ہفتہ، 29 اپریل، 2023

کنگز رائل گولڈ میڈل‘ حاصل کرنے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری

 


پاکستانی ماہرِ تعمیرات پروفیسر یاسمین لاری کو برطانیہ میں فنِ تعمیر کے حوالے سے دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز ’کنگز رائل گولڈ میڈل‘ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔کسی شخصیت کو اس کے کام کے اعتراف میں دیے جانے والے اس میڈل کی منظوری شاہ برطانیہ خود دیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ کسی ایسے شخص یا گروپ کو دیا جاتا ہے جن کے کام سے فن تعمیر میں اہم پیش رفت ہوئی ہو۔

ریبا (RIBA) کی ویب سائٹ کے مطابق جب یاسمین کو بتایا گیا کہ انھیں ایوارڈ دیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ خبر سُن کر بہت حیران تو ہوئی مگر بہت خوش بھی ہوئی۔‘

یاسمین کا کہنا تھا کہ ’جب میں اپنے ملک کے سب سے پسماندہ لوگوں پر توجہ مرکوز کر رہی تھی اور نامعوم رستوں پر بھٹک رہی تھی، تب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسی کے لیے مجھے تعمیرات کے اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار سمجھا جا سکتا ہے۔‘ریبا نے ماہرِِ تعمیرات کو مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ انسانیت پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دی ہے، خاص کر ایسے افراد پر جو جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔ یاسمین لاری کون ہیں اور ان کے کام میں خاص کیا ہے

اسمین لاری کا کریئر کنکریٹ اور سٹیل کے گرد گھومتا رہا ہے۔

انھوں نے کراچی کی ایف ٹی سی بلڈنگ سمیت کئی بلند و بالا عمارتوں کی بنیاد رکھی، لیکن اب وہ اس مٹیریل سے بغاوت کر چکی ہیں اور ماحول دوست مکانات بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔یاسمین لاری لاہور کے شاہی قلعے کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم اور ثقافت یونیسکو کی مشیر بھی رہی ہیں۔

اسی دوران 2005 میں کشمیر میں زلزلہ آگیا اور بقول یاسمین لاری کے یہ زلزلہ ان سمیت کئی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لایا۔پاکستان میں 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب اور بعد میں زلزلوں نے یاسمین لاری کو ’کم قیمت‘ مکانات کی تعمیر کا موقع فراہم کیا۔’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے‘Play video, "بانس، مٹی اور چونے کا کم قیمت، ماحول دوست گھر بنانے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات", دورانیہ 3,09یاسمین لاری: عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ تعمیرات جن کی سوچ 2005 کے زلزلے نے بدل دیسنہ 2020 میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی ’سٹار آرکیٹیکٹ‘ بننا چاہتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں بنائیں‘ ان کا بھی وہ ہی حال تھا اور تقریباً 36 سال انھوں نے یہی کیا۔

’اس وقت دنیا اور تھی۔ کھپت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ ہم دنیا کے وسائل ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ کیا تباہی آئی ہے۔ ہم نے زمین کو بری طرح سے استعمال کیا ہے۔ قدرتی آفات بڑھ گئی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سیلاب آ رہے ہیں۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے یہ سوچا کہ تعمیرات میں مقامی طریقوں اور زمین کو کیسے استعمال کروں؟ اس میں چونے کا بڑا ہاتھ تھا۔ جو تاریخی عمارتیں ہیں، ان کے تحفظ میں چونے کا استعمال ہوتا ہے۔ وہ میں نے وہاں سے سیکھا اور بعد میں زلزلے سے متاثرہ علاقے میں یہی استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر بڑے سستے بنتے تھے اور لوگ خود بنا سکتے تھے۔ لکڑی ہو یا پتھر، اس سے ہم نے تعمیرات کیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے۔ میں جو بھی ڈیزائن کرتی ہوں وہ ورنیکیولر روایات (دیسی طرزِ تعمیر) ہیں یا تاریخی عمارتوں کی مرمت سے سیکھا۔‘مٹی، چونے اور بانس کااستعمال‘یاسمین لاری نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں مکلی قبرستان کے قریب اپنا ماڈل ولیج بنایا ہے اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے زیرو کاربن یا ماحول دوست تعمیرات کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ان کی تعمیرات میں مٹی، چونے اور بانس کا استعمال عام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’مٹی ہر جگہ موجود ہے۔

 چونا ایک قدیم میٹریل ہے جو اہرامِ مصر، رومن طرز تعمیر اور جو بڑے بڑے قلعے ہیں، ان میں بھی استعمال ہوا۔‘’1990 کی دہائی سے چوںکہ سیمنٹ کا دور دورہ شروع ہو گیا اس لیے عام لوگ صرف سیمنٹ کو جانتے ہیں حالانکہ چونے میں سے سب کم کاربن کا اخراج ہوتا ہے اور یہ ہوا سے کاربن کو جذب بھی کرتا ہے۔ مٹی دوبارہ جا کر مٹی میں مل سکتی ہے اور بانس کی فصل ہر دو سال کے بعد مل جاتی ہے۔ لکڑی استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

یاسمین لاری: صرف 50 ہزار روپے میں ماحول دوست گھر بنانے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ تعمیرات جن کی سوچ 2005 کے زلزلے نے بدل دی یاسمین لاری نے پنج گوشہ اور اگلو سٹائل سمیت جیومیٹری کی مختلف اشکال کے گھر بنائے ہیں جو ایک کمرے سے لے کر تین کمروں تک پر مشتمل ہیں، جن کی دیواریں مٹی جبکہ چھت، دروازے، کھڑکیاں اور دروازے بانس سے بنے ہوئے ہیں۔

یاسمین لاری کے مطابق یہ بانس کا پری فیب یا پہلے سے تیار شدہ گھر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایک ڈھانچہ دیتے ہیں جس کی فنیشنگ وہ خود کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹوائلٹ جو بھی بانس سے بنتا ہے اور ہینڈ پمپ جو پانچ لوگ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چولھا بھی ہوتا ہے جس کو پاکستان چولھے کا نام دیا ہے اور اس کو عالمی ایوراڈ مل چکا ہے۔ ان سب چیزوں کی لاگت تقریبا 27 ہزار روپے بنتی ہے۔‘

یاسمین لاری کے مطابق یہ گھر گرمی میں ٹھنڈا بھی رہتا ہے جبکہ کنکریٹ بہت زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔ ’دیہاتوں میں ماحول مختلف ہے، وہاں ضرورت ہی نہیں ہے کہ کنکریٹ یا سٹیل کا استعمال کریں۔ جو تعمیرات کے پرانے طریقے ہیں، ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی چیزیں کریں جو غریبوں کے لیے مناسب ہوں۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ یہ امیروں کے لیے اچھی ہیں یا نہیں؟‘

رقیّہ تم برّصغیر چلی جاوامام حسین (ع)

  

برّصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی روشنی لے کر بے شمار اولیائے دین آئے ا ور ہر ایک ولی نے بہت ہی بامشقّت زندگی گزارتے ہوئے اور شہنشاہان وقت کے عتاب

 کو جھیلتے ہوئے اپنے پاکیزہ مشن کو جاری رکھّا ان میں سے بے شمار ولی اللہ نے ا پنے حقّا نی مشن کی تکمیل کے دوران شہا دت کی حیات آفرین موت کو گلے لگا لیا لیکن

 اپنے دین الِہی کی تبلیغ کے مشن سے دست بردار نہیں ہوئے ،ان شہید اولیائے کرام کے مزارات مقدّ سہ تمام برّصغیر کے گوشے گوشے میں مرجع ءخلائق عام ہیں۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس

 طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ بت کدے میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں

 کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع

 ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو ،بی بی رقیّہ جو آپ امام عالی

 مقام کی ہمشیرہ تھیں اور اور شادی ہو کر اپنے عم زاد حضرت مسلم بن عقیل کی زوج میں گئیں تھیں ، اوراب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے و صیت کی،بہن

 اب تم برّ صغیر چلی جانا ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نا تھابہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا

 ہو کر برّصغیر کے لئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان کے ہمرا ہ ان کی دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی

 خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتے تین یا چار مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ قافلہ ء بے وطن جنگل کے ایک

 ٹیلے پر قیام پذیر ہوا اس وقت دریائے راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا جس کے راج کمار کا

 نام کنور بکرما ساہر تھا اور اس راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا بستی کے مندروں میں کبھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی۔ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو

 یہاں پہنچے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پر رکھّے ہو سنگی بت محل کے فرش پر اوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے

 آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ جو مقدّس آگ مانی جاتی تھی وہ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اور بستی کے اندر بھی کہرام

 مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہوا ہئے نجومیوں اور جوتشیوں نے

 ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہوا ہئے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ

 بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل

 میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل

 کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کا ایک خیمہ نصب ہئے جس میں اجنبی مسافر ٹہرے ہیں ،،کماندار نے خیمے کے با ہر

 سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔

کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اور کسی کو کوئ

 نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا ل پر چھوڑ دیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سے کہا اے راجہ وہ

 لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کر کے کہا پردیسیوں کو ابھی

 ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہئے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بیرقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے

 بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوں کو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے

 مقام پر زمین شق ہو گئ اور( خیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحے راج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتے

 دیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب ہی اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء

 اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اور براوئتے بیبیوں کے دوپٹّوں کے پلّو باہر رہ گئے ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو

 حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہنے لگا،بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے ،وہ اتنا رویا کہ اس کے آںسوؤ ں سے وہ

 زمین تر ہو گئ سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ راجکمار واپس آنے کوتیّار نہیں

 ہئے اور سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے تو راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادے ہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار

 نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نے اس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے

 کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی

 خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا یہ میں نے کیا کیا جب اس کے پچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور

 اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اب اس نام جمال دین یا عبد اللہ بابا خاکی کہلایا جانے لگا۔

اس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزار نوجوان

 پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے پوچھے بغیر کوئ

 کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینی ہوگی

اگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سے شادی کی

 اجازت طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری دور ہو چکی تھی

 ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا ،بی بی پاک دامن کے مزار کی مجاوری آج بھی جمال دین کی اولاد ہی سنبھالے ہوئے 

جمعہ، 28 اپریل، 2023

نامور بنک- بينک الحبيب لمیٹڈ

 

پاکستانی بینکاری کے نام میں ایک بہت ہی نامور بنک جو ہے وہ بینک الحبیب لمیٹڈ ہے یہ ایک پاکستانی تجارتی بینک ہے جوایک نیک نام  داؤد حبیب خاندان کی زیر ملکیت ہے۔ اس کا صدر دفتر کراچی پاکستان میں ہے۔ اس کا نیٹ ورک 750 برانچوں پر مشتمل ہے۔ بینک الحبیب کی بحرین ، سیچلس اور ملیشیا میں ہول سیل برانچیں ہیں اور متحدہ عرب امارات ، استنبول ، بیجنگ اور کینیا میں دفاتر ہیں۔ ستمبر 2018 کے اختتام تک ، بینک کے اثاثوں میں 750 ارب تک کا اضافہ ہوا۔بینکنگ خدمات میں حبیب گروپ کی شمولیت 1930 کی دہائی سے ہے۔ 

انہوں نے ایچ بی ایل پاکستان کا آغاز کیا ، جو 1971 میں قومیا لیا گیا تھااور اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔ 2002 کے بعد سے یہ حکومت اور آغا خان فنڈ برائے اقتصادی ترقی کی مشترکہ ملکیت ہے۔

1991 میں پاکستانی حکومت کے ذریعہ نجکاری اسکیم کے اعلان کے بعد ، حبیب گروپ کو سب سے پہلے نجی بینک ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے آغاز کی اجازت دی گئی۔

اصل حبیب بینک کا آغاز بمبئی میں سن 1941 میں ہوا جب اس نے 25،000 روپے کے مقررہ سرمایے کے ساتھ کام شروع کیا۔ اپنی ابتدائی کارکردگی سے متاثر ہوکر ، قائداعظم محمد علی جناح نے حبیب بینک سے کہا کہ وہ پاکستان کی آزادی کے بعد اپنی کارروائیوں کو کراچی منتقل کریں۔ اسے 1974 میں قومی بینک بنا دیا گیا تھا۔

حکومت پاکستان کی نجکاری کی پالیسی کے تحت ، داؤد حبیب گروپ کو کمرشل بینک کے قیام کی اجازت مل گئی۔ بینک الحبیب کو اکتوبر 1991 میں پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور اس نے 1992 میں بینکنگ کے کاموں کا آغاز کیا تھا۔ (مرحوم) بانی حبیب گروپ کے پوتے حامد ڈی حبیب ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے پہلے چیئرمین تھے۔ وہ 1954 سے حبیب بینک لمیٹڈ میں ڈائریکٹر اور 1971 سے قومیانے تک اس کے چیئرمین رہے۔ مئی 2000 میں حامد ڈی حبیب کی موت کے بعد ، علی رضا ڈی حبیب ، جو بورڈ میں ڈائریکٹر تھے ، کو بینک کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔

2005 میں ، بینک الحبیب نے اکاؤنٹ اور ریکارڈ آن لائن کے ساتھ دستیاب ، انٹرنیٹ بینکاری کی پیش کش کی۔ 2006 میں ، بینک الحبیب ماسٹر کارڈ کے ساتھ شراکت دار بن گیا ، جس نے انہیں پہلی بار کریڈٹ کارڈ جاری کرنے کی اجازت دی۔خدمات-بینک امریکن ایکسپریس بینک ، یو ایس اے کے ساتھ نمائندے تعلقات رکھتا ہے۔ بانکو دی روما ، اٹلی؛ کامز بینک اور ڈریسڈنر بینک ، جرمنی۔ رائل بینک آف کینیڈا ، کینیڈا؛ اور ہانگ کانگ اور شنگھائی بینکنگ کارپوریشن ، ہانگ کانگ۔

بینک کی انٹرنیٹ بینکنگ کوڈ نیٹ بینکنگ کے بعد ہوئی اور ویری سائن سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹی پی ایس پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ایم نیٹ اور لنک 1 کے مابین معاہدے پر دستخط کے نتیجے میں بینک ایم نیٹ سوئچ کی حمایت کرتا ہے۔ 

انہوں نے ایچ بی ایل پاکستان کا آغاز کیا ، جو 1971 میں قومیا لیا گیا تھااور اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔ 2002 کے بعد سے یہ حکومت اور آغا خان فنڈ برائے اقتصادی ترقی کی مشترکہ ملکیت ہے

1991 میں پاکستانی حکومت کے ذریعہ نجکاری اسکیم کے اعلان کے بعد ، حبیب گروپ کو سب سے پہلے نجی بینک ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے آغاز کی اجازت دی گئی۔

بینک الحبیب  -لنک سسٹم کے گیارہ شراکت داروں میں سے ایک ہے ، ایک انٹر بینک اے ٹی ایم شیئرنگ سسٹم جو صارفین کو کسی بھی شراکت دار بینک کے اے ٹی ایم پر لین دین کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بینک الحبیب پاکستان میں تیسرا سب سے بڑا اے ٹی ایم سروس فراہم کرنے والا ہے ، کراچی شہر میں سب سے زیادہ اور مجموعی طور پر 196 اے ٹی ایم رکھنے والا بینک ہے۔

عرب فنانشل سروسز کے ساتھ وابستگی میں ، بینک دو طرح کے ماسٹر کارڈ پیش کرتا ہے۔بینک اے ایل حبیب کیپٹل مارکیٹس (پرائیوٹ) لمیٹڈ میں ایک بڑی ملکیت کا حصص ہے ، جو بینک اے ایل حبیب کے لوگو کے تحت کام کرنے والا ایک بروکریج ہے۔

ایگزیکٹو قیادت

عباس ڈی حبیب ، چیئرمین

منصور علی خان ، سی ای او

کومیل آر حبیب، ایگزیکٹو ڈائریکٹر 2018

سابق چیئر مین اور بینک الحبیب لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹوز میں درج ذیل افراد شامل ہیں: حامد ڈی حبیب ، چیئرمین (2000 تک) ، راشد ڈی حبیب ، سی ای او اینڈ منیجنگ ڈائریکٹر (1994 تک) اور علی رضا ڈی حبیب ، چیئرمین (2016 تک)۔

شاخیں

 کراچی مین برانچ -اس بینک کے پاس 737 شاخوں (بشمول اسلامی ، روایتی اور ذیلی شاخوں) اور بحرین ، ترکی اور ای پی زیڈ میں تین آف شور بینکنگ یونٹ ہیں۔

پاکستان

فیصل آباد : اسلامی بینکاری برانچ سمیت 4 شاخیںگھارو ( ٹھٹھہ ؟): 1 شاخ

حیدرآباد : تقریبا 4 شاخیں اسلام آباد : تقریبا 4 شاخیں-کراچی : ایک بین الاقوامی برانچ اور اسلامی بینکاری برانچ سمیت 220 کے قریب شاخیں

کنری : ایک شاخ* ڈنگہ . تھانہ بازار 1 شاخ میرپورخاص : تقریبا 2 شاخیں

نوکوٹ : 1 شاخ-جھڈو : 1 شاخ-ڈیگری : 1 شاخ-مٹھی : 1 شاخ-ملتان : ایک اسلامی بینکاری برانچ سمیت 10 کے قریب شاخیں-کوئٹہ : ایم اے جناح روڈ پر 1 برانچ-سکھر : اسلامی بینکاری برانچ سمیت 4 کے قریب شاخیں

سرگودھا : 3 شاخیں ہیں-ٹائمرگارا : لگ بھگ 2 شاخیں-اسکردو بلتستان : تقریبا 2 2 شاخیں

جمعرات، 27 اپریل، 2023

وہ بادشاہ دقیانوس کےملازمین کے بچّے تھے

 

وہ بادشاہ دقیانوس کے محل کے ملازمین کے بچّے تھے -جب انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ نے بتوں کی پوجا کاحکم لازم قرار دے دیا ہے اور جو اس کے حکم سے سرتابی کرے گا اس کی گردن مار دی جائے گی بتوں کی لازمی پوجا کے لئے بادشاہ نے شہر فصیل میں دو تنگ دروازے بنائے تھے جن سے سر کو جھکا کر ہی گزرا جا سکتا تھا اور دروازوں کے اندر اور باہر دونوں مقامات پر بت رکھّے ہو ئے تھے

اب یہ سارے دوست سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا ہم ظاہراً تو بادشاہ کے تابعدار بنے رہیں گے لیکن ہر گز ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا رب تو وہی یکتا ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں- کچھ عرصہ تو ان کا یہ تقیّہ چلتا رہا لیکن بادشاہ کے پھیلائے ہوئے مخروں میں سے کسی نے بادشاہ کو خبر پہچا دی کی یہ نوجوان بتوں کی پوجا سے منحرف ہیں اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ان کی شکائت بادشاہ تک پہنچ گئ ہے -

اب یہ دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھے اور صلاح و مشورہ کرنے لگےایک نے کہا دیکھو بے وقت مرنے کا دل نہیں چاہتا ہے دوسرے نے کہا کہ بتوں کی پوجا کا بھی دل نہیں چاہتا ہے تیسرے نے کہا- چلو شہر سے بھاگ چلتے ہیں اور پھر ایک صبح سویرے وہ شہر فصیل کے اوپر سے فرار ہو گئے-کیونکہ دروازے پر تو دربان موجود ہوتا تھا جو بادشاہ سے شکائت کر سکتا تھا -اس کے لئے انہوں نے صبح سویرے کے وقت کا انتخاب کیا جب کہ کوئ سو کر بھی نا اٹھا ہو

-وہ صبح سویرے بلکل منہ اندھیرے شہر چھوڑ کر انجانی منزل کی جانب چل پڑے راستے میں ایک چراگاہ دیکھی جس میں ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا انہوں نے چرواہے کو دعوت توحید کی جانب مائل کیا جس کے جواب میں چرواہا خفا ہوگیا اور وہ چرواہے کو چھوڑ کرپھر چل پڑے لیکن چرواہے کا کتّا ان نوجوانوں کے ہمراہ ہو لیا

-اب یہ تمام ایک ایک ایسے میدان میں پہنچ گئے جس کے چاروں جانب پہاڑ تھے وہاں پر یہ لوگ دیر کو ٹہر کر آپس میں کہنے لگے دیکھ شہر تو چھوڑ دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ جائیں گے کہاں ابھی یہ بات کہی تھی کہ ان میں سے ایک نے کہا ارے دیکھو بادشاہ ہماری تلاش میں یہاں آ گیا ہے-کیونکہ کسی مخبر نے ان کو صبح سویرے شہر فصیل کو پھلانگتے دیکھ کر بادشاہ سے شکائت لگا دی تھی  -ان میں سے ایک نے اپنے قریب غار کا دہانہ دیکھا اور بولا چلو اس میں چھپ جاتے ہیں  وہ سب غار کے اندر چلے گئے اور انہوں نے دعاء کی پروردگار ہم کو اس مصیبت سے نجات عطا کر اور پھر اللہ نے ان پر 309 برس کی نیند طاری کرد ی

دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کردیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی،  دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کردیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہوجائے۔

 کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی، جسم کا اعادہ نہ ہوگا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کردی ہے اور عینی دلیل بھی دے دی۔

  بیدار ہونے کے بعد ان کو بھوک نے ستایا توان میں سے ایک نوجوان تملیخا کو رقم د ے کرکھانا خریدنے کوبھیجا  تب تملیخا نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے، بستیاں بدل چکی تھیں، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن ہی گزرا ہے  

منگل، 25 اپریل، 2023

شاہراہ ریشم

شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا سنگم ہے۔ یہیں شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام   شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی

 ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو    نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔

عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔ پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔

تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے 62 کلو میٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے مقام پر اس شاہراہ کا آغاز ہوا جو 1978 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے شب وروز شانہ بشانہ کام کیا۔قراقرم کے سخت اور پتھریلے پہاڑوں کو چیرنے کے لئے 8ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ استعمال کیا گیا۔18 جون 1978ء کو اس کا با قاعدہ افتتاح ہوا۔ تکمیل کے دوران 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔سلک روٹ یا شاہرائے ریشم ایک وسیع نیٹ ورک کا نام تھا، جس کا پھیلاؤ ٔچین سے شروع ہوتا ہوا ہندوستان، وسط ایشیاء، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ کواپنی لپیٹ میں لیتا ہوا افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک پہنچتا تھا۔ ان راستوں کا اولین مقصد تجارت تھا۔ چین سے یورپ تک اس تجارتی راستہ کی لمبائی تقریباً 6500 کلو میٹر تھی۔ چین میں اس کا آغازایک Changanنامی شہر سے ہوتا تھا۔ پھر یہ شاہراہ وسط ایشیا، ایران، ترکی سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچتی تھی۔

شاہراہ ریشم پر 33 مشہور شہر آتے تھے۔ جن میں Dunhuang (چین) ، میرو (ترکمانستان) ، بخارا، سمرقند (ازبکستان) ، بلخ (افغانستان) ، ٹیکسلہ (پاکستان) ، رئے، نیشاپور، ہمدان (ایران) ، دمشق (شام) ، بغداد، موصل (عراق) ، قسطنطنیہ، ازمیر (ترکی) اسکندریہ (مصر) وغیرہ شامل ہیں۔ قرون اولی ٰ اس شاہراہ پر ایرانی زبان بکثرت استعمال ہوتی تھی۔ دور اسلام میں اِس کی جگہ فارسی زبان نے لے لی۔ دیوار چین کی تعمیر کا اہم مقصدبھی اس تجارتی راستہ کی حفاظت کرنا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم قدیم شاہراہ ریشم کے راستے پر بنائی گئی ہے یعنی وہی دشوار گزار پہاڑی راستہ جہاں سے پرانے وقتوں میں وسطی ایشیا اور چین آنے جانے والے قافلے گزرتے تھے۔شمال میں خنجراب پاس سے جنوب میں صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال تک آنے والی یہ سڑک تقریباً 1300 

شمالی علاقہ جات میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی یہی شاہراہ خطے میں چین کے ساتھ سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر رابطوں کا بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔شاہراہِ قراقرم پاکستان کے خوبصورت اور دلفریب مناظرشاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے۔شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً 1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200 کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہے

اتوار، 23 اپریل، 2023

شہید ثالث۔حضرت نور اللہ شستری

p> 

فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔

آپ نے شوشتر میں اپنے والد ماجد سے فقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر سنہ 979 ہجری میں تجربہ کار اساتذہ سے مزید کسب فیض کے لئے مشہد مقدس تشریف لے گئے۔

سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری نے مشہد میں علامہ عبدالوحید شوشتری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے درس میں شرکت کی اور ان سے فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے مولانا محمد ادیب قاری تستری کے درس میں بھی شرکت کی اور عربی ادب اور تجوید قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح دیگر ذی استعداد اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا جنمیں مولا عبدالرشید شوشتری و مولا عبدالوحید تستری کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔

سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری نے 993ھج میں ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کے شہر آگرہ میں سکونت اختیار کی۔ چونکہ آپ تقیہ میں تھے اس لئے پانچ مذاہب شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کے مطابق فقہ کی تعلیم دیتے تھے اور تمام فقہی مسائل میں شیعہ امامیہ فقہ کے نظریہ کو ترجیح دیتے تھے۔

تالیفات

شہید ثالث بہت سی کتابیں مذہب اہلبیت علیہم السلام کے لئے تالیف فرمائیں۔ بعض حضرات نے آپ کی ایک سو چالیس کتابوں کے نام بھی ذکر کئے ہیں۔ ذیل میں کچھ کتابوں کا تذکرہ پیش ہے۔

احقاق الحق: مذہب حقہ تشیع کے اثبات میں شہید سعید قاضی نوراللہ شوشتری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فضل بن روزبھان کی کتاب ابطال الباطل کا مدلل اور منطقی جواب دیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں سے اس کے نظریات کو باطل قرار دیا ہے۔

مجالس المومنین علماء، حکماء، ادباء، عرفاء، شعراء، علم رجال کے ماہرین اور راویوں کا تذکرہ کیا ہے جو سب کے سب آپ کے مطابق شیعہ تھے۔

اسی طرح آپ کی دیگر گرانقدر کتابیں ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسے الصوارم المهرقه در جواب الصواعق المحرقه، اجوبه مسایل السید حسن الغزنوی، الزام النواصب فی الرد علی میرزا مخدوم الشریفی، القام الحجر در رد ابن حجر، بحر الغزیر فی تقدیر ماءالکثیر، بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر، تفسیر القران، آیه رویا کی تفسیر، تحفه العقول، حل العقول، حاشیه بر شرح الکافیه جامی، حاشیه بر حاشیه چلپی، حاشیه بر مطول تفتازانی، حاشیه بر رجال کشی، حاشیه بر تهذیب الاحکام شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ، حاشیه بر کنز العرفان فاضل مقداد، حاشیه بر تهذیب المنطق دوانی، حاشیه بر شرح قواعد العقاید، حاشیه بر شرح مواقف در علم کلام، دیوان القصاید، دیوان الشعر، دافعه الشقاق، الذکر الابقی، رساله لطیفه، انما المشرکون نجس کی تفسیر پر کتاب، العصمه کے سلسلہ میں کتاب، تجدید وضو کے سلسلہ میں کتاب، شراب کی نجاست پر کتاب وغیرہ۔

منصب قضاوت

قاضی نور اللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک عام شیعہ تھے بلکہ مذہب حقہ کے عظیم مبلغ اور پاسبان بھی تھے اور امام علی رضا علیہ السلام کی معروف حدیث “لاَ دِينَ لِمَنْ لاَ وَرَعَ لَهُ وَ لاَ إِيمَانَ لِمَنْ لاَ تَقِيَّةَ لَهُ” یعنی جو پرہیزگار نہیں وہ دیندار نہیں اور جو تقیہ نہ کرے وہ باایمان نہیں ہے، پر عمل پیرا تھے۔ لہذا اسی تقیہ کے سبب آپ کو مغل بادشاہ اکبر نے قاضی منتخب کیا۔

قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس عہدے کو قبول کرنے سے منع کیا لیکن جب اکبر بادشاہ نے اصرار کیا تو آپ نے اس شرط پر قبول کیا کہ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کریں گے اور ان کا فیصلہ اہل سنت کی چار فقہوں میں سے کسی ایک کے موافق ہو گا۔

باہل سنت کے معروف عالم عبدالقادر بدوانی نے بیان کیا کہ “قاضی نور اللہ اگرچہ شیعہ ہیں، لیکن ان میں عدل، نیکی، حیا، تقویٰ و پرہیزگاری، عفت و عصمت اور اشراف کے صفات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور وہ اپنے علم، صبر، فہم، نفاست اور پاکیزگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ قابل قدر کتابیں تصنیف فرمائیں، حکیم ابوالفتح کے ذریعہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور جب منصور کا قافلہ لاہور پہنچا اور منصور نے لاہور کے قاضی شیخ معین کو بڑھاپے اور قضائی امور میں کمزور پایا تو سید نوراللہ شوشتری کو قاضی معین کیا۔

شہادت

مغل بادشاہ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر بادشاہ ہوا جو کہ انتہائی درجہ متعصب اور سفاک تھا۔ اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی آج تک یہی رہی کہ اس ظالم و جابر، سفاک و خونریز کو عدل و انصاف کا علمبردار بتایا گیا لیکن قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کا بے جرم و خطا قتل اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے واضح کرتا رہے گا۔

جہانگیر پلید کی پست صفات کے سبب قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین اور دشمنوں کو موقع مل گیا کہ وہ آپ کے حقیقی دین کو واضح کریں لہذا جاسوس معین کیا جو شاگرد بن کر شہید عالی قدر کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اتنا قریب ہوا کہ آپ کو اس پر اس قدر اعتبار ہو گیا کہ آپ نے اسے اپنی کتاب “احقاق الحق” کا ایک نسخہ لکھنے کو دے دیا۔ کتاب کا ملنا تھا کہ آپ کے سارے دشمن جہانگیر ملعون کے پاس گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ آپ کو سزا دی جائے۔ جہانگیر ملعون نے حکم دیا کہ آپ کو برہنہ کر کے بدن پر خاردار کوڑے لگائے جائیں، جلاد نے اتنے کوڑے مارے کہ آپ کے جسم کا گوشت کٹ کٹ کر آپ کے بدن سے جدا ہو گیا اور آپ شہید ہو گئے۔ مورخین کے مطابق شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 18 جمادی الثانی 1019 ہجری کو آگرہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد بے غسل و کفن آپ کے جنازہ کو مزبلہ پر پھینک دیا گیا جسے بعد میں دفن کیا گیا۔ دشمن نے اپنے خیال خام میں سمجھا کہ قتل سے آپ کا خاتمہ ہو گیا، بے شک قتل خاتمہ ہے لیکن شہادت خاتمہ نہیں بلکہ علامت بقا ہے۔ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں 

ہفتہ، 22 اپریل، 2023

معجزہ شقّ القمر

  

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم  

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا-پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ 

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ 

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ایک منفرد معجزہ طلب کرتے ہوا کہا کہ ہر نبی کسی نا کسی معجزے کا حامل تھا آپ اگر نبوّت کے دعویدار ہیں سارے نبیوں سے مختلف کوئ آسمانی معجزہ دکھائیے تاکہ ہم آپ کے خدا اور پر اور آپ کی نبوّت پر ایمان لے آئین کی طلب کی کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوجائیں تاکہ اس فعل کی اساس پر اسلام لے آئیں  گے

معجزہ شقّ القمر

رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں،۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا

۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! ان مشرکوں کا سوال پورا فرما دے۔اسی وقت حضرت جبرئیل امیں نازل ہوئے اور آپ صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ فر رہا ہے کہ اس وقت میں نے کائنات آپ کی دسترس میں دے دی ہے-آپ جو چاہیں وہ کر انجام دے سکتے ہیں -کفّار نے کہا کہ یہ آسمان پر جو چاند ہے اس کو دوٹکڑے کردیں  -آپؐ نے انگلی سے اشارہ کیا تو چاند اسی  وقت  دو ٹکڑے ہوگیا-اب ان کو الگ الگ پہاڑ پر بھیج دیجئے اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہوجس طرح کافروں نے کہا تھا۔ آنحضرتؐ نے ویسے ہی کیا پھر کفّار بولے اب چاند کو ملا دیجئے تب چاند آپ کی انگشت مبارکے اشارے سے مل گیا اور اپنی جگہ واپس جا کر جگمگانے لگا - تب حضور پاک نے فرمایا اے ابوسلمہ اور ارقم اس پر گواہ رہنا۔ 

لیکن کفآر کے دل ٹیڑھے تھے وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے 5 سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔مشرکین مکہ جمع ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے فرمایا کہ اگر آپ سچے ہیں تو  ہمارے لئے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دکھائیں 

(قرآن مجید میں سورة قمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے)

جنوبی ہندوستان کے علاقہ (مالابار) کیرالہ اسٹیٹ پر اس وقت ایک ہندو راجہ حکمران تھا۔ مہاراجہ رات کے وقت میں اپنے محل کی چھت پر اپنے خاند ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس نے اپنے خاند ان کے افراد سے اس کی تصدیق چاہی ، جو محل کی چھت پر اس وقت موجو د تھے۔ سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ تب اس نے دوسرے دن دربار طلب کیا جس میں اہل علم ، دانشور ، پنڈت ، نجومی، جوتشی شریک تھے۔ ان سب سے اس واقعہ کی تحقیق و تصدیق کے لئے کہا سب نے تحقیق کے بعد اس واقعہ کی تصدیق کی اور ان سب نے گواہی دی کہ یہ صرف نبی ﷺ کا کارنامہ ہے ہماری کتابوں کے مطابق سرزمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اس کے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ہمارے خیال میں سر زمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گیا ہے۔ شَقّ القمر کا معجزہ ان ہی کے اشارہ پر ہوا ہے۔

مہاراجہ بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اس نے اس کی مزید تصدیق کے لئے اپنے بیٹے کو عر ب بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح مہاراجہ نے اپنے جواں سال (بیٹے) شہزادے کو زاد راہ کے خور دو نوش کے اہتمام کے ساتھ ڈاکوؤں و لٹیروں کے تحفظ کے لئے یک سو مسلح افراد کے ہمراہ عرب (مکہ و مدینہ )کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بہت سے قیمتی تحائف دے کر ہدایت کہ کہ اگر شَقّ القمر کی تصدیق ہو جائے تو میری طرف سے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا اور میر اسلام کہہ دینا ۔ہندو نوجوان شہزادے کو اہل عرب نے شَقّ القمر کی تصدیق کی ۔ 

اب شہزادے کو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ہوا۔ جب شہزادہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور ﷺْ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اور آنے کا مقصد پوچھا شہزادے نے اپنی آمد کی پوری تفصیل سنا دی ۔ شہزادے نے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے تحائف آپ ﷺ کو پیش کئے اور مہاراجہ کا سلام پہنچا دیا۔ حضور ﷺ نے شکریہ ادا کیا اور مہاراجہ کے لئے دعائے خیر کے کلمات ادا کئے روایت یہ ہے کہ اسی دن مہاراجہ دل ہی دل میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا تھا اور بت پرستی ترک کر دی تھی۔

"آپولو 10 نے چاند کی قریب سے فوٹو لی جس میں چاند پر ایک بڑا نشان نظر آیا یہ تصویر 1969ء میں لی گئی پھر آپولو 11 کی مدد سے چاند کی سطح پر اتر کر اس نشان کا مشاہدہ کیا گیا ،یہ نشان 300 کلومیڑ تک لمبا ہے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررpart-3

    آپ کو اچھّی طرح معلوم ہئے ممّا کہ اس معاشرے میں ایک قانونی طور پر سمجھدار لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کی اجازت ہئے س...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر