پیر، 10 اپریل، 2023

شب ضربت حضرت امام علی علیہ السلام

 

حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود خنجر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، علی ؓبن ابی طالب زخمی ہوئے، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت علی 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ 

مولا علی علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں نماز فجر کے لئے تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں سورہا تھا اُلٹا لیٹا ہوا نیچے تلوار کو چھپائے تلوار بھی زہر میں بُجھی ہوئی۔۔مولا علی علیہ السلام نے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔ملعون اُٹھا مولا علی علیہ السلام نے آخری سجدہ ادا کیا یکایک ابنِ ملجم آگے بڑھا ایسا وار کیا سرِ مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔ 

اصحاب حضرت علی کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا بیٹیاں تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔۔ادھر ابنِ ملجم کو گرفتار کر کے لایا گیا،علی السلام کا ظرف دیکھیں حضرت علی علیہ السلام کااپنے بیٹوں سے فرمایا۔۔ بیٹا قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا سزا کے طور پر جتنا اس نے مجھے دیا۔۔  

مولا علی علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں نماز فجر کے لئے تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں سورہا تھا اُلٹا لیٹا ہوا نیچے تلوار کو چھپائے تلوار بھی زہر میں بُجھی ہوئی۔۔مولا علی علیہ السلام نے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔ملعون اُٹھا مولا علی علیہ السلام نے آخری سجدہ ادا کیا یکایک ابنِ ملجم آگے بڑھا ایسا وار کیا سرِ مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علی کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا بیٹیاں تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔۔ادھر ابنِ ملجم کو گرفتار کر کے لایا گیا،علی السلام کا ظرف دیکھیں حضرت علی علیہ السلام کااپنے بیٹوں سے فرمایا۔۔ بیٹا قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا سزا کے طور پر جتنا اس نے مجھے دیا۔۔ اللہ اکبر یہ انصاف تھا ہمارےمولا     کا۔تین دن اس زخم کی شدت میں تڑپتے رہے 

کا حسبِ نسب:آپ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔آپ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ 

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے اور یہ رات نہایت عجیب اور آنحضرت کے حالات غیر عادی تھے اور ان کی بیٹی ایسے حالت کا مشاھدہ کرنے سے نہایت حیران اور پریشان تھی ۔ روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ 

حضرت علی علیہ السلام سن40 ھ ق کو مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ۔

    عبدالرحمن بن ملجم مرادی کوفہ آیا اور بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔وہ شبیب بن بجرہ اشجعی ، جو کہ اسکے ہم فکروں میں سے تھااور دونوں کو " قطاب بنت علقمہ" نے اکسایا اور للچایاتھا اور اس طرح انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں کمین میں بیٹھ کر امیرالمومنین علی علیہ السلام کے آنے کاانتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف قطام نے " وردان بن مجالد" نامی شخص کے ساتھ اسکے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کۓ تھے ۔اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی علیہ السلام کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،اس نے امام علی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھاتا رہا ۔ 

بہر حال نماز صبح کیلۓ آنحضرت کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔جب آنحضرت محراب میں داخل ہوے اور نماز شروع کی ، پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے  تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ دیا :" للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک " ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک شگاف ہوا ۔حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑپڑے اور کچھ حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگۓ ۔ 

حضرت علی علیہ السلام کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو بخدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیاتھا ۔حضرت علی علیہ السلام چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لۓ اپنے فرزند امام حسن مجتبی علیہ السلام  سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔ 

روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی علیہ السلام پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکراۓ آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹائيں چھا گئ ، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرئيل امین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا: تهدمت و الله اركان الله الهدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء خدا کی قسم ھدایت کے رکن کو توڑا گیا علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، اسے شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔  

اس طرح بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے ، الھی پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر  گئے-شب ضربت حضرت سیدنا مولا امام علی علیہ السلام تبرکات مقدسات خون مقدس سے تر داڑھی مبارک کا بال شریف 1400 سو سال گذرنے کے باوجود بھی یہ خون مقدس خشک نہیں ہوا اور یہی گواہی دے رہا ہے۔

فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ "رب کعبہ کی قسم میں علی علیہ السلام کامیاب ہوگیا ‘‘ابن ملجم لعین پلید نے سر اقدس پر وار کیا اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی داڑھی شریف خون مقدس سے رنگ ہوگئ یہ وہی موئے مبارک بال شریف ہے جو خون مقدس سے تر ہے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر