اتوار، 11 جون، 2023

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت مبارک ہو

 

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو-فرزندرسولۖ، سلطان عرب و عجم حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام گیارہ ذی القعدہ ایک سو اڑتالیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں گلستا ن نبوت میں امامت کی منزل ہشتم  پر تشریف لائے- امام رضا علیہ السلام کے علم کا اتنا شہرہ تھا کہ رضا کے ساتھ ساتھ آپ کو عالم آل محمد کے نام سے بھی شہرت حاصل تھی- آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابوالحسن ہے۔آپ کا نام مبارک روز ازل سے اللہ کریم کی بارگاہ میں لوح محفوظ پر درج تھا

لقب رضاْ کی وضاحت: ہمارے ائمہ علیہ السلام کے نام، لقب اور کنیت میں ایک خاص پیغام ہوتا ہے  مثلاً سجادعلیہ السّلام، باقرعلیہ السّلام -صادق  علیہ السّلام  -ابن جریر طبری نے سال ٢١ھ کے واقعات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس سال مامون رشید نے امام علی بن موسیٰ بن جعفرعلیہ السّلام  کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور ان کو ”الرضا من آلِ محمد علیہ السّلام ” کے نام سے مخصوص کیا۔ البتہ ابن خلدون نے ”الرضا ” کی جگہ ”الرضی ” تحریر کیا ہے۔ لیکن محمد جواد معینی (مترجم) کتاب ” امام علی بن موسیٰ علیہ السّلام الرضا علیہ السّلام ” نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ دلیل دی ہے کہ اس لقب کا ولی عہدی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مامون رشید کے وزیر خاص فضل بن سہل نے امام کے نام اپنے تمام پیغامات میں الفاظ ” بعلی بن موسیٰ الرضا علیہ السّلام  ” سے مخاطب کیا ہے جو اس لقب کی قدامت پر دلیل ہے۔ اس کے علاوہ ابوالحسن ، ابو علی اور ابو محمد آپ علیہ السّلام کی کنیت ہیں۔ امام علیہ السّلام کے رضا علیہ السّلام  کے علاوہ اور بھی القاب ہیں جنہیں سراج اﷲ ، نور الھدیٰ ، سلطان انس وجن، غریب الغربا اور شمس الشموس وغیرہ ہیں جو آپ کی زیارتوں میں شامل ہیں۔ 

اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ

بو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا" کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمدؐ اور امام رئوف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔ 

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ سنہ 200 ہجری یا سنہ 201 ہجری کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور اور توحید و اس کے شرائط جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کے تحت مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت اور علمی بلندی کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے ہیں جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مأمون کے ساتھ ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو مشرق و مغرب میں میرا حکم چلتا تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔ 

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میں مسجد نبوی میں بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی علمی مشکل سے دوچار تھے تو وہ لوگ اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا-یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تاکہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کی جانب سے امام رضاؑ کے استقبال کے لیے متوقع اجتماعات سے خوفزدہ تھا۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔ کتاب "اطلسِ شیعہ" کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: «اگر حکومت تیرا حق ہے تو تم کیوں کسی دوسرے کو دوگے اور اگر تمہارا حق نہیں ہے تو تم اس بات کے لائق ہی نہیں ہو کہ کسی دوسرے کو بخش دے۔؟. اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا

۔ اس موقع پر مأمون نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں حکومتی معاملات کے سلسلے میں نہ کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔  اس طرح مومون نے سنہ201ھ، 7 رمضان بروز پیر امام رضاؑ کے دست مبارک پر بعنوان ولی عہد بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہونے کے بجائے سبز کپڑے پہننے کا حکم جاری کیا۔ سوائے اسماعیل بن جعفر ہاشمی کے سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔بعد از آں لوگوں سے امام کی بیعت لی گئی، امام کے نام پر لوگوں کے مابین خطبے پڑھے جانے لگے اور امام کے نام پر سرکاری سکے جاری کیے

-اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس اور مرو. 

شیخ مفید لکھتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جبکہ امام رضاؑ کو کسی دوسرے مقام پر ٹھہرایا اور آپ کی تکریم و تعظیم کی -اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو

بدھ، 7 جون، 2023

شاہد ہے ادائے میثم بھی

 

 

شاہد ہے ادائے میثم بھی ہم ہیں وہ علیؑ کے دیوانے

جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہے اُس پیڑ کو پانی دیتے ہیں

میں نے یہ شعر لکھنو کے ایک شاعر جن کا نام مجھے نہیں معلوم ان کی منقبت سے لیا ہے-روائت ہے کہ مولا علی نے ایک بار کسی درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میثم تم کو میری محبّت کے جرم میں اس پیڑ پر پھانسی دی جائے گی-تب سے حضرت میثم تمّار اس درخت کو بڑی تو جہ سے پانی دیا کرتے تھے-وہ علم تفسیر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔  مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ 

لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے یہ خبر کہانت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عجمی والدین نے تمہارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی  امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمہیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔

 ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی۔ عاشق علی میثم تمار کی شہادت نمونہ حق گوئی ہےامام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل جناب میثم کی 60 ہجری میں ابن زیاد کے حکم سے شہادت ہوئی۔22 ذي الحجہ سنہ 60 ہجری قمری کو رسول اکرم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کے یہ صحابی میثم تمّار شہید ہوئے ۔میثم تمّار ایک غلام تھے جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کردیا تھا ۔وہ حضرت علی علیہ السلام کے بھی انتہائي قریبی ساتھی اور وفادار صحابی تھے ۔میثم تمار کو اموی حکمرانوں نے اہل بیت رسول (ص) سے مودت و عقیدت کے جرم میں شہید کردیا۔آپ کا مزار عراق کے شہر کوفے میں مرجع خلائق ہے جب عبید اللہ بن زیاد کوفہ آیا تو اس نے معرف کو بلایا اور اس سے میثم کے بارے میں تفتیش کی، معرف نے کہا: حج پر گئے ہیں، ابن زیاد نے کہا: اگر اس کو نہ لایا تو تجھے قتل کردوں گا، معرف نے مہلت مانگی، اور جناب میثم کے استقبال کیلئے قاسدیہ گیا اور جناب میثم کے آنے تک وہیں پر انتظار کرتا رہا ، پھر ان کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا،

جس وقت مجلس میں داخل ہوئے تو حاضرین نے کہا یہ علی(علیہ السلام)کے سب سے نزدیکی دوست ہیں، عبید اللہ نے کہا: کیا تم میں جرائت ہے کہ علی سے بیزاری اختیار کرو،جناب میثم نے فرمایا: اگر میں یہ کام نہ کروں تو تم کیا کروگے؟ اس نے کہا خدا کی قسم تمہیں قتل کردوں گا، جناب میثم نے فرمایا: میرے مولا علی(علیہ السلام)نے مجھے خبر دی ہے کہ تو مجھے قتل کرے گااور دوسرے نو افراد کے ساتھ عمرو بن الحریث کے گھر میں پھانسی پر لٹکائے گا۔عبیداللہ نے حکم دیا کہ مختار اور میثم کو زندان میں ڈال دو، میثم نے مختار سے کہا تم آزاد ہوجاؤ گے لیکن یہ شخص مجھے قتل کرےگا، پھر مختار کو قتل کرنے کیلئے باہر لے گئے، اسی وقت ایک قاصد یزید کے پاس سے آیا کہ مختار کو آزادکردے، لیکن میثم کو عمرو نب الحریث کے گھر میں پھانسی دیدے، عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ پھانسی دینے کی جگہ کو صاف کردے اور اور گھر میں خوشبو لگادے ،میثم نے دار سے اہل بیت (علیہم السلام)کے فضائل بیان کرنے شروع کئے اور بنی امیہ پر لعنت کی اور بنی امیہ کے منقرض ہونے کی خبر دی، یہاں تک کہ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے تجھے ذلیل و رسوال کیاہےاس ملعون نے حکم دیا کہ ان کے منہ کو لگام سے باندھ دو تاکہ بول نہ سکے-

تیسرے دن اس ملعون کو ایک اسلحہ مل گیا اس نے کہا : خدا کی قسم اس اسلحہ کو تمہارے ضرور ماروں گا، جبکہ جناب میثم دن میں روزہ سے تھے اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتے تھے اس نے وہ اسلحہ آپ کے پیٹ کے نیچے مارا جو اندر تک چلا گیا، تیسرے دن آپ کی ناک سے خون آیا اورآپ کی ڈاڈھی اور سینہ مبارک پرجاری ہوگیااور آپ کی روح عالم بقاء کی طرف پرواز کر گئی۔ میثم کی شہادت امام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل ہوئی،۔رات کو سات  خرما فروش خاموشی سے آئے اور انہوں نے جسد مبارک کو سولی سے اتار کر مخفی طورپر نہر کے کنارے دفن کردیا، پھر اس کے اوپر پانی ڈال دیا تاکہ کسی کو آپ کی قبر کا پتہ نہ چلے، اس کے بعد ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ کی قبر کو بہت تلاش کیا لیکن انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اتوار، 4 جون، 2023

نوابین کی ریاست بہاول پور

<\head>

 

نوابین کی ریاست بہاول پور کے لئے بتایا جاتا ہے کہ بغداد کی تباہی کے بعد وہاں سے آئے ہوئے عبّاسی حکمرانوں نے-نواب صادق محمد خان اول عباسی کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی نے 1774ءمیں دریائے ستلج کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک نئے شہر بہاول پور کی بنیاد رکھی اور ریاست کے وسط میں ہونے کی بنا پر اسے ریاست کا دار الخلافہ قرار دیا گیا،یہ بڑے ہی صاحبان علم و ہنر کے دلدادہ حاکم ثابت ہوئے اور انہوں نے بہاول پورکے چپّہ چپّہ پر علم کی شمعیں جلانے کے لئے اسکول 'کالج' مدرسوں کا جال بچھا دیا اتو دوسری جانب انتہائ خوبصورت عمارتوں کی بنیادیں رکھتے گئے -وہ اب اگلے جہان جا چکے ہیں لیکن بہاول پور کی سرزمین پر ا نکی یادگاریں ایک جانب علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی تعمیرات سیّاحوں کو دعوت نظارہ دیتی دکھائ دے رہی ہیں

تاریخ کہتی  ہے کہ مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔ نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔

نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ے جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔

ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ 

اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔ قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکرغیر آباد زمینوں کو لہلہاتی فصلوں کے کھیتوں میں بدل دیا 

 ۔ عباسی خاندان نے اپنے دور میں بہاولپور میں جو خوبصورت اور عظیم الشان محلات بنوائے تھے ان میں نور محل، دربار محل، نشاط محل، ڈیرہ نواب صاحب کا صادق گڑھ پیلس شامل ہیں جبکہ قلعہ جات میں قلعہ ڈیراور، قلعہ موج گڑھ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ ولر، قلعہ پھولڑہ، قلعہ مٹو اور قلعہ بجنوٹ وغیرہ شامل ہیں، نوابوں نے فن تعمیرات کے نمونہ محلات تو اس وقت شہر کے قریب خوبصورت اور پرفضا مقامات پر بنوائے تھے، جبکہ قلعہ جات شہر سے دور ریگستان میں ریت کے  ٹیلوں کے درمیان بنائے گئے تھے


اتوار، 28 مئی، 2023

پاکستا ن کا دل 'دریائے سندھ

 

 ر  وا ئت ہے کہ  حضر ت نو ح  علیہ  ا لسلا م    جب طو فا  ن    سے گھبر ا گ  ۓ تب آ پ نے اللہ سے نجا ت کی دعا کی تب اللہ نے سا ت بڑ ے در یا تخیق کر کے پا نی ان میں اتا ر د یا ان میں دریائے سندھ  بھی  شا مل  تھا –یہ  دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ 450,000 مربع میل یا 1,165,000 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں سے یہ پہاڑی علاقہ ( قراقرم، ہمالیہ، اور ہندوکش) میں 175,000 مربع میل یا 453,000 مربع کلومیٹر بہتا ہے اور باقی پاکستان کے میدانوں میں بہتا ہے۔ چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے سیون ہیڈن 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر سنگی کباب یا سینگے کباب کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔

دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر سکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے تربیلا ڈیم۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس آٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔

گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان یا کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔

منبہ کی تلاش-یہ دریا جو کیلاش کے قریب سے نکلتا ہے اور اٹھارہ سو میل کا سفر طہ کرکے بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ہندووَں اور بدھووَں کا کوہ کیلاش کوہ میرو برہما کا نگر ہے اور جن دیوتاؤں اگنی، وایو اور اندر کو وہ پوجتے ہیں ان کا اصل مسکن یہیں ہے۔ اس علاقہ کو جھیلوں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہاں دو بڑی جھیلیں واقع ہیں۔ جن میں مان سرود کو مقدس اور راکش تال کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔تبتیوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل سے دریائے سندھ اور تین اور دریا برہما پتر، کرنالی (گنگا کا ایک بڑ معاون دریا ) اور ستلج بھی نکلتے ہیں۔ ہندووَں اور بدھوں کا بھی یہی کہنا تھا اور ان کی مذہبی تصویروں میں اس جھیل میں ان چاروں دریاؤں کو چار جانوروں کے منہ سے نکلتے دیکھایا گیا تھا۔ مشرق میں سے برہما پتر گھوڑے کے منہ سے، کرنالی کو جنوب میں مور کے منہ سے، ستلج مغربی جانب سے ہاتھی کے منہ سے اور دریائے سندھ شمال میں ببر شیر یا سنگی کباب سے نکل رہا ہے۔ اس لیے یہ دریا تبت میں سنگی کباب یعنی شیر دریا کہلاتا ہے۔یورپی جغرافیہ دان تبتوں کی اس روایت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ جھیل مانسرور چار بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دریائے سندھ کا منبع کیلاش کے پہاڑی علاقے میں ہے۔ چنانچہ جب 1858ء میں جب برصغیر کے شمال مغرب کے علاقے میں ریلوے لائین تیار کی جارہی تھی تو اس کے لیے جو نقشہ تیار ہوا اس میں دریائے سندھ کو کوہ کیلاش سے نکلتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ بہرحال انیسویں صدی کی ابتدا تک اس کا منبع مخفی رہا اور سطح مرتفع کے پیچیدہ اور وسیع علاقے کی وادیوں اور چوٹیوں کی نشادہی محض اندازے سے ہوتی رہی۔

انیسویں صدی کے آخر تک کئی یورپین نے جھیل مانسرور کا سفر کیا اور دریائے سندھ کے منبع کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تبتی احکام کسی یورپین کو اس جھیل کا سروے نہیں کرنے دیتے تھے۔ پھر بھی بہت سے یورپین بھیس بدل کر وہاں پہنچ گئے اور انیسویں صدی کے اختتام تک ستلج (ہاتھی دریا) اور کرنالی (مور دریا) کے منبع تلاش کر لیے گئے۔ یہ پندرہ میل دور جنوب مغرب کی طرف شیطانی یا راکش جھیل سے نکلتے ہیں جو ایک جھوٹی سی ندی کے ذریعہ مانسرور جھیل سے منسلک ہے۔ مگر گھوڑا دریا اور شیر ببر دریا ( برہما پتر اور سندھ ) کے منبع کا اب تک پتہ نہیں چلا تھا اور انہیں ان کے درست منبع کا ابھی تک پتہ نہیں تھا۔

یہ اعزاز ایک سویڈش سیاح سیون ہیڈن کو ملا۔ وہ اس سے پہلے مانسرور سے ساٹھ میل مشرق کی جانب برہما پتر کی ابتدائی ندی دریافت کرچکا تھا۔ وہ سنگی کباب یعنی شیر دریا کے دہانے کی تلاش میں 1907ء میں دوبارہ مانسرور جھیل پہنچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دریائے سندھ کا منبع جھیل کے کہیں شمال کی جانب ہے اور برہما پتر رکس تال سے نکلتا ہے۔ اس لیے ہیڈن شمال مغرب کی طرف جانا چاہتا تھا۔ اسے۔ تبتی افسر نے بہت اصرار پر اجازت دی۔بالآخر ہیڈن چند چراوہوں کی مدد سنگی کباب پہنچا۔ وہ پہلا سفید آدمی تھا جس نے سندھ اور برہم بترا کے منبع کے مقام تک پہنچ سکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے اس دریا کے کئی منہ ہیں اور اس میں سے کس کو دریائے سندھ کا منبع مانا جائے۔ لیکن چونکہ روایات سنگی کباب کے حق میں اس لیے اسے دریائے سندھ کا منبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اگرچہ سنگی کباب جھیل مانسرور سے صرف تیس میل دور ہے۔ لیکن تبتی احکام کو یقین تھا کہ دریائے سندھ جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔ کیوں کہ ایک بڑا طاقتور دریا کو اسی مقدس جھیل سے نکلنا چاہیے۔ اگرچہ یہ چارووں دریا اس جھیل سے نہیں نکلتے ہیں مگر اس جھیل سے زیادہ فاصلے پر نہیں نکلتے ہیں۔ اس طرح یہ روایات بہت زیادہ غلط بھی نہیں تھیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دریا ایک ہی مقام سے پھوٹ کر مختلف سمتوں میں رخ کرتے ہیں۔میں دریائے سندھ وہاں سے اپنے ساتھ مختلف ندی نالوں کا پانی لیتا ہوا آگے بڑھتا ہے جہاں بھورے ٹیلے اور برف سے ڈھکے سفید پہاڑ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور درمیان میں دریائے سندھ نیلے اور اٹھلے پھیلاوَ کے ساتھ بتا ہے۔ اس کا ایک دھارا جو جنوبی سرچشمہ ہے اور کیلاش کے نشیب کے کنارے سے ہوتی ہوئی گارٹنگ اور گیاتیما کے سامنے سے گزرتی ہے اور دوسری یعنی شمالی شاخ جو کیلاش سلسلے کے شمال میں سے نکلتی ہے اور بہتی ہوئی جنوبی شاخ کے ساتھ مل کر اور گلجیٹ کے قریب سے گزرتی ہے۔ یہاں دریائے سندھ کا پہلا معاون دریا گارتنگ ملتا ہے۔ گارتنگ دریا سندھ کے برابر ہی ہے اور ایک کھلی وادی جگہ بہتا ہوا آتا ہے۔ جس کے کنارے مغربی تبت کے صوبہ گارتنگ کا دالحکومت گارتنگ واقع ہے۔ جب کہ دریائے سندھ اپنے منبع کی وجہ سے پہاڑوں میں چکر لگانے پر مجبور ہے۔ یہاں دونوں دریا مل یا گارتنگ اور سندھ میں ارتصال کے بعد دریائے سندھ دس ہزار فٹ کی بلندی پر بہتا ہے اور سفر کرتا ہوا رواں دواں ہوجاتا ہے۔ یہاں اس پس منظر میں پہاڑوں کی سفید چوٹیاں سر نکالے کھڑی ہوئی ہیں۔ یہاں دریا سندھ کا رخ آہستہ آہستہ شمال مغرب کی طرف سے لداخ کا رخ کرتا ہے۔ یہاں تاشی گانگ جو تبت کا آخری گاءوں ہے۔ یہاں پہلے پتھریلے راستہ پر دعائیہ جھنڈے اور مقبرے بنے ہوئے۔ بے تراشیدہ پتھر اور لکڑی کے شہتیروں کے بنے مکانات دریائے سندھ کے ساتھ بنی ایک خانقاہ کے پس منظر میں دب جاتا ہے اور دیکھنے والوں صرف یہ خانقاہ ہی نظر آتی ہے۔

اس کی راہ میں ایسے گاؤں کم ہیں جو سارا سال آباد رہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے پانچ میل سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ غیر تراشہ پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنے ہوئے یہ دیہات عموماً دریائے سندھ کی معاون ندیوں کے کنارے زمین کے چھوٹے چھوٹے قابل کاشت ٹکروں پر آباد ہیں۔ سنگی کباب (دریائے سندھ) چل کر سطح مرتفع تبت کے مغرب میں واقع بلند و بالا وادیوں میں سفر کرتا ہوا شمال مغرب پھر مغرب کا رخ کرتا ہے اور اس نقشے میں دیکھیں تو اس کی شکل وہاں درانتی کا طرح یا ہلال کی شکل بناتا ہے۔ لہذا اس دریا ابتدائی سفر مغربی تبت میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ مغربی تبت کو چراہگاہیں مہیا کرتا ہوا کشمیر کا رخ کرتا ہے۔یہ میدانوں سے شروع ہوکر چٹانوں سے گذر کر دریا سندھ کے کنارے کنارے اوپر کی سمت جارہا ہوتا ہے۔ جس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑوں کی دیواریں اور دوسری سمت میں دریائے سندھ کی طرف جاتی ہوئی عمودی کھائیاں اور پھسلتے ہوئے برف کے تودے اور مٹی کی چٹانیں یعنی مسقل خطرہ منڈلا رہا ہوتا ہے۔

جمعرات، 25 مئی، 2023

مکئ آپ کی غذا بھی اور دوا بھی


گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی روز مرہ غذا کے شیڈول میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے لیکن اس موسم میں مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو‘ مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شاید ہی کوئی اور دکھاتا ہو۔ مکئی کا شمار اناج کی اس قسم میں ہوتا ہے جو سال کے آغاز سے اختتام تک مارکیٹ میں باآسانی دستیاب رہتی ہے۔مکئی کے چونکا دینے والے فوائد:اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے‘ بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے۔ بلغم صفرا اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے۔ دیر ہضم ہے‘ باہ کو قوت دیتی ہے‘ بدن کو قوت دیتی ہے‘ زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم‘ قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے۔ سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے۔ آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے۔ کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے۔ اس کے آٹے کا لپٹا بنا کر مریض کو پلانے سے صحت ہوتی ہے اور بھوک میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اچھی مکئی کے کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سےدست آنے لگتے ہیں۔

 اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے۔ مکئی کی گلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کر دیں تو فوراً فائد ہوتا ہے۔ اس کی گلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت جلد فائدہ ہوتا ہے۔ اسے دن میں پانچ پانچ رتی تین مرتبہ دیتے ہیں۔ اس کی ڈاڑھی کا جوشاندہ  پلانے سے مثٓانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے اور پیشاب خوب آتا ہے۔ یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خون بستہ کو تحلیل کرتی ہے۔ دستوں کو روکتی ہے‘ سل میں مفید ہے۔ اس کا آتا سرکے میں ملا کر لیپ کرنے سے خارش اور ہاتھ پاؤں و ناخنوں کے پھٹنے کو مفید ہے۔ اس کے جوشاندہ کا حقنہ آنتوں کے زخم کو دور کرتا ہے اس میں غذائیت گیہوں سے کم ہے۔-نشاستہ سے بھرپور خوراک: خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر‘ کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کم کرنے کا موجب بنتی ہے۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق جو لوگ مکئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈشوگر‘ انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

 اس حوالے سے ماہرین نے دو ایسے گروپس میں شامل افراد کا موازنہ کیا جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا تھے۔ ایک گروپ نے فائبر (نشاستہ) پر مشتمل غذا کا استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ نے کم نشاستہ والی غذا استعمال کی گئی۔ پہلے گروپ میں صحت کی جانب سے مثبت نتائج ظاہر ہوئے کیونکہ ان افراد نے چوبیس گرام تک فائبر روزانہ استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ میں کولیسٹرول اور بلڈشوگر کی شکایات بدستور جاری رہیں۔مکئی کو پاپ کارن‘ سوپ‘ سلاد اور سالن وغیرہ میں پکایا جاتا ہے اور ایک طرح سے اس کو گرمیوں میں باربی کیو کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مکئی کے بھٹے اور سٹے بچوں میں مقبول عام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں میں اگر مکئی کو زیادہ ترجیح دی جائے تو زیادہ مفید ہے۔سردیوں کے آغاز میں ہی مکئی کی فصل تیار ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب بازاروں میں مکئی کے بھٹے فروخت کرنے والے اُمڈ آتے ہیں کوئی نمک میں بھون رہا ہے تو کوئی ریت میں پکا کر اُنہیں فروخت کررہا ہے ۔خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر ،کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کو کم کرنے کا موجب بنتی ہے

ماہرین کی جانب سے  پیلے، ذائقے سے بھرپور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل مکئی کے دانوں میں موجود غذائیت انتہائی صحت بخش قرار دی گئی ہے، اس میں موجود وٹامن B1 اور B5 توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پٹھوں کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، مکئی کے استعمال سے صحت پر متعدد طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گا۔ غذائی ماہرین کے مطابق چھلی، بھٹہ یا مکئی میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو کہ بے شمار امراض سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتا ہے، اس میں موجود فائبر جسم کی توانائی بحال کرتا، کولیسٹرول لیول کی سطح متوازن بناتا اور نظامِ ہاضمہ کی کارکردگی درست رکھتا ہے جس کے نتیجے میں قبض کی شکایت سے نجات ممکن ہوتی ہے۔-مکئی کے استعمال سے کمزور بینائی کا علاج بھی ممکن ہے، مکئی میں موجود Carotenoid ناصرف بینائی تیز کرتا ہے بلکہ وٹامن اے کے حصول کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔


حالیہ امریکی تحقیق کے مطابق پاپ کارن صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں جن کا استعمال پھل اور سبزیوں کی طرح ہی مفید ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق پاپ کارن میں بھی پھلوں میں پائے جانے والی صحت کے لیے مطلوب غذائیت موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ افراد جو پھل اور سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے وہ پاپ کارن کھا سکتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔مکئ کے4 منفرد صحت کے فوائد جو آپ کو متعدد بیماریوں سے دور رکھتے مکئ ، جسے میز کے نام سے بھی جانا جاتا ہےاس کے پودے کا پتوں والا ڈنڈا جرگ کے پھول اور الگ الگ بیضوی پھول پیدا کرتا ہے جسے کارن یا مکئ کہتے ہیں جن سے گٹھلی یا بیج نکلتے ہیں، جو کہ اناج ہیں

مکئ ایک سبزی ہےیہ اصل میں ایک سبزی، ایک مکمل اناج، اور ایک پھل ہے. لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کس شکل میں آتا ہے یا یہ کس زمرے میں آتا ہے، مکئی آپ کے لیے اچھی ہے اور صحت مند غذا کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سادہ پاپ کارن بھی صحت مند ہوسکتا ہے جب تیل، مکھن یا نمک کے بغیر تیار کیا جائےمیٹھی مکئ-میٹھی کارن- پیلے، سفید یا دو رنگوں کے امتزاج میں آتی ہے اور اس کا ذائقہ ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے۔پاپ کارن، تیار کرنے سے پہلے، اس کا ایک نرم، نشاستہ دار مرکز ہوتا ہے جس کے چاروں طرف سنہرے رنگ کے سخت خول ہوتے ہیں۔ اندر پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ جب آپ پاپ کارن کو پین میں یا مائکروویو میں گرم کرتے ہیں، تو اندر کی نمی بھاپ چھوڑ دیتی ہے۔ بھاپ سے دباؤ اس مقام تک بنتا ہے جہاں دانا پھٹ جاتا ہے، اور مرکز ایک سفید سفید ڈلی میں کھل جاتا ہے۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ڈینٹ کارن-ڈینٹ کارن، جو سفید اور پیلے رنگ میں آتا ہے، ہر دانے کے اوپر ایک ڈینٹ ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی استعمال جانوروں کی خوراک ۔

مکئی میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اگر آپ دن میں ایک بھٹہ یا پھر ایک کپ مکئی کا استعمال کریں تو اس سے 18.4فائبر حاصل کر سکتے ہیں جس سے بلڈ شوگر کو مستحکم کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شائد ہی کوئی اور دکھاتا ہو -اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے ۔بلغم صفر اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے ۔زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے ۔کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے ۔سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے ۔آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے ۔کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے ۔مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سے دست آنے لگتے ہیں۔اس کے پومل یا کھیلیں مریض کو ہرگز نہ کھلائے جائیں اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے ۔مکئی کی گُلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کردیں تو فوراً فائد ہ ہوتا ہے ۔اس کی گُلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت فائدہ وہتا ہے ۔اس کی داڑھی کا جوشاندہ یا خیساندہ پلانے سے مثانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے ار پیشاب خوب آتا ہے ۔یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خوبستہ کو تحلیل کرتی ہے ۔تیار شدہ کھانے ہیں، جیسے ٹارٹیلا چپس اور گرٹس۔تکنیکی طور پر یہ پورے اناج کے خاندان کا رکن ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ مکئی بھی قدرتی طور پر گلوٹین سے پاک ہے، جو اسے ان لوگوں کے لیے گندم کا ایک اچھا متبادل بناتی ہے جنہیں گلوٹین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس ورسٹائل اناج کے صحت سے متعلق فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں مکئی کے چار اور منفرد صحت کے فوائد ہیں۔مکئ ایک مکمل اناج- مکئ کی روٹی - مکئ کا ساگ --بہترین صحت بخش کھانا

مکمل اناج کے طور پر، یہ صحت کے لیے حفاظتی خوراک  ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق جو لوگ اس  کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈ شوگر، انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔اہم غذائی اجزاء سے بھرپورمکئی میں متعدد بی وٹامنز کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم بھی ہوتا ہے۔ معدنیات صحت مند بلڈ پریشر، دل کے کام، پٹھوں کے درد کو روکتا ہے، اور پٹھوں کی طاقت کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔یہ دیگر اناج کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ وٹامن اے فراہم کرتی ہے۔ یہ وٹامن اے مدافعتی نظام کی حمایت کرتا ہے، اور آپ کی سانس کی نالی میں چپچپی جھلیوں کو بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مضبوط جھلی جراثیم کو آپ کے خون سے دور رکھنے کے لیے بہتر حفاظتی رکاوٹیں بناتی ہے۔مکئ حفاظتی اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتی ہےاینٹی آکسیڈینٹ کیروٹینائڈز کے ایک اچھے ذریعہ کے طور پر، جیسے لوٹین اور زیزنتھین، پیلی مکئی آنکھوں کی صحت کو فروغ دے سکتی ہے۔ یہ بہت سے وٹامنز اور معدنیات کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے، پورے اناج والی مکئی کا اعتدال پسند استعمال، جیسے پاپ کارن یا سویٹ کارن، صحت مند غذا میں ایک بہترین اضافہ ہو سکتا ہے۔سوزش کو روکنے میں مددگار-ینلے اور جامنی مکئ میں دیگر اینٹی آکسیڈینٹ سوزش کو روکنے میں خاص طور پر اچھے ثابت ہوئے ہیں۔ 

بدھ، 24 مئی، 2023

بڑا اما م باڑہ لکھنو'یادگارآصف الدّولہ

 


نواب آصف الدولہ (پیدائش: 1748ء، وفات: 1797) اردو شاعر اور والی اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدر دان تھے۔ دہلی کے مشہور شعرا مرزا رفیع سودا میر تقی میر اور سید محمد میر سوز انہی کے عہد حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا ہوا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ ایک دیوان ان سے یادگار ہے۔ جن میں غزلیں، رباعیاں، مخمس اور ایک مثنوی ہے۔ 

آصف الدولہ نے فیض آباد کو اودھ کی راجدھانی ترک کرکے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تھا۔ انہوں نے خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کرائی،جن کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔آصف الدولہ کے اس امام باڑے،مسجد،اور بھول بھلیاں وغیرہ کی بنیاد1784 میں رکھی گئی۔کئی سال تک عمارت کی تعمیر جاری رہی اورجب مکمل ہوئی تو پوری دنیا نے واہ واہ کی صدا بلند کی۔بہرحال فراخ دل نواب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ جس کو نہ دیں مولا۔اس کو دیں آصف الدولہ یعنی فراخدلی اور ترس خدائی کی وجہ سے نواب کی یہ شبیہ ابھری۔

امام باڑے کے وسیع دالان میں نواب آصف الدولہ کی قبر ہے، امام باڑے میں جھاڑ ،فانوس کی بڑی تعداد ٹوٹی اور پھوٹی حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ نشین پر علم و تعزیے ہیں،شیشہ آلات کافی ہیں مگر ان کی قلعی اتر چکی ہے، فرش جا بجا اکھڑا ہوا ہے ۔محرم میں یہاں برقی قمقموں سے عمارت کو سجایا جاتا ہے اور نواب کے دور کے محرم کی سجاوٹ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر سب سے زیادہ افسوسناک پہلو امام باڑے کی آمدنی کا صحیح استعمال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے۔امام باڑے کی زمینون کو یو پی سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں۔ مجموعی طور سے آصف الدولہ کا امامباڑہ اور مسجد بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔مسجد کے گنبدوں،میناروں کا بھی جا بجا پلاسٹر ٹوٹا ہوا ہے اور کسی بھی ناگہانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں 1749ء ؁ میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔ 

لکھنو بڑے امام باڑے کی عمارت کی تعمیر پہلے کسی اور مقصد کے لئے کی گئ تھی جسے بعد میں امام بار گاہ کے لئے مختص کر دیا گیا-نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام باڑہ | امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ کی شان ہے۔یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ ١٧٩٠ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303فٹ لمبا،53فٹ چوڑا اور 63فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے -

بہو بیگم کے اس فراخدل بیٹے آصف الدولہ کی اس عمارت میں کبھی کبھار کچھ مرمت کاری ہوجاتی ہے لیکن اوپری حصوں سے ان میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر داخلی حصے، شاہ نشین اور چھتوں کی حالت بد تر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا کی یہ واحد عمارت ہے جس میں لکڑی یا لوہے کا کہیں استعمال نہیں ہواہے۔ روشن اور ہوادار امامباڑے کو دیکھنے روزانہ ہزاروں سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔امام باڑے کے پہلو میں شاندار وسیع آصفی مسجد ہے جہاں شیعہ حضرات عید ین کے علاوہ جمعہ اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔

جمعہ، 19 مئی، 2023

اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت

head>

 دنیا آج کے دور میں ترقّی کی معراج پر پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہے-اس لئے آج کے دور کا تقاضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھی جائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان پر بھی پوری گرفت رکھّی جائے ، متعدد زبانوں میں بات چیت کرنے کے قابل ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔  درحقیقت، بہت سی اچھی وجوہات ہیں کہ اپنی مادری زبان کو اچھی طرح جاننا کیوں ضروری ہے۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی غیرملکی زبان سیکھی جائے۔ کیا اردو کا انتخاب کرنا بہتر نہیں ہوگا؟ (واضح رہے کہ اردو ہندوستان کے لیے بدیسی زبان نہیں ہے۔ شاہ زماں حق نے فرانسیسی عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات لکھی ہےایک ۔۔ اس کلاسیکی زبان کی مدد سے، جس نے بارھویں صدی کے آس پاس ترقی کرنا شروع کی، آپ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے شاندار ادبی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان میں مہارت رکھتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھنے اور لکھنے کی مضبوط بنیاد ہے، جو دوسرے مضامین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ آخر میں، اپنی مادری زبان جاننے سے ثقافتی فخر اور سمجھ کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔نیا کے مختلف میں کئی محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو دوسری زبانوں کو بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ بچے میں کئی زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے لیکن زبانوں پر اس کی گرفت تب مضبوط ہوتی ہے اگر اس کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہو۔ اس لئے اگر پاکستان کے ہر علاقے میں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اردو سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ وہی ریاستیں ہی جہاں مادری زبانوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ملکوں نے تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جن میں مادری زبانوں کی ترویج کی گئی اور ان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرنے والے کئی دوسرے ممالک میں مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس کے الٹ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر چہ زبان ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن زبان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے بھی اس کا ایک سبب ہیں۔

اردو دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ 160 ملین لوگ اس زبان کو دنیا کے 26 ممالک افغانستان، بحرین، بنگلہ دیش، بوٹسوانا، کینڈا، فیجی، فنلینڈ، جرمنی، گیانا، ہندوستان، ملاوی، موریشس، نیپال، ناروے، اومان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سویڈن، تھائی لینڈ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور زمبیا میں بولتے ہیں۔ اگر آپ اردو سیکھتے ہیں تو اس میں شائع ہونے والے تقریبا چار ہزار اخبارات و رسائل، 70 ریڈیو اسٹیشن اور 74 ٹی وی چینل تک آپ کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اردو دوسری زبانوں کے زیر اثر وجود میں آئی۔ اس نے عربی، ہندی، فارسی، پنجابی، ترکی اور سنسکرت سے بہت سارے الفاظ لیکر اپنے دامن کو وسیع کیا۔ اردو زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مذکورہ بالا زبانوں سے بھی کچھ حد تک واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے بہت سے بنیادی محاورے ایک ہی ہیں۔ اردو نے تقریبا چالس فیصد الفاظ فارسی اور عربی سے ماخوذ کیے ہیں۔ سنسکرت سے 43 الفاظ لیے گئے ہیں جو روز مرہ کی اردو میں بولے جاتے ہیں۔

 اردو فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ زبان پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں تو آپ چھ دوسری زبانیں یعنی عربی، بلوچی، کشمیری، پشتو، فارسی اور پنجابی بھی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کے معنی و مفاہیم بھی سمجھ سکتے ہیں۔اردو ہندوستانی برصغیر کی سب سے کم اہمیت دی جانے والی عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان میں مقیم 45 فیصد سے زیادہ پنجابی بولنے والے، لسانی اور دیگر گروہی طبقات کی واحد رابطے کی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے پولس تھانہ میں شکایت دہندگان اردو کا استعمال ایک دفتری زبان کی حیثیت سے کثرت سے کرتے ہیں۔

اردو زبان کا علم آپ کے کیرئیر میں چار چاند لگا سکتا ہے اگر آپ شمالی ہند، پاکستان، برطانیہ، عرب متحدہ امارات، اومان، قطر سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ان جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ اردو کا علم روزگار تلاش کرنے اور آپ کے سماجی رابطہ کو وسیع کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔-اردو زبان کی اہمیت-اردو زبان اَدب ، دفتر،عدالت ،اور دینی اِداروں میں بولی جاتی ہے۔ اور یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ بھی لیے ہوئے ہے پوری دنیا میں اردو بولنے والے پائے جاتے ہیں ۔ عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ،امریکہ ،کینیڈا جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔

ڈپلومیسی میں اردو زبان کی ضرورت-اردو برصغیر پاک و ہند میں سفارت کاری میں بھی ایک اہم زبان ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور اردو اکثر حکام کے درمیان رابطے کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اردو بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں بھی استعمال ہوتی ہے۔سفارت کاری میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ سفارت کاری کے لیے موثر رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اہلکار جو اردو میں مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں، انہیں مذاکرات میں فائدہ ہوتا ہے۔ اردو بولنے والے سفارت کار خطے کی ثقافتی اور سیاسی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بھی بہتر طریقے سے لیس اردو برصغیر پاک و ہند میں میڈیا کی ایک اہم زبان ہے۔ اردو اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن چینل پاکستان اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ اردو نیوز چینلز خطے میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کے ناظرین کی تعداد وسیع ہے۔میڈیا میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی اہمیت سے بھی آگے بڑھی ہوئی ہے۔ میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اردو میڈیا کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے لیے اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اردو برصغیر پاک و ہند میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ایک اہم زبان ہے۔ یہ خطہ متنوع ہے، بہت سی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ، اور اردو ایک زبان کے طور پر کام کرتی ہے جو ان اختلافات کو ختم کر سکتی ہے۔ اردو بھی ایک ایسی زبان ہے جو مختلف پس منظر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔سماجی ہم آہنگی میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ اردو کا استعمال بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے، مختلف برادریوں کے درمیان پل بنانے اور قومی شناخت کے احساس کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اردو بولنے والی کمیونٹیز بھی بڑے معاشرے میں حصہ لیتے ہوئے اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر