اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیتے ہیں القران-حضرت نوح علیہ السّلام کے اس قصّے میں ایمان والوں کے لئے ایک پر مسرت بات یہ ہے کہ مومن کو ہر حال میں اللہ پاک جہنم کے گڑھے میں گرنے نہیں دیتا ہے اوربچا لیتا ہے-قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ
لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا
كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ
بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ
مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ
یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا
مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا
فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ
یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)
ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی
ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر
جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں
مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی
قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم
تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا
کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔-
رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے- اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کی بستی لوگ ہلاک کیئے گئے-حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آپ پر ایمان لانے والوں میں ایک بڑھیا بھی شامل تھی -جب حضرت نوح علیہ السّلام نے بحکم الٰہی کشتی بنانا شروع کی تو ایک مومنہ بڑھیا جو راستے سے گزر رہی تھی اس نے حضرت نوح سے پوچھا۔ ک
ہ آپ یہ کشتی کیوں بنا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایاائے ضعیفہ دنیا میں پانی کا عظیم سیلاب آنے والا ہے جس میں تمام دنیا غرق ہو جائے گی اور اس میں سب کافر ہلاک ہو جائیں گے۔ اور مومن اس کشتی کے ذریعے بچ جائیں گے۔ بڑھیا نے عرض کیا حضور! جب طوفان آنے والا ہو تو مجھے خبر کر دیجئیے گا۔ تا کہ میں بھی کشتی میں سوار ہو جاؤں۔ بڑھیا کی جھونپڑی شہر سے باہر کچھ فاصلہ پر تھی۔ پھر جب طوفان کا وقت آیا تو حضور نوح علیہ السلام دوسرے لوگوں کو تو کشتی پر سوار کرنے میں مشغول ہو گئے مگر اس بڑھیا کا خیال نہ رہا حتٰی کہ خدا کا ہولناک عذاب پانی کے طوفان کی شکل میں آیا اور روئے زمین کے سب کافر ہلاک ہو گئے۔ اور جب یہ عذاب تھم گیا اور پانی اتر گیا اور کشتی والے کشتی سے اترے تب اللہ پاک کے حکم سے معزز فرشتے حضرت روح الامیں تشریف لائے اور حضرت نوح علیہ السّلام کو پیغام پہنچایا کہ اب وہ تمام نباتات زمین میں بو دیجئے جنہیں آپ نے کشتی میں محفوظ کر کے رکھّا تھا
اب حضرت نوح علیہ السّلام نے نباتات بھی زمین میں بو دیں
پھر آپ کو اچانک خیال آیا کہ ان کے پاس ایک مومنہ عورت کشتی میں سوار ہونے کی
اجازت مانگنے آتی تھی اور وہ تو اس بڑھیا کو اپنی کشتی پر بلانا بھول گئےتھے تب وہ
بڑھیا کی جھگّی پر آئے۔ اور اسے آواز دی آپ علیہ السّلام کی آواز کے جواب میں وہ
بڑھِیا سو تے سے اٹھ کرچندھیائ ہوئ آنکھیں
ملتی ہو ئ جھگّی سے باہر آئ اور اس نے حضرت نوح علیہ السّلام کو دیکھتے ہوئے بے ا
ختیار سوال کیا اللہ کے نبی کشتی تیّارہو گئ ہو تو آ جاوں حضرت نوح علیہ السّلام نے بڑھیا سے کہا میں تو
تم کو کشتی پر سوار کرنا ہی بھول گیا ۔ مگر تعجب ہے کہ تم زندہ کیسے بچ گئیں۔ بڑھیا
نے حضرت نوح علیہ السّلام کو جواب دیا -جس خدا نے آپ کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ اسی
خدا نے مجھے میری ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی ہی کے ذریعے بچا لیا۔اور قران کی پکار ہے وہ
ایمان والے تھے جو عذاب سے بچا لئے گئے
(روح البیان ص ۸۵ جل ۲)