اتوار، 2 اپریل، 2023

ممتازصحافی 'ماہررموزعلوم بلند پایہ شاعر-رئیس امروہوی

 

 

 

سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی نے 'ماہررموزعلوم بلند پایہ ممتازصحافی - 12 ستمبر 1914ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطہ یوپی کے شہر امروہہ کے جیّد علمی و ادبی گھرانے میں  آنکھ کھولی۔1936 میں صحافت سے وابستہ ہو گے ہی  امروہہ کے اخبارات قرطاس ا  ور مخبر عالم کی ادارت کی۔ بعدازاں روزنامہ جدت (مرادآباد) کے مدیراعلیٰ رہے۔ آپ سید محمد تقی اور جون ایلیا کےاور ہندوستان کے مشہور گیت نگار کمال امروہوی کے بڑے بھائ تھے  ۔

تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آگئے یہا ں پر حکومت وقت نے ان کی قدر دانی کرتے ہوئے انہیں کوٹھی عنائت کر دی۔اس طرح وہ یکسوئی ہو کر ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف ہو گئے۔اُس زمانے میں گارڈن ایسٹ میں رئیس امروہوی کی وسیع و عریض رہائش گاہ کے مرکزی دروازے اس لیے کھلے رہتے تھے کہ دن بھر ملنے والے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اُن کے گھر میں مرکزی دروازے کے فوراً بعد ایک بڑا سا آنگن تھا جس کے بعد پہلے اُن کا دفتر تھا اور پھر اہل خانہ کے رہائشی کمرے وغیرہ تھے۔گھر والوں  کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود اہلِ خانہ ملاقاتیوں کی وجہ سے یا لکھنے پڑھنے میں کسی تعطل کے پیشِ نظر گھر میں ہی واقع رئیس امروہوی کے دفتر میں جانے سے گریز کرتے تھے اور اُن کی ضروریات یا کھانے اور چائے وغیرہ کے وقت ہی کوئی اس جانب آیا کرتا تھا۔ روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی ادارت میں جنگ پاکستان کاسب سے کثیرالاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔

رئیس امروہوی دور حاضرہ کے ممتاز شعراءمیں سے تھےوہ تمام اصناف سخن میں قادر الکلام ہیں، پُر گو ہیں، حاضر طبع ہیں، زدو گو ہیں، فکر میں قدرت ہے، طرز ادا میں جدت ہے، زبان میں صفاحت ہے، بیان میں سلاست ہے، نظر میںوسعت ہے، غزل ہو یا نظم قطعات ہوں یا رباعیاں، ادب ہو یا فلسفہ، رندی ومستی ہو یا فقر و تصوف ، سنجیدہ مضامین ہوں یا طنز و مزاح ، وہ ہر میدان کے ”مرد میدان“ نظر آتے ہیں۔ اور جس موضوع پر لکھتے خوب لکھتے ۔ان کی غزل میں قدیم غزل کی روح نئے انداز بیاں کا جامہ پہن کر شاہد معنی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔وہ شاہد معنی کوزبان شعر میں ”جان گل“ کہتےہیں۔ رنگ کومجاز اور بُو کو حقیقت بنا کر گل کورنگ و بُو دونوں کا جامع کہتے ہیں۔ مگر اس جامعیت کے مشاہدے پر بھی ان کی نظر قانع نہیں، وہ گ میں ”جان گل“ کوخوشبو اوررنگ میں منحصر نہیں سمجھتے بلکہ ”جان گل “ کو”ماورائے رنگ و بو“ تصور کرتے ہیں اور اس سے برافگندہ نقابی کے تمنائی ہیں اگر نقاب الٹ دے توکیا قیامت ہو وہ جان گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشب حوادث عالم کی توجیہ عقل کے سپرد کردی جائے گی تو سبب و مسبب اور علت ومعلول کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے عقل ان میں الجھ کر رہ جائے گی۔ رئیس مروہوی یہ کام عقل کے سپرد نہیں کرتے، عشق سے حادثات لیل و نہار کا سبب پوچھتے ہیں اورانہیں جواب ملتا ہے کہ یہ حادثات شب و روز بے سبب تو نہیں بدل رہا ہے کوئی خواب ناز میں پہلو محبت میں سب کچھ ہے مایوسی نہیں۔ وہ اپنے محبوب سے شکستہ دل کے باوجود مایوس نہیں۔ وہ ستم میں کرم کے ہزاروں پہلو دیکھتے ہیں۔ یہ انداز عشق کوہوس سے ممتاز کرتا ہے تمہیں فسردہ دلوںکا خیال ہی تو نہیں خیال ہو تو کرم کے ہزارہا پہلو نور و نار اور جمال وجلال ایک ہی حقیقت کمے دو رخ ہیں بس ایک آگ ہے جو حسن میں ہے گرمی نازمزاج عشق میں ٹھہرے اگرتو سوز دروں شدت احساس سے خیال واقعہ بن جاتا ہےدل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا روحانئین کے نزدیک مادہ بھی ہماری شعوری کیفیات کا نام ہے۔ یہ ہمارے

شعور ہی کی تو کیفیات ہیں جن کا ادراک ہم خارج میں کرتے ہیں۔ رئیسامروہوی اس مقام پر اپنے پیکر جسمانی کواپنی روح پر لباس کی صورت میں  مشاہدہ کرتے تو مادہ جواب میں روح بن جاتا۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ پیکر حسن بھی شعور ہی کی ایک کیفیت ہے اور یہ شعور ہی بجائے خود لباس جاں ہے، کہتےہیں خود اپنے شعور جاں سے ملبوس بے پیکر و پیرہن ہیں ہم لوگ انسان فطرتاًآزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کوآزادی محبوب ہے اس حقیقت کی طرف رئیس امروہوی نے کیا خوب توجہ دلائی خود اپنے وجود میں مقید پابستہ بے رسن ہیں

ہم لوگ زمانہ مطلق بھی ہے مقید بھی۔ اچھے مرزانے کتنے سادہ الفاظ میں بیان ہے ہے جس سے ذات باری کے گمان ہونے کا مفہوم ملتا ہے گماں نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا یہی جو ہے یہی ہوگا یہی رہاہوگا اس مادیت اور لاادریت کے دور میں رئیس امروہوی آخرت کی زندگی پر نہ صرف یقین ہی رکھتے ہیں بلکہ وہ اس یقین کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے کےئے موثر یقین آفریں اور دل نشین پیرایہ بیان کے بھی مالک ہیں خلوت قبرسے نکلتی ہے اس طرح بن سنور کے روح حیات جس طرح جشن شب سے جلوہ صبح جس طرح بادلوں سے چاندنی رات یقین اور یقین دھانی کا یہ عالم ہے کہ کثرت الم کی تعبیر وہ کثرت صفات سے کرتے اور کثرت صفات کو ذات و صفات کے چہرےپر رنگا رنگ نقابوں سے تعبیر کرتے ہیں کچھ نہیں اک جمال ذات پہ ہیں صدجابات رنگ رنگ صفات مگر شعر مابعد میں جب وہ کہتے ہیں اور یہ بھی تماموہم و گماں اور یہ بھی تمام معروضات تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ اپنے وجداو عرفان پر جیسے انہیں اعتماد نہ رہا ہو۔رئیس امروہوی کے یہاں علم و ادبمیں جہاں حکمت و فلسفہ کی چاشنی ہے وہیں پر تذبذب اور تشکیک کی ملاوٹ بھیپائی جاتی ہے یہ حقیقت کی تجلّی ہے مری نظروں میں یا فقط سایہ  اوہام ہےمعلوم نہیں انسان اللہ کی صنعت خلاقی کا مظہر ہے اس لئے مجازاً صنعت خلق کا ظہور اس سے ہوتا ہے ہزار عالم و آدم ہزار خالق و خلق ابھی ہیں عرصہ تخلیق میں یہ شکل غبار بصیرت و بصارت میں امتیاز نہ کیا جائے  ۔

 اور پھررئیس امروہوی کو شہید کر دیا گیا

رئیس امروہوی: سادات امروہہ کے چشم و چراغ جن کے قتل نے کراچی کو ہلا کر رکھ دیاقاتل بڑے اطمینان سے گھر میں داخل ہوا، اس سے

 بھی زیادہ اطمینان سے اس نے اپنا کام محض ایک ہی گولی سے مکمل کیا اور اسی آسانی سے واپس بھی چلا گیا۔۔۔‘

اس قتل نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

گھر بڑا ہونے کی وجہ سے آواز بھی اندر تک سُنائی نہیں دیتی تھی۔پولیس افسر نے بتایا تھا کہ ’شاید قاتلوں نے مکمل طور پر یہ معلومات حاصل کر کے ہی قتل کی منصوبہ بندی کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے معلومات اور ماحول کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور واردات بڑے اطمینان اور تسلّی سے انجام دی۔

رئیس امروہوی کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا ہوں یا بھائی سید محمد تقی (ممتاز صحافی و دانشور اور روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر)، دوسرے بھائی شہرت یافتہ شاعر جون ایلیا ہوں یا اُن کے کزن اور معروف انڈین فلمساز کمال امروہوی، اس خانوادے کے جس فرد نے جب اور جس شعبے کا رُخ کیا اپنی کامیابی، صلاحیت اور عبور کے جھنڈے گاڑ دیے۔خود رئیس امروہوی مشہور تو روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے قطعات کی وجہ سے تھے مگر دراصل وہ محقق، فلسفی، دانشور اور روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔دنیا بھر میں اُن کے عقیدت مند آج بھی اُن سے اپنے تعلق کو اعزاز سمجھتے ہیں رئیس امروہوی کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب سنہ 1948 میں اُن کی تخلیق کردہ نظم ’اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ سنہ 1972 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں لسانی بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر روزنامہ جنگ میں دوبارہ شائع کی گئی، اور ملک بھر میں مشہور ہو گئی۔

اُس زمانے میں گارڈن ایسٹ میں رئیس امروہوی کی وسیع و عریض رہائش گاہ کے مرکزی دروازے اس لیے کھلے رہتے تھے کہ دن بھر ملنے والے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اُن کے گھر میں مرکزی دروازے کے فوراً بعد ایک بڑا سا آنگن تھا جس کے بعد پہلے اُن کا دفتر تھا اور پھر اہل خانہ کے رہائشی کمرے وغیرہ تھے۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود اہلِ خانہ ملاقاتیوں کی وجہ سے یا لکھنے پڑھنے میں کسی تعطل کے پیشِ نظر گھر میں ہی واقع رئیس امروہوی کے دفتر میں جانے سے گریز کرتے تھے اور اُن کی ضروریات یا کھانے اور چائے وغیرہ کے وقت ہی کوئی اس جانب آیا کرتا تھا۔

گھر بڑا ہونے کی وجہ سے آواز بھی اندر تک سُنائی نہیں دیتی تھی۔

۔امروہہ برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں علم و فن اور حکمت و دانش کے لیے مشہور تھا مگر جو علم و حکمت اس شہر میں آباد رئیس امروہوی کے گھرانے کے حصے میں آئی وہ بے نظیر ہے۔رئیس امروہوی کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا ہوں یا بھائی سید محمد تقی (ممتاز صحافی و دانشور اور روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر)، دوسرے بھائی شہرت یافتہ شاعر جون ایلیا ہوں یا اُن کے کزن اور معروف انڈین فلمساز کمال امروہوی، اس خانوادے کے جس فرد نے جب اور جس شعبے کا رُخ کیا اپنی کامیابی، صلاحیت اور عبور کے جھنڈے گاڑ دیے۔خود رئیس امروہوی مشہور تو روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے قطعات کی وجہ سے تھے مگر دراصل وہ محقق، فلسفی، دانشور اور روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

دنیا بھر میں اُن کے عقیدت مند آج بھی اُن سے اپنے تعلق کو اعزاز سمجھتے ہیں رئیس امروہوی کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب سنہ 1948 میں اُن کی تخلیق کردہ نظم ’اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ سنہ 1972 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں لسانی بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر روزنامہ جنگ میں دوبارہ شائع کی گئی، اور ملک بھر میں مشہور ہو گئی۔

آپ کی اہم شعری تصانیف یہ ہیں۔

مثنوی لالہ صحرا

پس غبار

قطعات (حصہ اول و دوم)

حکایت

بحضرت یزداں

انا من الحسین

ملبوس لباس بہار

آثار

جبکہ نثری تصانیف یہ ہیں۔

نفسیات و مابعد النفسیات ( 3 جلدیں)

عجائب نفس ( 4 جلدیں)

لے سانس بھی آہستہ ( 2 جلدیں)

جنسیات ( 2 جلدیں)

عالم برزخ ( 2 جلدیں)

حاضرات ارواح

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر