اتوار، 24 دسمبر، 2023

کالے پانی کے قیدی -حصہ اول

 


   تجارت کے نام پر آئے  ہوئے اغیار نے جب  ہندوستان کے اندر ادرونی ریشہ دوانیا ں دیکھیں  تو کہیں لہو لعب میں ڈوبے  مست راجاؤ ں کے شب و روز دیکھے جن کو اپنے حرم سراؤں میں  اطلس کمخواب کے لبادوں  میں ملبوس  دوشیزاؤں  کے    قدموں میں بیٹھے دیکھا  تب انہوں نے مناسب موقع دیکھ کر  محلات کی ایک ایک اینٹ گرانی شروع کی اور بالاآخر محل سرا کے تخت شاہی سے بادشاہوں کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر نکال پھینکااور پھر آقا اور غلا موں کے رشتے بدل گئے  آنے  والے آقا  بن گئے مستی میں مدہوش آقا غلام بن گئے  اور پھر ڈھائ سو برس کے بعد غلاموں کو احساس جاگا کہ  کہ بدیسیوں سے نجات حاصل کی جائے لیکن یہ اتنا آسان تو نہیں تھا -شیر کے منہ کو خون لگ چکا تھا -چناچہ بغات شروع ہوئ  اس افتاد کے لئے  آقا تیار نہیں تھےاس لئے اس غیر  متوقع بغاوت کے بعد آقاؤں نے  اپنے نو آبادیاتی غلاموں کے اورباغیوں کے لیے تعزیری  سزاوں کا انتخاب کیا  پھانسیوں، گولیوں اور توپوں سے انقلابیوں کی جانیں لی گئیں۔ عمر قید بھی دی گئی مگر کسی دور دراز مقام پر ایک تعزیری بستی یا قیدیوں کی کالونی کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ انگریزوں کے ’باغی‘ پھر سے بغاوت یا مزاحمت نہ کر سکیں۔چنانچہ  نظر انتخاب جزائر انڈمان پر گئی۔‘
یہ جزائر کیچڑ سے بھرے تھے۔ یہاں مچھر، خطرناک سانپ بچھووں، جونکوں اور بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔سب سے پہلےفوجی ڈاکٹر اور آگرہ جیل کے وارڈن جے پی واکر اور جیلر ڈیوڈ بیری کی نگرانی میں ’ 200باغیوں‘ کو لے کر پہلا قافلہ 10 مارچ سنہ 1858 کو ایک چھوٹے جنگی جہاز میں وہاں پہنچا۔ پھر کراچی سے مزید 733 قیدی یہاں لائے گئے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ۔ اس وقت یہ جزائر گھنے جنگلات کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دُوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،ا

نڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی،لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں ۔  اس زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو۔

 انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ 1759 ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے200قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔کالے پانی کی جیل بنانے کے لئے  آئ لینڈ کا رقبہ محض صفر اعشاریہ تین سکوائر کلومیٹر تھا۔ اس کو تعزیری جزیرے کے لی سب سے پہلے چنا گیا کیونکہ یہاں پر پانی موجود تھا۔ اس جزیرے پر گھنے جنگل کو صاف کرنے کا مشکل کام سزا یافتہ باغیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ برطانوی آفیسر بحری جہازوں ہی پر رہے۔آبادکاری کے کھنڈر-ان جزیروں میں سے ایک جزیرہ روس آئی لینڈ ہے۔ یہ ماضی میں ایک قصبہ تھا جہاں 19 ویں صدی کے برطانوی آبادکاری کے نشانیاں اب کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اس جزیرے کو 40 کی دہائی میں ترک کیا گیا  ۔ شاندار مکانات، بڑا چرچ اورقبرستان ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہیں۔

خلیج بنگال میں واقع انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزائر 572 جزیروں پرمشتمل ہیں جن میں سے صرف 38 پر آبادی ہے۔ یہ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر انڈمان نکوبار کہلاتا تھا اور جزیرے فاصلے کے حساب سے انڈیا کی بہ نسبت جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی اور جنگلات کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن دلکش نظاروں کے علاوہ ان کا سیاہ ماضی ہے۔انڈمان و نکوبار بھارت کی مرکزی زیرِ انتظام علاقہ جات ہیں۔ یہ جزیروں پر مشتمل ہے اور خلیج بنگال میں واقع ہے۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تامل،ملیالم اور انڈمانی زبانیں بولے جاتے ہیں۔1995ء میں ہوائی جہاز سے لی گئی تصویر جس میں انڈمان کے بیرن جزیرے میں موجود آتش فشاں سے دھواں نکل رہا ہے-جنوبی ایشیا میں صرف انڈمان وہ جگہ ہے جہاں زندہ آتش فشاں پایا جاتا ہے۔ماضی کی بدنام ترین جیل کالا پانی انڈمان میں ہی واقع ہے اور برطانوی استعمار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ان جزائر میں ملیریا بہت عام ہے-
تعزیری کالونی کے وسیع ہونے کے ساتھ سزا یافتہ باغیوں کو قریبی جزیروں پر تعمیر کیے گئے جیلوں اور بیرکس میں رکھا گیا۔ روس آئی لینڈ پر انتظامی ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افسران اور ان کے اہل خانہ کی رہائش گاہیں بھی بنائی گئی تھیں۔کیونکہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث شرح اموات بہت زیادہ تھی اس لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ روس آئی لینڈ کو رہنے کے لیے اچھا جگہ بنایا جائے۔ اعلیٰ فرنیچر سے سجے ہوئے شاندار محلات، بڑے باغیچے اور ٹینس کورٹس بنائے گئے۔اس کے علاوہ چرچ، پانی صاف کرنے کا پلانٹ، فوجی بیرکس اور ہسپتال بنایا گیااس وقت ’کالا پانی ایک ایسا قید خانہ تھا جس کے درودیوار کا بھی وجود نہ تھا۔ اگر چار دیواری یا حدود کی بات کیجیے تو ساحل سمندر تھا اور اگر فصیل کی بات کیجیے تب بھی ٹھاٹھیں 
-مارتا ہوا ناقابل عبور سمندر ہی تھا۔ قیدی قید ہونے کے باوجود آزاد تھے لیکن فرار کے سارے راستے مسدود (بند)  جاری ہے

جمعرات، 21 دسمبر، 2023

بہاول پور -کل اور آج

 

کیا کوئ کہ سکتا ہے کہ   پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاست بہاول پور آج پاکستان   کا دھول اڑاتا بہاول پور  ہے -آج دنیا کی جدید سہولتوں سے آراستہ شہروں کے مقابلے میں یہاں کا نوجوان محرومی کا شکار ہے-آئیے ماضی کی اس پر شکوہ ریاست کا احوال جاننے کے لئے اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں -ریاست بہاول پور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ، اللہ آباد اس کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ قبلِ ازیں1258ء میں مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔

 نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں رجسٹرار، پنجاب یونی ورسٹی، ڈاکٹر وُلز نے بہ طورِ خاص بہاول پور آکر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ 1935ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایک امدادی ٹرین کوئٹہ روانہ کی اور اسی سال فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً ایک سو افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔ 

سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹرکاریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بہ طور تحفہ دے دیں۔ مسجدِ نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے اور اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا شمار اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ریاست میں ماہرینِ علم وفن، ادبا، شعراء اور علماء کی قدردانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرشیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) 1942ء سے 1946ء تک بغداد، الجدید ہائی کورٹ، بہاول پورکے چیف جسٹس رہے۔ ابوالاثر حفیظؔ جالندھری بہ طور درباری شاعر، بہاول پور میں طویل عرصے ملازم رہے۔1943ء میں نواب سر صادق کی سرپرستی اور سر عبدالقادر کی صدارت میں صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں برصغیر کے طول و عرض سے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کی۔ نواب سر صادق کے مطابق، دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ نے پہلی بار سرائیکی کے قادر الکلام صوفی شاعر، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمے اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں شایع کیا۔ ریاست کے طول و عرض میں موجود بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزارات کی تعمیر اور مرمّت کی گئی۔ 1950ء میں صادق ایجرٹن کالج میں عالمی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے سائنس دانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ایک سائنسی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجراء کیا گیا۔

اسی سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ بہاول پورمیں ترویجِ اسلام کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا، اس حوالے سے اُس وقت کے حکمراں، اسلامی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند تھے،بلکہ شہریوں کو بھی خصوصی مراعات دیتے تھے۔ حج کے موقعے پر حاجیوں کوتین ماہ کی چھٹی مع ایڈوانس تن خواہ دی جاتی۔ بہاول پور حکومت کی طرف سے مکّے اور مدینے میں سرائے موجود تھیں، جہاں بہاول پور کے حجاج کے لیے مفت رہائش اور خوراک کا انتظام ہوتا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام مساجد میں حکومت کی طرف سے مرمّت اور سفیدی کروائی جاتی۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی اپنے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق حاصل تھے۔ دورانِ تعلیم وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اورنابالغ بچّوں کی کفالت کے لیے پینشن مقرر کی جاتی ۔

بہاول پور اور ڈیرہ نواب صاحب میں قائم یتیم خانے میں مفت رہائش اور خوراک کے علاوہ ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ اردو اور سرائیکی کے معروف شاعر اور ادیب، پروفیسر عطا محمد دلشاد کلانچوی، ٹیکنیکل ہائی اسکول کے سابق پرنسپل، عبدالقادر جوہرؔ اور متعدد مشاہیر نے اسی یتیم خانے میں پرورش پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی وزارت قائم کرکے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقے سے آباد کیا گیا-تقسیم  برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سرصادق کو خصوصی آفر کی گئی کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیں، تو نواب صاحب نے اس موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا کہ’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان اور پچھلا ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدروفت پسند کرتا ہے  

پیر، 18 دسمبر، 2023

علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین

 


علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین  ۔ مشاہدات اور مراتب کے لحاظ سے اس کے تین درجے ہیں۔ یقین اسے کہتے ہیں جو کسی بھی طرح متزلزل نہ ہو۔ اگر کسی شئے کے علم کے بارے میں دلیل و برہان کے ذریعے اس حد تک یقین ہو جائے کہ تردد نہ رہے تو اسے علم الیقین کہتے ہیں۔اگر یہ علم دلیل و برہان سے گزر کر مشاہدہ بن جائے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ اگر علم کی حقیقت سامنے آ جائے اور بلا کم و کاست حقیقت شئے یا شئے کی تہہ کا علم ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔مثلاً میں نے کہا انگور، اور انگور کی تعریف بھی بیان کر دی تو آپ نے یقین کر لیا تو یہ علم، علم الیقین ہے۔آپ نے پہاڑ پر یا باغ میں جا کر انگور کی بیل پر انگور کے خوشے دیکھ لئے اس کا الگ ذائقہ بھی چکھ لیا، خوشبو سونگھ لی یہ عین الیقین ہے۔ آپ نے یہ علم حاصل کر لیا کہ انگور کی بیل میں انگور کیوں لگتے ہیں؟ زمین میں سے انگور میں مخصوص مٹھاس، کھٹاس، ذائقہ میں قدرت کے کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں تو یہ حق الیقین ہے۔دوسری مثال:میں نے کہا، آپ نے سنا ’’آدمی‘‘۔ میری بات کا آپ نے یقین کر لیا یہ علم الیقین ہے۔ آدمی کی خصوصیات کا علم ہو گیا اور آدمی کی تعریف معہ اس کی صلاحیتوں کے آپ کے سامنے بیان کر دی گئی اور آپ کے شعور نے اسے قبول کر لیا تو یہ علم عین الیقین ہے
 
 اگر آدمی کے تخلیق راز و نیاز، حیات و ممات کی قدریں اور اللہ کے وہ رموز جو اللہ نے انسان کی روح میں مخفی کر دیئے ہیں اور جن سے آدم کو واقف کر دیا گیا ہے اس کا علم حاصل ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔آئینہ کی مثالایک شخص آئینہ دیکھتا ہے۔ آئینہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے مگر وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والے کو یہ یقین ہے کہ اپنا ہی عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی آئینہ کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حقائق کی اشیاء کی جستجو اور تحقیق کا طبعی ذوق تھا اور وہ ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے، تحقیق اور ریسرچ ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا، وہ تحقیق کے ذریعے اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی ذوق، ریسرچ اور تحقیق کے جذبے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موت کے بعد زندگی یعنی مر جانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق اللہ کے حضور سوال کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’اے ابراہیم! کیا تم اس مسئلے پر یقین نہیں رکھتے؟‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً عرض کیا:’’میں بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادر مطلق ہیں، آپ سب کچھ کر سکتے ہیں، میرا سوال اس لئے ہے کہ میں علم الیقین کے ساتھ عین الیقین اور حق الیقین کا خواستگار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ ’’اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرا دے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’چند پرندے لے لو اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سامنے والے پہاڑ پر ڈال دو اور پھر فاصلے پر کھڑے ہو کر انہیں پکارو۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو آواز دی تو ان سب کے اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی شکل میں آ گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘کہا: ’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘۔ کہا:’’کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘کہا: ’’پس چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر پھر رکھ دے ہر ہر پہاڑوں پر ان کے جز ڈال کر۔ پھر ان کو بلا، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو یہ جان لے۔ بے شک اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘

(سورۃ بقرہ۔ ۲۶۰)اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کیلئے یقین(مشاہدہ) ضروری ہے۔اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-جب ایمان دل میں داخل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے-

اسلام جسموں پر آتا ہے جبکہ ایمان دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ جسم جب اطاعت گزار ہوجائیں، سر جب اللہ کے حضور جھک جائے، بندہ اللہ کے دروازے پر جب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ماہ رمضان میں اللہ کے لئے روزہ داربن جائے، حج کے مہینے میں اللہ کے گھر میں لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہوا چلا جائے، زکوۃ و صدقات دینا شروع ہوجائے۔ نیز احکامات دین پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے تو یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین اس کے جسم سے ظاہر ہورہا ہے۔ پس جب ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا تو مسلم ہوگیا اور جب قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گئے تو مومن ہوگیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سر تو اللہ کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے مگر دل نہیں جھکتا۔ ۔ ۔ اگر دل جھک جائے تو ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو ساری زندگی کے طور طریقے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو سوچ کے انداز بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو انسانی زندگی کے تمام اعمال اور رویے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو اخلاق بدل جائے۔ ۔ ۔ وہ انسان ایک نیا انسان بن جائے گا۔ لیکن جب صرف ظاہر جھکتا ہے اور دل نہیں جھکتا تو پھر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ارشاد فرمایا کہ مومن ہونے کا دعویٰ اس وقت کرنا جب ایمان داخلِ قلب ہوجائے، جب ایمان تمہارے دل کی حالت بن جائے تب مومن ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دل کی تصدیق کرنا بھی کہتے ہیں-۔‘‘

(سورۃ الحجرات۔ اعلیٰ اور اسفل حواس یعنی زندگی کے تمام اعمال کا ریکارڈ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ازل تا ابد پورا کائناتی نظام اللہ  بنائی ہوئی فلم ہے، ازل میں موجود یہ ریکارڈ(Film) ہے جو عالم ارواح، عالم برزخ اور عالم ناسوت میں مظاہر بن رہا ہے، ہر عالم ایک اسکرین کی طرح ہے۔ اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی ہمیں نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کے ساتھ شکست و ریخت کا جو عمل کیا اس سے پرندوں کا جسمانی نظام بکھر گیا لیکن پرندوں کی زندگی کا اول و آخر ریکارڈ موجود رہا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پرندوں کے الگ الگ اعضاء کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ریکارڈ شدہ نظام بحال ہو گیا اور پرندے زندہ ہو گئے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا تکوینی قانون بھی یہی ہے کہ اللہ کے حکم سے درہم برہم سسٹم ’’ریکارڈ‘‘ کے مطابق بحال ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہم نے عالم ناسوت میں کیا ہے وہ سب ریکارڈ ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ریکارڈ (فلم) دوبارہ ڈسپلے ہو جائے گا تو ہاتھ ، پیر، آنکھ خود گواہی دیں گے کہ ہم نے اچھے یا برے اعمال کئے ہیں۔اور انکسار کی 

اتوار، 17 دسمبر، 2023

امام محمد تقی علیہ السلام

 

جناب رسول خدا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰ  لہ وسلّم سے منقول ہے کہ جو شخص آخر شب میں اکتالیس مرتبہ سورہ الحمد کی تلاوت کرے گا محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔ بعض نے 15 رمضان و بعض نے 19 رمضان نقل کی ہے۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقی کی ولادت ہوئی امام رضا نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔  
 آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعوں کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں سے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔
 آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔ منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے تا کہ ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے اشتباہ نہ ہو۔ آپؑ کے مشہور القاب، جواد و ابن الرضا ہیں، جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضی اور منتجَب جیسے القاب بھی نقل ہوئے ہیں۔ آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہیں۔ اس کا سبب عباسی حکومت ک طرف سے سیاسی محدودیت، تقیہ اور آپ کی مختصر حیات بیان ہوا ہے۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق، آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے 
ازواج -لیکن چونکہ وہ لوگ ان کی بات کو مانتے تھے لہذا ان کی بات سے انہیں اطمینان حاصل ہوگیا۔
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔  یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اور امامؑ نے اس کے لئے حضرت زہراءؑ کا مہر ـ یعنی 500 درہم ـ قرار دے کر اس رشتے کو منظور کیا اور اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی 

اور آپؑ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں بعض مآخذ میں منقول ہے کہ امام جوادؑ نے امام رضاؑ کے سکونتِ خراسان کے دوران ایک بار آپؑ سے ملنے کی غرض سے خراسان کا سفر کی  اور اسی وقت مامون نے اپنی بیٹی کا نکاح آپؑ سے کیا۔ابن کثیر کے قول کے مطابق امام جوادؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح 8 سال سے بھی کم عمر میں حضرت امام رضاؑ کے دور میں پڑھا گیا تھا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 315 ہجری میں مامون کی اجازت سے تکریت میں ہوئی۔ اس روایت کو مد نظر رکھا جائے تو اس رشتے کے بارے میں سنہ 202 ہجری اور سنہ 215 ہجری میں منقولہ روایتوں میں کوئی تناقض یا مغایرت نہیں ہے لیکن بغداد میں یحیی بن اکثم کے ساتھ امامؑ کے مناظرے کی روایت  ہے۔
اولاد
شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔ البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے امام رضاؑ نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا:۔۔۔هذا أبو جعفر قد أجلسته مجلسي و صيرته مكاني، وقال: إنا أهل بيت يتوارث أصاغرنا عن أكابرنا القذة بالقذة(ترجمہ: یہ ابو جعفر ہیں جس کو میں نے اپنی جگہ بٹھا دیا ہے اور اپنا مقام اسے واگذار کردیا ہے اور فرمایا: ہم اہل بیت ایسا خاندان ہیں جس میں چھوٹے یکسان طور پر (بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان فرق کے بغیر) بڑوں کے وارث بنتے ہیں) ۔ (یعنی جس طرح کہ بڑے علوم کے وارث بنتے ہیں ہمارے چھوٹے بھی ہمارے علوم کے وارث بنتے ہیں   
  

جمعہ، 15 دسمبر، 2023

ساہیوال جیل میں درود ابرا ہیمی کی محفل


 یہ میرا ایک پرانا مضمون ہے جو ایمیلز کی تلاش کے دوران ہاتھ لگا پھر ایک بار آپ سب سے شئر کر رہی ہوں اس اُمید کے ساتھ یقیناً آپ لوگوں کو بھی پسند آئے گا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌاللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پاکستان کے علاقے پنجاب کے شہر ساہیوال کی جیل کا احوال اس طرح سے بتایا جاتا ہے -ساہیوال جیل کے سارے قیدی یا تو طالب علم ہیں یا استاد ہیں ،جو پڑھے لکھے ہیں وہ پڑھاتے ہیں جو ان پڑھ ہیں وہ پڑھتے ہیں یو ں وہ ہیڈ ماسٹر ،پی ٹی سر ، وائس پرنسپل ،پرنسپل کے عہدے سنبھالے اپنی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جس تیزی سے اس جیل کا تعلیمی ماحول فروغ پا رہا ہے گمان غالب ہے کہ بہت جلد کسی کو وائس چا نسلر بھی نام زد کرنا پڑے گا-تعلیم بالغاں، اور روائتی تعلیمی نصاب الغرض پہلی جماعت سے سولہویں جماعت تک کلاسز جاری ہیں -ووکیشنل ٹریننگ او-ر ویلڈنگ کورسز کے علاوہ مجھے بتا یا گیا کہ الیکٹریکل انجینئر بننے تک کی سا ری سہولیات یہان ں موجود ہیں-جیل میں چار ہزار مسلمان اور ستّا ئیس غیر مسلم قیدی ہیں ان قیدیوں میں چالیس خواتین قیدی بھی ہیں نماز کی پابندی کرنے والے قیدی کو قید میں رعائت دی جاتی ہے ،

غیر مسلموں کو ان کی عبا دت کی آزادی اور سہو لت ہےہر مسلمان قید ی پر روزانہ 200 مرتبہ درود پڑھنا لا زم ہے ،،اس سے زیاد ہ پڑ ھنے والے کو قید میں چھوٹ ملتی ہے ،روزانہ سارا درود شریف ایک جگہ جمع کروا دیا جاتا ہے اور پھر جہلم کی تحصیل ‘‘ دینہ‘‘ کے موضع چک عبد الخالق میں سیّد حسنات احمد کمال کے پاس جمع کروایا جاتا ہے جو درود شریف کے ورلڈ بنک سر پرست ہیں ،،سا ہیوال کی اس جیل کے تعلیمی نظام کے انچارج ڈ پٹی جیلر شیخ محمّد اکرام  کا کہنا ہے کہ  درود شریف کا کمال یہ ہے کہ جو قیدی یہاں سے رہا ہوتا ہے وہ دوبارہ کبھی جیل میں مجرم کے طور پر نہیں آیا شیخ اکرام کو جیل میں د رود شریف کے اجرا کی تاکید مسجد نبوی میں ندیم پیر زادہ نے کی تھی جو ان د نوں ڈیرہ غازی خان میں جیلر تھے اور آج کل لاہور کے ایم اے او کالج کے پروفیسر ہیں -

 ،جبکہ 12 اسسٹنٹ جیلر ،اور ایک جیلر کامران انجم ہیں-مزہبی تعلیمی پروگرام کے انچارج قاری عبد العزیز ہیں ،ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ ، بہا الدّین زکریا یونیورسٹی ،علّا مہ اقبال اوپن یونیور سٹی مدرسہ حافظ نزر محمّد لاہور ،جمیعت تعلیم القران کراچی سے اس کا تعلیمی الحاق ہے-امتحانات کے دنوں میں جیل امتحانی مرکز بنی ہوتی ہے ،،جیل میں لائبریری بھی ہے ، جسے نادر و نایاب کتا بیں پہنچانے کا بیڑہ لاہور سے ملک مقبول احمد نے اٹھا یا ہےوہ قیدی جو سزا ختم ہونے کے بعد جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل میں پڑے رہتے ہیں انہیں لاھور کے علّامہ عبدالستا ر عاصم جو خود بھی کئ کتابو ں کے مولّف ہیں ،رانا فضل الرّحمٰن فا ؤنڈ یشن کی جانب سے جرمانہ ادا کر کے چھڑاتے ہیں--ساہیوال جیل کی دیگر خوبصورت باتوں میں سے ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں کوئ جھوٹ نہیں بولتا ہے عملہ بھی اور قیدی بھی ،سچ جیل کی بنیاسی شناخت اور اصول ہے-

ہمارے آج کے سیاستداں حکومت میں ہوں یا اپو زیشن میں انہیں کچھ عرصے ساہیوال جیل میں گزارنا چاہئے ،سچّائ کے حصول کے لئے پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی پکار رہی ہے چلو چلو ساہیوال جیل چلو-پیارے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنا تمام مسلمین اور مؤمنین کی روزمرّہ زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ ہم کم از کم پانچ دفعہ نماز میں درودِ ابراہیمی کے کلمات دہراتے ہیں۔ مومنین کو نبی کی طرف سے بروز جمعہ درود و سلام کی کثرت کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ اس دن ہمارا درود و سلام نبی ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ درود پڑھنے کی بے پناہ فضیلت ہے کہ ایک دفعہ پڑھنے سے دس نیکیاں بڑھائی جاتی ہیں، دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور دس درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ درودِ ابراہیمی میں ایسا کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان کلمات کو ہر آن دہرا رہے ہیں۔ 

درودِ ابراہیمی پر غور کرنے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آلِ محمّد میں سے بھی ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتی ہو گی اور اللہ اور رسول ان سے محبت رکھتے ہوں گے۔ چونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا معجزہ قرآن تھا اس لیے اللہ اور رسول کی فرمانبردار نسل کا معجزہ بھی غیر معمولی علم ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور لوگوں کا درود و سلام پڑھنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی روحانی قوّت کو جلا بخشتا ہے اور ان کے مشن کو مقامِ محمود تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جو ان کی وفات کے بعد بھی فعال ہے اور تا قیامت رہے گی۔ صرف زبان سے درود پڑھنے سے زیادہ اس وقت ہمیں عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کا دستِ بازو بننے کی ضرورت ہے۔ یہ مقام ہم سیرت ، اخلاص اور اخلاقیات میں نبی ﷺ کی پیروی کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔آئیں ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ اے اللہ پیارے نبی ﷺ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ہمیں ان کے دستِ شفقت کی ضرورت ہے۔ اے اللہ ہمیں اپنے پیارے نبی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چُن لے

آمین

جمعرات، 14 دسمبر، 2023

خاموش دشمن جاں بیماری''بلڈ پریشر"

ہائی بلڈ پریشر دنیا بھر میں قبل از وقت موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ غیر متعدی بیماریوں کے عالمی اہداف میں سے ایک 2010 اور 2030 کے درمیان ہائی بلڈ پریشر کے پھیلاؤ کو 33 فیصد تک کم کرنا ہے۔جائزہ-ہائی بلڈ پریشر (ہائی بلڈ پریشر) تب ہوتا ہے جب آپ کی خون کی نالیوں میں دباؤ بہت زیادہ ہو (140/90 mmHg یا اس سے زیادہ)۔ یہ عام ہے لیکن اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین ہوسکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ علامات محسوس نہیں کرسکتے ہیں۔ جاننے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیں۔بڑھتی ہوئ  عمر زیادہ وزن یا موٹاپا ہونا، جسمانی طور پر متحرک نہ ہونا، زیادہ نمک والی غذا بہت زیادہ الکحل پینا، طرز زندگی میں تبدیلیاں جیسے صحت مند غذا کھانا، تمباکو چھوڑنا اور زیادہ متحرک رہنا بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ک

ہائی بلڈ پریشر کو ہائپر ٹینشن بھی کہا جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے شریانوں کے خلاف خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس کہ وجہ سے خون کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کا شمار عام بیماریوں میں کیا جاتا ہے، کیوں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ارب اٹھائیس کروڑ ہے۔ جب کہ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق پاکستان میں ہر بیس میں سے نواں شخص ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کئی افراد میں یہ مرض خاموش قاتل بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی علامات لمبے عرصے تک ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ ہائپر ٹینشن کی وجہ سے اسٹروکس، دل کی بیماریوں، اور گردوں کے مسائل کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔عمومی طور پر نارمل بلڈ پریشر 80 سے 120 ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہیئے، اس کے برعکس ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بلڈ پریشر نارمل سطح سے بڑھ جاتا ہے۔ 

ہائپر ٹینشن لاحق ہونے کی صورت میں بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے مزید طبی مسائل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں -ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30-79 سال کی عمر کے 1.28 بلین بالغ افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں، زیادہ تر (دو

 تہائی) کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں- نصف سے بھی کم بالغ افراد (42%) ہائی بلڈ 

علامات-ہائی بلڈ پریشر والے زیادہ تر لوگ کوئی علامات محسوس نہیں کرتے۔ بہت زیادہ بلڈ پریشر  درد، دھندلا نظر، سینے میں درد اور دیگر علامات کا سبب بن سکتا ہے۔اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرنا یہ جاننے کا بہترین طریقہ ہے کہ آیا آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کا علاج نہ کیا جائے تو یہ دیگر صحت کی حالتوں جیسے گردے کی بیماری، دل کی بیماری اور فالج کا سبب بن سکتا ہے۔بہت زیادہ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ (عام طور پر 180/120 یا اس سے زیادہ) علامات کا تجربہ کر سکتے ہیں بشمول:شدید سر درد-سینے کا درد-چکر آنا-سانس لینے میں دشواری-متلی-بے چینی-الجھاؤ-کانوں میں گونجنا-ناک سے خون بہنا-غیر معمولی دل کی تال - کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہائی بلڈ پریشر۔ ہائی بلڈ پریشر کا پھیلاؤ خطوں اور ملکی آمدنی والے گروپوں میں مختلف ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او افریقی خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے زیادہ پھیلاؤ (27%) ہے جبکہ امریکہ کے ڈبلیو ایچ او کے خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے کم پھیلاؤ ہے (18%)۔ ہائی بلڈ پریشر والے بالغوں کی تعداد 1975 میں 594 ملین سے بڑھ کر 2015 میں 1.13 بلین ہو گئی، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔

بلڈ پریشر کو دو نمبروں کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ پہلا (سسٹولک) نمبر خون کی نالیوں میں دباؤ کو ظاہر کرتا ہے جب دل سکڑتا ہے یا دھڑکتا ہے۔ دوسرا (ڈائیسٹولک) نمبر برتنوں میں دباؤ کی نمائندگی کرتا ہے جب دل دھڑکنوں کے درمیان آرام کرتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص اس صورت میں کی جاتی ہے جب اسے دو مختلف دنوں میں ناپا جاتا ہے، دونوں دنوں میں سسٹولک بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 mmHg ہے اور/یا دونوں دنوں میں diastolic بلڈ پریشر کی ریڈنگ 90 mmHg ہے۔خطرے کے عوامل-قابل ردوبدل خطرے والے عوامل میں غیر صحت بخش غذا (بہت زیادہ نمک کا استعمال، سیر شدہ چکنائی اور ٹرانس چکنائی والی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال)، جسمانی غیرفعالیت، تمباکو اور الکحل کا استعمال، اور زیادہ وزن یا موٹاپا شامل ہیں۔غیر تبدیل شدہ خطرے کے عوامل میں ہائی بلڈ پریشر کی خاندانی تاریخ، 65 سال سے زیادہ عمر اور ساتھ موجود بیماریاں جیسے ذیابیطس یا گردے کی بیماری شامل ہیں۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر ان آبادیوں میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کے عوامل میں اضافے کی وجہ سے ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا جواب-ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے مسئلے کے طور پر ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ممالک کی مدد کرتا ہے۔2021 میں، ڈبلیو ایچ او نے بالغوں میں ہائی بلڈ پریشر کے فارماسولوجیکل علاج کے لیے ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی۔ یہ اشاعت ہائی بلڈ پریشر کے علاج کے آغاز کے لیے شواہد پر مبنی سفارشات اور فالو اپ کے لیے تجویز کردہ وقفے فراہم کرتی ہے۔ دستاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے حاصل کیا جانا ہے، اور یہ معلومات بھی شامل ہیں کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں کون علاج شروع کر سکتا ہے۔امراض قلب کی روک تھام اور کنٹرول کو مضبوط بنانے میں حکومتوں کی مدد کرنے کے لیے، ڈبلیو ایچ او اور ریاستہائے متحدہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (یو ایس سی ڈی سی) نے ستمبر 2016 میں گلوبل ہارٹس انیشیٹو کا آغاز کیا، جس میں ہارٹس تکنیکی پیکیج بھی شامل ہے۔ HEARTS تکنیکی پیکیج کے چھ ماڈیولز (صحت مند طرز زندگی سے متعلق مشاورت، ثبوت پر مبنی علاج کے پروٹوکول، ضروری ادویات اور ٹیکنالوجی تک رسائی، رسک پر مبنی انتظام، ٹیم پر مبنی دیکھ بھال، اور نگرانی کے نظام) قلبی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں۔


اتوار، 10 دسمبر، 2023

2023-12-10 -غزّہ میں موت اور بھوک ناچ رہی ہے

  میں نے ابھی غزّہ کی تازہ صورتحال معلوم کرنے لئے کمپیوٹر کھولا تو اب سے  6 گھنٹے پہلے کی تازہ صورتحال بی بی سی نے اس طرح بیان کی ہوئ ہےاقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔قوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

صرف رفح سرحد کھلی ہےمصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود 'خوف، افراتفری اور مایوسی' کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے 'گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ' دیکھی۔گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے-غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا-غزہ کا شہر خان یونس: جہاں بھوک و افلاس کے باعث ایک نئے انسانی بحران کا خطرہ موجود ہے-

سرائیلی بمباری کے دوران غزہ کا دنیا سے رابطہ منقطع-

سکاؤ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ تو ہر دس میں سے نو نو افراد ’رات دن بغیر کسی کھانے کے‘ گزار رہے ہیں۔غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کے دو محاذوں پر گھرے شہر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔شہر کی واحد باقی رہ جانے والی صحت کی سہولت ناصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجری اور برنز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد مغرابی خوراک کی کمی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے کہا: 'میری تین سال کی ایک بیٹی ہے، وہ مٹھائی، سیب اور پھل کے لیے ضد کرتی رہتی ہے۔ میں اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہوں۔'یہاں کافی کھانا نہیں ہے، بلکہ کھانا ہی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف چاول ہی ہے؟ ہم دن بھر میں ایک بار، صرف ایک بار کھاتے ہیں۔خان یونس میں گنجائش سے زیادہ آبادی نے لوگوں کو کھلے میں رہنے پر مجبور کیا ہے-خان یونس کے حالات ناگفتہ بہ -خان یونس حالیہ دنوں میں شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں کے ناصر ہسپتال کے باس نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ہسپتال پہنچنے والے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد پر 'کنٹرول نہیں رہا ہے'۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور 'کونے کونے' میں لڑ رہا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے سنیچر کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔لامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ممالک نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا

۔فلسطینی اتھارٹی کے رہنما مسٹر عباس نے کہا کہ وہ ’(اسرائیلی) قابض افواج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون بہائے جانے کا ذمہ دار واشنگٹن کو ٹھہراتے ہیں۔‘اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے ویٹو کا دفاع کیا اور کہا کہ قرارداد ایک 'غیر پائیدار جنگ بندی' کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے 'حماس اس قابل ہو جائے گا کہ وہ 7 اکتوبر کو کیے جانے والے اقدامات کو دہرا سکے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ’درست موقف‘ کو سراہتے ہیں۔ سات دن کی عارضی جنگ بندی ابھی ایک ہفتہ قبل ختم ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے تحت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید 180 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 78 مغویوں کو رہا کیا تھا۔غزہ میں حماس کے ہاتھوں میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یرغمال ہیں۔’غزہ میں انسانی حقوق کے علاقے میں کوئی انسانی حقوق میسّر نہیں‘اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیں  خیال رہے کہ یہ علا لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔المواصی بحیرہ روم کے کنارے زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔ اس میں چند عمارتیں ہیں اور یہ زیادہ تر ریتیلے ٹیلوں اور زرعی زمین پر مشتمل ہے۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے نامزد کیا گیا محفوظ علاقہ صرف 8.5 مربع کلومیٹر (3.3 مربع میل) ہے۔ایک پناہ گزین اس علاقے میں کئی ہفتوں سے زمین پر سو رہی ہیں اور چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک ہی ٹینٹ میں رہ رہی ہیں۔انھیں لگا کہ یہ جگہ بمباری اور لڑائی سے محفوظ ہو گی لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی ایک دن آتا ہے اور دس دن نہیں آتا، باتھ روم میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔اسرائیلی فوج نے کم از کم 15 دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو المواصی جانے کو کہا ہےآ آخری دفعہ انھوں نے 2 دسمبر کو یہ اعلان کیا تھا۔نٹرنیٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غزہ کے دیگر علاقوں میں محفوظ جگہیں ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

تاہم المواصی کے متعلق اسرائیلی فوج کی ہدایات بھی کئی دفعہ تبدیل ہوئی ہیں۔عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔لیکن مختلف اوقات میں المواصی کے اندر مختلف مقامات کو اسرائیل نے محفوظ مقام قرار دیا ہے۔مونا الاستال ایک ڈاکٹر ہیں جب ان کے پڑوسی کا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا تھا انھیں مجبوراً خان یونس چھوڑ کر المواصی آنا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ بمباری کی آوازوں کی وجہ سے وہ پوری رات جاگتی رہتی ہیں۔مونا بھی اس علاقے میں پانی بجلی اور سہولیات کی عدم موجودگی کا بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ٹینٹ اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے انھیں 300 ڈالر دینے پڑے۔مونا کہتی ہیں انھوں نے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سٹورہاؤس میں زبردستی گھستے ہوئے بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ’بہت بھوکے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘

مونا مزید کہتی ہیں ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

 

 

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر