گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں
سنہ انّیس سو ستّاون ،، یہ میرے بچپن کا دور تھا جب پاکستان میں بننے والی فلم سات
لاکھ کے اس گانے نے کراچی کے گلی کوچوں میں دھوم مچا دی تھی مجھے بھی یہ گیت بہت
پسند تھا میرے زہن کے شائد کسی گوشہ میں اب تک یہ گیت یقیناً محفوظ ہو گا جو اخبار
میں شائع ہونے والی ایک خبر اور تصویر کو دیکھ کر جاگ گیا خبر کا عنوان ہے تھرپارکر
کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز، تصویر میں تھری لباس میں ملبوس لاتعداد لڑکیاں اپنے
انٹرویو کی باری آ نے کے انتظار میں کھڑی ہیں –کچھ لڑ کیوں کے چہرے کھلے ہیں لیکن
کسی 'کسی نے ماتھا چھپایاہوا ہے کچھ نے ابھی بھی جبکہ انٹرویو دینے آئ ہیں گھونگھٹ
نکالا ہوا ہے-میں نے تھر کی عورت کا چہرہ کبھی بھی کھلا نہیں دیکھا نا ہی اس کو
کبھی کوئ جدّت طراز معاشرے کی رکن کی حیثیت سے جانابس اس کو اپنی گو د میں بچّہ
اٹھائے اور سر پر پانی سے بھرے کئ مٹکے رکھ کر ننگے پاوں جلتی ریت پر چلتے ہوئے
زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس تصویر کو دیکھ کر میں حیران ہوں کہ
گھونگھٹ کی اوٹ میں مٹکے اٹھانے والی عورت اپنے گھونگھٹ کی اوٹ سے ڈمپر ڈرائیونگ
کس طرح کر سکے گی
لیکن تھری لوگ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ
اپنی پسماندگی کو دور کرنے لئے اپنی عورتو ں سے بھی کام لیں گے جن کا انتخاب کوئلے
کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔ مینا
ان تیس امیدواروں میں شامل ہیں جن کوبطور ڈرا منتخب کیا گیا ہے پاکستان کے دیہی
معاشرے میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تھرپارکر
جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی چلانا
اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے ۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے
باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔ ایک تھری عورت نے پُر افسوس لہجے میں کہا کہ جب
کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم
رکھتی ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر والے ہی مخالفت شروع کر دیتے ہیں -وہ بتاتی ہیں
کہ میں نے ڈمپر ڈرائیور کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ جب میرے بھائیوں کو پتہ چلا
تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔
محلے والوں نے بھی مذاق اُڑایا ۔ خواتین کو بطور
ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ
کا کہنا ہے کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے
معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے مزید
کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔
'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر
ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟' ڈمپر ڈرائیور بننے کی
ایک اور خواہشمند خاتون نے بتایا: 'میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ تھر کی
عورت مضبوط ہے اس لیے میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔میں اور میرے
گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ
بنوں گی۔
اور ہمارے گھر کی غربت کم ہو گی'میرے
لئے گھر میں حالات موافق ہیں ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بتایا
کہ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے ہیں جن میں
رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ
اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جہاں آرا کے مطابق:
'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ
معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی بہو بیٹیوں کو
بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے
ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے
تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے-مائننگ کمپنی کے
سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو
باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گی۔یہ وہ خواتین
ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔
زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھیں،
ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنے اور وزن میں بھاری ہوتے ہیں صوبہ
سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی قصبے مٹھی کی رہائشی 25 سالہ چمپا پیلے رنگ کے ایک
ڈمپر کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شامل ہیں جن کا انتخاب کوئلے کی
کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہےرانی کے
ساتھ 30 دیگر خواتین ڈمپر ڈرائیورز بھی شامل ہیں۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین
اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔رانی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب
کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم
رکھتی ہیں تو انھیں بعض اوقات اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی
کے سربراہ شمس الدین شیخ کہتے ہیں کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت
دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں
تھرپارکر جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی
چلانا اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے۔