پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی جگر مراد
آبادی کااصل نام علی سکندر تھا ۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم گھر اور
مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے
علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بعد ازاں اپنے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے، جہاں
اسکول میں داخلہ
لیا ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد حصول تعلیم سے
دستبردار ہو گئے۔ ان کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا
مولوی
علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگرکی شاعری کو بہت جلا بخشی۔
ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب
دیا۔ علی گڑھ
یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش
گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ
وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری
مجموعے ہیں۔اصغر گونڈوی، جگر کے ہم زلف، جنہیں جگر اپنا مربّی اور مرشد جانتے تھے اور کے
سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ان کی ہر بات
مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کئے رہتے۔ نہ صرف اصغر بلکہ ا کے قریبی
اور بے تکلف دوستوں کے سامنے بھی اسی رکھ رکھاؤ سے پیش آتے کہ وضع داری شریفوں کی
پرانی کمزوری ہے ۔ اب نہ وہ شریف رہے نہ ویسی وضع داریاں۔ خواتین اور لڑکیوں کی
موجودگی میں جگر نظریں یوں نیچی رکھتے جیسے وہی ان کی عزت وآبرو کی نگہبان ہیں۔جگر
پر تو اصل مشکلیں ترک شراب کے بعد آئیں۔ صحت بگڑتی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے،
ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ لیکن وہ اس کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اپنی کیفیت
اوروں سے چھپاتے، ویسے ہی قیمتی کپڑے پہنتے، اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے جنھیں یار
دوست ہتھیالیتے اور یہ کبھی ان سے نہ کچھ کہتے اورنہ پوچھتے۔جگر کی شراب نوشی کے
ذمہ دار بھی یہی دوست تھے جو بقول اصغر گونڈوی، ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی
شرابیں پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔ یہ بھی عجیب
سی بات ہے کہ جگر سخت مذہبی آدمی تھے۔ جوش سے اکثر ان کی بے دینی پر الجھتے۔ جگر
نہ صرف اللہ اور رسول بلکہ انسانوں کے حقوق بھی پہچانتے تھے ،جبکہ بہت سے پارساؤں
کا یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔
وہ کسی کا حق
نہیں مار سکتے تھے، اسی لئے سب کے محبوب تھے۔ معمولی آدمی کی بدتمیزی برداشت کرلیتے
لیکن بڑے لوگوں کی نا واجب حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ
رہتے۔ ان کا شمار کھاتے پیتے
لوگوں میں نہیں ہوتا تھا ، تنگی سے بسر ہوتی تھی لیکن مہمانوں کے سامنے آنکھیں
بچھائے رکھتے۔ غصے میں کبھی آپے سے باہر نہ
ہوتے نہ کبھی اپنی بڑائی جتلا کر
دوسروں کے عیب بیان کرتے۔مشاعروں میں کبھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ انہیں سب سے
پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا
گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال
لیا۔ ایک بار جب وہ سو رہے تھے کسی جاننے والے نے ان کے جیب سے سارے پیسے نکال
لئے، جگریہ دیکھ
رہے تھے۔ جب لوگوں کو علم ہوا تو پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں بتایا،
کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا تو کوئی اچھی بات نہیں۔
جگر داغ کے
شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن دونوں کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ وہ تو ایک سرمست انسان
کا دل رکھتے تھے، جس کے پاس خلوص کی
دولت اور عشق کی قوت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جگر
کے ہاں محبت ہی محبت تھی۔انسانی خوشحالی اور آسودگی ان کی آرزو رہی۔جگر آزاد طبیعت
کے مالک اور حُسن
پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر
کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی
رنگا
رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر
کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن
اس مقام و
مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔
جگر مراد
آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے
کر لی تھی جو دوسرے شعرا سے الگ ہے۔ وہ خود ہی لکھتے ہیں:
”ہو سکتا ہے
میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ
میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ
میرے ابتدائی کلام پر داغ کا
نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی
نہیں۔“
جگرمراد آبادی
کا انتقال نو ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا تھا اور وہیں انہیں محمد علی پارک میں
سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن جگر کی موت کی خبر دو دو بار اخبارات میں
شائع ہوئی اور
ریڈیو سے بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ پہلی
بار چارمئی سنہ 1938ء کو جب ان کے موت کی خبر شائع
ہوئی تو بعض اخبارات نے خاص
نمبر تک شائع کر دیے۔ ہر جگہ تعزیتی جلسے ہوئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں تو تعزیتی
جلسے کے ساتھ ساتھ نمازِ غائبانہ بھی ادا کی گئی۔
لیکن چند
دنوں بعد لوگوں کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جگر بقید حیات ہیں۔ سنہ 1958ء
میں جب جگر کو دل کا شدید دور پڑا تواس وقت بھی ان کے
انتقال کی خبر ہندوستان اور
پاکستان دونوں جگہ کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور اور کراچی میں متعدد تعزیتی
جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت
احسان دانش نے کی تھی۔ اس خبر کی تردید
ہونے کے بعد مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ ”جنگ“ میں لکھا تھا کہ پہلی
خبرکے بعد جگر صاحب کی عمر
بیس سال بڑھ گئی تھی اوراب اس خبر کے بعد پھر کم از کم
بیس برس کے اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا نو ستمبر 1960ءکو ان کو دل کا
دورہ پڑا اور روح
قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
جان کر من
جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا
کریں گے جام و پیمانہ مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگر مرادآبادی
اور ایک نعتیہ مشاعرہ
رئیس المتغزلین
حضرت جگر ؔمردآبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب
اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی
آنکھوں میںسما گیا تھا۔اس کے بعد
وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار
ہوتے رہے ور ان کے عشق میں
بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے
تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر
انگور کی بیٹی ایک بار جب ان
کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی
لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں
بہلاکے پی جاتے۔شراب
ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں
بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور
اپنے ہی
جیسا مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے
در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے
اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس
کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے،
عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی میں ان کا
جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ
کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی
سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے
درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی
رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو
دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم
بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی
کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا
تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی
شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں
شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن
گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر
کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں
مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر
صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔
جگرؔ صاحب نے
ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے
ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم
کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے
ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے
جگر ؔعالم سرشاری
میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی
تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا
تھا کہ ایسے وقت
میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس
شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض
ہونے کی نہیں ہے
اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔
جگرؔجیسے
شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں
کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت
اجمیر کے
مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ
وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح
ہ مشاعرے میں ان کی شرکت
ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔
منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔
کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔در اصل جگرؔ
کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے
باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے
سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا
اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔
تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے
تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ
نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ
جگرؔ کی
عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے
پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب
نہیں‘‘
۔
اب منتظمین
کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے
آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے
انہیں آمادہ کرنا
چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے
تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ
ہوگئے۔سرہانے بوتل
رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک
نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ
بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے
مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن شراب سے تو نہیں لیکن
مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس
زبان سے اپنے آقا کی
مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا
آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے،
شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم
ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔ایک دن گزرا،
دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے
تھے اور غزل کہنے لگتے
تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک
دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل
ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔
مشاعرے کے لیے
اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں
شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں
نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن
حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے
چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے
تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔
لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ
بھی تھاکہ لوگ
اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے
منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ
لوگ سمجھ
رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو
خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے ؎
کہاں پھر یہ
مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر
تک ہی مے خواریاں ہیں
آخر مشاعرے کی
رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔
’’رئیس
المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘
اس اعلان کے
ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ
مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے
پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے
اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی
وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے
ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہےجوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ
معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا
ہورہا ہے۔نعت کیا تھی
گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں
کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم
ہوگئے،
اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری
رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے
بعد سب کی
زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے اشعار یوں
ہیں:,,
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر
رحمتِ سلطان مدینہ
دامان نظر
تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق
طلعتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ
تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو
جنت ِسلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر
سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں
درِ دولتِ سلطانِ مدینہ
اک ننگِ غمِ
عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے
صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم یادِ
خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی
دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب
الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا
سطوتِ سلطان مدینہ
اس امت عاصی
سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت
غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں
کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس
اک نسبت ِسلطان مدینہ