اللہ تعالیٰ ملکہ بلقیس کی ماں جنّات میں سے تھی: ملکۂ سبا کا نام تاریخی کتب میں ’’بلقیس بنتِ شراحیل‘‘۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ بلقیس کے باپ، دادا ملکِ یمن کے بادشاہ تھے۔ روایت کے مطابق ۔ اُن کے باپ نے ایک جن عورت سے شادی کی تھی، جس کا نام ’’بلعمہ بنتِ شیعان‘‘ تھا۔ اس کے بطن سے بلقیس پیدا ہوئیں-اللہ تعالیٰ نے ملکہ بلقیس کو وسیع مملکت، شان و شوکت، مال و دولت، ہیرے جوہرات کے علاوہ خوب حسن و جمال بھی عطا فرمایا تھا۔ ۔ اُن کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی۔ بعض نے لکھا کہ مجوسی تھے، جو آگ سمیت ہر روشنی کی پرستش کرتے ہیں۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع، صفحہ 559)۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔
انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔ بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ (بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار، 72/6)۔
چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’
اللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔
قومِ سبا پر تیرہ انبیاء کا نزول: ’’سبا، یمن کے بادشاہوں اور اُس ملک کے باشندوں کا لقب ہے۔ ملکہ بلقیس بھی اُسی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو بے حساب رزق اور آرام و آسائش کے تمام اسباب مہیّا فرمانے کے علاوہ اپنے تیرہ انبیاء کا نزول بھی فرمایا، تاکہ یہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار، احکام کی اطاعت کریں اور نعمتوں، انعام و اکرام اور کا شکر ادا کرتے رہیں، لیکن وہ لوگ اپنی غفلت و نافرمانی سے باز نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سیلاب کا عذاب نازل فرمایا، جس نے اُن کے شہر اور باغات سمیت ہر چیز کو ویران و برباد کردیا۔‘‘ امام احمد بن حنبل، حضرت عبداللہ بن عباسؐ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’سبا، جس کا قرآن میں ذکر ہے، وہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصّے کا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ ایک مرد کا نام ہے، جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے۔ جن میں سے چھے یمن میں آباد رہے اور چار ملکِ شام چلے گئے۔‘ دنیا کی سب سے مال دار قوم: سبا کا اصل نام عبدشمس (بندئہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ قومِ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی۔ جس کا دارالحکومت مآرب تھا، جو موجودہ یمن کے دارالسلطنت ’’صنعاء‘‘ سے55میل بجانب شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج 1100 قبل مسیح سے شروع ہوا اورلگ بھگ ایک ہزار برس تک عرب میں اس کی عظمت کے ڈنکے بجتے رہے۔ لیکن ان کی نافرمانی کے سبب اللہ تعالیؑ نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیج کر انہیں ڈبو مارا-