۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت
کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا
سندھ مدرسے نامور طلبہ میں قائد اعظم
محمد علی جناح، سرعبداللہ ہارون، سر شاہنواز بھٹو، سر غلام حسین ہدایت اللہ خان،
خان بہادر محمد، ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی، علامہ آئی آئی قاضی، محمد ہاشم
گزدر، غضنفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ، محمد
ابراہیم جویو، جسٹس سجاد علی شاہ، قاضی محمد عیسی، رسول بخش پلیجو، اے کے بروہی،
علی احمد بروہی، پیرالٰہی بخش، میر غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، غلام محمد بھر
گڑی، علامہ علی خان ابڑو، جی الانہ، حکیم محمد احسن، موسیقار، سہیل رعنا، فلمسٹار
ندیم، قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد علی چھاگلہ، میران محمد شاہ، قاضی فضل اللہ،
لٹل ماسٹر، حنیف محمد اور بے شمار اہل علم شعرا، ادبا، وکلا، سیاست دانوں نے یہاں
سے استفادہ کیا۔ اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر ووائسرائے
آف سندھ لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا
1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو
سال بعد قائد اعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ 1887ء سے
1897ء تقریباً ساڑھے چار سال اس ادارے سے وابستہ رہے۔ قائد اعظم کو اپنی مادر علمی
سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے اپنی وصیت میں اپنی جائداد کا ایک تہائی حصہ اس
ادارے کے نام کر دیا تھا۔ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے21 جون 1943ء کو سندھ مدرسۃ
الاسلام کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے دست مبارک سے کیا۔
اگر ہم کراچی کی سندھ کی تاریخ پر نظر
ڈالیں تو ہمیں بہت سی شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنہوں نے سندھ میں علم و ادب اور
تہذیب ثقافت کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنی زندگیاں آنے والی
نسل کے لئے وقف کردیں، ان میں،حسن علی آفندی، نارائن جگن ناتھ واڈیا ، دیا رام جیٹھ
مل ، جمشید نسروانجی مہتا، ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا، بابائے اردو مولوی عبدالحق
،ایم اے قریشی، حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، پیر حسام الدین راشدی، علامہ
غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انیتا غلام اور دیگر
شامل ہیں تعلیم کے میدان میں ایک تعلیمی ادارہ یکم ستمبر 1885 ء کو، سندھ کے
دارالخلافہ کراچی میں قائم کیا گیا، اس کو قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے بچوں کو
جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔
اس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام رکھا گیا،
یہ عمارت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے میں واقع ہے، ایک جانب آئی آئی
چندریگر روڈ جبکہ دوسری جانب شاہراہ لیاقت ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے
اگر سندھ مدرسے کی جانب آیا جائے تو حبیب بینک پلازہ کے عقب میں کراچی چیمبر آف
کامرس کراچی کی تاریخی عمارت کے بالمقابل ہے، اس عمارت کے اطراف میں سٹی ریلوے اسٹیشن
، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، نیشنل بینک آف پاکستان کا ہیڈ
آفس اور میریدور ٹاور موجود ہے، اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد
گورنر جنرل ووائسرائے آف انڈیا، لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا۔
یہ عمارت گوتھک طرز تعمیر کا خوبصورت
شاہکار ہے جس کا ڈیزائن کراچی میونسپلٹی کے انجینئر جیمس اسٹریجن نے بنایا تھا۔
سندھ مدرسے کی دوسری قدیم عمارت حسن علی آفندی لائبریری ہے۔ یہ عمارت 19ویں صدی
کے آخری دنوں میں خیر پور ریاست کے ٹالپر حکمرانوں کی مالی معاونت سے پرنسپل
ہائوس کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ 1985ء میں اس عمارت کو لائبریری میں تبدیل کیا گیا
تھا، آج اس لائبریری میں 20 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، جن میں ایک صدی قدیم
کتابیں بھی شامل ہیں۔ سندھ مدرسے کی ایک اور خوبصورت عمارت تالپور ہائوس ہے جو ،جدید
اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔
یہ عمارت بھی سندھ کے سابق ٹالپر
حکمرانوں کی مالی اعانت سے جولائی 1901ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ ابتداء میں ٹالپر
ہائوس سندھ مدرسے میں ٹالپر حکمرانوں کے زیر تعلیم بچوں کے لئے بورڈنگ ہائوس کے
طور پر زیر استعمال تھا۔ قائداعظم اور دیگر شخصیات جو سندھ مدرسے سے وابستہ رہیں
ان کے استعمال کی اشیاء اور نوادرات کیلئے جناح میوزیم بھی ہے۔ اس ادارے کو یہ
اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1887 ء سے 1892 ء تک اس
ادارے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال
بعد قائداعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ ساڑھے چار سال اس
ادارے میں رہے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے وصیت میں
اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔سندھ مدرستہ الاسلام کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اسے یونیورسٹی
کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ، یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011 ء میں سندھ
اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012 ء کو اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت
العباد خان نے مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر منظور کیا اور یونیورسٹی کے قیام
سے ایک صدی پرانے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 2012 ء میں ہی پہلے تعلیمی سیشن
کا آغاز ہوا، مدرستہ الاسلام کا پہلا کیمپس کے طور پر ملیر کیمپس کا سنگ بنیاد
رکھا جاچکا ہے اور اس کے لئے سو ایکڑ زمین سندھ کی صوبائی حکومت نے بلامعاوضہ
فراہم کی ہے، یہ تاریخی درس گاہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم
و تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اس کے شاندار ماضی کے سبب معروف ماہر
تعلیم اور سندھ مدرستہ الاسلام کے سابق طالب علم غلام محمد مصطفی شاہ نے سندھ
مدرستہ الاسلام کو طفل سندھ اور مادر پاکستان قرار دیا۔ آزادی کے رہنمائوں کے
علاوہ سندھ مدرستہ الاسلام نے شاندار ماہر تعلیم ، قانون داں اور دانشوروں کی ایک
بڑی تعداد بھی پیدا کی، جن میں علامہ آئی آئی قاضی، علامہ عمر بن دائود پوتہ، اے
کے بروہی، علی احمد بروہی، لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد اور دیگر شامل ہیں ،جنہوں نے
اس ادارےکی ترقی میں مزید اضافہ کیا