عید غدیرولائے علی کا اعلان عام-
تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے پھر فرمایا جس کا میں
مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ ۔ پھر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے
اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو
جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے
ساتھ ہو جا-
بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے
بصیرت آچکی ہے پس جس نے اسے دیکھ لیا تو اپنے ہی فائدے کیلئے اور جو اندھا رہا تو
اپنا ہی نقصان کیا اور میں تم پر محافظ تو نہیں.الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو بیشک
میں تمہارے لئے اس کی طرف سے تنبیہ کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں اور یہ کہ
اپنے رب سے مغفرت چاہو پھر اسکے حضور توبہ کرو وہ تمہیں ایک معینہ مدت تک اچھی
متاع سے نوازے گا اور ہر صاحب فضل کو اپنے فضل سے نوازے گا اور اگر تم روگردانی
کرو گے تو میں تم پر بڑے دن کے عذ اب سےڈرتا ہوں تم الله کی طرف لوٹ کر جانے والے
ہو اور وہ ہر شے پر قادر ہے.-رحمٰن کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر بڑی انکساری سے
چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہدیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو اور وہ
جو اپنے رب کیلئے سجود و قیام میں راتیں بسر کرتے ہیں اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے
ہمارے رب ہم سے عذاب جہنم کو پھیردے بلاشبہ اسکا عذاب تو چمٹ جانے والا ہے بیشک وہ
نہایت برا ٹھکانہ اور جاۓ
قیام ہے.اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل اور
انکی روش بین بین ہوتی ہے ہ
یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا
اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ
رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ
الْکَافِرِینَ ہ
”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اس حکم
کو دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل
کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پنچایا اور خدا آپ کو
لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ
کی بیان ھوا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی
علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔ یہ جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال،
آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھر نے کا حکم دیا
گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی
دیر تک رکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا
تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت
دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض
لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے
ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نھیں آتا
تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے
ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ھوئے تھے، انھوں نے
ان برھنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا
تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ھوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رھی تھی ،بھرحال
ظھر کی نمازاداکی گئی۔مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر
پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں آگاہ کیا
کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ھوجائیں جسے ایک
مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے دور تھے وہ اس
عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چھرہ دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا
اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پھلے پروردگار
عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب
خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی
جوابدہ ھوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ھو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ھو ؟سب لو گوں نے
بلند آواز میں کھا:
”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ
نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“
”ھم گواہی دیتے ھیں کہ آپ نے فریضہٴ
رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں
سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن
مردوں کے قبروں سے مبعوث ھونے کی گواہی نھیں دیتے؟
سب نے کہا:کیوں نھیں ہم سب گواہی دیتے
ھیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری
آواز سن رھے ھو؟
انھوںنے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا
عالم طاری ھوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ، پیغمبر
نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا ھوں
تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر
کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ھیں؟تو پیغمبراکرم
نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے، اس کا ایک سرا
پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا
ورنہ تم گمراہ ھو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ
دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔ان دونوں
سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا
کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ھو جاؤگے