جمعرات، 13 اپریل، 2023

گلگت- بلتستان -تہذیب و ثقافت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر

 

 

تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس کی جڑوں میں جاندار تہذیب اور مثبت ثقافت کی آبیاری ہورہی ہو۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان کی تہذیب و ثقافت میں رنگا رنگی اور بو قلمُونیّت ہے ۔ فنون ہوں یا دستکاریاں، نغمے ہوں یا لوک گیت، زبانیں ہوں یا لباس ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جتنی رنگا رنگی پاکستان کی رسوم و تقریبات ، تہواروں ، لباسوں اور زبانوں میں ہے، اتنی ہی رنگا رنگی علاقائی ادب ، لوک کہانیوں ، لوک داستانوں ، لوک رومان اور دیگر ثقافتی اقدار میں بھی ہے۔ عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ، یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔

 خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔ ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔

دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی۔ اشاعت اسلام کی وساطت سے ایران و عرب کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار رہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے مغلیہ دربار کے ساتھ تویہاں کے راجائوں کے ازدواجی رشتے قائم تھے جس نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کو مزید جلا بخشی ہے۔ نیز کشمیر ، لداخ ، تبت اور یار قند و کاشغر کے ساتھ بھی آمدورفت اور تجارتی ، سفارتی اور ثقافتی تعلق ٹھوس بنیادوں پر استوار تھے۔ یوں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کے مختلف شعبوں یعنی فن تعمیر ، رسوم و تہوار ، ادب وشاعری ، موسیقی ، صنعت و حرفت اور خوراک و لباس پر گردو نواح کے ان علاقوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس سے تہذیب و تمدّن کے جو خدوخال اُبھرے ہیں وہ تحقیق کرنے والوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

داستان گوئی گلگت بلتستان میں قدیم زمانے سے انسانی تہذیب و ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ دادااور دادی اماں کی صورت میں تقریباً ہر گھر میں قصہ گو موجود ہوتے ہیں۔ بچے روتے تو دادا یا دادی جن بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں سے ان کے دل بہلا لیتے۔ ویسے تو گلگت  بلتستان میں چھوٹی بڑی کہانیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن داستان کیسر اس علاقے کے تاریخی و اہم ترین تہذیبی آثار میں سے ہے۔ یونیسکو نے کیسر داستان کو دنیا کی طویل ترین داستان قرار دیا ہے جو منگولیا سے گلگت  بلتستان تک کے وسیع و عریض خطے کی زبان، رسم و رواج، فکرو فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی ماخذ ہے۔ اس داستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں داستان کیسر کو گیسرالوجی کے نام سے باقاعدہ ایک علم قرار دے کر تحقیق کے لئے کئی محکموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اسی طرح پولو گلگت  بلتستان کا قدیم قومی کھیل ہے اور دنیا میں اس کھیل کی ابتداء قبل مسیح کے دور میںیہیں سے ہوئی تھی۔ پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کی گواہی دنیا کے تمام انسائیکلوپیڈیاز اور ڈکشنریاں دے رہی ہیں۔ آج بھی یہ کھیل قدیم انداز میں صرف گلگت  بلتستان میں ہی کھیلا جاتا ہے۔

گلگت  بلتستان میں بولی جانی والی زبانیں شینا، بلتی، بروشسکی، وخی اور کھوار قدیم لسانی آثار میں سے ہیں جن کے دامن مختلف تہذیبوں کے رنگوں سے مالا مال ہیں۔ یہ زبانیں ہزاروں سالوں سے مختلف وادیوں میں اپنے اپنے ماحول اور مزاج کے مطابق ارتقا پذیر ہوتی رہی ہیں۔ یہ زبانیں لوک ادب کے اعتبار سے بہت ثروت مند ہیں جن میں داستانوں، کہانیوں، لوک گیتوں، پہیلیوں، لوریوں، کہاوتوں، روایتوں اور ضرب الامثال کا وافر  ذخیرہ اس علاقے کے ثقافتی آثار کا خزانہ ہے۔ ان زبانوں میں بے شمار محبت کے گیت گائے جا چکے ہیں اور معلوم نہیں ان رومانوی غزلوں نے کتنے نوجوانوں کے سینوں میں عشق کی  آگ سلگا دی ہے۔

گلگت  بلتستان میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں چٹانوں اور پتھر کی سلوں پر منقش جانوروں اور مہاتما بدھ کی تصویریں، ہندسوں ا سٹوپاز کے نقوش اور بدھ مت کے گومپوں کے آثار انقلابات زمانہ کے ہاتھوں مٹ جانے کے باوجود اب بھی باقی ہیں۔ اس طرح کے چٹانی نقش و نگار ماضی میں ان علاقوں میں موجود طبعی ماحول کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ گلگت نپورہ میں چٹان پر منقش ''یاچھینی'' اور سکردو منٹھل میں واقع بدھا پتھر کا دربار بدھ مت کے مذہبی آثار میں سے اہم ترین ورثہ ہیں۔ داریل میں قائم بدھ مت یونیورسٹی اور شگر میں واقع سکیورلونگ گومپہ کی روایات سے ان علاقوں کی قدیم تاریخ و تہذیب کے کئی باب کھلتے ہیں۔یہاں کی خوراک میں گلگت کے نسالو و ڈائو ڈائو، ہنزہ نگر کے چھپ چھورے، شربت اور درم پھٹی،  بلتستان کے مارزن، پڑاپو اور ازوق دسترخوان کی زینت بن جائیں تو نہ صرف دیکھنے والوں کے منہ سے بے اختیار رال ٹپکنے لگتی ہے بلکہ اس علاقے کے لوگوں کی صحت و توانا جسم کا راز بھی انہی خالص غذائوں میں نظر آتا ہے۔

یہ دنیا کی ہر قوم کا دستور ہے کہ جب انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو رقص و سرور کی محفلیں جمتی ہیں۔ گلگت  بلتستان کا علاقہ موسیقی و رقص کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ یہاں ایران وعراق، ہندوستان و تبت اور وسط ایشیائی ریاستوں کی موسیقی کے حسین امتزاج پر مبنی درجنوں اقسام کے راگ اور دھنیں رائج ہیں ان میں حریب کے نام سے ساٹھ سے زیادہ اقسام کے پکے راگ  بلتستان و ہنزہ میں اب بھی رائج ہیں۔  بلتستان کے شمشیر رقص گاشوپا، چھوغو پراسول اور پھورگون کار جبکہ ہنزہ کے اپی ژھونٹ، الغنی اور دنی جیسے رقص کا تماشا دیکھنے کے بعد یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قراقرم و ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان بسنے والے یہ کوہستانی لوگ کس قدر باذوق اور رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔الحمدللہ گلگت  بلتستان کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ مہمان نوازی، دیانت داری اور خلوص و محبت ان کی قومی پہچان ہے۔ اللہ رب العزت کی رضا اور اُس کی طرف سے متعین برگزیدہ ہستیوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادات بجا لانا اور محافل و مجالس کا انعقاد کرنا گلگت  بلتستان کے باسیوں کا شیوہ رہا ہے۔

گلگت  بلتستان کی اس سرزمین رنگ وبو پر مختلف ادوار میں رائج مظاہر پرستی ، زرتشتی ، بون مت، ہندومت اور بدھ مت جیسے ادیان و نظریات اور عقائد نے اس علاقے کی تہذیب و تمدن کی بنیادی پرداخت میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ بالخصوص دین فطرت اسلام نے پرانی تہذیبوں پر دوررس اثرات ڈالتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اتنی تہذیبی و تمدنی رنگارنگی کی آماجگاہ رہا ہو۔ ان تہذیبی، تاریخی اور تمدنی حقائق کے اجزائے ترکیبی کی تحقیق کے لئے گزشتہ دو صدیوں کے دوران غیر ملکی سیاحوں،محققین اور تاریخ نویسوںنے وقتاً فوقتاً یہاں آکر خامہ فرسائی کی ہے لیکن پھر بھی اس شعبے کا ہر پہلو اپنے اندر تاریخ و ادب اور تہذیب و ثقافت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے سینے میں لے کر دعوت فکر دے رہا ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے کسی ملک کے تاریخی وثقافتی ورثوںاور سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں اب تک پاکستان کے صرف چھ مقامات موہن جوداڑو، تخت باہی ، قلعہ روہتاس، قلعہ لاہور، ٹیکسلا اور مکلی کا قبرستان شامل ہیں۔ یہ بات ہم بلا خوف ِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے علاوہ صرف گلگت  بلتستان میں درجنوں تاریخی و ثقافتی مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ ان میں تین سو سے پانچ سو سال کی قدیم مساجد، خانقاہیں، قلعے اور مزارات گلگت  بلتستان کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شامل کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے جہاں تاریخی و ثقافتی مقامات اور سیاحوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی درکار ہوتی ہے وہاں امن و امان کا قیام بھی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایک عرصہ تک امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر رہا۔ اب حالات بڑی حد تک معمول پر آ چکے ہیں اور سیّاحوں نے پاکستان کی طرف رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ خوش قسمتی سے گلگت  بلتستان کا پرامن اور پر سکون ماحول دنیا میں مثالی اور عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گلگت  بلتستان میں تیس لاکھ سیاحوں کی آمد کا اندازہ لگایا گیا ہے ۔

سیاحت دنیا بھر میں اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسے دنیا کے مختلف ممالک میں انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے ۔تہذیبی و ثقافتی اقدار اور تاریخی آثار کو ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لئے بروئے کار لانا دانشمند قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ ہماری ثقافتی سرگرمیاں پائیدار قومی تعمیر و ترقی کی ضامن ہونی چاہئیں۔ ہماری ادبی رعنائیوں ، ثقافتی رنگارنگیوں اور آثار قدیمہ کو سیاحت سے مربوط کر کے ملک کو اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے گلگت  بلتستان کو مشرق کا سوئٹزرلینڈ بنانا ہو گا۔وطن عزیز پاکستان میں گلگت  بلتستان جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے سیاحت کے لئے موزوں ترین خطہ ہے ۔ لیکن ان سیاحتی مقامات اور آثار کو دانشمندانہ طریقے سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور سیاحوں کے لئے درکار سہولتوں کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔  نیز گلگت  بلتستان کے لوگوں کو ماضی کے تناظر میں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاکر اور علاقے کی تہذیبی و ثقافتی قدروں کو محفوظ کرکے سیاحتی مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یوں گلگت  بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور یہ شعبہ پاکستان کے لئے پائیدار اقتصادی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا


مولائے کائنات مشاہیر عالم کی نظر میں

 

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علی (علیہ السلام) کا بڑا عاشق تھا اس نے ایک کتاب(صوت العدالۃ الانسانیہ) یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو وہ کافی بے چین ہو گیا لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ جب یہ کتاب چھپ گئی اور مقبول ہو گئی تو اس کی اشاعت سے اسے بھرپور منافع ہوا جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کر اسے واپس کرنا چاہی تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علی (علیہ السلام) کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؓ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اس لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا ،جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا ،اس لئے میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اس لئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔ 

سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخِ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے غدیر خُم کے دن اعلان فرمایا جس کا میں مولا ہوں اُس کے علیؓ مولا ہیں۔

(امام احمد بن حنبل نے المسند ج1 ص 152)

قرآن و حدیث میں مولا علیؓ پاک کی بیشمار فضیلت بیان کی گٸی ہے لیکن میں نے سوچا کہ اس بار یہ بیان کیا جاٸے کہ غیر مسلم مولا علی علیہ السلام کو کس طرح مانتے ہیں۔

کیونکہ حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت ایسی ہے کہ جس کو اپنے تو اپنے غیروں نے بہی تسلیم کیا جب حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف دیکھے تو دنگ رہ گئے اور شانِ علیؓ لکھنے اور بیان کرنے پر مجبور ہو گٸے 

عظمتِ مولا کاٸنات پر مختلف مذاہب کے مصنفین نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ہر ایک کتاب حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک حصے کو بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو تمام نوع انسانی بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و مکتب ، قوم و ملت ، شرق و غرب زندگی کے تمام مراحل ، شعبے اور ادوار کے لئے مشعل راہ ہے۔ آج علماء و دانشور اپنی علمی پیاس بجھانے اور ناخواندہ اپنے ہادی سے درس ہدایت کی تلاش میں ہیں زاہد ، متقی ، عابد امام المتقین کی تلاش میں ہیں ۔ حقوق انسانی سے لے کر حقوق غیر بشری تک یا گھریلو حقوق سے لےکر عالمی طبقاتی و غیر طبقاتی حقوق تک سب فطری طور پر ایک ایسے ہی فطری رہنماء کی تلاش میں ہیں سیاستدان اپنی سیاست ، دیندار اپنے دینی مسائل ، تاجر اپنی تجارت کے معاملات میں ، محقق اپنی تحقیق کے مراحل میں ، فطرت سلیم جیسے کامل ترین رہنماء کی تلاش میں ہیں مختلف مکاتب ومسالک ، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے نبی کریمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔

اس تحریر کی ابتداء ایک (ہندو پنڈت اچاریہ پرمود کرشنا)

کی منقبت سے کر رہا ہوں جو ایک ہندو ہوکرحضرت علیؓ کیلئے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔

 

میرے سینے کی دھڑکن ہیں میری آنکھوں کے تارے ہیں۔

سہارا بے سہاروں کا نبیﷺ کے وہ دُلارے ہیں۔

سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا،

علی جتنے تمہارے ہیں علی اتنے ہمارے ہیں۔

نبیﷺ نورِ خدا ہے تو علی نورِ نبیﷺ سمجھو

نہ اس سے کم گوارا تھا نہ اس سے کم گوارا ہے۔

سمندر درد کا اندر مگر میں پی نہیں سکتا

لگے ہوں لاکھ پہرے پر لبوں کو سی نہیں سکتا

علی والو علی کے عشق کی یہ داستان سن لو

اگر علی کا ذکر نہ ہو تو یہ بندہ جی نہیں سکتا۔

جس کسی نے بہی اس عظيم شخصیت کے کردار،گفتار اور اذکار ميں غور کيا، وہ دريائے حيرت ميں ڈوب گيا اور شانِ علیؓ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔

ايک غیر مسلم محقق لکھتا ہے کہ حضرت علی عليہ السلام وہ پہلی شخصيت ہيں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے وہ سب کے دوست ہيں اور اُن کی موت پيغمبروں کی موت جیسی ہے-

معروف سکھ دانشور، شاعر و ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتا ہے۔ 

تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے

کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے

ہم سلامت ہیں زمانے میں تو ان شاء اللہ

تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے۔ 

تھامس کار لائیل لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ایک عظیم ذہن رکھتے تھے اور بہادری ان کے قدم چومتی تھی، ہم علی(علیہ السلام )کو اس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں، وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے، ان کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے، ان کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے، وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش بھی تھی پھر اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے انہیں قتل کردیاگیا، ان کے قتل کی وجہ حقیقت میں ان کا درجہء کمال تک پہنچا ہوا عدل تھا، جب علی(علیہ السلام) سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نے قصاص لینا چاہا تو آپ صرف ایک ہی ضرب لگا کر سزا دیں گے اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے۔

تھامس کار لائل مزید لکھتا ہے کہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھے۔

برطانوی تاریخ دان ایڈورڈ گبن۔

(1737-1794) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی فصاحت تمام زمانوں میں زندہ رہے گی، بلاشبہ خطابت اور تیغ زنی میں وہ یکتا تھے۔

شامی نژاد امریکی پروفیسر فلپ کے (1886-1978) لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں کیلئے فراخ دل تھے۔

 

اسکاٹش سیاستدان سر ویلیم مور (1918-1905) کا ماننا ہے کہ سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی اور انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسولِ خداﷺ کے نام کر دیا تھا۔ 

جیرالڈ ڈی گورے (1897-1984) لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی کی مثال رہیں گے۔ 

برطانوی ماہر تعلیم ولفرڈ میڈلنگ

(1930-2013) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخ دلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔ 

معروف مورخ چارلس ملز لکھتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم کہ جس میں علیؑ جیسا عادل انسان پیدا ہوا، نبی اللہ سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰیؑ سے حضرت ہارونؑ کو تھی۔

برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) کہتا ہے کہ خانہ خدا میں حضرت علی کی ولادت ایک ایسا خاصا ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔(9) بھارتی صحافی ڈی-ایف-کیرے، 1911-1974، لکھتا کہ علی (علیہ السلام) کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

 (ایک عیسائی محقق ڈاکٹر شبلی شُمَیّل

کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ250)

حضرت علی پاک (علیہ السلام ) تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی۔

تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی۔

یہ جرمنی کا ایک مشہور و معروف شاعر ہے جو حضرت علی (علیہ السلام ) کے بارے میں لکھتا ہے ۔

علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور اُن پر فدا ہونے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ وہ شریف النفس اور بلند مرتبہ کے جوان تھے۔ ایسےپاک نفس کے مالک تھے جو مہربانی اور نیکی سے بھرا ہوا تھا۔ اُن کا دل جذبہ ایثار اور ہمدردی سے لبریز تھا۔ وہ بپھرے ہوئے شیر سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع تھے، ایسی شجاعت جو لطف و مہربانی، ہمدردی اور محبت کے جذبات سے سرشار تھی”۔

واشنگٹن ارونیک Washington Irving-یہ امریکہ کے ایک محقق اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں : علی علیہ السلام کا تعلق عرب قوم کے با عظمت ترین خاندان یعنی قریش سے تھا ۔ وہ تین بڑی خصلتوں ، شجاعت ، فصاحت اور سخاوت کے مالک تھے ۔ ان کے دلیرانہ اور شجاعانہ روح کی وجہ سے انہیں شیر خدا کا لقب ملا ۔ وہ لقب جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں عطا کیا

حضرت مولا علی (علیہ السلام)

کی ان تمام صفات کو ایک شاعر استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان کرتا ہے 

نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند 

متحیرم چہ نامم شہ ملکِ لافتیٰ را

میں علی (علیہ السلام) کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملکِ لافتیٰ کو کیا کہوں.

جُرجی زیڈان : Jurji Zaydan

یہ عرب کے مشہور و معروف عیسائی دانشور اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے حوالے سے لکھتے ہیں : اگر میں کہوں کہ( مسیح حضرت عیسی) علی علیہ السلام سے بالا تر تھے تو میری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور اگر میں کہوں کہ علی علیہ السلام مسیح سے بالاتر تھے تو میرا دین اجازت نہیں دیتا

جارج جرداق مزید لکھتا ہے کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟۔۔۔جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اس کا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اس کو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان شعر میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اس کے قلم سے علی (علیہ السلام) کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں۔

خلیل جبران لبنانی عیساٸی کہتا ہے کہ میرے عقیدے کے مطابق حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا مردِ عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔

معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شہیدِ امام ہے کہ جس کی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے، جنگ احد میں رسول خدا کی تلوار ذوالفقار سے زرہوں اور سپروں کے سینے چاک کرکے حملے کئے، قلعہ خیبر پر حملہ کیا تو اپنے طاقتور ہاتھوں سے اس سنگین لوہے کے دروازے کو اکھاڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ پیامبر ﷺ کو ان سے شدید محبت تھی اور وہ ان کے اوپر مکمل اعتماد کرتے تھے۔

معروف اسکالر میڈم ڈیلفائی رقمطراز ہیں کہ ع فیصلوں کے وقت انتہائی درجے تک عادلانہ فیصلے کرتے تھے، علیؑ قوانین الہٰی کے اجرا میں سختی سے کام لیتے تھے، علیؑ وہ ہستی ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت جن کے تمام اعمال کی رفتار بہت ہی منصفانہ ہوتی تھی، علی وہ ہیں کہ جن کی دھمکی اور خوشخبری قطعی ہوتی تھی، پھر لکھتی ہیں کہ اے میری آنکھوں گریہ کرو اور اپنے اشکوں کو میرے آہ و فغاں کے ساتھ شامل کرو کہ اہل بیت کو کس طرح مظلومانہ طریقے سے شہید کردیا گیا

“گبرےیل ڈانگیرے” (Gabriel Dangyry)

لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکیں ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدانِ جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو علومِ الہیہ کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتبِِ فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں، جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں لیکن حضرت علی پاک (علیہ السلام) ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلند پایہ قاضی تھے اور مکاتب فکر کے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے حضرت علی پاک ( علیہ السلام) شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو۔”

میرے سامنے فضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا، جن کی شمارش سے میں قاصر تھا۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔ “حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اور بہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) “حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) “حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) “سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) “حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے۔” (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984) “حضرت علیؑ کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔”

معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013) “خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ہاروں کو تھی۔” معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826) “خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔” برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) “علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔” امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859)ٖ “میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔” بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974) اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیر مسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جا پہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائیں، تب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے تک بھی پہنچنا ممکن نہیں۔ اب بھی اگر لوگ علی ؑ کا دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں موازنہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔ اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمﷺ کے بعد مقامِ احبیت میں سب سے محبوب ترین ہستی حضرت مولا علی پاک ( علیہ السلام) کی ہے

 

 

بدھ، 12 اپریل، 2023

مولا علی علیہ السّلام کا خط مالک اشتر کے نام

 

امام علی علیہ السلام نے اس خط کو مالک اشتر کیلئے اس وقت تحریر فرمایا جب آپ نے اسے مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا تھا اسلئے اس کے اکثر مضامین حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کا عام مسلمان اور غیر مسلمان شہریوں کے ساتھ برتاؤ اور ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے حکمرانوں کے وظائف کی بیان میں ہے۔ اس حوالے سے امام علی علیہ السلام کی جانب سے مالک اشتر کو مصر کے گورنر کے عنوان سے کرنے والے بعض سفارشات درج ذیل ہیں:

واصل جہنم کیا۔

اے مالک، آپ کو معلوم ہو جائے کہ میں آپ کو ایک ایسے علاقہ کا گورنر بنا کر بھیج رہا ہوں جس نے ماضی میں منصفانہ اور   جسے بہت شفاف حکمرانی کا تجربہ کیا ہے۔ یاد رکھو لوگ تمھارے  اعمال کا کھوج لگانے والی نظر سے جائزہ لیں گے، جیسا کہ تم اپنے سے پہلے لوگوں کے اعمال کا جائزہ لیا کرتے تھے، اور تمھارے بارے میں اسی طرح بات کرتے تھے جیسے تم ان کے بارے میں کہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام صرف اچھے کام کرنے والوں کو اچھا سمجھے  ہیں۔ یہ وہ ہیں جو آپ کے اعمال کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے سب سے امیر خزانہ جس کی تم خواہش کر سکتے ہو وہ نیکیوں کا خزانہ ہو گا۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں اور اپنے آپ کو ان چیزوں سے ضرور روک کر رکھنا  جن سے آپ کو خداوند تبارک تعالی نے منع فرمایا  ہے، کیونکہ صرف اس طرح کی پرہیزگاری ہی تم کو اللہ کی بارگا ہ اور بندوں میں مقرب بنا سکتی ہے

اپنے دل میں اپنے لوگوں کے لیے محبت کا جذبہ بیدار رکھنا اور اسے ان کے لیے مہربانی اور برکت کا ذریعہ بنانا۔ ان کے ساتھ وحشیا نہ سلوک نہ کرنا اور جو اپنے لئے مناسب سمجھو وہی ان کے لئے بھی مناسب جانو۔ یاد رہے کہ ریاست کے شہری دو قسموں کے ہوتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کے دین میں بھائی ہیں یا آپ کے بھائی ہیں۔ وہ کمزوریوں کے تابع ہیں اور غلطیوں کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں۔کچھ لوگ واقعی غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ان کو معاف کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ یاد رکھو کہ تم اُن پر حاکم ہوجیسا کہ میں تم پر رکھا گیا ہوں۔ اور پھر اس کے اوپر بھی خدا ہے جس نے تمہیں گورنر کا عہدہ دیا ہے تاکہ تم اپنے ماتحتوں کی دیکھ بھال کرو اور ان کے لیے کافی ہو۔ اور آپ ان کے لیے کیا کرتے ہیں اس سے آپ کا فیصلہ کیا جائے گا۔اپنے آپ کو خدا کے خلاف مت کرو، کیونکہ نہ تو تم میں طاقت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے خلاف اپنے آپ کو ڈھال سکے، اور نہ ہی تم اپنے آپ کو اس کی رحمت اور بخشش کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہو۔ معافی کے کسی عمل پر نادم نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایسی سزا پر خوش ہوں جس سے آپ کسی کو مل سکیں۔ اور دیکھو اپنے مزاج کو معتدل رکھنا نا کہ مشتعل کیونکہ اس سے کوئی بھلائی نہیں نکلے گی۔

یہ مت کہو: "میں تمہارا حاکم اور آمر ہوں، اور اس لیے تمہیں میرے حکم کے آگے جھکنا چاہیے"، کیونکہ اس سے آپ کا دل خراب ہو جائے گا، دین پر آپ کا ایمان کمزور ہو گا اور ریاست میں فساد پیدا ہو گا۔ اگر آپ طاقت سے خوش ہوں تو کبھی اپنے ذہن میں غرور اور تکبر کی معمولی سی علامتیں بھی محسوس کریں، پھر کائنات کی حکمرانی الٰہی کی قدرت اور عظمت کو دیکھیں جس پر آپ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں۔

یہ آپ کی ذہانت میں توازن کا احساس بحال کرے گا اور آپ کو سکون اور ملنساری کا احساس دے گا۔خبردار! کبھی بھی اپنے آپ کو خدا کی عظمت اور عظمت کے خلاف مت ڈالو اور اس کی قادر مطلق کی نقل نہ کرو۔ کیونکہ خدا نے خدا کے ہر باغی اور انسان کے ہر ظالم کو پست کر دیا ہے۔اپنے ذہن کو اپنے عمل سے حقوق العباد اور حقوق العباد کااحترام کریں اور اسی طرح اپنے ساتھیوں اور رشتہ داروں کو بھی اسی طرح کرنے پر آمادہ کریں۔ کیونکہ، ورنہ، آپ اپنے آپ پر ظلم اور انسانیت کے ساتھ ناانصافی کر  ہوں گے۔ اس طرح انسان اور خدا دونوں تمہارے دشمنوں کی طرف رجوع کریں گے۔ اپنے آپ کو خدا کا دشمن بنانے والے کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ اسے خدا کے ساتھ جنگ میں اس وقت تک سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ پشیمانی محسوس نہ کرے اور معافی طلب کرے۔ کوئی بھی چیز انسان کو الہٰی نعمتوں سے محروم نہیں کرتی اور نہ ہی ظلم سے زیادہ آسانی سے اس پر غضب الٰہی کو بھڑکاتی ہے۔ تو یہ ہے کہ خدا مظلوم کی آواز سنتا ہے اور ظالم کو راہ راست پر لاتا ہے۔

راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے- کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے

ناحق خون ریزی سے پرہیز کرنا ۔وجہ کے بغیر تلوار نیام سے ہر گز نہیں نکالنادیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔

اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔گھمنڈ اور خود پسندی سے پرہیز کرو-دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرنا عام لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو نہیں کرنا-لوگوں پر حسن ظن رکھنا۔شہروں کی آباد کاری کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا۔

معاشرے کی طبقہ‌بندی اور یہ کہ ہر طبقے کے مخصوص حقوق۔ قاضی کے اوصاف۔  حکومتی مسئولین کے اوصاف۔ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادی ،کی بہبود پر توجہ دینا۔ شرائط کاتبین۔ صنعتگروں کے ساتھ اچھا برتاؤ۔ معاشرے کے نچلے طبقے کی خاص نگرانی۔

نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان نماز گزار کی رعایت کرنا۔بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا۔

لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنا۔ دشمن کے ساتھ صلح (اگر دشمن کی طرف سے صلح کی درخواست اور خدا کی رضایت بھی اسی میں ہو تو)

عہد و پیمان کو پورا کرنا اور اس پر  یمن سے کوفہ تک کی زندگییمالک اشتر کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن اس بات میں شک نہیں کہ آپ یمن میں پلے بڑے تھے اور سنہ 11 یا 12 ہجری قمری کو وہاں سے ہجرت کی۔آپ نے زمانہ جاہلیت کو بھی دیکھااور اپنی قوم کے سرکردہ فرد تھے ۔یمن سے آنے کے بعد کوفہ میں مقیم ہوئے اور ان کے بعد کوفہ میں ان کی نسل باقی رہی ہے۔ جنگ یرموک میں شرکت کی اور اسی جنگ میں ان کی ایک آنکھ پر تیر لگا اور آپ آیک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ جنگ یرموک میں آپ نے دشمن کے 13 افراد کو واصل جہنم کیا۔

تحریر کنندہ

 امام علی

منگل، 11 اپریل، 2023

بیساکھی کا تہوار-اور گرو درشن

 

  بیساکھی کا تہوار سکھوں کے حکم، خالصہ پنتھ کی یاد میں منایا جاتا ہے جو سکھوں کے نویں گرو، گرو تیغ بہادر کے ظلم و ستم کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ پھانسی مغل شہنشاہ اورنگزیب نے دی تھی کیونکہ گرو تیغ بہادر نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بیساکھی جسے ہندوستان کے مختلف حصوں میں ویساکھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بنیادی طور پر ایک تاریخی تہوار ہے جو سکھ اور ہندو مت دونوں میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کے لیے موسم بہار کی فصل کا تہوار سمجھا جاتا ہے، یہ ہندوستانی تہوار ہر سال 13 یا 14 اپریل کو منایا جاتا ہے- بیساکھی کے اہم پرکشش مقامات

1. جشن-چونکہ بیساکھی فصل کی کٹائی کے موسم کا اختتام ہے اس لیے یہ شمالی ہندوستان میں جشن کا موقع ہے۔ اس پروقار موقع پر، لوگ بہت خوش گوار انداز کے ساتھ روشن اور رنگین لباس زیب تن کرتے ہیں۔ دن کا آغاز مقدس ندیوں میں نہانے اور برکت کے لیے گرودواروں میں جانے سے ہوتا ہے۔ گرودواروں کو سجایا جاتا ہے اور شاندار لنگروں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور عقیدت مندوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

2. نگر کیرتن-مختلف مقامات پر، مقامی لوگ جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں جنہیں نگر کیرتن بھی کہا جاتا ہے۔ ان جلوسوں کی قیادت خالصہ کے پانچ لوگ کرتے ہیں جو پنج پیارے کے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ لوگ مارچ کرتے ہیں، گاتے ہیں اور گرو گرنتھ صاحب کے نام پر بھجن گاتے ہیں۔

3. میلے-پنجاب اور قریبی علاقوں جیسے جموں، کٹھوعہ میں کئی مقامات پر ، اور پنجوڑپنجابی نئے سال اور کٹائی کے موسم کو منانے کے لیے خوش گوار میلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان میلوں میں، لوگ پنجابی ثقافت کے لذت بھرے اسراف کا مزہ چکھتے ہیں جس میں کھانے، ثقافتی پرفارمنس، اور سنسنی خیز پرفارمنس جیسے فرضی لڑائیاں بھی شامل ہیں۔ 

بھارت سے سکھ یاتری پنجاب کے مختلف گوردواروں میں 10 روزہ بیساکھی تہوار کی تقریبات میں شرکت کے لیے اتوار کو لاہور پہنچے۔گردوارہ پنجہ صاحب (حسن ابدال)، گردوارہ جنم استھان، ننکانہ صاحب، گردوارہ ڈیرہ صاحب (لاہور) اور گردوارہ دربار صاحب (کرتارپور)، نارووال میں بیساکھی منانے کے لیے تقریباً 2 ہزار 470 یاتری واہگہ اٹاری بارڈر کو پیدل عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یاتریوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ان کی اپنی سرزمین ہے جہاں وہ اپنے گرو کے درشن کر سکتے ہیں۔ سکھوں کا مشہور گردوارہ جو حسن ابدال ضلع اٹک کے مقام پر واقع ہے۔ وہاں ایک پتھر پر گرونانک جی کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ پتھر قصبے کے اندر ایک مکان میں محفوظ ہے، جو بالعموم مقفل رہتا ہے اور سکھ زائرین یا دوسرے زائرین کی آمد پر کھولا جاتا ہے۔ اسے 1823ء میں سردار ہری سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔ 1920ء تک یہ ہندو مہنتوں کے قبضے میں رہا۔

 سکھوں کی مزاحمت کے بعد دوسرے گردواروں کے ساتھ یہ بھی سکھ پنتھ کے زیر انتظام آگیا۔ 1933ء میں اس عمارت کی تجدید کی گئی۔گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال اٹک گردوارہ پنجہ صاحب سکھوں کا سب سے بڑا گردوارہ ہے۔ اس کا گھیرائو 396 گز ہے۔ اس کے چاروں طرف دو منزلہ کمرے ہیں۔ کئی کمرے زیرزمین بھی ہیں باہر اطراف میں تین طرف دکانیں بنی ہوئی ہیں گردوارے کی ملکیت میں صرف دکانیں ہی نہیں بلکہ حسن ابدال میں کئی مکان‘ راولپنڈی‘ اٹک اور حضرو میں کافی جائیداد گردوارے کے نام ہے۔ گردوارہ پنجہ صاحب‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل سردار ہری سنگھ نلوہ نے بنوایا تھا۔ یہ وہی ہری سنگھ نلوہ ہے جس کے نام سے ہری پور منسوب ہے۔ پنجہ صاحب کی تعمیر نو کا کام 1920ء میں شروع ہوا جو کہ 1930ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا پنجے کی چھتری 1932ء میں تعمیر ہوئی۔ پنجہ کے معنی پنجابی زبان میں ہاتھ کا پنجہ اور صاحب کے معنی عربی میں مالک کے ہوتے ہیں یعنی جناب مالک کا پنجہ‘ تاریخ سکھ میں روایات ہیں کہ مذہب کے بانی بابا گرونانک اور بابا ولی قندھاری میں کافی پنجہ آزمائی ہوتی رہتی تھی اور ایک روز بابا گرونانک علیل ہو گئے۔ بابا گرونانک نے اپنے شاگرد بھائی مردانہ سے کہا کہ وہ بابا ولی قندھاری کے آستانہ سے پانی لے آئے۔ بھائی مردانہ پانی لینے کے لیے بابا ولی قندھاری کے پاس گیا لیکن بابا قندھاری نے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ بھائی مردانہ ناکام لوٹا۔ بابا گرونانک نے پھر بھائی مردان کو کہا کہ وہ ولی بابا قندھاری کے آستانہ سے پانی بھر لائے۔ بھائی مردانہ پھر بابا قندھاری کے پاس گیا۔ بابا قندھاری نے پھر جواب دے دیا اور بھائی مردانہ کو کہا کہ اگر بابا گرونانک کو اپنے عقائد پر یقین ہے تو اسے کہو کہ وہ خود پانی نکال لے آپ کو میرے پاس کیوں بار بار بھیج رہا ہے۔ بھائی مردانہ نے بابا گرونانک کو بابا قندھاری کی یہ بات سنائی تو بابا گرونانک نے اپنا عصا زمین پر مارا اور زمین سے چشمہ پھوٹ پڑا۔

چشمہ پھوٹنے کے بعد بابا گرونانک نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور بھائی مردانہ کو کہا کہ وہ بابا ولی قندھاری کو بھی بتا دے کہ ہم نے پانی نکال لیا ہے۔ بھائی مردانہ بابا ولی قندھاری کے دربار پر گیا اور آگاہ کیا کہ پانی نکل آیا ہے۔ تاریخ سکھ کی روایات کے مطابق بابا ولی قندھاری نے اس چشمہ کو بند کرنے کے لیے اپنے آستانہ سے پتھر پھینکا جسے گرونانک نے پنجہ سے روکا۔ بابا گرونانک کا پنجہ اس میں نقش ہو گیا پتھر رک گیا اور چشمہ جاری رہا اس چشمہ کے پانی کو سکھ انتہائی مقدس خیال کرتے ہیں۔ بیساکھی کے موقع پر اس چشمہ کے پانی میں غسل کرتے ہیں اور پھر بابا گرونانک کے نقش شدہ پنجہ پر اپنا پنجہ رکھتے ہیں سکھ عقائد و نظریات کے مطابق ایسا کرنے سے ان کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ پنجہ صاحب کی زیارت سکھوں کے لیے گناہ دھو دیتی ہے۔پنجہ صاحب پر دیا جانے والا لنگر سکھوں کے لیے متبرک تو ہے ہی لیکن وہ اسے صحت کے لیے بھی بڑا مفید قرار دیتے ہیں۔ لنگر میں خالص دیسی گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے سکھ دیسی گھی کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اس کے علاوہ صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا ہے،

ہر سال اپریل کے مہینے میں ’بیساکھی‘ کا میلہ یہاں سجتا ہے اور پوری دنیا سے، خاص طور پر ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری ’پنجا صاحب‘ کی زیارت کرنے یہاں آتے ہیں۔ اس سال بھی بھارت سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سکھ یاتری اور دوسرے ممالک سے جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں لگ بھگ پندرہ سو یاتری اس میلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ اگر ملک بھر سے آنے والے یاتریوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس میلے میں شرکت کرنے والے یاتریوں کی تعداد تقریباً دس سے بارہ ہزار ہو جاتی ہے 

پیر، 10 اپریل، 2023

ایسٹر کا تہوار

 

ایسٹر کا تہوار پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ عیسائی کیلنڈر کے مطابق سب سے نمایاں تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ عیسائی تہوار عام طور پر ہر سال ایک ہی تاریخ کو نہیں آتا۔ لوگ اسے پہلے اتوار کو مناتے ہیں، پہلے پورے چاند کے بعد، جو عام طور پر مارچ کے آس پاس ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بہار کا موسم اپنے عروج پر ہوتا ہے اور رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں، جو چاروں طرف خوشی اور مسرت پھیلاتے ہیں۔ ایسٹر کی روایات پر عمل کرنا مزہ آتا ہے جیسے ایسٹر کی ٹوکریاں بنانا اور ایسٹر کے انڈوں کو رنگنا۔ لوگ ایک دوسرے کو ایسٹر کینڈی تحفے میں دینا پسند کرتے ہیں۔نئی دہلی: ایسٹر مسیحی برادری کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ گڈ فرائیڈے کے تیسرے دن، یعنی اگلے اتوار کو یسوع مسیح کو زندہ کیا گیا، جس سے لوگ خوشی سے اچھل پڑے۔ ان کے جی اٹھنے کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے عیسائیت کے لوگ ایسٹر سنڈے مناتے ہیں۔ یہ تہوار ہمیشہ ایک ہی تاریخ کو نہیں آتا۔ ایسٹر 21 مارچ کے بعد پہلے پورے چاند کے بعد پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس سال یہ تہوار آج 9 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو ایسٹر کہا جاتا ہے۔ہفتہ کے روز، ایسٹر سنڈے کے موقع پر، یسوع مسیح کی آمد کے انتظار میں ملک بھر میں دعائیہ اجتماعات کا آغاز ہوتا ہے۔ یسوع مسیح اپنے شاگردوں کے لیے واپس آئے اور گئے اور 40 دن تک ان کے درمیان تبلیغ کی۔ عیسائی عقیدے کے مطابق ایسٹر کی اہمیت دو طرح سے ہے۔ سب سے پہلے، یسوع نے مرنے سے پہلے سب کو معاف کر دیا، انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر اپنا خون بہایا۔

مقدس کتاب بائبل کا نیا عہد نامہ ایسٹر کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح خداوند یسوع کو رومی گورنر پونٹیئس پیلیٹ نے مصلوب کیا تھا۔ تاریخی طور پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسیح نے شعوری طور پر اس طرح کا انجام منتخب کیا تھا، جیسا کہ ایسا کرنے سے، اس نے اپنے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کے گناہوں کی ادائیگی کی۔ اسے موت کے گھاٹ اتارے جانے کے تین دن بعد، وہ دوبارہ اپنی قبر سے جی اُٹھا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ خدا کے بیٹے کی حیثیت سے وہ ہر چیز، یہاں تک کہ موت سے بھی بالاتر ہے۔ یہ وہی دن ہے جو ایسٹر کے موقع کی نشاندہی کرتا ہے اور اسے یہودیوں کے پاس اوور کے تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

جس دن یسوع کو مصلوب کیا گیا اسے گڈ فرائیڈے کہا جاتا ہے۔ دو دن کے بعد، یسوع دوبارہ زندہ ہو گئے اور اس سے لوگوں میں نئی ​​امیدیں پیدا ہوئیں اور خدا پر ان کا ایمان مضبوط ہوا۔ اس دن کو ایسٹر کہتے ہیں۔ ایسٹر سنڈے کے موقع پر انڈے کو خاص اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انڈے نئی زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔ جس طرح سے پرندہ پہلے انڈا دیتا ہے پھر اس سے چوزہ نکلتا ہے۔اسی طرح ایسٹر کے موقع پر انڈوں کو ایک مبارک یادگار سمجھا جاتا ہے اور اسے ایسٹر کے موقع پر ایک خاص طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں انڈے پر پینٹنگ کر کے تو کہیں اسے کسی اور طریقے سے سجا کر ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ زندگی کو نئے جوش اور ولولے سے بھرنے کا پیغام بھی دیتا ہے۔انڈے ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر بھی دیے جاتے ہیں۔ اپریل میں ایسٹر منانے کے پیچھے منطق یہ ہے کہ جس وقت یسوع مسیح کو گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت اسرائیل میں سردیاں جانے والی تھیں اور گرمیاں آنے والی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ویٹیکن گڈ فرائیڈے اور ایسٹر کی تاریخ موسم اور چاند کے ڈھلنے کے حساب سے طےایسٹر اتوار کو ایک خوشی کا دن سمجھا جاتا ہے کیونکہ مقبول عیسائی عقیدے کے مطابق، یسوع مسیح کا جی اٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ موت آخری انجام نہیں ہے۔ ایسٹر کے دن، عیسائی چرچ جاتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں جس کے بعد مقدس بائبل کی تلاوت ہوتی ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے حضور نماز ادا کرنے کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے عیسائی مذہب میں ایسٹر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

ایسٹر کی تاریخ سال بہ سال تبدیل ہوتی ہے۔ یہ موسم بہار کے مساوات کے عین بعد پورا چاند آنے کے بعد پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ چاند کے چکر کی بنیاد پر، یہ تعطیل 22 مارچ سے 25 اپریل کے درمیان کسی بھی اتوار کو ہو سکتی ہے۔ ایسٹر 2023 9 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ ایسٹر کی تقریبات صبح سویرے ایک خاص ایسٹر ماس کے ساتھ شروع ہوتی ہیں۔ لوگ اپنے اتوار کو بہترین لباس پہن کر چرچ پہنچتے ہیں اور بھجن گاتے ہیں، واعظ سنتے ہیں، اور ایک دوسرے سے ملتے اور مبارکباد دیتے ہیں۔ یہ تہوار پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ گوا مقامی لوگوں اور زائرین کی فعال شرکت کے ساتھ بڑے پیمانے پر تقریبات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

ہندوستان میں ایسٹر فیسٹیول کے اہم پرکشش مقامات

ہندوستان میں ایسٹر کا تہوار بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ایسٹر کی تقریبات لینٹ (بدھ) سے شروع ہوتی ہیں اور پھر اتوار کو ایسٹر کے ساتھ ختم ہوتی ہیں۔ اس مبارک موقع پر تمام مسیحی اپنی عبادت کے لیے چرچ جاتے ہیں۔ چرچ میں، والد بیان کرتے ہیں کہ کس طرح یسوع نے اپنے پیروکاروں اور پوری انسانیت کے لیے مصائب برداشت کیے تھے۔ چرچ میں واعظ کے بعد لوگ اچھی صحت اور خوشحالی کے نشان کے طور پر ایک دوسرے کو سجے ہوئے انڈے، پھول، رنگین لالٹین، کیک اور چاکلیٹ تحفے میں دیتے ہیں۔ ہندوستان کی بہت سی ریاستیں گڈ فرائیڈے مناتی ہیں جو ایسٹر سے پہلے گزٹڈ چھٹی کے طور پر ہوتی ہے۔ اس طرح، طویل ویک اینڈ کو ایک موقع کے طور پر لیتے ہوئے، لوگ عام طور پر اپنے پیاروں کے ساتھ چھٹیوں پر جاتے ہیں اور اپنے لیے کچھ ناقابل فراموش یادیں بناتے ہیں۔ہندوستان میں ایسٹر کا تہوار گوا، ممبئی اور کوچی جیسی جگہوں پر بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ، ان تمام ہندوستانی سفری مقامات میں، آپ کو کافی تعداد میں عیسائی آبادی مل جائے گی۔

گوا نے ہماری لیڈی آف دی امیکولیٹ کنسیپشن چرچ میں ایسٹر کی شاندار تقریب کا مشاہدہ کیا۔ ایسٹر کی تقریبات ممبئی-ممبئی میں بڑے اجتماعات ہوتے ہیں جہاں لوگ خداوند یسوع کو اپنی دعائیں دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ مشہور کیفے اور ریستوراں کا دورہ بھی کرتے ہیں تاکہ کھانا پکانے کی لذتیں دیکھیں جو یہ تہوار اپنے ساتھ لاتا ہے۔  . میں ایسٹر کی تقریبات کوچی-کوچی میں، عقیدت مند اپنے دلوں میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ ایسٹر مناتے ہیں۔ یہاں بھی، مقامی گرجا گھروں میں اجتماعی دعائیہ اجتماعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ کچھ مشہور مقامی گرجا گھر جیسے ملایتور چرچ اور سینٹ الفونسا چرچ ایسٹر سنڈے کے خصوصی کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ، مسیحی عقیدت مندوں کو موم بتیاں تھامے اور بھگوان یسوع کے اعزاز میں بھجن گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے مسیحی بھی صبح کے وقت قبرستان جا کر موم بتیاں جلاتے ہیں اور اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ 

شب ضربت حضرت امام علی علیہ السلام

 

حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود خنجر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، علی ؓبن ابی طالب زخمی ہوئے، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت علی 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ 

مولا علی علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں نماز فجر کے لئے تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں سورہا تھا اُلٹا لیٹا ہوا نیچے تلوار کو چھپائے تلوار بھی زہر میں بُجھی ہوئی۔۔مولا علی علیہ السلام نے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔ملعون اُٹھا مولا علی علیہ السلام نے آخری سجدہ ادا کیا یکایک ابنِ ملجم آگے بڑھا ایسا وار کیا سرِ مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔ 

اصحاب حضرت علی کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا بیٹیاں تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔۔ادھر ابنِ ملجم کو گرفتار کر کے لایا گیا،علی السلام کا ظرف دیکھیں حضرت علی علیہ السلام کااپنے بیٹوں سے فرمایا۔۔ بیٹا قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا سزا کے طور پر جتنا اس نے مجھے دیا۔۔  

مولا علی علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں نماز فجر کے لئے تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں سورہا تھا اُلٹا لیٹا ہوا نیچے تلوار کو چھپائے تلوار بھی زہر میں بُجھی ہوئی۔۔مولا علی علیہ السلام نے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔ملعون اُٹھا مولا علی علیہ السلام نے آخری سجدہ ادا کیا یکایک ابنِ ملجم آگے بڑھا ایسا وار کیا سرِ مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علی کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا بیٹیاں تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔۔ادھر ابنِ ملجم کو گرفتار کر کے لایا گیا،علی السلام کا ظرف دیکھیں حضرت علی علیہ السلام کااپنے بیٹوں سے فرمایا۔۔ بیٹا قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا سزا کے طور پر جتنا اس نے مجھے دیا۔۔ اللہ اکبر یہ انصاف تھا ہمارےمولا     کا۔تین دن اس زخم کی شدت میں تڑپتے رہے 

کا حسبِ نسب:آپ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔آپ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ 

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے اور یہ رات نہایت عجیب اور آنحضرت کے حالات غیر عادی تھے اور ان کی بیٹی ایسے حالت کا مشاھدہ کرنے سے نہایت حیران اور پریشان تھی ۔ روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ 

حضرت علی علیہ السلام سن40 ھ ق کو مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ۔

    عبدالرحمن بن ملجم مرادی کوفہ آیا اور بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔وہ شبیب بن بجرہ اشجعی ، جو کہ اسکے ہم فکروں میں سے تھااور دونوں کو " قطاب بنت علقمہ" نے اکسایا اور للچایاتھا اور اس طرح انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں کمین میں بیٹھ کر امیرالمومنین علی علیہ السلام کے آنے کاانتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف قطام نے " وردان بن مجالد" نامی شخص کے ساتھ اسکے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کۓ تھے ۔اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی علیہ السلام کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،اس نے امام علی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھاتا رہا ۔ 

بہر حال نماز صبح کیلۓ آنحضرت کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔جب آنحضرت محراب میں داخل ہوے اور نماز شروع کی ، پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے  تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ دیا :" للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک " ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک شگاف ہوا ۔حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑپڑے اور کچھ حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگۓ ۔ 

حضرت علی علیہ السلام کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو بخدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیاتھا ۔حضرت علی علیہ السلام چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لۓ اپنے فرزند امام حسن مجتبی علیہ السلام  سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔ 

روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی علیہ السلام پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکراۓ آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹائيں چھا گئ ، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرئيل امین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا: تهدمت و الله اركان الله الهدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء خدا کی قسم ھدایت کے رکن کو توڑا گیا علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، اسے شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔  

اس طرح بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے ، الھی پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر  گئے-شب ضربت حضرت سیدنا مولا امام علی علیہ السلام تبرکات مقدسات خون مقدس سے تر داڑھی مبارک کا بال شریف 1400 سو سال گذرنے کے باوجود بھی یہ خون مقدس خشک نہیں ہوا اور یہی گواہی دے رہا ہے۔

فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ "رب کعبہ کی قسم میں علی علیہ السلام کامیاب ہوگیا ‘‘ابن ملجم لعین پلید نے سر اقدس پر وار کیا اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی داڑھی شریف خون مقدس سے رنگ ہوگئ یہ وہی موئے مبارک بال شریف ہے جو خون مقدس سے تر ہے ۔


اتوار، 9 اپریل، 2023

انڈس ہسپتال کورنگی کراچی

 

 

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب ہم اپنے ارد گرد کی کہانیاں پڑھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں جیسے یہ کہانی حقیقت سے ماورا ہے -لیکن جب کہانی کی سچّائ سامنے  تی ہے تب یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ تو ہم ایک سو فیصدی سچی کہانی ہی پڑھ رہے ہیں -آج آ پ ایک ایسی ہی سچّی کہانی پڑھئے گا-یعنی انڈس سپتال کراچی -کیوں اور کیسے قائم ہوا ؟کس نے اس عظیم کام کا بیڑہ اٹھا یا۔ پاکستانی قوم کے ایک باپ  کے خلوص کی لازوال کہانی

1981میں عبدالباری کا داخلہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوگیا. یہ صرف ہونہار ہی نہیں تھے بلکہ اللہ تعالی نے ان کے سینے میں جو دل دیا تھا اس کی نرمی بھی اللّہ کم ہی لوگوں کو نصیب کرتا ہے۔یہ 1986 تک ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم رہے لیکن ان پانچ سالوں میں انہوں نے خدمت کے بے شمار کارنامے انجام دیے۔1987میں سولجر بازار میں دھماکا ہوا تو عبدالباری اپنے چند دوستوں کے ساتھ لاشوں کے درمیان میں سے زخمیوں کو نکال کر لائے لیکن سول اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ اپنے بستروں کی کمی کی شکایت کر رہا تھا۔ اس کے بعد عبدالباری نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گھر گھر اور در در جا کر بھیک مانگی اسکول کے بچوں کو گلک دیئے۔

 32 لاکھ 74 ہزار پانچ سو روپے کی خطیر رقم جمع ہوگئی اور اس طرح سول اسپتال کے بہترین ایمرجنسی وارڈ کا افتتا ح ہوگیا۔انہوں نے دوران طالب علمی اپنے دوستوں کی مدد سے پیشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد بھی رکھی جو اپنے پیسے جمع کرکے اندرون سندھ اور کراچی کے مختلف علاقوں سے آئے مفلوک الحال اور مفلس لوگوں کے علاج معالجہ کا بندوبست کیا کرتے تھے۔اسی دوران ان کو یہ احساس بھی ہوا کہ بلڈ ڈونیشن کا واحد ذریعہ چرسی، ہیرونچی اور موالی ہیں اور ایک دن وہ بھی پیسوں کی کمی کی شکایت پر ہڑتال پر چلے گئے اور ہسپتال میں موجود مریض بے یارومددگار، بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے پڑے تھے۔ تب عبد الباری نے پہلے بلڈ بینک کا بھی آغاز کردیا۔

اس وقت عبدالباری نے اپنے مزید تین دوستوں کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ “ایک دن آئے گا جب اسی شہر میں ایک ایسا اسپتال بنائیں گے جہاں سب کا علاج بالکل مفت ہوگا”۔ عبدالباری نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کراچی سے کیا اور ساری زندگی کراچی میں ہی گزار دی لیکن باقی تینوں دوست مزید تعلیم کے لئے دنیا کے مختلف ممالک روانہ ہوگئے۔17 سال بعد 2004 میں باقی تینوں دوست واپس کراچی آئے عبدالباری سے ملاقات کی اور زمانہ طالب علمی کا عہد یاد دلایا اور اس طرح دونوں ٹانگوں سے معذور باپ کی تہجد میں مانگی گئی دعا کہ “یا اللہ! میرے بیٹے عبدالباری کو خدمت خلق کے لیے قبول کرلے” رنگ لے آئی.

2004 میں کورنگی کریک میں بیس ایکڑ کی جگہ پر پاکستان کے “بلکل مفت” ہسپتال کی تعمیر شروع ہوگئی۔ بالآخر 2007 جولائی میں “انڈس ہسپتال” کا آغاز ہوگیا۔ہسپتال میں ڈیڑھ سو لوگوں کے ایڈمٹ ہونے کا انتظام تھا، ہسپتال کا بجٹ شروع میں 8کروڑ روپے تھا۔ تعمیر کے وقت اور افتتاح کے بعد بھی لوگ عبدالباری کو کہتے یہ ہسپتال نہیں چل سکے گا کچھ ہی عرصے بعد تم فیس رکھنے پر مجبور ہو جاؤ گےلیکن اللہ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والوں اور دیوانہ وار اپنے مشن سے محبت کرنے والوں کی ڈکشنری میں “ناممکن” کا لفظ نہیں ہوتا ہے۔150 بستروں کا اسپتال پہلے 300 کا ہوا، اس سال یہ اسپتال 1,000 بیڈز تک کردیا جائے گا اور 2024 تک 18 سو لوگوں کے لئے اس ہسپتال میں علاج کا بلکل مفت انتظام ہوگا۔یہ پاکستان کا نہ صرف بہترین سہولیات سے آراستہ اسپتال ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس پورے ہسپتال میں کوئی کیش کاونٹر موجود نہیں ہے،

 یہ پیپر لیس بھی ہے مریض سے لے کر ڈاکٹر تک کسی کو پرچی کی ضرورت نہیں پڑتی آپ کا پیشنٹ نمبر ہر جگہ آن لائن اسکرینز پر آپ کی رپورٹ اور کارکردگی دکھا دیتا ہے۔پچھلے گیارہ سالوں میں کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں گیا امیر و غریب سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں “پہلے آئیے اور پہلے پائیے” کی بنیاد پر علاج ہوتا ہے، دماغ کے علاوہ انسانی جسم کے تمام ہی اعضاء کا ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے۔ہسپتال کا بجٹ 15 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اس خطیر رقم کا 92 فیصد پاکستان سے اور اسکا بھی 50 فیصد سے زیادہ کراچی پورا کرتا ہے، 70 فیصد لوگ اپنے نام کی جگہ “عبداللہ” بتا کر کروڑوں کی رقم جمع کرواتے ہیں اور جنت میں اپنے لیے پلاٹ پر پلاٹ بک کرواتے ہیں۔

ڈاکٹرعبد الباری کے پاس بھی ہر ڈاکٹر کی طرح دو آپشنز موجود تھے یہ 1987 میں ہاؤس جاب کرنے کے بعد امریکہ یا یورپ چلے جاتے ایک عیاش زندگی گزارتے روز صبح اےسی والے کمرے میں چائے کا “سپ” لیتے ہوئے اور رات کو کسی ریسٹورنٹ یا بوفے کی ٹیبل پر پاکستان، پاکستانی قوم اور یہاں کے حالات پر تبرا بھیجتے رہتے اور ایک “معزز شہری” بن کر دنیا سے رخصت ہو جاتے، دوسرا آپشن وہ تھا جو انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا.

اس دنیا میں سب سے آسان گیم “بلیم گیم” ہے۔آپ کو ہمیشہ دو قسم کے لوگ ملیں گے۔ ایک وہ جو ہمیشہ مسائل کا ہی رونا روتے ہیں ان کو ہر جگہ صرف مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں وہ اس مکھی کی طرح ہوتے ہیں جو 86 آنکھیں رکھنے کے باوجود بھی بیٹھتی صرف گندگی پر ہی ہے, اور دوسری قسم ڈاکٹر عبدالباری جیسے لوگوں کی ہوتی ہے ان کی زبان پر کبھی شکوہ اور شکایت نہیں ہوتی ان کی نظر موجود وسائل اور اللہ کی ذات پر ہوتی ہے اور کائنات کا اصول یہ ہے کہ آپ ان دونوں میں سے جس چیز کو جتنا بولیں گے اور جتنا سوچیں گے وہی آپ کے ساتھ ہونے لگے گا۔مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر عبدالباری کے اسکول اور کالج میں کیا گریڈز تھے مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھنے میں کیسے تھے لیکن ایک بات میں جانتا ہوں کہ وہ اسکول سے لے کر قبر تک اسکالرشپس لینے والوں سے بہت آگے ہیں.۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی طرح خدمت خلق کے لئے کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر