نہیں(فلمی نغمات) محبتوں کے سفیر(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا
۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازامحترم حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد درس دیا اور اس کے بعد ریڈیو سے بھی اپنے ہنر کا لوہا منوایا ۔جب وہ بحیثیت استاد کے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے طالبعلموں کو صرف زیورعلم نہیں دیا بلکہ درس انسانیت سے بھی بہرہ مند کیا جب انہوں فلمی گیت لکھے تو گیتوں کے بول دل کی گہرائ میں ثبت ہو گئےجب وہ ہدائت کار بنے تو ہیرے تراش کر سماج کو دے دئے مشاعروں میں بلائے گئے تو اسٹیج پر ان کے آنے سے مجمع دم بخود ہو کر سنتا رہا اور سر دُھنتا رہا انہوں نے شاعری کو سخن ملبوس دے دیا اور وہ بیسویں صدی کا ترنّم آمیز دور بن گئے ہجرت کے بعد پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور اب مستقلاً کینیڈا میں آباد ہیں۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔میں نے جب یہ مضمون لکھا تھا وہ حیات تھے-'اللہ انکو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے -آمین
ہفتہ، 27 اپریل، 2024
ڈاؤن سنڈروم-وجوہات
دورانِ حمل ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہونے پر 90 فیصد خواتین اسقاطِ حمل کا انتخاب کرتی ہیں، جو پیدائش تک قانونی ہے۔ لیکن اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ متوقع والدین کو فرسودہ مشورے اور اسقاطِ حمل کی ترغیب دی جاتی ہے۔بی بی سی نے تین ماؤں سے بات کی جو چاہتی ہیں کہ نظام بدلا جائے۔’مدد صرف اس صورت میں موجود تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی‘جیکسن بک ماسٹر ایک عام سا چھ سالہ لڑکا ہے۔ جسے تیراکی، کاریں، ڈایناسور، مکی ماؤس اور اپنے میوزیکل تھیٹر گروپ کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرنا پسند ہے۔پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں’ایک چھوٹا سا مزاح نگار‘ کہا جاتا ہے جس سے مل کر کچھ حد تک ’شرارتی مزاح‘ کا احساس ہوتا ہے۔جیکسن ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جیکسن میں ایک اضافی کروموزوم موجود ہے اور انھیں سیکھنے میں معذوری کا سامنا ہے۔لورین کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے جیکسن کا اسقاطِ حمل کروانے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا
ان کی والدہ لورین کا کہنا ہے کہ ’جیکسن کو کسی کام کو مکمل کرنے زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن ہم اس چیز کو بہت زیادہ مناتے ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے یہ ایک کامیابی ہے۔‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہے۔اسی لیے لیے اب ملٹن کینس میں رہنے والی لورین سمجھ نہیں پا رہیں کہ جب وہ حاملہ تھیں تو دائیاں ان کی حالت کے متعلق اتنا منفی رویہ کیوں رکھتیں تھیں۔ان کی عمر کی وجہ سے اضافی سکریننگ اور بلڈ ٹیسٹ کروانے پر رضامندی کے بعد انھیں پتہ چلا کہ جیکسن کو ڈاؤن سنڈروم ہوسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں ’اس وقت میں 45 سال کی تھی اور میں جانتی تھی کہ خطرہ ہے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دائی نے کہا کہ ہمیں سکرین پر جیکسن کو دیکھنے کے لیے زیادہ وقت چاہیے لہذا ہم نے ایسا ہی کیا۔‘
سونوگرافر نے وضاحت کی کہ اگر بچے نے اس حالت کو ظاہر کیا تو اگلا قدم امونیوسنٹیسیس ہوگا، ایک ایسا ٹیسٹ جس میں اسقاط حمل کا تھوڑا سا امکان ہو سکتا ہے۔میں نے کہا نہیں، ہمیں اس میں دلچسپی نہیں ہوگی، کیونکہ ہم نے پچھلے سال ایک بچہ کھو دیا تھا۔ وہ بہت غصے میں تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسی عورتیں مجھے پسند نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتیں تو سکریننگ کرنے کی زحمت کیوں کی؟‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہےبعد میں ایک دایہ نے فون کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت افسوس ہے‘ لیکن ان کے پاس ’واقعی بری خبر‘ تھی۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بچے میں ڈاؤن سنڈروم ہونے کا پانچ میں سے ایک امکان موجود ہے۔لورین اور اس کے شوہر مارک نے مزید جانچ کرانے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے بچے کو دنیا میں لانا چاہتے تھے، چاہے وہ جیسا بھی ہو۔لورین کا مزید کہنا ہے کہ ’مدد صرف اسی صورت میں میسر تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی، لیکن جب میں نے کہا کہ میں جیکسن کو جنم دینا چاہتی ہوں تو ان کو کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔‘
جیکسن اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے-جیکسن کی پیدائش کے وقت ہی اس میں ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہو گئی تھی اور لورین کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دوسرے بچے جیکسن سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس بات پر آپس میں لڑتے ہیں کہ بڑے ہونے پر ان میں سے جیکسن کی دیکھ بھال کون کرے گا۔وہ کہتی ہیں ’میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی ہو اور وہ نوکری کرے اور اس کا نارمل مستقبل ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اسے ہمیشہ مدد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں واقعتاً یقین ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے گا۔ وہ ایک شو مین اور ایک بہترین انٹرٹینر ہے اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سٹیج تک پہنچے گا۔‘’38ویں ہفتے میں مجھے بتایا گیا کہ میں اب بھی اسقاطِ حمل کروا سکتی ہوں‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی جیمی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہےپورے نو ماہ کے حمل کے دوران ایما میلر نے اپنی بیٹی جیمی کا اسقاطِ حمل کروانے کا دباؤ محسوس کیا۔ اس وقت 24 سال کی عمر میں ان کا اپنے شوہر سٹیو سے پہلے ہی ایک جوان بیٹا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’پوری ایمانداری کے ساتھ بتاؤں تو ہمیں 15 مرتبہ اسقاطِ حمل کا مشورہ دیا گیا، اگرچہ ہم نے یہ واضح کردیا تھا کہ ہمارے لیے یہ کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن وہ دباؤ ڈالتے رہے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے تھے کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں۔‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہے۔’اسی لمحے انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں اور ہمیں کہا گیا کہ سوچیں آپ کے بیٹے اور اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘ن کا بیٹا لوگن اس وقت سرجری کروانے کے لیے منتظر مریضوں کی فہرست میں تھا۔ لوگن دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔38ویں ہفتے میں ڈاکٹروں نے واضح کر دیا کہ اگر کسی دن صبح اٹھنے پر میرا ارادہ بدل جائے تو میں انھیں بتاؤں کیونکہ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی‘ایما کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ اپنے بیٹے کے ٹھیک ہونے کے منتظر تھے، اپنی بیٹی کی دھڑکن کو روکنے کے لیے دل میں انجیکشن لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں (یہ 22 ہفتے ختم ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کا تجویز کردہ طریقہ ہے)۔’اس چیز نے ہمیں درست فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے لیا ہے-
جمعہ، 26 اپریل، 2024
پاکستان کی زراعت میں نہروں کا کردار
تقسیم سے پہلے برصغیر کا بڑا حصہ زراعت کے لیے بارشوں پر انحصار کرتا تھا۔ انگریز نے دیکھا کہ گلیات کے پہاڑوں سے اترائ کی زمین پر بارشوں کا تناسب گھٹتا جاتا ہے اور یہاں کی زمین زرخیز ہونے کے باوجود بڑی حد تک بیابان کا منظر پیش کرتی ہے اس لیے انہوں نے ان علاقوں کو آباد کاری کا فیصلہ کیا ان کے جیا لوجیکل ماہرین نے سروے کر کے بتایا کہ اس علاقے میں نہریں آسانی سے کھودی جا سکتی ہیں، کیوں کہ پوٹھوہار کے بعد ایک بتدریج ڈھلوان ہے جو سندھ تک چلی گئی ہے۔ ویسے تو اکا دکا نہریں چھوٹے پیمانے پر کھودنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا مگر باقاعدہ نہری نظام کا آغاز 1886 میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں ملتان کے قریب سدھنائی نہر کھودی۔یہ صرف نہر ہی نہیں تھی بلکہ اس سے جو علاقہ سیراب ہوا، وہاں دوسرے علاقوں سے 2705 کسانوں کو لا کر ان میں پونے دو لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ اراضی تقسیم کی گئی۔ اس طرح یہ صرف زرعی نہیں بلکہ سماجی منصوبہ بھی تھااس کے بعد سہاگ پاڑا، چونیاں، چناب، جہلم، لوئر باری دوآب، اپر چناب، اپر جہلم، اور نیلی بار میں لاکھوں ایکڑ سیراب کر کے وہاں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔ان نہروں سے پہلے پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھا کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر لے گئے۔ یہ سارا کام جدید مشینری اور بلڈوزروں کے بغیر بیلچوں، اورگھریلو اوزاروں اور مزدوروں کے ذریعے کیا گیا
قدرتی حسن سے مزیں یہاں، دریا، ندی ،پہاڑ،صحرااورکہیں کہیں تو چپے چپے پہ جھیلیں ، جنگلا ت سر سبز وشاداب نظارے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم کچھ عرصہ سے پانی کی کمی وجہ سے سرسبزہریالی اور زراعت کی کھیتی باڑی پربڑا اثر پڑا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے۔دوسری جانب1960میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہواتھا۔ اس حوالے سے پاکستان کے تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، جن میں ستلج ، بیاس اور راوی جبکہ دریائے سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے تھے۔
ان دریاؤں پر دونوں ممالک کوڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ ادھر بھارت نے پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں پربھی ڈیم بنانا شروع کر دیئے ، کشن گنگا ڈیم اس کی کڑی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے پانی کی تقسیم کے بارے عداوت چلتی رہی ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی بند کر دیا تھا۔جس سے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور نہری نظام پر بڑااثرا پڑا۔مذکورہ علاقوں میں پانی کی کمی ہوگئی، بھارت اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان نے کئی بار عالمی سطح پر اس کی شکایات بھی کی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں ضامن کا کردار ورلڈبینک نے ادا کیا تھا۔بھارت نے پانی بند کیا تو پاکستان نے اس مسئلے کے لئے ثالثی عدالت کے قیام جبکہ بھارت نے اس سے فراریت اختیار کی۔تاہم عالمی بینک کے مرکزمیں ہونے والے مذاکرا ت میں بھارت اعتراضات اورتحفظات کو دور نہیں کر سکا اور عالمی بینک کو بھی مطمئن نہیں کر سکا حالانکہ یہ ایک بڑا معاہدہ ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس کی پاسداری رکھی اور اسے مقدم جانا۔ویسے بین الاقوامی اصول کے تحت دنیا میں اوپری حصے والے ممالک نیچے والے ملکوں کو پانی دیں گے اور یہ قدرت کا نظام ہے کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب جاتاہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دریاؤں میں پانی اوپری سطح سے بھارت، کشمیر اورتبت کے مقام سے آتاہے۔ ان آنے والے دریاؤں میں پانی کو یہاں نہری نظام اور ندی نالوں کے ذریعے باغات ،کھیتی باڑی اور پینے کے لئے بھی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ نہری نظام پر مشتمل علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب ہینڈ پمپ اور اس پر واٹرموٹر رکھ کر پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ پانی کی وافرمقدار بنجر زمین کو آباد کرتی ہے، اس سے غذائی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل ہو اجاتا ہے۔ اسی طرح ملکی پیداوار ، زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ افراط زر کا خاتمہ بھی پیداوارمیں اضافے سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن بھارت آئے دن پاکستانی دریاو ں پر بند باندھ کر پاکستان کو خشک سالی سے ددو چار کرتا رہتا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیںکہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے-پاکستان میں اس وقت اور مستقبل میں پانی کے بحران سے بچنے کا واحد حل نئے ڈیم بنانا ہیں تاکہ سیلابی پانی کو زخیرہ کیا جاسکے
جمعرات، 25 اپریل، 2024
ایک جری لیڈر ابراہیم رئیسی
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر پیر کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
جناب ابراہیم رئیسی کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا زہن ماضی کے ایران میں جاپہنچا اور میں نے سوچا اگر ایرانی عوام نے شاہ ایران سے نجات پانے کے لئے جہاد کا فریضہ انجام نا دیا ہوتا تو اس وقت ایرانی عوام کی سانسوں کی ڈور بھی ان قو توں کے ہاتھ میں ہوتی جو اپنی مرضی سے ایرانی عو ام کو سانس لینے اجازت دیتے اور زرا سی حکم عدولی پر ڈور کھینچ کر ایرانی عوام کا دم گھونٹ دیا کرتے --آج ایران ایک باحمیت قوم کی طرح سر اٹھا کے کھڑی ہے جس کے راہبرجری اور باغیرت افراد ہیں -آئے ان کے آج کے را ہبرکے بارے میں جانتے ہیں ست دان، مسلم فقیہ، ایران کے چیف جسٹس ، اور صدر ایران کے صدر ہیں، جو 2021 کے ایرانی صدارتی انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ایران کے عدالتی نظام میں متعدد عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جیسے اٹارنی جنرل (2014–2016) اور ڈپٹی چیف جسٹس (2004–2014)۔ وہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تہران کے پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر بھی رہے تھے۔ وہ سنہ 2016 سے 2019 تک آستانہ قدسیہ کےکسٹوڈین اور چیئرمین تھے۔ وہ جنوبی خراسان صوبہ سے ماہرین اسمبلی کے رکن بھی ہیں، 2006 کے انتخابات میں پہلی بار منتخب ہوئے
سنہ 2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے ہیں۔شاہ ایران کی معزولی کے بعد انقلاب اسلامی سریر آرائے سلطنت ہوا تو ساری دنیا نے انقلاب ایران کے مظالم کا نیا چہرہ دیکھا - ساری دنیا میں پھانسیوں کا شہرہ ہوا اور پھر تطہیر کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایرانی عوام کی دولت انہی پر خرچ ہونے لگی پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق 22 سے 24 اپریل تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران صدر رئیسی پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم کے علاوہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ دورے کے دوران ایرانی صدر اور ان کا وفد کراچی اور لاہور میں صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں سے بھی ملے گا۔ایرانی صدر پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے اور اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی اس وقت تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں قرار دیا گیا تھا۔
اعدلیہ میں شمولیت اور پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدماتابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔شیعہ روایت کے مطابق اُن کا سیاہ عمامہ اُن کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔
’ڈیتھ کمیٹی‘ کا حصہ -رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے ہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔چند برس قبل ابراہیم رئیسی، عدلیہ کے کئی دیگر ارکان اور اُس وقت کے نائب سپریم لیڈر آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی۔اس میں منتظری کو سزائے موت کو ’اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جرم‘ قرار دیتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے۔ایک سال بعد منتظری نے خمینی کے نامزد کردہ جانشین کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا اور خمینی کی وفات پر آیت اللہ خامنہ ای سپریم لیڈر بن گئے۔ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔دو سال بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’ آستانہ قدسیہ رضویہ‘ کا نگہبان نامزد کیا تھا۔یہ تنظیم مشہد میں آٹھویں شیعہ امام امام رضا کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ امریکہ کے مطابق اس تنظیم کا تعمیرات، زراعت، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔2017
میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔’کرپشن مخالف جنگجو‘رئیسی نے خود کو ایک ’کرپشن مخالف جنگجو‘ کے طور پر پیش کیا تھا لیکن صدر نے ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے عدلیہ کے نائب سربراہ کی حیثیت سے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ سنہ 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔اس نقصان نے رئیسی کی شبیہہ کو داغدار نہیں کیا اور سنہ 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔
بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تاہم ایران اب بھی چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا۔اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رئیسی پر سنہ 2019 میں ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کرتے ہیں ‘لیکن تمام تر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایران اپنے جری رہبران قوم کے ہمراہ ترقی کی زریں مثالی ملک ہے
بدھ، 24 اپریل، 2024
برمودہ مثلث 'ایک معمہ
اس --اللہ پاک قران پاک میں فر ما رہا ہے -تم میں سے کوئ نہیں جانتا ہے کہ کون کہاں مرےگا اور کون کہاں گڑے گا -قران کریم کی اس روشنی میں ہم برمودہ مثلث کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہاں قدرت کے کسی اسرار کے تھت بڑے بڑے دیو ہیکل جہاز اور بڑے بڑے طیارے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر سمندر کی اتاہ گہرائیوں میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے تو پھر وہ جاتے کہاں ہیں؟ اور ان میں موجود افراد کس جگہ جا کر دفن ہو جاتے ہیں -اس خطے میں بحری جہازوں کے غائب ہونے واقعات کی کہانیاں 19 ویں صدی کے وسط میں پھیلنا شروع ہوئیں جبکہ کچھ جہازوں کو مکمل طور پر خالی دریافت کیا گیا جس کی وجہ سامنے نہیں آسکی۔مگر اس کو شہرت دسمبر 1945 میں اس وقت ملی جب امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 جو کہ 5 یو تارپیڈو بمبارطیاروں پر مشتمل تھی، اٹلانٹک میں معمول کے مشن پر نکلی اور غائب ہوگئی، طیاروں کا ملبی یا عملےکے 14 ارکان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔لوگوں کے تجسس میں مزید اس وقت اضافہ ہوا جب یہ رپورٹس سامنے آئی کہ اس فلائٹ مشن کو ڈھونڈنے والے طیاروں میں سے ایک بھی غائب ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا بحریہ کا یو ایس ایس سائیکلوپ بھی اس خطے میں 1918 میں گم ہوگیا تھا جس کا سراغ نہیں ملا، مگر اس وقت لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، حالانکہ اس کے ساتھ 300 افراد بھی غائب ہوگئے تھے۔اس کے بعد مضامین اور کتابیں جیسے چارلس برلیٹز کی 1974 میں شائع کتاب دی برمودا ٹرائی اینگل نے اس خطے کو دنیا بھر میں شہرت دلا دی، اس کتاب کی 30 زبانوں میں 2 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں
سائنسدانوں نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں توہمات کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور بحری و فضائی جہازوں کے غائب ہونے پر مختلف خیالات پیش کیے۔مثال کے طور پر 2016 میں کولوراڈو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس راز کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم' کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔سائنسدانوں نے ناسا کے سیٹلائیٹ کا استعمال کرتے ہوئے اس خطے کا ڈیٹا اکھٹا کیا اور شش پہلو بادلوں کو دریافت کیا جو کہ 32 اور 88 کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بادل انتہائی غیر معمولی ہیں ' آپ عام طور پر بادلوں کے ایسے کونے نہیں دیکھتے'۔انہوں نے مزید بتایا ' اس طرح کے بادل سمندر کے اوپر ہوائی بموں کی طرح کام کرتے ہیں، وہ ہوا کے دھماکے کرتے ہیں اور نیچے آکر سمندر سے ٹکرا کر ایسی لہریں پیدا کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ بلند ہوتی ہیں'۔اسی سال ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی نے خیال پیش کیا تھا کہ سمندری تہہ میں موجود میتھین یا قدرتی گیس کی موجودگی اس معمے کے پیچھے ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس گیس کا اچانک اخراج جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے باعث ہی طیارے اور جہاز غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ گیس ہوا میں داخل ہوکر طوفانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے جس سے طیارے گرجاتے ہیں۔دوسری جانب 2017 میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کارل کروزن لینسکی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سمندری خطے میں متعدد بحری جہازوں اور طیاروں کے بغیر کسی سراغ کے غائب ہونے کے پیچھے خلائی مخلق یا اٹلانٹس کے گمشدہ شہر کے فائر کرسٹلز کا ہاتھ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیاں ماورائی نہیں بلکہ خراب موسم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں اور اگر اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر جگہ اس طرح بحری اور ہوائی جہاز غائب اتنی تعداد میں ہی غائب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمندری تکون 5 لاکھ اسکوائر میل رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہاں بہت زیادہ سمندری ٹریفک ہوتی ہے۔ان کے بقول جب آپ وہاں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دیگر سمندری خطوں کے مقابلے میں اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں۔اسٹریلین سائنسدان کے مطابق امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 کا واقعہ خراب موسم اور انسانی غلطی کے باعث پیش آیا تھا جس کا عملہ بھی نشے میں دھت تھا۔2018 میں برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس سمندری تکون کا راز وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔
تحقیقی ٹیم کا ماننا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا،542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک غیرمصدقہ رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں ان کی آباد کاری کی
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...