وہ بہت چھوٹی سی تھی جب سے سوچنا شروع کیا تھا پوجا پاٹ کے لئے چھوٹے بچّے بچّیاں
اپنی ماوں کی انگیا ں تھامے ہوئے مندر آتے جاتے ہیں اور پھر اس کے ننھّے سے زہن نے
اپنے آپ سے سوال کیا تھا میرے لئے وہ ہاتھ کہاں ہیں میں جس کی انگلی تھام کر مندر
کی سیڑھیا ں چڑھتی اور اترتی مندر کا پجاری اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پھر بھی
اس نے ایک دن جا کر اس سے سوال کر ہی لیا تھا
پجاری جی میری ماتا میرے پتا کون تھے ؟ پھر پجاری نے اس ے بتا یا تھا
کہ اُس کو اس کی ماں نے اپنی کوئ منّت پوری
کرنے پر دان میں دیا تھا پر تیری ماتا پھر لوٹ کر کبھی بھی مندر نہیں آئ اور دیوداسی
نے اپنا سر جھکا لیا تھا
مندر کے بوڑھے پجاری کے چرنوں میں بیٹھی اس کی جوانی جب جوبن پر آئ تب پجاری
کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسی کے چرنوں میں ہی بیٹھی
ہوئ تھی -
-پجاری بوڑھا ہو گیا تھا اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا
تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے
- لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا اس نے پجاری کو بتایا تو پجاری اس کو اپنے جھرّیوں بھرے چہرے میں دھنسی ہوئ
آنکھوں سےدیکھتے ہوئے پہلے
تو ایک دم آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل
کر بولا
دیکھ دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں
کروں گا -
،چل تو خود دیکھ لے ،،یہاں تو تُو اپنے من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن کے رشتے سے
رہے گی ،،لیکن پجاری جی وہ مجھ سے بہت
محبّت کرتا ہے ،،ہاں میں کب کہ رہا ہوں کہ
وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب آزما
لے پھر آ جایئو ،
پھر وہ اسے لینے آگیا -دیکھ دیوداسی یہ
میرے دوست کا گھر ہے وہ بدیس گیا ہوا جب آئے گا تب ہم اپنا ڈیرہ کہیں اور جما لیں
گے-پھر اس نے من مندر کے دیوتا کے لیئے
اپنی سیج سجا لی اور ایک گھر آنگن
کا خیالی تصّوراپنے دل میں بسا کربیٹھ
گئ،،وہ حسبِ وعدہ ہر رات آنے
لگا وہ
شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا بس رات ہی اس کے لئے موزوں تھی اس لئے وہ ہر رات بلا دھڑک آتا
تھا -
لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی اورتیز بخار میں پھنک رہی تھی لیکن اس کی نظریں ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ اب وہ آ ئے گا اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آگیا تھا لیکن آ ج کی رات اُس آنے والے کے لئے بے قیمت تھی کیونکہ آنے والے کو ایک خوف لاحق تھا 'کوئ مخبر اس کی خبر اُس کی گھر والی تک پہنچا سکتا تھا جس کے بدلے میں اس کا آنگن اور بچّے رُل جاتے ،اس لئے اس نے آکر اسے دیکھا اور چپ چاپ اس کی چارپائ پر زرا سا ٹک کر کہنے لگا دیوداسی میرے گھر میں تیرے کارن طوفان آ گیا ہے میری گھر والی نے اپنے میکہ کا جرگہ بلا نے کی دھمکی دی ہے اب تُو صبح پَو پھٹنے پر مندر چلی جا ایسا نا ہو کہ کوئ تیری سن گن لینے یہاں آ جائے پھر وہ الٹے قدموں سے واپس لوٹ گیا ،، بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش جاگتی محسوس کی تھی کہ آنے والا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے گا کہ کیا ہوا؟لیکن آنے والا تو کب کا جا چکا تھا اس کے دل کے کواڑباقی تمام رات اذیّت سے بجتے رہے اور لمبی کالی وہ ایک رات اس کے دل کی تنہائیوں میں سسکتی ہوئ دھیرے دھیرے کھسکتی رہی
صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر یوگی کے استھان پر جا پہنچی ابھی تو مندر
کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا
، مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم
رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور سیڑھیا ں چڑھتے ہی مندر
کے پجاری نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا
ں بجا کر ہٹ رہا تھا اس کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور پھر اس نے
ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے بلکل مریل
آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک کراسے
پرنا م کیا جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں
ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا تھا وہ سیدھی ہوئ
،تو پجاری نے کہا بول دیو داسی کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی کیونکہ آنسو اس کے دل سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک جانب ہلکا سا جھٹکا دیا اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا 'کیا ہوا
،،ہرجائ نہیں آیا پجاری کی بات کا جواب دینے
کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ
اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی
پجاری جی مجھے بتاؤ کیا دنیا کی ہر عورت اتنی بے قیمت
ہوتی ہے جتنی مندر کی دیوداسیاں ہوتی ہیں
اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں
ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی
ہےبوڑھے پجاری نے اپنی جہاں دیدہ نظروں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا
،،،،دیکھ دیوداسی میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا کہ تو بھو گی سنسار کے ان
ظالم جھمیلوں میں نا جا -پر تو
مانی ہی نہیں ،،، خیر ابھی بھی
خیر ہے --- تو جا تیرا
مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ
کر چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے
پلّو سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے
مندر کے سونے مسکن میں واپس چلی گئ آج اس
کے ہرجائ نے اس سے تن کا رشتہ توڑا تھا اور اس نے
ہرجائ سے تن اور من دونوں کا رشتہ
توڑ کر یوگی کے استھان پہ
دوبارہ پناہ لے لی تھی
اب اُس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ دیو داسیاں صرف استھانوں پر دان کے لئے ہوتی ہیں اُن کے من کے استھان میں کوئ سچّا پریمی بسیرا کرنے نہیں آتا
ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں