امام علی علیہ السلام نے اس خط کو
مالک اشتر کیلئے اس وقت تحریر فرمایا جب آپ نے اسے مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا
تھا اسلئے اس کے اکثر مضامین حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کا عام مسلمان اور غیر
مسلمان شہریوں کے ساتھ برتاؤ اور ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے حکمرانوں کے وظائف
کی بیان میں ہے۔ اس حوالے سے امام علی علیہ السلام کی جانب سے مالک اشتر کو مصر کے
گورنر کے عنوان سے کرنے والے بعض سفارشات درج ذیل ہیں:
واصل جہنم کیا۔
اے مالک، آپ کو معلوم ہو جائے کہ میں
آپ کو ایک ایسے علاقہ کا گورنر بنا کر بھیج رہا ہوں جس نے ماضی میں منصفانہ
اور جسے بہت شفاف حکمرانی کا تجربہ کیا
ہے۔ یاد رکھو لوگ تمھارے اعمال کا کھوج
لگانے والی نظر سے جائزہ لیں گے، جیسا کہ تم اپنے سے پہلے لوگوں کے اعمال کا جائزہ
لیا کرتے تھے، اور تمھارے بارے میں اسی طرح بات کرتے تھے جیسے تم ان کے بارے میں
کہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام صرف اچھے کام کرنے والوں کو اچھا سمجھے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو آپ کے اعمال کا ثبوت پیش
کرتے ہیں۔ اس لیے سب سے امیر خزانہ جس کی تم خواہش کر سکتے ہو وہ نیکیوں کا خزانہ
ہو گا۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں اور اپنے آپ کو ان چیزوں سے ضرور روک کر
رکھنا جن سے آپ کو خداوند تبارک تعالی نے
منع فرمایا ہے، کیونکہ صرف اس طرح کی پرہیزگاری
ہی تم کو اللہ کی بارگا ہ اور بندوں میں مقرب بنا سکتی ہے
اپنے دل میں اپنے لوگوں کے لیے محبت
کا جذبہ بیدار رکھنا اور اسے ان کے لیے مہربانی اور برکت کا ذریعہ بنانا۔ ان کے
ساتھ وحشیا نہ سلوک نہ کرنا اور جو اپنے لئے مناسب سمجھو وہی ان کے لئے بھی مناسب
جانو۔ یاد رہے کہ ریاست کے شہری دو قسموں کے ہوتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کے دین میں
بھائی ہیں یا آپ کے بھائی ہیں۔ وہ کمزوریوں کے تابع ہیں اور غلطیوں کے ارتکاب کے
ذمہ دار ہیں۔کچھ لوگ واقعی غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ان کو معاف کرو جیسا کہ تم چاہتے
ہو کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ یاد رکھو کہ تم اُن پر حاکم ہوجیسا کہ میں تم پر رکھا گیا
ہوں۔ اور پھر اس کے اوپر بھی خدا ہے جس نے تمہیں گورنر کا عہدہ دیا ہے تاکہ تم
اپنے ماتحتوں کی دیکھ بھال کرو اور ان کے لیے کافی ہو۔ اور آپ ان کے لیے کیا کرتے
ہیں اس سے آپ کا فیصلہ کیا جائے گا۔اپنے آپ کو خدا کے خلاف مت کرو، کیونکہ نہ تو
تم میں طاقت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے خلاف اپنے آپ کو ڈھال سکے، اور نہ ہی تم
اپنے آپ کو اس کی رحمت اور بخشش کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہو۔ معافی کے کسی عمل
پر نادم نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایسی سزا پر خوش ہوں جس سے آپ کسی کو مل سکیں۔ اور دیکھو
اپنے مزاج کو معتدل رکھنا نا کہ مشتعل کیونکہ اس سے کوئی بھلائی نہیں نکلے گی۔
یہ مت کہو: "میں تمہارا حاکم اور
آمر ہوں، اور اس لیے تمہیں میرے حکم کے آگے جھکنا چاہیے"، کیونکہ اس سے آپ کا
دل خراب ہو جائے گا، دین پر آپ کا ایمان کمزور ہو گا اور ریاست میں فساد پیدا ہو
گا۔ اگر آپ طاقت سے خوش ہوں تو کبھی اپنے ذہن میں غرور اور تکبر کی معمولی سی
علامتیں بھی محسوس کریں، پھر کائنات کی حکمرانی الٰہی کی قدرت اور عظمت کو دیکھیں
جس پر آپ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں۔
یہ آپ کی ذہانت میں توازن کا احساس
بحال کرے گا اور آپ کو سکون اور ملنساری کا احساس دے گا۔خبردار! کبھی بھی اپنے آپ
کو خدا کی عظمت اور عظمت کے خلاف مت ڈالو اور اس کی قادر مطلق کی نقل نہ کرو۔ کیونکہ
خدا نے خدا کے ہر باغی اور انسان کے ہر ظالم کو پست کر دیا ہے۔اپنے ذہن کو اپنے
عمل سے حقوق العباد اور حقوق العباد کااحترام کریں اور اسی طرح اپنے ساتھیوں اور
رشتہ داروں کو بھی اسی طرح کرنے پر آمادہ کریں۔ کیونکہ، ورنہ، آپ اپنے آپ پر ظلم
اور انسانیت کے ساتھ ناانصافی کر ہوں گے۔
اس طرح انسان اور خدا دونوں تمہارے دشمنوں کی طرف رجوع کریں گے۔ اپنے آپ کو خدا کا
دشمن بنانے والے کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ اسے خدا کے ساتھ جنگ میں اس وقت تک
سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ پشیمانی محسوس نہ کرے اور معافی طلب کرے۔ کوئی بھی چیز
انسان کو الہٰی نعمتوں سے محروم نہیں کرتی اور نہ ہی ظلم سے زیادہ آسانی سے اس پر
غضب الٰہی کو بھڑکاتی ہے۔ تو یہ ہے کہ خدا مظلوم کی آواز سنتا ہے اور ظالم کو راہ
راست پر لاتا ہے۔
راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا
۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے- کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف
کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی
منزل سے قریب کر دیتی ہے
ناحق خون ریزی سے پرہیز کرنا ۔وجہ کے
بغیر تلوار نیام سے ہر گز نہیں نکالنادیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے
رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے
اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں
ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو
بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو
مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے
والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان
بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے،
کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔
اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو
جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی
گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں
اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں
کوتاہی نہ کرنا ۔گھمنڈ اور خود پسندی سے پرہیز کرو-دیکھو!
خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور
نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے
ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں
کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرنا عام لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو
نہیں کرنا-لوگوں پر حسن ظن
رکھنا۔شہروں کی آباد کاری کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا۔
معاشرے کی طبقہبندی اور یہ کہ ہر
طبقے کے مخصوص حقوق۔ قاضی کے اوصاف۔ حکومتی
مسئولین کے اوصاف۔ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادی ،کی بہبود پر توجہ دینا۔ شرائط کاتبین۔ صنعتگروں کے ساتھ اچھا
برتاؤ۔ معاشرے کے نچلے
طبقے کی خاص نگرانی۔
نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان
نماز گزار کی رعایت کرنا۔بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا۔
لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنا۔ دشمن کے ساتھ صلح (اگر دشمن کی طرف سے صلح
کی درخواست اور خدا کی رضایت بھی اسی میں ہو تو)
عہد و پیمان کو پورا کرنا اور اس پر یمن سے کوفہ تک کی زندگییمالک اشتر کی تاریخ
ولادت کے بارے میں کوئی معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن اس بات میں شک نہیں کہ
آپ یمن میں پلے بڑے تھے اور سنہ 11 یا 12 ہجری قمری کو وہاں سے ہجرت کی۔آپ نے
زمانہ جاہلیت کو بھی دیکھااور اپنی قوم کے سرکردہ فرد تھے ۔یمن سے آنے کے بعد کوفہ
میں مقیم ہوئے اور ان کے بعد کوفہ میں ان کی نسل باقی رہی ہے۔ جنگ یرموک میں شرکت
کی اور اسی جنگ میں ان کی ایک آنکھ پر تیر لگا اور آپ آیک آنکھ سے محروم ہو گئے۔
جنگ یرموک میں آپ نے دشمن کے 13 افراد کو واصل جہنم کیا۔
تحریر کنندہ
امام علی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں