کراچی کی تعمیر میں پارسی کمیونٹی کا بہترین کردار.پہلے پہل کراچی کی بندرگاہ پر جن ہندو سیٹھوں کی مہا تجارت کا نام ہے وہ سیٹھ بھوجو مل اوران کے بیٹے کانام ہے پھر پارسی لوگوں نے ایران سے ہجرت شروع کی اور وہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں پھیل گئے ان میں کراچی جیسا مالامال بندرگاہ والا شہر بھی شامل ہو گیا -گو کہ پرانا کراچی آج کے جدید کراچی جیسا تو نہیں تھا لیکن تجارت کے معاملہ میں یہ شہر پوری دنیا کی بحری تجارت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا تھا چنانچہ پارسی برادری نے بھی اس شہر میں قدم جمائے اور اپنی دولتمندی سے اس شہر کو بے مثال بنا کر آنے والے مستقبل کے سپرد کر گئے
کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے اب یہ احساس ہوتا ہے کہ شہر کا نقشہ
پوری طرح سے تبدیل ہو چکا ہے۔ پرانے طرز کے مکانات کی جگہ اب بلند و بالا عمارتوں
نے لے لی ہے اور یہ حال صرف سڑکوں تک محدود نہیں بلکہ اب گلی محلوں کے اطراف میں
بھی اس کے اثرات خاصے واضح ہیں۔وہیں اس شہر میں پارسی کالونی کا علاقہ بھی ہے جہاں
پرانے طرز کے گھر اب بھی موجود ہیں، جو پرانے سادہ وقتوں کی یاد تو تازہ کرتے ہی ہیں
لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گھر اب خالی کیوں
ہیں؟ ان میں رہنے والے لوگ اب کہاں ہیں؟ اور کیا کچھ عرصے میں یہ گھر بھی کسی بلند
عمارت میں تبدیل ہو جائیں گے؟ان گلیوں میں پھیلی خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ اب یہاں
کوئی نہیں رہتا ہے
پارسی کالونی ایم اے جناح روڈ اور
گارڈن کے بیچ میں دوگلیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ یہاں تعمیر کردہ مکان اُس زمانے کے ہیں
جب ایک ہی محلے میں رہنے والے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ مگر ان گلیوں میں پھیلی
خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ اور جو گھرانے یہاں رہتے بھی
ہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ایم اے جناح روڈ پر ہونے والے شور شرابے اور
مذہبی ریلیوں کا بظاہر اس علاقے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اِدھر
رہنے والوں نے ماضی میں کئی بار اپنے تحفظ کے لیے پولیس اور رینجرز کی خدمات حاصل
کی ہیں، تاکہ ادھر کوئی توڑ پھوڑ نہ کر سکے۔
مگر شاید توڑ پھوڑ سے زیادہ اب اس
کالونی کی گمنامی اور گرائے جانے کا ڈر زیادہ ہے۔ اگر اس کالونی کے ارد گرد دیکھیں
تو اس کے آس پاس بلند عمارتوں کا جُھرمٹ ہے جو آہستہ آہستہ تنگ ہوتا ہوا ان گلیوں
کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔سنہ 1881 کی مردم شماری کے دوران کراچی میں پارسی کمیونٹی
کی کُل آبادی فقط 937 افراد پر مشتمل تھی-پارسی
کالونی کا پورا نام 'سُہراب کیٹرک پارسی کالونی' ہے جس کی بنیاد 21 مارچ 1923 میں
جمشیدی نوروز کے دن اس وقت کے سندھ کے کمشنر جے ایل ریو نے رکھی تھی۔ اس جگہ پر
مجموعی طور پر 58 پلاٹ ایک ہزار گز پر تعمیر کرائے گئے تھے۔اگر اس علاقے کی تاریخ
کو دیکھا جائے تو سنہ 1854 میں کراچی کی بندرگاہ بننے کے بعد یہاں پر پارسی اُمرا
آباد ہونے لگے جنھوں نے میری ٹائم، سینیما اور بینکوں میں سرمایہ لگایا اور اس وقت
کی برطانوی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے کراچی آنے اور اسے
گھر بنانے کی تاریخ اٹھارویں صدی ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔مصنف الیگزینڈر بیلی اپنی
کتاب ’کراچی، پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر‘ (کراچی ماضی، حال اور مستقبل) میں لکھتے ہیں
کہ سنہ 1881 کی مردم شماری کے دوران کراچی میں پارسی کمیونٹی کی کُل آبادی فقط 937
افراد پر مشتمل تھی۔لیکن پارسیوں کی آبادی شروع سے اُتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔
بلڈروں اور قبضہ گروہوں سے بچانے کے لیے
اس کالونی کو سندھ کلچرل ہیریٹج پریزرویشن ایکٹ 1994 کے تحت سنہ 2000 کی دہائی میں
ایسی جگہوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا جن کوگرایا نہیں جا سکتا-جہاں 1950 اور 1960 کی دہائی میں یہ تعداد
پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی وہیں اس تعداد میں 1980 کے بعد ایک بار پھر گراؤٹ دیکھنے
میں آئی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں بسنے والے بہت سے پارسی خاندان پاکستان سے بیرونِ
ملک نقل مکانی کر گئے۔
پارسی برادری کی ویب سائیٹ ’کراچی زرتشتی بنُو منڈل‘ کے مطابق اپریل 1995 میں ہونے والی زرتشتی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 2831 پارسی آباد تھے اور گذشتہ دس برسوں میں مزید پارسی خاندان یہاں سے بیرونِ ملک جا چکے ہیں جس کے بعد یہ تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔اگر پرانے کراچی کی بات کریں تو اس وقت زیادہ تر کالونی یا پاڑے (جیسے کہ ہندو یا کرسچن پاڑے) برادری کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے بنائے جاتے تھے۔ اسی طرح پارسی کالونی کے نزدیک پارسی برادری کا فائر ٹیمپل (عبادت گاہ)، سکول، اور کام کی جگہیں موجود تھیں اسی لیے یہ جگہ یہاں رہنے والوں کے لیے اچھی تھی۔
کراچی میں قیام پاکستان سے پہلے
مسلمانوں، ہندوؤں ،عیسائیوں ، یہودیوں ، جین ، سکھ اورپارسی آباد تھے لیکن قیام
پاکستان کے بعد ہجرت کے سفر میں پہلے پہل ہندوآبادی کراچی سے نکلی پھر دیگر اقلیتوں
نے بھی دوسرے ممالک کا رخ کیا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے شہر میں اقلیتیں
بستی ہیں ۔ان کو اکثر عدم تحفظ اور وسائل کی کمی کا بھی سامنارہتا ہے ۔لیکن پارسی
کمیونٹی کو کبھی نامناسب حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔دنیا کے قد یم ترین مذاہب میں
سے ایک پارسی مذہب کے پیرو کار کم و بیش ہزارسال پہلے ایران سے نکل کر سندھ ، ممبئی
اور مہاراشٹر منتقل ہوئے ۔
یہ اس کمیونٹی کی خوبی رہی ہے کہ جہاں
بسے وہاں اپنی سماجی خدمات کے ذریعے انمٹ نقوش چھوڑدیئے، چاہے وہ ممبئی ہویا کراچی،
معمار کراچی کہلائی جانے والی پارسی کمیونٹی نے اپنی جائے پیدائش کا حق اس خوبصورتی
سے ادا کیا کہ آج بھی اہل کراچی ان کے قائم کئے گئے سماجی خدمت کے اداروں سے فیض
پا رہے ہیں ۔شہر کراچی کو بہترین ٹائون پلاننگ دی ۔ پرانے کراچی نکل جائیں، صدرسے
لے کر کلفٹن تک ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی حسین تعمیری شاہکار آپ کے قدم روکے گا۔
چاہے وہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ ہو یا کائوس جی بلڈنگ ۔کاوس جی کے والد ، رستم فقیرجی
کائوس جی کی بنائی ہوئی یہ بلڈنگ کراچی کی قدیم ترین عمارت کہلاتی ہے۔ پاکستان کی
سب سے پرانی شپنگ کمپنی کا اعزاز بھی کاوس جی گروپ کو حاصل ہے۔اور خود اردشیر
کائوس جی نے اپنے قلم کے ذریعے کراچی کے بیٹے ہونے کا حق جس خوبی سے نبھایا وہ کسی
سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ہوٹل انڈسٹری کی بات کریں تو قد آور
شخصیت بہرام ڈی آواری کے دم قدم سے ہی کراچی کے بڑے ہوٹلز چل رہے ہیں، جیسے بیج
لگژری ، پی سی اور آواری ہوٹل ۔ آج بھی عام آدمی ایک صدی قبل قائم کئے گئے بہرام
باغ یا جہانگیر پارک میں بیٹھ کر سکون پاتا ہے۔
اس کمیونٹی کی تعلیمی خدمات کوئی ایک
ہوں تو گنوائیں بھی۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ، بی وی ایس میں ہو تو
بیٹی ماما پارسی سے لے نکل کر ڈاو یونی ورسٹی یا این ای ڈی یونی ورسٹی پہنچے ۔صحت
مند کراچی کی فکر میں اس کمیونٹی کے کارناموں کی شروعات یقینا لیڈی ڈیفرن اورپارسی
ہسپتال کے ساتھ جمشید نسروان جی ڈسپنسری اورگل بائی میٹرنٹی ہوم سے ہوئیں۔حالیہ
دہائیوں میں کمیونٹی کے فلاحی کاموں کا یہ سلسلہ سست ضرور ہوا ہے لیکن آج بھی SIUT ہو یا انکل سریا ہسپتال ، عام آدمی ان ہسپتالوں سے صحت کی سہولیات
حاصل کر رہا ہے ۔پارسی لوگوں کا طرز زندگی سادگی بھرا ،گجراتی اندازہے۔بہت کھلے
ذہن کے ماڈرن ،تعلیم یافتہ مگر کچھ چھپے چھپے سے انداز رکھتے ہیں ۔اپنی کمیونٹی کے
ساتھ اپنی ہی کالونیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے پارسی کالونی ، صدر ،گارڈن
اور پاکستان چوک ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب ماضی کے حصے ہیں۔ آج پاکستانی پارسی کمیونٹی
کہاں ہے ، کیا سوچتی ہے؟ اور کیوں پاکستان میں ان کی آبادی میں مسلسل کمی آرہی ہے؟
اعداد و شمار کے مطابق پہلے پہل ان کی تعداد دس ہزار سے پانچ ہزار تک کم ہوئی اور
اب یہ تعداد ایک ہزار سے بھی گھٹ چکی ہے-
لیکن اچھی بات یہ کہ 2014ء میں نادرا
کے اعداد و شمار کے مطابق4020 پاکستانیوں کا مذہب پارسی یا زورونسٹیرین ہے۔پارسی
کمیونٹی کی سب سے بڑی آباد ی بھارت میںرہتی ہے اور اس کے بعد ایران کا نمبرآتا ہے
۔ نقل مکانی کا یہ رجحان بھارت اور ایران میں بھی ہے ۔ یعنی بہتر روزگار اور روشن
مسقبل کی تلاش میں ان ممالک سے بھی پارسی افراد مغرب کا رخ کر رہے ہیں۔ خودبھارت میں
اس کمیونٹی کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 21 فیصد تک جا پہنچی ہے۔عام خیال ہے کہ پوری
دنیا میں ہی پارسی کیمونٹی کی آباد ی میںکمی آئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ خاص
کر یہ دنیا کے ان چند مذاہب میں سے ایک ہے ،جس کو اختیار نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف
پارسی والدین سے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ پھر دوسری اہم بات کہ پارسی مذہب میں غیر پارسیوں
سے شادی کی اجازت نہیں۔پھر اعلیٰ تعلیمی پس منظر کے ساتھ بہتر روزگار بھی دیر سے
شادی کی وجہ بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمیونٹی کی شرح پیدائش میں بھی واضح کمی
آئی ہے ۔ اور اب پارسی یا زورویسٹرین مذہب دنیا کے ان چند قدئم مذاہب میں شامل ہے،
جن کی آبادی میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔زورویسٹیرین نارتھ امریکن ایسوسی ایشن کے
جائزے کے مطابق 2020 میں اس کمیونٹی کی تعداد گھٹ کر ایک لاکھ 23ہزار سے 90ہزار کے
درمیان رہ جائیگی۔اکیانوے سالہ مسڑپرویز اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہماری آبادی میں
کمی ضرور آئی ہے ۔پہلے غیر پارسی سے شادی کرنے والے کو کمیونٹی کا حصہ نہیں سمجھا
جاتا تھا۔ لیکن اب کہیںکہیں یہ تبدیلی آئی ہے کہ غیر برادری میں شادی کرنے والے
مردوں کو کیمونٹی کا حصہ تسلیم کر لیتے ہیں لیکن بیٹی کوابھی بھی یہ حق نہیں دیا
جاتا۔تیری میری جوڑی کے پپا " اور معروف اداکار" ادئیر واڈیا" کا
بھی یہ ہی کہنا ہے کہ سب مانتے ہیں کہ پارسی کمیونٹی کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،
کاروباری ، مہذب ،امن پسند اور اپنی ہی کمیونٹی میں رہنے والے ہیں۔
ادئیر واڈیا مزید بتاتے ہیں کہ
"پارسی کمیونٹی کراچی کا مثبت چہرہ ہے ۔ ہم یہاں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ بہت
سوں سے بڑھ کر"
کراچی والے" لگتے ہیں۔اٹھاسی سالہ کیٹی آنٹی کا خاندان بھی قیام پاکستان سے
پہلے ہی بھارتی شہر جودھ پور سے کراچی منتقل ہو گیا تھا ۔