اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو مبارک ہو-فرزندرسولۖ، سلطان عرب و عجم حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام گیارہ ذی القعدہ ایک سو اڑتالیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں گلستا ن نبوت میں امامت کی منزل ہشتم پر تشریف لائے- امام رضا علیہ السلام کے علم کا اتنا شہرہ تھا کہ رضا کے ساتھ ساتھ آپ کو عالم آل محمد کے نام سے بھی شہرت حاصل تھی- آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابوالحسن ہے۔آپ کا نام مبارک روز ازل سے اللہ کریم کی بارگاہ میں لوح محفوظ پر درج تھا
لقب رضاْ کی وضاحت: ہمارے ائمہ علیہ السلام کے نام، لقب اور کنیت میں ایک خاص پیغام ہوتا ہے مثلاً سجادعلیہ السّلام، باقرعلیہ السّلام -صادق علیہ السّلام -ابن جریر طبری نے سال ٢١ھ کے واقعات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس سال مامون رشید نے امام علی بن موسیٰ بن جعفرعلیہ السّلام کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور ان کو ”الرضا من آلِ محمد علیہ السّلام ” کے نام سے مخصوص کیا۔ البتہ ابن خلدون نے ”الرضا ” کی جگہ ”الرضی ” تحریر کیا ہے۔ لیکن محمد جواد معینی (مترجم) کتاب ” امام علی بن موسیٰ علیہ السّلام الرضا علیہ السّلام ” نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ دلیل دی ہے کہ اس لقب کا ولی عہدی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مامون رشید کے وزیر خاص فضل بن سہل نے امام کے نام اپنے تمام پیغامات میں الفاظ ” بعلی بن موسیٰ الرضا علیہ السّلام ” سے مخاطب کیا ہے جو اس لقب کی قدامت پر دلیل ہے۔ اس کے علاوہ ابوالحسن ، ابو علی اور ابو محمد آپ علیہ السّلام کی کنیت ہیں۔ امام علیہ السّلام کے رضا علیہ السّلام کے علاوہ اور بھی القاب ہیں جنہیں سراج اﷲ ، نور الھدیٰ ، سلطان انس وجن، غریب الغربا اور شمس الشموس وغیرہ ہیں جو آپ کی زیارتوں میں شامل ہیں۔
اَللّـهُمَّ
صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ
وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ،
صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ
ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ
بو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا" کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمدؐ اور امام رئوف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
امام رضاؑ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔
امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ سنہ 200 ہجری یا سنہ 201 ہجری کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور اور توحید و اس کے شرائط جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کے تحت مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت اور علمی بلندی کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے ہیں جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مأمون کے ساتھ ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو مشرق و مغرب میں میرا حکم چلتا تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔
مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میں مسجد نبوی میں بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی علمی مشکل سے دوچار تھے تو وہ لوگ اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا-یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تاکہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کی جانب سے امام رضاؑ کے استقبال کے لیے متوقع اجتماعات سے خوفزدہ تھا۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔ کتاب "اطلسِ شیعہ" کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: «اگر حکومت تیرا حق ہے تو تم کیوں کسی دوسرے کو دوگے اور اگر تمہارا حق نہیں ہے تو تم اس بات کے لائق ہی نہیں ہو کہ کسی دوسرے کو بخش دے۔؟. اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا
۔ اس موقع پر مأمون نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں حکومتی معاملات کے سلسلے میں نہ کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔ اس طرح مومون نے سنہ201ھ، 7 رمضان بروز پیر امام رضاؑ کے دست مبارک پر بعنوان ولی عہد بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہونے کے بجائے سبز کپڑے پہننے کا حکم جاری کیا۔ سوائے اسماعیل بن جعفر ہاشمی کے سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔بعد از آں لوگوں سے امام کی بیعت لی گئی، امام کے نام پر لوگوں کے مابین خطبے پڑھے جانے لگے اور امام کے نام پر سرکاری سکے جاری کیے
-اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس اور مرو.
شیخ مفید لکھتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جبکہ امام رضاؑ کو کسی دوسرے مقام پر ٹھہرایا اور آپ کی تکریم و تعظیم کی -اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو مبارک ہو