منگل، 11 جولائی، 2023

حضرت نوح علیہ السّلام اور جھگّی کی بڑھیا

 

اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیتے ہیں القران-حضرت نوح علیہ السّلام کے اس قصّے میں ایمان والوں کے لئے ایک پر مسرت بات یہ ہے کہ مومن کو ہر حال میں اللہ پاک جہنم کے گڑھے میں گرنے نہیں دیتا ہے اوربچا لیتا ہے-قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ 

وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)

ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔

 رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے- اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کی بستی لوگ ہلاک کیئے گئے-حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آپ پر ایمان لانے والوں میں ایک بڑھیا بھی شامل تھی -جب حضرت نوح علیہ السّلام نے بحکم الٰہی   کشتی بنانا شروع کی تو ایک مومنہ بڑھیا جو راستے سے گزر رہی تھی اس نے حضرت نوح سے پوچھا۔ ک

ہ آپ یہ کشتی کیوں بنا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایاائے ضعیفہ دنیا میں پانی کا عظیم سیلاب آنے والا ہے جس میں تمام  دنیا غرق ہو جائے گی اور اس میں سب کافر ہلاک ہو جائیں گے۔ اور مومن اس کشتی کے ذریعے بچ جائیں گے۔ بڑھیا نے عرض کیا حضور! جب طوفان آنے والا ہو تو مجھے خبر کر دیجئیے گا۔ تا کہ میں بھی کشتی میں سوار ہو جاؤں۔ بڑھیا کی جھونپڑی شہر سے باہر کچھ فاصلہ پر تھی۔ پھر جب طوفان کا وقت آیا تو حضور نوح علیہ السلام دوسرے لوگوں کو تو کشتی پر سوار کرنے میں مشغول ہو گئے مگر اس بڑھیا کا خیال نہ رہا حتٰی کہ خدا کا ہولناک عذاب پانی کے طوفان کی شکل میں آیا اور روئے زمین کے سب کافر ہلاک ہو گئے۔ اور جب یہ عذاب تھم گیا اور پانی اتر گیا اور کشتی والے کشتی سے اترے تب اللہ پاک کے حکم سے معزز فرشتے حضرت روح الامیں تشریف لائے اور حضرت نوح علیہ السّلام کو پیغام پہنچایا کہ اب وہ تمام نباتات زمین میں بو دیجئے جنہیں آپ نے کشتی میں محفوظ کر کے رکھّا تھا

 اب حضرت نوح علیہ السّلام نے نباتات بھی زمین میں بو دیں پھر آپ کو اچانک خیال آیا کہ ان کے پاس ایک مومنہ عورت کشتی میں سوار ہونے کی اجازت مانگنے آتی تھی اور وہ تو اس بڑھیا کو اپنی کشتی پر بلانا بھول گئےتھے تب وہ بڑھیا کی جھگّی پر آئے۔ اور اسے آواز دی آپ علیہ السّلام کی آواز کے جواب میں وہ بڑھِیا سو تے سے اٹھ کرچندھیائ ہوئ  آنکھیں ملتی ہو ئ جھگّی سے باہر آئ اور اس نے حضرت نوح علیہ السّلام کو دیکھتے ہوئے بے ا ختیار سوال کیا اللہ کے نبی کشتی تیّارہو گئ ہو تو آ جاوں  حضرت نوح علیہ السّلام نے بڑھیا سے کہا میں تو تم کو کشتی پر سوار کرنا ہی بھول گیا ۔ مگر تعجب ہے کہ تم زندہ کیسے بچ گئیں۔ بڑھیا نے حضرت نوح علیہ السّلام کو جواب دیا -جس خدا نے آپ کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ اسی خدا نے مجھے میری ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی ہی کے ذریعے بچا لیا۔اور قران کی پکار ہے وہ ایمان والے تھے جو عذاب سے بچا لئے گئے

(روح البیان ص ۸۵ جل ۲)

 

پیر، 10 جولائی، 2023

حضرت محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ

 

 

ہجرت کے دسویں سال ،حجۃ الوداع کے موقعہ پر مقام ذی الحلیفہ میں محمد بن ابوبکر بن ابو قحافہ کی ولادت  ہوئی۔آپ کی ماں کا نام أسماء بنت عميس الخثعمية تھا۔  آپ ا ن باشرف خواتین میں شامل ہیں کہ جنہوں حضرت جعفر بن أبي طالب(آپ   کے پہلے شوہر)  کے ساتھ حبشہ کی طرف مھاجرت  کی ۔ آپ کےحضرت جعفر بن أبي طالب سے تین بیٹے تھے جو حبشہ میں دوران ہجرت پیدا ہوئے جن کا نام: محمد، عبداللہ، اور عون ہے۔ جب حضرت جعفر بن أبي طالب جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوگئی، اور حضرت ابوبکر سے  محمد کی ولادت ہوئی، اور جب  حضرت ابوبکر رحلت کرگئے تو حضرت علی ابن ابی طالب سے آپ کی شادی ہوئی اور حضرت علیؑ سے آپ کے بیٹے یحیٰ کی ولادت ہوئی-محمد نے امام علی  علیہ السلام کے گھر میں آپ ؑ کے زیرِسایہ تربیت پائی، اور جب جوانی کے دہلیز پر قدم رکھا تو آپؑ کے ہمراہ حق کے دفاع اور باطل کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں شرکت کی۔

 آپؑ شجاعت، جوانمردی، اور بہادری میں بے مثال تھے، آپ  جنگ کے مشکل لمحات اور اوقات  میں جب  تلواروں، نیزوں اور تیروں کے برسات ہورہے ہوتے تھے تو مظبوط چٹان کے مانند  اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن  کر اپنے عقیدے کے دفاع کے لیے باطل کے خلاف نبردآزما ہوتے ہیں ۔   آپ ان محمد کہلوانے والے باعظمت افراد میں سے بھی ایک تھے کہ جن کے بارے امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام ارشاد فرماتے ہیں:  بتحقیق محامد(محمدکی جمع، چند مخصوص افراد جن کا نام محمد تھا) نے کبھی بھی معصیت الٰہی نہیں کی ؛ اور وہ محمد بن جعفر، محمد بن ابو بکر، محمد بن ابو حذیفہ اور محمد بن حنفیہ تھے۔محمد بن ابی بکرنے اپنی ابتدائی زندگی سے لیکر مصر میں آپ کی شہادت تک امام علیؑ کی معیت میں ہمیشہ حق کے ساتھ دیا۔ امام علیؑ آپؓ کے خلوص، اور اطاعت کو خوب جانتے تھے اسی لیے آپؓ کو مصر کے گورنری عطا کی۔ مصر کی گورنری اس وقت کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھی اور امام علیؑ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے محمد کو اہل سمجھتے تھے اسی لیے آپ نے ان کو گورنر بنا کر بھیجا۔ اس گورنری کی اہمیت کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین فرماتے ہیں: اے محمد! یاد رکھو کہ میں تم کو اپنے بہترین لشکر اہل مصر پر حاکم قرار دیا ہے۔

جنگ صفین کے واقع ہونے

کے بعد امیرشام نے مولیٰ کائنات حضرت امیرالمؤمنینؑ کے زیر تسلط اور زیرحکومت علاقوں پر جنگ مسلط کرکے قتل وغارت کا سلسلہ شروع  کیا،  آپؑ نے محمد بن ابوبکر جو مولیٰ علیؑ کی طرف سے پہلے سے ہی مصر کی گورنری کے منصب پر فائز تھے، ان کی  جگہ پر مالک اشترؓ کو بطور گورنر  منتخب کیا کیونکہ مالک اشتر، محمد کی نسبت عمر کے لحاظ سے زیادہ بزرگ اور جنگی امور میں زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے تھے،لیکن یہ تبادلہ محمد کی مولیٰ کی اطاعت میں  کسی سستی اور کوتاہی  کی وجہ سے  نہیں تھا؛ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ کی طرف سے محمد کو لکھے گئے خط میں تفصیلا بیان کیا گیا ہے، جب یہ خط محمد کو موصول  ہوا اور ان کو اپنے معزول کئیے جانے کی اطلاع موصول ہوئی ، اور انہوں نے جوابی نامہ ارسال کیا تو حضرت امیرالمؤمنینؑ نے  اس کے جواب میں فرمایا:  مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ کی جگہ مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرنے پر آپ ناراض ہو گئے  ،

 یہ کام اس لئے نہیں کیا گیا کہ تمہیں اپنے فرائض کی ادائگی میں سستی کرنے والا پایا ہوں یا یہ کہ تم سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہوں، بلکہ اگر تمہارے ہاتھوں سے حکومت چهینی گئی ہے تو یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جگہ کی حکومت سونپ دوں جس کے انتظامات تمہارے لئے آسان ہے اور وہاں پر حکمرانی کرنا تمہارے لئے زیادہ پسند ہے ۔تواس واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ ، محمد کو کسی اور شہر کے گورنر بنانا چاہتے تھے، اور ان کی کارکردگی سےآپ   راضی تھے اسی لیے آپ نے مالک اشتر کو گورنر بنانے کی وجہ بھی بیان فرمائی، اور یہ بھی واضح فرمایا کہ آپ ؑ ان سے راضی ہیں اور ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی ہے۔محمد عبادات اور نماز کی کثرت کی وجہ سے قریش کے عبادت گزاروں میں شمارہوتے تھے، ساتھ ساتھ آپ حضرت امیرالمؤمنینؑ  کی عظیم  درسگاہ کے فارغ تحصیل بھی تھے لوگ  حضرت امیرالمؤمنینؑ کی آپ سے بےپناہ محبت اور الفت کی وجہ سے آپ کو امام علی علیہ السلام کے فرزند کہہ کر پکارتے تھے، اور آپ بھی   امیرالمؤمنین ؑ کی آوروں کے مقابلے میں  فضیلت کے قائل تھے۔ امیرالمؤمنین ؑ آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے تھے: محمد ابوبکر کے صلب سے میرا فرزند ہے۔خدا آپ پر رحمت نازل کرے

ہفتہ، 8 جولائی، 2023

تاریخِ اسلام میں عید مباہلہ کی اہمیت

 

 

نجران یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع ایک خُوبصُورت اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے اس علاقے میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جو کہ مالی لحاظ سے بہت دولتمند اور خُوش حال بھی تھے۔فتح مکہ کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ارد گرد کے تمام سرداروں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے کہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر جزیہ ادا کریں، آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا یہ پیغام نجران کے عیسائی سردار کے پاس پہنچا تو اس نے نجران کے بزرگ پادریوں کو بلایا اور حضور صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا وہ سبھی اس خط کو پڑھ کر سخت مشتعل ہوئے مگر انہوں نے جنگ سے بچنے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے مذاکرات کا مشورہ دیا، چنانچہ 14 بزرگ پادریوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ منورہ روانہ کیا گیا جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور مسجد نبوی میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی طرف سے مُنہ پھیر لیا کیونکہ اُن کے لباس زرق برق اور فاخرہ تھے، اور وہ لوگ مسجد سے باہر نکل آئے، حضرت علی علیہ السلام نے اُن کو ملاقات نہ کرنے کی وجہ بتائی کہ آپ کے فاخرہ لباس سے غرور و تکبر اور ذہنی برتری کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور عام سادہ لباس پہن کر آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ لوگ سادہ لباس پہن کر آئے اور آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے کافی تفصیلی مذاکرات بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوئے،

 حضرت رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو لاکھ سمجھایا دلائل دیئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خُدا کے بیٹے نہیں حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی مگر عیسائی نہ مانے بحث لمبی ہو رہی تھی اور عیسائی نہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ تھے اور نہ جزیہ دینے کو تیار تھے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 61 کا نزول ہوا ،بِسْمِ اللهِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِيْمِ * فَمَنْ حَأجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جأءَكَ مِنَ الْعِلْمِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَأءَنَا وَ اَبْنَأءَكُمْ وَ نِسَأءَنَا وَ نِسَأءَكُمْ ثُمَّ نَتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلیَ الکَاذِبِینَ **آل عمران 61-پھر اے میرے حبیب! آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو آپ سے (حضرت عیسٰیؑ) کے بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنی بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنی بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو، تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو تم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔عیسائی پادریوں نے یہ بات قبول کر لی، مقام اور جگہ کا تعین ہو گیا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو 24 ذوالحجہ 10 ہجری کی نمازِ فجر کے بعد ایک سرخ قالین اور چار لکڑیاں دے کر مقررہ میدان میں بھیجا، اور ایک سائبان کھڑا کرنے کا حکم دیا، اہلِ اسلام کے تمام بڑے اور نامی مفسرین سمیت علامہ زمخشریؒ، علامہ فخرالدین رازیؒ، علامہ جلال الدین سیوطی ؒنے تفسیر در منثور میں اور علامہ بیضاوی ؒنے جلاؤالعیون میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے گھر سے باہر نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو بغل میں اُٹھائے اور امام حسن علیہ السلام کو انگلی سے پکڑے ہوئے تھے جنابِ سیّدہ فاطمۃُ الزَّہرا سلام اللہِ علیہا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اور اور اُن کے پیچھے حضرت علی علیہ السلام تھے اور یہاں پر آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث بیان فرمائی صحیح بخاری سمیت دیگر حدیث کی کتب میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ جس طرح ہر نبی کے اہلبیت ہوتے ہیں یہ میرے اہلبیت ہیں، تو انہیں ہر بُرائی اور نجاست سے دور رکھ اور پاک و پاکیزہ فرما  جب آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے میدانِ مباہلہ میں پہنچے کہ زمین و آسمان ان ہستیوں کے نور سے روشن تھے تو نصاریٰ کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی

 عیسائی راہبوں کے سردار جس کا نام تاریخ نے عافث لکھا ہے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔واللہ  !  میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ اس پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا حکم دیں تو یقیناً ہٹ جائے گا، عافیت اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اُٹھا لو ورنہ قیامت تک نسلِ نصاریٰ کا خاتمہ ہو جائے گااور یوں نجران کے نصاریٰ نے جزیہ دینا قبول کر لیا جلاء العیون میں علامہ بیضاوی ؒ لکھتے ہیں کہ جنابِ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہیہ لوگ اگر مباہلہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ اور بگاڑ دیتا یہ میدان آگ بن جاتا اور نجران میں زندگی ختم ہو جاتی24- ذی الحجہ 9 ہجری کا یہ دن اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت سے اس کے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم فتح نصیب ہوئی تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مذہب و مسلک اس دن کو عید کے طور پر منانا چاہیے اور اسلامی احکامات پر عمل کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت ہمیں بھی حاصل ہو۔مباہلہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔

مباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔سلامی کلینڈر میں ۲۴ ذی الحجہ کا دن روز مباہلہ کے عنوان سے معروف ہے۔ مباہلہ کا واقعہ نہ صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپ کے ساتھ مباہلے کے لئے نکلنے والوں یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ ﴿س﴾، حضرت امام حسین و حسین ﴿ع﴾ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ﴿ع﴾ آیہ مباہلہ کی رو سے نفس اور جانِ پیغمبر صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کے مقام پر فائز ہیں۔ مباہلہ کا واقعہ ہجرت کے نویں سال ۲۴ ذی الحجہ کو پیش آیا۔ سورہ آل عمران کی آیہ ٦١ میں اس واقعے کا بیان آیا ہے۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ؛ پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار ۔ مباہلہ گزشتہ انبیا کے زمانے میں بھی رائج تھا جیسے کہ حضرت نوح کا اپنی قوم سے، حضرت موسی کا فرعون سے اور حضرت ابراہیم کا نمرود سے مباہلہ کہ جنہوں نے علم و منطق سے عبودیت کا تسلیم نہیں کیا اور درنہایت انبیا کے بدعا اور نفرین کی سبب ہلاک ہوگئے۔

 پیغمبر اکرم   صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ صدر اسلام کے ان واقعات میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے اور ان سے ساتھ نکلنے والوں یعنی یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ   حضرت امام حسین و حسین   کی فضیلت اوران کی راہ و روش کی حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک واقعہ تھا کہ جسے رونما ہونا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پنجتن آل عبا کے حجت ہونے اور حق ہونے کا اعلان تمام دنیا والوں تک پہنچ جائے۔ شیعہ اور اہل سنت تواریخ میں اس واقعے کا بیان تسلسل کے ساتھ موجود ہے اس آیت کی رو سے حضرت امام علی علیہ السّلام  نفسِ پیغمبر ہیں۔  شیخ مفید کے بقول واقعہ مباہلہ میں حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے عالمگیر مقام کو روشناس کروایا گیا ہے چونکہ مد مقابل عیسائیت تھی اور عیسائی راہبوں اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم دو بچوں، ایک خاتون اور حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ مباہلے کے میدان کی طرف آرہے ہیں، انہوں نے یہ منظر دیکھتے ہیں پسپائی اختیار کی۔ مباہلہ کا واقعہ کہ جو حضرت علی علیہ السّلام ا ور اہل بیت کے مقام و فضیلت کو بیان کرتا ہے  یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی گونج دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ چکی تھی اور پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم  نے تمام ممالک کے سربراہان اور مختلف اقوام اور قبائل کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی تھی۔ انہی خطوط میں سے ایک خط نجران کے عیسائیوں کے لئے بھی تھا۔مباہلہ پیغمبر اکرم  صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےدر حقیقت مباہلہ کے واقعے میں اسلام کو قیصر روم کے نمائندوں پر ایک عظیم فتح نصیب ہوئی جو فتح خیبر اور مکہ کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ فتح اسلام کے عالمگیر ہونے اور دوسرے ادیان کے خاتمے اور اسلام کے سامنے ان کے تسلیم ہونے کا مظہر ہے۔ دوسری جانب سے اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت ہر بڑی فتح کے موقع پر پیغمبر کے ہمراہ تھے اور ان کا کردار بنیادی تھا۔ مباہلہ دنیا والوں کو دین کے تسلسل کے لئے حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے تعارف کا تسلسل ہے اور ایک طرح سے اسلام کی علی اور اہل بیت کے ساتھ معیت کا عمومی اعلان ہے۔۔

جمعرات، 6 جولائی، 2023

شہر چھوڑو یا زہر کا پیالہ پی لو

 

شہر چھوڑو یا زہر کا پیالہ پی لو-قاضی نے فیصلہ کیا تو اس نے بھی بے دھڑک جواب دیا شہر نہیں چھوڑوں گا اور زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا-سقراط اس مرد حر کا نام ہے جس نے جیتے جی زہر کا پیالہ پی کر اپنے نام کو امر کر لیا لیکن اپنے سچۤے نظریا  ت سے دستبردار نہیں ہوا سقراط نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے کوئی کتاب نہیں لکھی کیو نکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط دنیائے فلسفہ کاعظیم اور جلیل المرتبت معلم تھا، جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ سقراط 470 سال پہلے یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔ تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا، جس نےحب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت پائی -سقراط انتہائی بد صورت تھا اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہوتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ با  پ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی ۔سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ۔سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے۔"ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط   کوئی جواب نہیں دےرہا ہے تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا۔ کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ہوگی"ایک دن افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا “آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا” سقراط نے مسکرا کر پوچھا “وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟” افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا “آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔!” اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا “تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں” افلاطون نے عرض کیا “میرے عظیم استاد! تین کی کسوٹی کیا ہے؟” سقراط بولا “کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟” افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط نے ہنس کر کہا “پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟” افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا “یہ پہلی کسوٹی تھی۔ اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ “مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟” افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!” سقراط نے مسکرا کر کہا “کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟” افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط بولا “گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔” افلاطون خاموش رہا۔۔! سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا “اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟” افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا “اُستاد محترم! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!” سقراط نے ہنس کر کہا “اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟” افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔۔! 1۔ “کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟”، 2۔ “کیا یہ بات اچھی ہے؟” اور 3۔ “کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟” اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بول دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہو جاتے تھے۔ ۔ تاہم اپنی علمی مساعی کی بدولت اُسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتائوں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے   اسے موت کی سزاسنائی۔سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات لگائے ، ان میں سر فہرست تھا کہ " تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو"سقراط کے لڑکپن کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک واقعہ سقراط کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب کرائیٹو نے بیان کیا ہے۔ کرائیٹو کا کہنا ہے کہ میں اور سقراط ایک دن کمھار کے چاک کے پاس سے گزر رہے تھے۔ کمھار نے نرم نرم ملائم گیلی مٹی کا ایک گولہ چاک پر رکھا، چاک کو تیزی سے گھمایا اور مٹی کے گولے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کچھ اس طرح سے حرکت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت مرتبان مٹی کے گولے کی جگہ پر نمودار ہو گیا۔ سقراط نے کہا ابھی تو چاک پرمٹی کا گولہ تھا یہ خوبصورت مرتبان آخر کہاں سے آ گیا پھر خود ہی کہنے لگا ہاں یہ مرتبان کمہارکے ذہن میں تھا اور پھر ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر اس چاک پر آ گیا۔ سقراط نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا کوئی مجسمہ یا تصویر پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔ یہ ایک زبردست اور غیر معمولی دریافت تھی۔ سقراط نے ہنر، فن اور تخلیق کے بارے میں جان لیا تھا۔ سقراط کے قریبی دوست فیڈو، کرائیٹو اور خاص شاگرد افلاطون کا کہنا ہے کہ سقراط پر بعض اوقات ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی،جس کو الفاظ میں پورے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔ سقراط کی زندگی کی سوانح پڑھتے ہوئے میں بذات خود اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ سقراط نے جب علم و آگہی کی دنیا میں قدم رکھّا وہ اسی لمحہ پتھّر سے تراشیدہ ان بتوں کی پوجا سے تائب ہ وگیا اور اس نے ان دیکھے خدا کی عبادت کا فلسفہ پیش کر دیا -فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطا ہیں

بدھ، 5 جولائی، 2023

قيا م پاکستان میں شیعہ اکا بر ين کا کردار

 

   قيا م  پاکستان میں شیعہ اکا بر ين کا کردار

یوں تو قيا م  پاکستان میں سبھی اہل تشیع نے حصہ لیا لیکن کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کے بغیر پاکستان کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا، 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ کے اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بعد میں آپ نے اثنا عشری مکتب کو قبول کیا ۔ دوسری اہم ترین شخصیت سر آغا خان سوم کی ہے جو 1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے پہلے صدر رہے۔1906ء میں انہوں نے 35 نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ میں قیادت کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی۔ اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے برطانوی وائسرائے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ان کی تکریم کی جائے -نیز انہیں لوکل باڈیز اور قانون ساز کونسل دونوں میں نمائندگی دی جائے۔

1930ء اور1931ء میں گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ سر آغا خان کولندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے لیے مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر مدعو کیا گیا جہاں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے سر آغا خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے کانفرنس کے روبرو یہ مطالبات آغا خان کی رہنمائی میں پیش کیے ہیں جنہیں ہم سب دل سے سراہتے ہیں اور برصغیر کے مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔ تیسری اہم ترین شخصیت راجا امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد (جس کی آمدنی کا اندازہ ان دنوں ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان راجا بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس اوربعدکی رابطہ عوام مہم کا خرچہ راجا صاحب نے اٹھایا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی بھی تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔ حبیب بینک والے سیٹھ محمد علی نے بھی متعدد موقعوں پر تحریک پاکستان کی مالی مدد کی 1948ء میں نو زائیدہ ریاست کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 80 ملین روپے کا چیک قائد اعظم کو دیا۔

 پی آئی اے کی بنیاد رکھنے والے مرزا احمد اصفہانی ؛مسلم کمرشل بینک کے بانی سر آدم جی؛ راجا غضنفر علی خان اور نواب فتح علی خان قزلباش تک شیعہ رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمہ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم، لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمہ صغریٰ کے نام قابل ذکر ہیں۔ کی فضا ہی رہی ہے-مسلم لیگ کے رہنما۔ راجا امیر احمد خان آف محمود آباد یو۔ پی )بھارت کے بہت بڑے جاگیردار اور قائداعظم کے معتمد رفقا میں سے تھے۔ راجا صاحب محمود آباد نے سیاسی بصیرت انہی سے حاصل کی اور نوعمری ہی میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔

 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔ 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل کی اور مسلم نوجوانوں کو تحریک پاکستان سے روشناس کرایا۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد کراچی آ گئے۔ لیکن سیاسی انتشار سے دل برداشتہ ہو کر عراق چلے گئے اور پھر لندن میں سکونت اختیار کی۔ آپ لندن میں اسلام کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ کہتے ہيں: پاکستان، سر سيد احمد خان کی تعليمی خدمات، قائد اعظم کي رہنمائي اور راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کے مرہونِ منت ہے۔راجا صاحب محمود آباد ریاست محمود آباد کے والی تھے جو لکھنؤ سے 30 میل دور شیعہ اکثریتی ریاست تھی۔ آپ کے والد سرمحمد علی خان مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔آپ کے والد ’’مہاراجا علی محمد خاں‘‘، نے ايک دفعہ کانپورمسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپنی پوری رياست پيش کرديی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتياز سب کی ضمانت دے رہے ہيں، ان کی اکثريت سے آپ واقف بھی نہيں ہيں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کو بچانے کے لیے ميری رياست ختم ہو جائے تو ميں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کی تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لیے ميں اپنی جان اور آن کے لیے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔راجا صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحريکِ پاکستان ميں اپنی دولت لٹائی، اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي، مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر آپ کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنؤ ميں محفلوں کو گرماتا۔ جب آپ نے مسلم ليگ ميں شموليت اختيار کي تویہ ایک قسم سے گورنر’’سرہنري ہيگ‘‘ کے ساتھ ٹکرکے مترادف تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو بلاکردھمکي دي گئي کہ اگرآپ نے مسلم ليگ نہ چھوڑي تو رياست ضبط کرلي جائے گي۔ ليکن آپ پراس کا کوئی اثرنہ ہوا بلکہ شعلۂ آتش اورتيزہوگيا۔

راجا صاحب مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اورشايد خدمت کي يہ ميراث ان کو اپنے والد مہاراجا محمد علي خاں سے ملي تھي۔ یہی وجہ تھی کہ راجا صاحب ایک طرف سے مسلم ليگ کے تمام جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تو دوسري طرف ذاتي طورپرہربيکس و نادارکي مدد کے لے ہمہ وقت تيار رہتے۔ جب آپ کے بيٹے ’’سليمان مياں صاحب‘‘ کي ولاد ت ہوئي تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ ديا۔ مگرآپ نے عجيب انداز سے اللہ کي اس نعمت کا شکرادا کيا۔ وہ اس طرح کہ رياست کي تمام 24 تحصيلوں سے کل ايسے آدميوں کي فہرست منگوائي جو موتيا کے مرض کا شکارتھے۔ چنانچہ انھوں نے گيارہ سو اٹھاون 1158 مريضوں کو اپنے علاقے کے کيمپ ميں ٹھہرايا اور تمام لوگوں کا مفت آپريشن ڈاکٹر ٹي پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروايا۔

قیام پاکستان کی تحریک میں آپ کی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ آپ قائد اعظم کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں مالی، اخلاقی مدد فراہم کرنے میں بہت زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح متعدد مواقع پر آپ کے وجود کو باعث افتخار قراردیا۔ اور آپ کي صلاحيتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کومسلم ليگ کا خزانچي مقررکيا ليکن راجا صاحب اس اہم منصب کے ساتھ ساتھ اپني شعلہ بياني سے بھي نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے، يوں زباني خرچ کے ساتھ ساتھ جيب خرچ کي ذمہ دارياں بھي انجام ديتے رہے۔ليکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپني رياست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان ميں تين فيکٹرياں لگانے کي پيشکش بھي ہوئي ليکن آپ  اسے ٹھکرا ديا۔ اپني زندگي کے آخري ايام بڑي کسمپري کے ساتھ جو کي روٹي اور بسوں ميں سفرکرتے ہوئے گزارے۔

مرزا ابوالحسن اصفہانی 1902ء میں بنگال کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ 1924ء میں بار ایٹ لاء ہوئے۔ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ وہ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور مرکز میں تجارت و صنعت کے وزیر رہے۔ 1981ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔1937ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ کا پہلا اجلاس 15 اکتوبر سے 18 اکتوبر 1937ء تک لکھئنو میں منعقد ہوا۔ جناح‘ راجہ صاحب محمود آباد کی کوٹھ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اجلاس میں شرکت کے لئے تیار ہو کر آئے تو شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ اصفہانی، چوہدری خلیق الزمان اور راجہ صاحب بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں نواب اسماعیل خاں بھی بے عیب لباس میں ملبوس اور ایک سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے آگئے۔ جناح نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ کیا آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنی ٹوپی مجھے دے سکتے ہیں۔ نواب اسماعیل خاں نے اپنی روایتی خوش خلقی سے نہ صرف انہیں یہ ٹوپی دی بلکہ پہننے کے لئے بھی کہا۔ صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کیسی لگتی ہے، جناح نے اسے پہن لیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں تو وہ اٹھ کر ساتھ کی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہاں ایک قدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی رائے کا محاسبہ کرنے لگے۔ ٹوپی نہ صرف ٹھیک آئی تھی بلکہ ان پر زیب بھی دیتی تھی۔ دو منٹ بعد وہ واپس آئے تو اصفہانی نے ان سے کہا کہ آپ ٹوپی پہنے رہیں اور اسی طرح اجلاس میں شرکت کریں۔ انہوں نے یہ بات مان لی اور ٹوپی پہنے ہوئے جلسے میں چلے گئے۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ مجھے وہ مجمع ابھی تک یاد ہے۔ مجھے لوگوں کے مسکراتے ہوئے چہرے اب تک نظر آتے ہیں۔ وہ زور زور کی تالیاں اور اللہ اکبر کے فلگ شگاف نعرے اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ سب لوگ سرگوشی کے انداز میں یا باآواز بلند اس ٹوپی اور شیروانی کی تعریف کرنے لگے۔ اس سے انہیں خود بھی اتنی ہی خوشی اور مسرت ہوئی جتنی ہم سب کو۔ لکھنو کا اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی شہر کے بہت سے نوجوان اور معمر لوگوں نے یہ ٹوپی پہننا شروع کر دی جو جناح کی بدولت راتوں رات مقبول ہو گئی تھی۔1۔ یہ ٹوپی اب ’’جناح کیپ‘‘ کہلاتی ہے


منگل، 4 جولائی، 2023

شہا د ت حضر ت مسلم بن عقیل

 

جنا ب مسلم امام حسين حکم پر کوفہ پہنچے اور مختار بن ابی عبید کے گھرمہما ن  نام نہاد شیعان علی آپ کے پاس آتے اور رو رو کر یقین دلاتے کہ امام حسین  کی حمایت میں کوئ کسر نہ اٹھا رکھیں گے چند ہی دن میں بعض مورخین کے مطابق 18 ہزار اور بعض کے مطابق تیس ہزار افراد نے آپ  کے ہاتھ پر امام حسین   کی بیعت کر لی تو آپ نے بھی مطمئن ہو کر امام حسین کو عابس بن ابی شبیب کے ذریعے خط بھجوادیا جس میں امام کو اطلاع دی گئ کہ اہل عراق امام کے حامی ہیں۔مگر آگے کیا ہونا ہے؟کیا وہ لوگ،بے وفائ کا لفظ جن کی عرفیت بن گیا ہے قائم رہیں گے ؟ یہ عین وقت پر بھاگ تو نہیں جائیں گے؟ یہ ایک بڑا محاذ کھول کر پیچھے تو نہیں ہٹ جائیں گے؟ یہ خود امتحان سے بھاگ کر اسے تو امتحان میں نہیں ڈال دیں گے ؟جو نام کا نہیں عمل کا بھی مسلم ہے جو امام   کے حکم پر جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلا ہے۔

اسی دوران کچھ سازشی اور طاغوت کے حمایتیوں کے پیغام یزید کے پاس پہنچتے ہیں کہ نعمان بن بشیر کو عہدہ بدر کر کے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر بنادیا جائے کہ نعمان بن بشیر یزید کی بیعت تسلیم نہ کرنے والوں سے نمٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور یزید ایسا ہی کرتا ہے ایک فاسق اور فاجر کو گورنر کوفہ بنادیتا ہے۔ابن زیاد نے آتے ہی شہر کی سر برآوردہ شخصیات کو جمع کیا اور انھیں حکم دیا کہ اپنے محلے کے پردیسی،خارجی اور مشتبہ لوگوں کو پکڑ کر میرے پاس بھیجو جس نے اس حکم میں کوتاہی کی اس کو اس کے گھر کے دروازے پر پھانسی دے دی جائے گی۔اس صورت حال کے بعد جناب مسلم بن عقیل  جو کہ باقاعدہ ایک لشکر اپنے حمایتیوں کی صورت میں تیار کر چکے تھے،مختار بن ابی عبید کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروہ کے گھر میں پناہ لیتے ہیں اور اس کے بعد خود کو شیعان علی کہلوانے والے ہانی بن عروہ کے گھر جمع ہوا کرتے ہیں۔مگر ابن زیاد کے جاسوس معقل التمیمی نے بڑی چالاکی سے یہ پتا لگا لیا کہ آپ  ہانی بن عروہ کے گھر ہیں اس نے ظاہری طور پر آپ   کی بیعت کی مگر یزید کی جاسوسی کرتا رہا سب سے پہلے آپ کی محفل میں داخل ہوتا اور سب سے آخر میں نکلتا اس طرح اس نے ساری صورتحال ابن زیاد کو بتادی ۔کچھ ہی دنوں میں معقل کی سازش سامنے آگئ اور ہانی کو ابن زیاد کے دربار میں گرفتار کر کے لے جایا گیا تو ہانی بن عروہ پر یہ حقیقت عیاں ہوگئ کہ معقل کو بطور جاسوس مقرر کیا گیا تھا اور اب اس کے لیے اعتراف کے سوا کوئ چارہ نہیں ہے  تو اس نے کہا:  “اے امیر میں نے خود مسلم کو اپنے گھر نہیں بلایا جب وہ آگئے تو میں انھیں پناہ دینے پر مجبور ہوگیا

”اس پر زیاد نے ہانی کو مسلم بن عقیل کو حاضر کرنے کا حکم دیا مگر ہانی نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اپنے مہمان کو قتل کرنے کے لیے پیش نہیں کر سکتا تو ابن زیاد نے ہانی کو بہت مارا اور قید میں ڈال دیا۔اس اکیلے سوار کو جسے وقت کے امام   نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا اس کے ساتھ غداری کا سفر یہیں سے شروع ہوگیا اس امام رضہ کا نمائندہ جسے خدا نے زمین کا امام تسلیم کرلیا تھا اور روئے ارض کی تمام مخلوق نے اپنا امام مان لیا تھا سوائے یزید اور اس کے حواریوں کے۔دل مضطر کی بے کلی بڑھتی بھی اب بڑھتی جائے گی کہ اب جو کچھ ہونے والا ہے اسے سہنے کی تاب نہیں ہے اسے سننے کی ہمت نہیں ہے اسے لکھنے کا حوصلہ نہیں ہے وہ جن کے ہاتھ پر ہزاروں نے بیعت کرلی ہے اب تنہا رہ جائیں گے۔ابن زیاد نے خوف کو ہتھیار بنا لیا ہے ظلم کی داستان شروع کردی ہے جان پر کھیل کر ساتھ دینے کی بات کرنے والے جان کے خوف میں مبتلا ہیں،کہ ابن زیاد نے جکم دیا ہے کثیر بن شہاب کو کہ وہ قبیلہ مذحج کے پاس جائے یزید کی سزا کاڈراوا دے کر مسلم کا ساتھ چھوڑ کے نافرمان بننے کی ترغیب دے۔اس نے کہلوا بھیجا ہے محمد بن اشعث کو کہ وہ کندہ اور حضر موت کے قبائل کے پاس جا کر انھیں موت سے ڈرائے اور مسلم   کا ساتھ چھوڑ کر نافرمان بنائے۔ اور پھر  یہی ہوتا ہے کہ زمین اور آسمان بھی اپنے پیاروں سے شرمندہ ہیں  ۔ہزاروں لوگ مسلم بن عقیل رضہ کا ساتھ چھوڑ گئے ان کا ساتھ جن کو نبی  کے نواسے نے منتخب کیا تھا اب صرف تیس لوگ ہیں مگر آخر میں یہ تیس بھی ابن زیاد کی دھمکیوں سے ڈر جاتے ہیں اور یوں مسلم اب اکیلے ہی مسلم ہیں تنہا مسلم ہیں تاریخ نے ایسے ہرجائ نہ دیکھے تھے،فلک نے ایسی بے وفائ نہ دیکھی تھی،زمین ندامت کے پسینے میں ڈوبی ہوئ تھی ۔

اب مسلم   ان غداروں کے بعد تنہا گلیوں میں پھر رہے ہیں، اندھیرا چھا چکا ہے ایک آدمی بھی نہیں بچا جوجنا بمسلم کی ڈھارس بندھائے۔ آہ!کلیجہ چھلنی ہوا جاتا ہے بہرحال اسی حالت میں قبیلہ کندہ کی ایک عورت طوعہ کے مکان پر جاپہنچتے ہیں،پانی پیتے ہیں عورت پانی پلا کر گھر جانے کا کہتی ہے آپ خاموش کھڑے ہیں،طوعہ سختی سے کہتی ہے تو مسلم گویا ہوتے  ہیں! “اے محترم خاتون !اس شہر میں میرا ناگھر ہے نہ عیال میں تم سے ایک درخواست کرتا ہوں تم اسے منظور کر لوگی تو شاید میں تمھیں اس کا بدلہ دے سکوں۔عورت نے پوچھا تمھاری درخواست کیا ہے ؟مسلم بن عقیل نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں کوفہ والوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے،تم مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دو”۔ عورت نے انھیں پناہ دے دی،بستر بچھایا کھانا پیش کیا لیکن آپ   نے کھانا نا کھایا۔طوعہ کا بیٹا بلال گھر آیا تو اسے شک ہوگیا اور اس نے ضد کر کے ماں اے ساری صورتحال جان کر سزا کے خوف سے یہ خبرعبد الرحمان محمد بن اشعث کے ذریعے ابن زیاد تک پہنچادی کہ مسلم بن عقیل اس کے گھر  چھپے ہیں۔

ابن زیاد نے ابن اشعث کو سپاہیوں کے ہمراہ مسلم   کو گرفتار کرنے بھیجا مگر مسلم  نے جاں بازی سے اتنے سارے لوگوں کا مقابلہ کیا اور پھر ابن اشعث کی امان دینے کی بات پر خود کو اس کے حوالے کردیا مگر ابھی بے وفائ کا ایک گھاو باقی تھا جوں ہی ان کی تلوار ہاتھ سے چھینی گئ انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔جناب مسلم بن عقیل رضہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عبد اللہ بن عباس نے کہا: جس کام کے لیے تمھیں مقرر کیا گیا تھا،اگر کسی دوسرے کو اس کام پر مقرر کیا جاتا اور اس پر وہی افتاد پڑتی جو تم پر پڑ رہی ہے تو وہ کبھی نہ روتا”

مسلم رضہ نے اس موقع پر تاریخی جواب دیا “تمھارا خیال ہے کہ میں موت کے خوف سے رو رہا ہوں !ہر گز نہیں مجھے اپنے قتل کیے جانے کی پروا نہیں میں اپنے خاندان کے لوگوں پر رو رہا ہوں جو عنقریب تمھارے پاس پہنچنے والے ہیں میں حسین رضہ اور آل حسین رضہ کو رو رہا ہوں”۔اس کے بعد تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جناب مسلم رضہ نے دربار میں داخل ہوکر نہتی جان ہو کر بھی طاغوت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور دو بدو ابن زیاد کی کاٹ دار باتوں کا جواب دیا سعد بن ابی وقاص  رض کے بیٹے کو وصیت کی جس میں اپنی نعش امام حسین رضہ کے پاس بھیجنے کا کہا تاکہ وہ کوفے کا قصد نہ کریں-اس کے بعد ابن زیاد کی لغو باتوں کے جواب میں برابر آپ  کلمہ حق کہتے رہے یہاں ابن زیاد نے بکیر بن عمران کو حکم دیا کہ مسلم  کو چھت پر لے جا کر ان کا سر قلم کردیا جائے۔ حسینی قافلے کا نمائندہ اپنی شہادت تک تکبیر استغفار اور درود پڑھتا رہا اور تاریخ نے اپنے صفحات پر جلی حروف میں ثبت کردیا!بعد شہا د ت آ پ کا  سر بر یدہ جسد مبا ر ک کو فہ کی شہر فصیل کے دروا زے   پر آ و یز ا ں  کر دیا

پیر، 3 جولائی، 2023

عید غدیرولائے علی کا اعلان عام-

 

 

عید غدیرولائے علی کا اعلان عام-

 

تاجدار عرب و عجم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔  ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا   اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا-

بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت آچکی ہے پس جس نے اسے دیکھ لیا تو اپنے ہی فائدے کیلئے اور جو اندھا رہا تو اپنا ہی نقصان کیا اور میں تم پر محافظ تو نہیں.الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو بیشک میں تمہارے لئے اس کی طرف سے تنبیہ کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت چاہو پھر اسکے حضور توبہ کرو وہ تمہیں ایک معینہ مدت تک اچھی متاع سے نوازے گا اور ہر صاحب فضل کو اپنے فضل سے نوازے گا اور اگر تم روگردانی کرو گے تو میں تم پر بڑے دن کے عذ اب سےڈرتا ہوں تم الله کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو اور وہ ہر شے پر قادر ہے.-رحمٰن کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر بڑی انکساری سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہدیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجود و قیام میں راتیں بسر کرتے ہیں اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے عذاب جہنم کو پھیردے بلاشبہ اسکا عذاب تو چمٹ جانے والا ہے بیشک وہ نہایت برا ٹھکانہ اور جاۓ قیام ہے.اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل اور انکی روش بین بین ہوتی ہے ہ

یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ہ

”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اس حکم کو   دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی   بیان ھوا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔ یہ جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔

اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نھیں آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ھوئے تھے، انھوں نے ان برھنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ھوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رھی تھی ،بھرحال ظھر کی نمازاداکی گئی۔مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ھوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چھرہ دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ھوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ھو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ھو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کھا:

”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“

”ھم گواہی دیتے ھیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ھونے کی گواہی نھیں دیتے؟

سب نے کہا:کیوں نھیں ہم سب گواہی دیتے ھیں۔

آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔

آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے ھو؟

انھوںنے کہا: جی ہاں۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ھوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا ھوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ھیں؟تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ھو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت  ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ھو جاؤگے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر