منگل، 7 مارچ، 2023

جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا


جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا

خون ناحق نے کنوئیں سے پکاراجب بلو چستان کے ایک ہی کنوئیں سے دو جوان لڑکوں کی اور ایک تیزاب سے جھلسے چہرے کے ساتھ لڑکی کی لاش برامد ہوئ تب حسب معمول کوئ غلغلہ نہیں اٹھا لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ یہ مظلوم لاشیں ایک سردار کے انتقام کی بھینٹ چڑھی ہیں تو پورے ملک میں سرداری ظالمانہ نظام پر عوام برانگیختہ ہو گئے اور بالآخر مجرم سردار کھیتران کٹہرے میں کھڑا کیا گیا  آئے دیکھتے ہیں سرداروں کی عملداری میں عوام کے ساتھ کیا کیا مظالم کی داستانیں رقم ہوتی ہیں

پاکستان میں سرداروں کی کی نجی جیلیں

سندھ کی نجی جیلیں: ’20 کلو کی زنجیر ہاتھ اور پاؤں میں ڈال کر کام کرواتے تھے‘

28 فروری 2023

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک سردار کے مبینہ نجی جیل کی خبروں کے بعد نجی جیلوں کی موجودگی پر ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ملک میں اس وقت بھی ایسی جیلیں ہیں، ماضی میں ایسی جیلوں سے جو لوگ برآمد ہوئے وہاں کہاں گئے کس حال ہیں-سندھ کی نجی جیلیں: ’لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ کر کہتا یہ زمین کا کام نہیں اور کام کرے گی‘مجھے دو تین بار اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیا، رحیم یار خان اور جامشورو میں بھی اغوا ہوئی، زمینداروں نے بہت مارا لیکن میں نے کہہ دیا کسانوں سے دستبردار نہیں ہوں گی، انھیں آزاد ضرور کروائیں گے۔‘

یہ ہیں لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے پاکستان میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی جیلوں کا کیا یہ پہلا انکشاف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔دو دہائی قبل صوبہ سندھ میں سینکڑوں کسان نجی جیلوں سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سمیت رہا ہوئے تھے، جن میں لالی کولھی بھی شامل تھیں۔زمیندار نے بہن سے ناجائز تعلق بنا لیالالی کولھی اور ان کا خاندان عمرکوٹ کے ایک زمیندار کے پاس بائیس سال جبری مشقت کرتا رہا۔ بقول ان کے زمیندار کے بیٹے نے ان کی بہن سے ناجائز تعلق قائم کر لیا اور بھائیوں اور والد پر سختیاں بڑھا دیں اور کہا کہ یہ لڑکی اس کے حوالے کرو۔’وہ دن رات کام لیتا، گھر آنے نہیں دیتا تھا کسی کی شادی بیاہ اور فوتگی تک میں نہیں جاتے تھے۔ چار پانچ منشی ہوتے تھے، خواتین کا منشی الگ اور مردوں کا الگ، جو جانے نہیں دیتے تھے۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلے۔وہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی کسان کی لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ لیتا اور کہتا کہ یہ زمین کا کام نہیں کرے گی بلکہ اور کام کرے گی۔عزت محفوظ نہیں تھی، لڑکی کی نہ گھر والوں اور نہ ہی ماں کی۔ کوئی نہیں تھا جو انصاف کرے اس صورتحال میں کسان بھاگے گا ہی نہ۔‘

پیروں میں آدھے من کی کڑیاں

لالی کولھی کے مطابق یہ ’سنہ 1996 کی بات ہے جب انھیں پورے خاندان کے لیے ایک من آٹا اور سولہ روپے مزدوری دی جاتی تھی۔پیروں میں آدھے من کی زنجیر باندھی جاتی تھی، بالآخر ایک کسان بھاگ نکلا اور اس نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لالی کولھی کے خاندان سمیت 60 کسان رہا ہوئے۔‘منو بھیل کے مطابق ’ان سے لوہے کی بیس کلو وزنی زنجیر لگا کر کام کروایا جاتا، صبح فجر سے لے کر رات کو دس گیارہ بجے تک کام لیا جاتا تھا۔‘’ہم وہاں دو سال رہے اس عرصے میں برادری کا کوئی بندہ ہمارے پاس نہیں آتا تھا اگر کوئی آتا تو اس کو بھی پکڑ کر کام پر لگا دیتے تھے۔‘’کوئی شدید بیمار بھی ہو جائے تو ڈاکٹر آ کر دوائی دے جاتا لیکن باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔منو بھیل سنہ 1996 میں جیل سے بھاگ کر پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہنچے اور مدد کی اپیل کی۔ایچ آر سی پی کی حیدرآباد میں ان دنوں میں خصوصی ٹاسک فورس موجود تھی۔ اس کے ایک سابق رکن اور سینئر صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’منو بھیل کے ساتھ وہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے مقامی سطح پر معلومات لی گئیں۔ یہ اس طرح سے کیا گیا تاکہ پولیس کو معلوم نہ ہو سکے۔‘’جب ہم چھپتے چھپاتے زمینوں پر پہنچے تو ہمیں جھٹکا لگا۔ لوگوں کے پیروں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ پہرے پر تین چار گارڈ موجود تھے۔ اس دوران زمیندار بھی پہنچ گئے اور تکرار شروع ہو گئی، ہمارے ہاتھ خالی تھے وہ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے لیکن ہم کسانوں کو رہا کروا کے ڈی سی آفس پہنچ گئے اور پولیس مدد کے لیے طلب کر لی۔‘آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں ہر گھر میں ظلم و ستم کی داستان-انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں -ہوتا ہے جہاں ’جدید غلامی‘ موجود ہے یعنی مزدوری میں ناانصافی، کسانوں کو قرضے میں جکڑے رکھنا، ان کو قید و بند میں رکھنا۔سنہ 2020 سے جنوری 2023 تک صرف صوبہ سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ کسان جبری مشقت سے رہائی حاصل کر چکے ہیں۔

کوٹری، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں ایسے چار ہاری کیمپس ہیں جہاں نجی جیلوں سے رہا ہونے والے کسان رہتے ہیں۔ ان بستیوں کے ہر گھر میں قید و بند اور ظلم و ستم کی داستان ہے۔آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں۔وہ ہمت نگر نامی کسان کیمپ میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’زمیندار مار پیٹ کرتا تھا ہمارے بچے تنگ تھے اور ہم بھی تنگ تھے۔زمیندار ہمارے پیسے کھا گیا اس نے بہت رلایا تنگ کیا، ہم پولیس کے پاس بھی گئے لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی بس یہاں آ کر بیٹھے ہیں۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلےمنو بھیل کی قانونی جنگ منو بھیل کا خاندان ابھی آزادی کی سانس بھی نہیں لے سکا تھا کہ اس کو دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ منو بھیل کے مطابق آزادی کے دو سال کے بعد ان کے خاندان کو کوٹ غلام محمد سے ایک زمیندار کے پاس سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔زمیندار کے لوگ آئے ان کے والد، والدہ، بھائی، بیوی، دو بیٹیوں ایک بیٹے کو اغوا کر کے لے گئے۔ وہ اس روز گھر موجود نہیں تھے، کام سے تھر گئے ہوئے تھے، پھر آٹھ روز بعد واپس آئے تو پتا چلا۔منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ تک معاملہ گیا۔عدالت کے یہ ریمارکس بھی آئے کہ ’ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے- لیکن اس کے باوجود منو بھیل کے اہلخانہ بازیاب نہیں ہوئے۔منو بھیل کے مطابق ’میرے بیٹے کانجی کی عمر اس وقت سات سال تھی۔ بیٹی کی عمر تین سال تھی، میرا بیٹا جوان ہوگیا ہو گا۔‘

’میرے والد کی عمر اس وقت ستر سال تھی میری والدہ ساٹھ سال کی تھی، کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس میں لاش مل جاتی ہے لیکن یہ تو حادثہ بھی نہیں اگر ایک آدمی بھی مجھے مل گیا تو میری کہانی سچی ہوجائے گی اور جب تک میں زندہ ہوں یہ شور کرتا رہوں گا کہ میرے ساتھ ناانصافی کی گئی۔‘منو بھیل کوٹڑی میں واقعے ہاری کیمپ میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں روڈ حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی لیکن انھیں ابھی تک عدالتوں سے نوٹس آتے ہیں اور ان کے پاس کل اثاثہ ایک فائل ہے جس میں اخباروں کی درجنوں کٹنگز موجود ہیں جو ان کی جدوجہد پر مبنی ہیں۔لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں-لالی کا کسانوں کی رہائی کا مشن-کیا آپ نے امریکی سیاہ فاموں کی غلامی پر مشتمل نیٹ فلکس کی فلم ہیریئٹ (Harriet) دیکھی ہے؟حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایک خاتون فرار ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے رشتے داروں اور دیگر سیاہ فام افراد کو رہا کرواتی ہے۔ لالی کولھی بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں۔لالی کولھی بتاتی ہیں کہ ’ہم جبری مشقت کی شکایت عدالت میں کرتے ہیں پھر عدالت رہائی کی اجازت دیتی ہے اور ہم مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں لیکن پولیس زمینداروں کے ساتھ مل جاتی ہے اس لیے انھیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں متعدد بار اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم بسوں میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح عدالتوں میں اور تھانوں میں پہنچتے ہیں۔ زمیندار بااثر ہوتے ہیں، ہمیں بس سٹاپ سے اٹھا لیا جاتا ہے یا سڑک سے لیکن ہم نے کبھی شکست قبول نہیں کی، ہم کولھی اور بھیل کمیونٹی کے لوگوں کے لیے رات ہے اور سویرا ہوا ہی نہیں۔‘آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے تاہم کسانوں کو قید بند رکھنے پر آج تک کسی زمیندار یا سردار کو سزا نہیں ہوئی۔ان میں سے کئی زمینداروں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ بارکھان جیسے واقعات پر ایوانوں اور سڑکوں پر خوب شور مچتا ہے، کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہو جاتا ہے۔کراچی میں ناظم جوکھیو کا قتل کیس ایک تازہ مثال ہے جس کی موت ایک سردار کی نجی قید میں ہوئی لیکن بعد میں لواحقین نے سمجھوتہ کر لیا۔

پیر، 6 مارچ، 2023

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی

 

 

 

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی جگر مراد آبادی کااصل نام علی سکندر تھا ۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر اور

 مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بعد ازاں اپنے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے، جہاں اسکول میں داخلہ

 لیا ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ان کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی

 علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگرکی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب

 دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔اصغر گونڈوی، جگر کے ہم زلف، جنہیں جگر اپنا مربّی اور مرشد جانتے تھے اور کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ان کی ہر بات مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کئے رہتے۔ نہ صرف اصغر بلکہ ا کے قریبی اور بے تکلف دوستوں کے سامنے بھی اسی رکھ رکھاؤ سے پیش آتے کہ وضع داری شریفوں کی پرانی کمزوری ہے ۔ اب نہ وہ شریف رہے نہ ویسی وضع داریاں۔ خواتین اور لڑکیوں کی موجودگی میں جگر نظریں یوں نیچی رکھتے جیسے وہی ان کی عزت وآبرو کی نگہبان ہیں۔جگر پر تو اصل مشکلیں ترک شراب کے بعد آئیں۔ صحت بگڑتی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے، ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ لیکن وہ اس کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اپنی کیفیت اوروں سے چھپاتے، ویسے ہی قیمتی کپڑے پہنتے، اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے جنھیں یار دوست ہتھیالیتے اور یہ کبھی ان سے نہ کچھ کہتے اورنہ پوچھتے۔جگر کی شراب نوشی کے ذمہ دار بھی یہی دوست تھے جو بقول اصغر گونڈوی، ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی شرابیں پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ جگر سخت مذہبی آدمی تھے۔ جوش سے اکثر ان کی بے دینی پر الجھتے۔ جگر نہ صرف اللہ اور رسول بلکہ انسانوں کے حقوق بھی پہچانتے تھے ،جبکہ بہت سے پارساؤں کا یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔

وہ کسی کا حق نہیں مار سکتے تھے، اسی لئے سب کے محبوب تھے۔ معمولی آدمی کی بدتمیزی برداشت کرلیتے لیکن بڑے لوگوں کی نا واجب حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ

 رہتے۔ ان کا شمار کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا ، تنگی سے بسر ہوتی تھی لیکن مہمانوں کے سامنے آنکھیں بچھائے رکھتے۔ غصے میں کبھی آپے سے باہر نہ

 ہوتے نہ کبھی اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کے عیب بیان کرتے۔مشاعروں میں کبھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ انہیں سب سے پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا

 گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ ایک بار جب وہ سو رہے تھے کسی جاننے والے نے ان کے جیب سے سارے پیسے نکال لئے، جگریہ دیکھ

 رہے تھے۔ جب لوگوں کو علم ہوا تو پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں بتایا، کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا تو کوئی اچھی بات نہیں۔

جگر داغ کے شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن دونوں کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ  وہ تو ایک سرمست انسان کا دل رکھتے تھے، جس کے پاس خلوص کی

 دولت اور عشق کی قوت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جگر کے ہاں محبت ہی محبت تھی۔انسانی خوشحالی اور آسودگی ان کی آرزو رہی۔جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن

 پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا

 رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن

 اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

جگر مراد آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے کر لی تھی جو دوسرے شعرا سے الگ ہے۔ وہ خود ہی لکھتے ہیں:

”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ

 میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں۔“

جگرمراد آبادی کا انتقال نو ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا تھا اور وہیں انہیں محمد علی پارک میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن جگر کی موت کی خبر دو دو بار اخبارات میں

 شائع ہوئی اور ریڈیو سے بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ پہلی بار چارمئی سنہ 1938ء کو جب ان کے موت کی خبر شائع

 ہوئی تو بعض اخبارات نے خاص نمبر تک شائع کر دیے۔ ہر جگہ تعزیتی جلسے ہوئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں تو تعزیتی جلسے کے ساتھ ساتھ نمازِ غائبانہ بھی ادا کی گئی۔

لیکن چند دنوں بعد لوگوں کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جگر بقید حیات ہیں۔ سنہ 1958ء میں جب جگر کو دل کا شدید دور پڑا تواس وقت بھی ان کے

 انتقال کی خبر ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور اور کراچی میں متعدد تعزیتی جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت

 احسان دانش نے کی تھی۔ اس خبر کی تردید ہونے کے بعد مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ ”جنگ“ میں لکھا تھا کہ پہلی خبرکے بعد جگر صاحب کی عمر

 بیس سال بڑھ گئی تھی اوراب اس خبر کے بعد پھر کم از کم بیس برس کے اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا نو ستمبر 1960ءکو ان کو دل کا دورہ پڑا اور روح

 قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جگر مرادآبادی اور ایک نعتیہ مشاعرہ

رئیس المتغزلین حضرت جگر ؔمردآبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی

 آنکھوں میںسما گیا تھا۔اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں

 بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان

 کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلاکے پی جاتے۔شراب

 ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی

 جیسا مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی      میں  ان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔

جگرؔ صاحب نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم

 کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر ؔعالم سرشاری

 میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت

 میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض

 ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔

جگرؔجیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت

 اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح

ہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔

 کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ  مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی

 عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب

 نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے

 انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ

 ہوگئے۔سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ

 بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس

 زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے،

 شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے

 تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا،  تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں

 نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے

 تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ

 اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ

 رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے ؎

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘

اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے

 پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے

 ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہےجوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی

 گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے،

 اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے

 بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے  اشعار یوں ہیں:,,

 اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

اتوار، 5 مارچ، 2023

ہد ہد ننّھا سا واٹر انجینیر

 

یہ ایسا   پرندہ  ہے جو ہزاروں میل دو ر سفر بغیررکے طے کرنے کی صلاحیت سے بھی لیس ہےاب  اس کی 

 ساخت کے بارے میں یہ لمبی چونچ والا ایک نہایت ہی خوبرو پرندہ ہے یہ لمبی چونچ سے کسی بھی کیڑے کو زمین سے کھود کر نکال

 سکتا ہے ۔اس کے سر پر ایک شاہی تاج کی مانند ایک تاج بناہوتا ہے یہ تاج مالٹا اور کالے کلر پر مشتمل ہوتا ہے اس کا جسم رنگ

 برنگے پنکھوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اس کے دو پنجے ہوتے ہیں اور ہر پنجہ چار

 انگلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کی لمبائی پچیس سے بتیس سینٹی میٹر اور جب کہ اس کا ونگس پین چوالیس سے اڑتالیس سینٹی میٹر

 تک ہوتا ہے ۔اس کا وزن چھیالیس سے نواسی گرام تک ہوسکتا ہے ۔اس کی اوسطا عمر دس سال تک ہوتی ہے-    فارسی ادب میں

 اسے ایک پراسرار پرندہ تصور کیاجاتا ہے اگر کسی ایک کو کھانے کی چیز مل جائے تودوسرے ساتھی کا انتظارکرتا ہے اور پھر اس چیز

 کو کھایاجاتا ہے ایک ہدہد اپنی پوری زندگی میں صرف ایک بار ہی جوڑا بناتا ہے اگر اس کا ساتھی ساتھ چھوڑ جائے یا کسی حادثے کا

 شکار ہوجائے تو یہ ساری زندگی اکیلا رہنا پسند کرتا ہے کہاجاتا ہے کہ تنہائیوں کے ان لمحات میں ہدہد اتنا رزق لیتا ہے جس سے اس

 کی جان بچ جائے اور ایسی حالت میں اسے باآسانی پکڑاجاسکتا ہے

ہد ہد  اپنی افزائش نسل کس طرح کرتے ہیں- جب ایک میل ہد ہد کو اپنی افزائش نسل کی خواہش ہوتی ہے تب وہ اپنے لئے ایک

 مادہ ہد ہد کو تلاش کرتا ہے جب مادہ مل جاتی ہے -ہد ہد اپنی مادہ کو کھانےوالی کوئی چیز پیش کرتا ہے۔،اگر مادہ وہ چیز کھا لےتو اس کا

 مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ شادی کے لیے راضی ہے۔ پھر نر ہد ہد مادہ کو اپنے گھونسلے میں لے کر جاتا ہےجواکثر اوقات

 کسی درخت میں سوراخ کرکے پہلے سے بنایا ہوتا ہے۔اگر مادہ کو یہ گھونسلہ پسند آ جائے تو پھر دونوں رشتہ زواج میں منسلک ہو

 جاتے ہیں -مادہ ہدہد چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد نر اور مادہ دونوں ہی بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی

 ذمہ داری نبھاتے ہیں تقریبا تین سے چار ہفتوں کے دورا بچے اپنے گھونسلوں سے باہر آجاتے ہیں پوری طرح خود مختار ہونے کے

 لئے مزید دوہفتے والدین کی زیر نگرانی رہتے ہیں ہد ہد کو درختوں میں سورخ کرنے کی ایک خاص مہارت رکھنے والا ایک خاص

 جانور تصور کیاجاتا ہےکی درختوں میں سوراخ کرنے کی تین وجوہات ہیں ایک تو وہ انڈے دینے کے لئے اپنی رہائش کاانتظام

 کرتاہےاس کی اڑان اونچی نہیں ہوتی لیکن شکاری پرندوں سے بچنے کے لیے یہ آسمان کی انتہائی اونچائی میں بھی اڑ سکتے ہیں۔ یہ

 درختوں کے کٹائو یا دیواروں کے سوراخوں میں رہتے ہیں۔ مادہ چھ تا آٹھ انڈے دیتی ہے۔ ۱۶ تا ۱۹ دن بعد بچے باہر آتے ہیں ان کا

 نر (Male) مادہ اور بچوں کی غذا کا انتظام کرتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی مادہ (Female) ان کو مزید دس دن گرم

 رکھتی ہے تاکہ بچے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کر لیں۔

ہد ہد وہ ایک واحد پرندہ ہے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی بار شادی کرتا ہے۔اور اپنے لائف پارٹنرکے مرنے کے بعد

 اپنی ساری زندگی اکیلے ہی گزاردیتا ہے۔۔ اس پرندے کی ازدواجی زندگی آج کے دور کے انسانوں کیلئے ایک مثال ہے۔کہ عقل

 نہ رکھنے کے باوجود بھی یہ دونوں ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

اور انسانوں کےساری زندگی میں آپس کےجھگڑےہی نہیں ختم ہوتے، جب آپ اپنے ہمسفر کو پا لیں تو پھر اسی پر بس کر دیں اور

 وہ آپ کا ہوجائے اور آپ اس کے ۔دکھ ،سکھ ،بھوک، پیاس،غمی خوشی سب بانٹ کر جئیں۔اس کے علاؤہ اور کوئی آپشن دل و

 دماغ میں نہ رکھیں۔ مادہ ہمیشہ ہر موسم میں عموماً چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے اور پھربچے پیدا ہونے کے بعدباری باری خوراک کا

 بندوست بھی کر لیتی ہے۔ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ اگردونوں میں سے کسی کو بھی خوراک کی کوئی چیز مل جائے تو وہ اسے

 اکیلے نہیں کھاتے، بلکہ دونوں اکھٹے ہونے کے بعد ہی اسے کھا تے ہیں۔ہد ہد پرندے کی چھٹی حس اتنی زیادہ تیز ہوتی ہےکہ وہ

 زمین کے اوپر سے ہی زمین کے اندر پانی کو محسوس کر لیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہدہد سے زیر زمین پانی

 ڈھونڈنے کا کام لیتے تھے۔ہدہد ایک ایسا پرندہ ہے جوہزاروں میل کا سفر رکے بغیر طے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اسی لیے

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے دوسرے ملک ملکہ بلقیس کو خط لکھ کر بھیجا تھا۔

  درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا

 کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ

 سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ 

ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص

 آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ

 انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے

 خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے

 ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں

 پہنچتا۔دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں

ہد ہد قدیم دنیا کا معروف پرندہ ہے۔  تاج اور پروں کی خاص ترتیب کے باعث اس پرندے کی خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔

 جب کبھی یہ پرندہ تنائو میں رہتا ہے یا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کے تاج کے پر عمودی حالت میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی وہ

 سے اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں اور بآسانی زمین پر دوڑ یا چل سکتا ہے۔ یہ چلتے ہوئے بار بار

 اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اور غذا حاصل کرتا ہے‘ بڑے کیڑوں کو چونچ میں لے کر رگیدتا ہے اور اس کا خول علیحدہ کر کے اس کو

 چونچ میں لے کر اچھالتا ہے جو دیکھنے والے کے لیے عجیب دلچسپ منظر ہوتا ہے۔

اس کی چونچ لمبی اور اگلی جانب ہلکی سی مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی آواز میں موسیقیت ہوتی ہے اور اس کا نام خود اس کی آواز کی

 دین ہے کہ اس کی آواز کا Rhythm خود اس کا نام بن گیا ہے۔ ہد ہد کا ذکر سورۃ النمل میں موجود ہے۔ اس کو مرغ سلیماں

 بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ جن کو اﷲ نے ملک شام اور فلسطین پر حکومت عطا کی تھی۔ ان کی

 فوج میں اﷲ نے انسانوں کے علاوہ جنوں اور پرندوں کو بھی شامل کیا تھا۔ ویسے دنیا میں پرندوں کو فوج میں رکھنے کا عام رجحان پایا

 جاتا ہے تاکہ دشوار گزار علاقوں میں اطلاعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک بہ آسانی پہنچایا جاسکے۔ مواصلات کی دنیا میں

 ترقی نے اب ان پرندوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے لیکن بعض ماہرین کے نزدیک محفوظ طریقہ ترسیل آج بھی پرندہ ہی ہے کہ اس

 کے سگنلز کو عام طور پر مقید نہیں کیا جاتا۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو ہد ہد کو غائب پایا

 کیونکہ یہ پرندہ فوج میں ایک اہم منصب پر فائز تھا۔ ہد ہد میں زمین کے اندر بہنے والی نہروں کو پہچاننے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی

 لیے جب کبھی لشکر کسی علاقے میں ٹھہر جاتا تو حضرت سلیمانؑ ہد ہد کو پانی کی تلاش کا حکم دیتے۔ جب یہ پرندہ پانی کی نشاندہی کرتا تو

 لشکر میں موجود جنوں کے ذریعہ زمین کھود کر پانی کو حاصل کیا جاتا۔ شاید لشکر کو پانی کی ضرورت آن پڑی ہو گی اسی لیے حضرت

 سلیمانؑ نے اس پرندے کو یاد کیا اور غیرموجود پاکر حضرت سلیمانؑ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ معقول وجہ نہ بتا سکے تو اس کو سزا

 دی جائے گی۔ کچھ ہی دیر بعد جب ہد ہد واپس ہوا تو اس نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کا واقعہ سنایا۔ یہ ملک جنوبی عرب یعنی آج

 کے یمن کے مقام پر واقع تھا۔ اس کا صدر مقام شہر صنعاء سے ۵۰ کلو میٹر دور ’’معارف‘‘ تھا

۔ ہدہد نے اس ملک کی ملکہ کے تخت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہاں لوگ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ نے ہدہد کی

 سچائی کو جانچنے کے لیے ملکہ سبا کے نام ایک خط بھجوایا۔ یہاں ہر شے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ

 ایک پرندہ کس طرح گفتگو کر سکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ ہدہد ایک آدمی کا نام رہا ہو گا۔ دراصل وہ خدا کی قدرت سے واقف

 نہیں ورنہ جاندار پر کیا موقوف کہ اگر قدرت چاہے تو بے جان بھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے لگیں۔ ویسے اس قدر سائنسی

 ترقی کے باوجود انسان یہ کہنے سے قاصر ہے کہ مختلف جانداروں کی ذہنی صلاحیت کیا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انسان اس بات کا

 بھی اب تک مکمل طور پر اندازہ نہیں لگا پایا کہ کیا جاندار بھی وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ایک انسان سنتا ہے اور ان کا دماغ کس طرح

 کام کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں مختلف سائنسدانوں نے اپنے مسلسل تجربات کے بعد بتایا کہ پرندے باربط گفتگو کرتے ہیں اور ان کی

 زبان کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے انسانی زبان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آلات کی تیاری کا کام جاری ہے

 جو برقی لہروں کی توانائی قابلِ فہم زبان کی لہروں میں بدل سکتے

ہدہدکوعموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔


ہفتہ، 4 مارچ، 2023

جشن نوروز کا قدیم اور حسین تہوار

  ا مریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طورپر منظور کیا گیا، عید نوروز- کو تاریخی اور ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔امرکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، عید نوروز کو ایک تاریخی و ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔یکم مارچ کو منظور کی گئی اس قرار داد میں نوروز کو تین ہزار سالہ قدیمی جشن قرار دیا گیا ہے۔واشنگٹن کی بلدیہ کی قرار داد میں آیا ہے کہ نوروز کا جشن اسلامی جمہوریہ ایران، افغانستان، تاجکستان، آذربائیجان اور دنیا کے دیگر علاقوں کے تیس کروڑ سے زائد لوگ مناتے ہیں۔قاب ذکر ہے کہ ایرانی ہجری شمسی سال کے پہلے دن یا بیس اور اکیس مارچ کو ایران، افغانستان، تاجیکستان، ترکمنستان، عراق، جمہوریہ آذربائیجان اور پاکستان و ہندوستان میں بھی نوروز کا جشن منایا جاتا ہے جبکہ ایران سمیت نو ملکوں میں اکیس مارچ کو اس جشن کے موقع پر عام تعطیل بھی کی جاتی ہے۔

 نوروز کا مطلب نیا دن! عید نوروزتاریخ کے آئینے میں اسے نوروز جمشیدی کہا جاتا ہے. يہ دن فارسيوں كے پسندیدہ تہواروں ميں سے ایک تہوار اور عظيم جشن مانا جاتا ہے۔ كہا جاتا ہے كہ اس جشن كو سب سے پہلے منانے والا شخص فارسيوں كے ہی قديم بادشاہوں ميں سے ایک بادشاہ جمشيد تھے ۔ اور انھیں “جمشاد” ميں سے مانا جاتا ہے-ظاہر ہے اس تہوار کی ابتدا جمشید کے زمانے سے ہوئی ۔ کہتے ہیں کے جمشید اسی دن تخت نشیں ہوا تھا ۔ جمشید کے بعد بھی ایرانی بادشاہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا ۔ خصوصاً ساسانی حکمران اس دن اپنا دربار منعقد کرتے تھے۔ امرا و اراکینِ، بادشاہ سلطنت کے بارگاہ حضور تحفے پیش کرتے اور پھر بادشاہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا کرتے تھے ۔اسی دن صوبوں کے نئے گورنروں کا تقرر کیا جاتا۔ نئے نئے قیمتی و خوبصورت سکے ڈھالے جاتے ۔ آتش کدوں کی صفائی کا بہت ہی خاص اہتمام کیاجاتا ۔ اسی لئے ہی جشنِ جمشیدی تو نوروز کا دوسرا نام پڑا ۔نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’نیا دن‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے

۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ تہوار ہر سال 21مارچ کو منایا جاتا ہے۔ شمسی ماہ کے حساب سے 21 مارچ کو سورج قطر فلک پر اپنا ایک سالہ سفر تمام کرتا ہے اور تمام 12 برجوں سے گزر جاتا ہے۔ 21 مارچ کو 24 گھنٹوں میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب سورج آخری برج سے گزر کر پہلے برج حمل میں داخل ہو جاتا ہے اس وقت کو شرف آفتاب کہا جاتا ہے۔ اس دن کو ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے اور جن ممالک یا علاقوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے وہاں کئی قسم کی مذہبی روایات کا تذکرہ ملتا ہے-تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دریائے نیل اور فرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب نے اپنے بعد آنے والی تمام تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہے۔ نامور مورخ سبط حسن لکھتے ہیں “وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول نوروز کاتہوار جسے اہل عکاد وسومیر ’اکی تو‘ کہتے تھے۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نیسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار ’’تشری‘‘ کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔

۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص و مستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21 مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمدبہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ایرانی کیلنڈر کے مطابق 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرتی ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں کہ ’’نوروز کائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن، وہ عظیم فاتح دن جب ہر ایک مظہر پیدا ہوا‘‘۔ نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔بلتستان کی دستیاب تاریخ کے مطابق یہاں نوروز کا تہوار ہمیشہ سے روایتی  جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 اس حوالے سے یہاں کی قدیم  لوک روایات میں بھی کئی حوالے ملتے ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ چونکہ یہ زرتشت مذہب کے تہواروں میں سے ایک ہے اور بلتستان میں ماضی بعید میں زرتشت مذہب بھی رائج رہا اس لیےتب سے یہ تہوار بلتستان میں رائج چلا آرہا ہے۔ لیکن بعض مورخین کا خیا ل ہے کہ یہ تہوار بلتستان میں ایران سے آیا ہے۔ چودہویں صدی کے دوران بلتستان میں دین اسلام ایرانی مبلغین کی آمد کے بعد آیا اور ان مبلغین نے جہاں بلتستان سے بدھ مت اور اُن سے منسوب روایات اور ثقافت کے خاتمےکے لیے کامیاب جد وجہد کی  وہیں  اس کے ساتھ ایرانی تہذیب و ثقافت کو  بھی یہاں متعارف کرایا  جس کا ایک مظہر نوروز کا تہوار ہے۔ بلتستان کی تہذیب و ثقافت پر ایران کی دیگر کئی روایات کے  گہرے نقوش آج بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ نوروزکا  تہوار در اصل بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جانے والاتہوار ہے۔ اسےایک طرح سے جشن بہاراں کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ کیونکہ بلتستان اور ایران کے موسمی حالات ایک جیسے ہیں، دسمبر سے مارچ کے وسط تک پڑنے والی شدید سردی کے بعد تیسرے ہفتے سے لوگ کاشت کاری سے فارغ ہوجاتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے۔ شدید ترین سردی کے کھٹن اور صبر آزما کئی مہینے گزانے کے بعد جب موسم بہار کی جانب اَنگڑائی لیتا ہے تو اہل بلتستان خوشی کے اظہار کے لئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں اور کئی روز جاری رہنے والی ان رنگا رنگ تقریبات میں محو رہتے ہیں۔نوروز پر بلتستان میں کئی دنوں تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تہوار پر بلتستان میں دوسری بڑی دوعیدوں کی طرح نوروز پر بھی لوگ نئے کپڑےزیبِ تن کرتے  اور گھروں میں انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں۔

 رشتہ دار وعزیر واقارب ایک دوسرے کے گھر عید ملنے جاتے ہیں۔ سی ،او،کی تنظیم میں شامل ملکو ں کو چاہیے کہ جشن نوروز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 21 سے 31 مارچ تک رکن ممالک کے دارالحکومتوں، اسلام آباد، کابل، باکو، تہران، آستانہ، بشکش، دوشنبے، انقرہ، اشک آباد اورتاشقند میں مشترکہ ثقافت کی بنیادپر مل کر روزانہ پروگرام کریں، جشن نوروز کے معنی نئے دن یا دنوں کے ہیں یوں اگر21 مارچ سے 31 مارچ 2018 ء میں یا آئندہ سال جشن نوروز میں یہ ممالک اپنے اپنے ملکوں میں ویزوں کی پابندی ختم کرد یں، اپنے اپنے ملکوں کی فضائی کمپنیوں کے ٹکٹوں پر ٹیکس کی چھوٹ دیں تو ان ملکوں کی چالیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے لاکھوں افراد مشترکہ تہذیب ،ثقافت ، اور تاریخ کے حامل ملکوں میں ایک دوسرے سے آسانی سے مل سکیں گے، اور یورپ کی طرح یہ بھی آج کے زمانے میں جنگوں کی بجائے امن وآتشی ، دوستی و اخوت کے رشتوں کو مضبوط کر سکیں گےپاکستان کا بیشتر علاقہ موسمیاتی،جغرافیائی اور ماحولیاتی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ملکوں بھار ت،بنگلہ دیش،سری لنکا وغیرہ سے بہت مختلف ہے اس لیے یہاں کیثقافت،تہذیب وتمدن، ادب سب ہی بھارت ، بنگلہ دیش سے مختلف ہیں اور اگر ان میں کچھ چیزیں مشترکہ دکھائی دیتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ وہ تاریخ ہے جس میں حملہ آور فاتحین افغانستان، ایران اور سینٹر ل ایشیا سے آئے اور پھر برصغیر پر تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ ہندوستان میں تین موسم ہوتے ہیں جن میں موسم گرما ،جاڑا یعنی موسم سرما اور برسات، ہزاروں برس سے برسات کو موسم بہار کی طرح ہندی،بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں کی شاعری میں پیش کیا جاتا ہے، اور جہاں تک تعلق موسم بہار اور خزاں کا ہے تو ان کا ذکر فارسی شاعری سے ہندوستان میں آیا اور اپنے ساتھ غزل سمیت شاعری کی دیگر اصناف کو بھی لایا، 

ان میں سے کچھ پہلوئوں پر تحقیقی اعتبار سے معروف دانشور،ماہر قانون اعتزاز احسن نے اپنی کتاب سندھ ساگرمیں لکھا ہے۔ہمارے ہاں بلوچستان کے سرد علاقوں گلگت ،بلتستان،آزاد جموںوکشمیر،خیبر پختونخوا کے بیشتر اور سرد علاقوں میں چار موسم بہت واضح طور پر اور پوری شدت اور اپنے مناظر کی پہچان کے ساتھ آتے ہیں۔ موسم گرما جو سرد علاقوں میں خوشگوار اور فرحت بخش ہوتا ہے جو ن ، جولائی اور اگست کے تین مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے بعد موسم گرما ڈھلتا ہے خوبانی، زرد آلو،آڑو، بادام ،چیری ، ناشپاتی، سیب ، پستہ،انار، شنے، جنگلی زیتو ن، سنجداور سایہ دار درختوں میں چنار، عیش، چنبیلی، اور دیگر درختوں کے سبز پتے ہلکی ٹھنڈی خشک ہوائوں کے چلنے سے اپنے رنگ بدلنے لگتے ہیں اور مختلف درختوں کے پتوں کے سائز اوراُن کی سا خت کے لحاظ سے خزاںکا یہ عمل ستمبر سے شروع ہوتا ہے اور نومبرکے وسط تک مکمل ہوتا ہے۔پندرہ اکتوبر تک یہ موسم رنگوں کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ مختلف درختوں کے پتے سرخ ، نارنجی،کاسنی، ملگجی ،گلابی ، سرمئی، دھانی اور زرد رنگوں میں نظر آتے ہیں عموما یکم نومبر سے یہ پتے سرد اور تیز ہوائوں سے گرنے لگتے ہیں اور وادیوں، باغات اور جنگلوں میں روز ہی یہ زمین پر چادر کی طرح پھیلے ہوتے ہیں اور اب چرواہے نہ صرف اپنے ریوڑ یہاں چراتے ہیں بلکہ روز گرنے والے ان پتوں کو بڑی بڑی بوریوں میں بھر بھر کر لاتے اور اسٹور کرتے ہیں، پندرہ نومبر تک اکثر درخت پتوں سے بالکل خالی ہوجاتے ہیں ماسوئے صنوبر اور ایسے صدابہار درختوں کے جن کے پتے سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔اب ان تمام پہاڑی اور سرد علاقوں میں جو ہمارے خطے کے اعتبار سے ایران، افغانستان، کرغیزستان، آذربائجان، ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان، ترکی، عراق، شام، مصر، فلسطین وغیرہ پر مشتمل یہاں ان سردعلاقوں میںزندگی مشکل سے مشکل تر ہونے لگتی ہے۔

 کھیتوں اور باغات جہاں صرف موسم گرما میں ایک ہی فصل ہوتی ہے اور اس کا پیداواری موسم خزاں کے آغاز پر ختم ہوجا تا ہے اور اب صرف اور صرف بھیڑوں کے ریوڑ ہوتے ہیں اور وادیوں میں گھاس اور جھاڑیاں بھی خشک ہوتی ہیں۔ اب شدید سردموسم کی تیاریاں ہوتی ہیں، بھیڑوں کی اُون سے بنے قالین اور رضائیاں باہر نکل آتی ہیں۔خشک لکڑیاں اور معدنی کوئلہ اسٹور کیا جاتا ہے، نر اور جوان بھیڑوں کو ذبح کرکے الائش نکال کر ان کی کھال پر سے بال صاف کرکے ان ہی علاقوں میں خودرو پیدا ہونے والی ہینگ اور نمک لگا کر ان سالم دمبوں، بھیڑوں کو سایہ دار جگہ پر خشک کیا جاتا ہے، یہ سب عمل زیادہ تر ان ملکوں کے دیہی علاقوں میں ہوتا ہے، پھر نومبر کے وسط سے سردی شروع ہوتی ہیاور خصوصا ً برفباری اور شدید برفباری میں ہر طرف ہر شے برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے۔ اب اگر برف کی تہہ زیادہ موٹی ہو تو چرواہے گھروں سے نہیں نکلتے کہ ان کی بھیڑوں کے منہ اس برف کے نیچے دبی خشک گھاس تک نہیں پہنچتے۔ اب وہ اپنے دیہاتوں میں گھروں کے بڑے صحنوں یا باڑوں پر وہی خشک پتے ان مال مویشیوں کو کھلاتے ہیں جو انہوں نے موسم ِ خزاں میں جمع کیے تھے، سردی زیادہ ہوتی ہے تو وہی خشک گوشت،جسے ہمارے ہاں،لاندی، کہا جاتا ہے ’عالمی یوم نوروز‘ کا مقصد قدیم ترین تہذیب کو زندہ رکھنا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے 21 مارچ کو نوروز ڈے قرار دیے جانے کے بعد اب ہر سال دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان میں جہاں پارسی کمیونٹی نے ’نوروز‘ کو 20 مارچ کو مذہبی انداز میں منایا، وہیں 21 مارچ کو اسے عالمی یوم نوروز کے طور پر منانے کے انتظامات کیے گئے۔

علی ابن خانس نے روایت کیا ہے کہ نوروز کے دن، میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام (ع) نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، یہ وہ دن ہے جسے ایرانی بہت اچھا سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔ تو امام نے کہا: میں تمہیں اس کی وجہ بیان کروں کرنا ہوں؛ جو کہ بہت پرانی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ بات آپ سے سیکھتا ہوں تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمنوں کا قلع قمع ہوجائے۔تو انہوں نے فرمایا: اے معلی! نوروز کا دن وہ دن ہے جب خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شراکت نہیں کریں گے اور انبیاء اور ائمہ (ع) پر ایمان لائیں گے۔ نوروز پہلا دن ہے جب سورج طلوع ہوا تھا اور اچانک ہوا چل رہی تھی اور اس دن زمین کا تارا پیدا ہوا تھا .

.. نوروز کا دن وہ دن ہے جب علی (ع) نے نہروان میں خارجیوں کو قتل کیا تھا۔ اس دن زمین کے پھول پیدا ہوئے تھے۔ اسی دن نوح علیہ السلام کا کشتی پہاڑ جودی پر اترا تھا۔ یہ وہی دن ہے جب جبریل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے۔ اسی دن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا تھا۔ اسی دن ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی (ع) کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قریش کے بتوں کو اکھاڑ پھینکا ... ایسے ہی دن  حضرت مہدی (ع) حاضر ہوں گے اور ہمیں ایسے ہی دن انکے ظہور کی توقع ہے، کیونکہ نوروز ہمارا اور ہمارے شیعوں کا ہے۔ نوروز سفر اور کھیتی باڑی اور ضروریات کی تلاش میں بہت اچھا ہے، اس دن شادی کرنا بہت مناسب ہے۔(١) اس کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ شیخ طوسی اور دوسرے بعد کے لوگوں نے نوروز کے لئے خصوصی اعمال بیان کیے ہیں، ان میں: غسل، روزہ ، نماز وغیرہ شامل ہیں (٢)یہ بھی روایت ہے کہ احمد ابن فہد حلی رحمة اللہ علیہ  کتاب مہذب البارع میں فرماتے ہیں کہ: نوروز ایک عزیز اور اعلی درجہ کا دن ہے۔ (٣)  مرحوم سید مرتضیٰ، علامہ بہاءالدین علی ابن حمید نے معلی ابن خنیس کا حوالہ دیتے ہوئے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا کہ: نوروز وہ دن ہے جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے لئے غدیر میں ایک معاہدہ کیا اور اپنے بعد انہیں امام مقرر کیا۔۔۔ ،اور کوئی نوروز نہیں گزرتا ہے مگر یہ کہ ہم اس دن قائم آل محمد علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہوتے ہیں اور نوروز ہمارے دنوں میں سے ایک ہے۔ (4حاجی شیخ عباس قمی رحمة اللہ علیہ ، قیمتی کتاب مفاتیح الجنان کے گیارہویں باب میں ، نوروز کے لئے مخصوص اعمال لے کر آئے ہیں ، جن میں: دعا ، متعدد دعائیں اور صدقہ کرنا ہے۔ انہوں نے چھٹے امام علیہ السلام سے یہ بھی روایت کیا کہ جب نوروز آئے تو غسل کریں اور اپنا صاف ستھرا لباس پہنیں اور بہترین خوشبو سے اپنے آپ کو خوشبو عطا کریں۔ اس دن کے پروگراموں میں ہمدردی ، مریضوں ، مذہبی رہنماؤں ، اسکالرز اور والدین سے ملاقات شامل ہیں۔  

 

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

ہجرت کا پر مصائب سفر طے کرنے کے بعد جب ہم اپنے تنکوں سے بنے آشیانے میں بیٹھے اس کے بعد میری بسم اللہ کا وقت آیا تب والدہ کے نزدیک میری تعلیمی زندگی کی ابتداء کے لئے ہر بات ثانوی ہو گئ اور میری بسم اللہ کوفوقیت ہو گئ میری والدہ اکثر کہتی تھیں جس نے قران دل لگا کر پڑھنا شروع کیا سمجھ لو علم اس سے خود دوستی کرنے کا خواہا ں ہو جاتا ہے-،مجھے یاد ہے گھر میں ایک خاص چہل پہل سی ہو رہی تھی اور پھر سہ پہر کے وقت پنجتن پاک کی نذراورمرحومین کی فاتحہ بھی بسم اللہ سے پہلے ہی دی گئ تھی،،مجھے میری پیاری امّی جان نے اپنے ہاتھوں سے سموکین کے کڑھے ہو ئے گلے اور پف والی آستینو ں کی فراک زیب تن کی اور پھر میرے والد مرحوم جو خود بڑے ہی علم دوست انسان تھے ان سے کہا آئے بچّی کو بسم اللہ پڑھا دیجئے،
مین تخت پر بچھی اجلی چاندنی پر جا کر بیٹھی اب گھر کے سارے افراد بلا لئے گئے اور تخت پر بھی جگہ نہیں رہی باقی بھی تخت سے نزدیک ہی رہے اور امّی جان نے میرے سامنے اپنے ہاتھ کے کاڑھے ہوئے کار چوبی گلابی تکئے پرعربی قاعدہ رکھ کر اس کا پہلا صفحہ کھولا اور میری انگشت شہادت پکڑ کر حرف الف پر رکھّا ،اور والد صاحب نے مجھے پورے الف تا ے حروف پڑھائے ،اور پھر دعائیں مانگیں جن میں میرے حصول علم کی دعاء اہمیت کی حامل تھی-پھر والد صاحب نے مجھے اپنے ہاتھ سے امّی جان کی تیّار کی ہوئ خوشبودار کھیر کھلائ اور دعا دی اور اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نقد رقم بھی ہاتھ پر رکھّی- یہ میری بچپن کی زندگی کا خوبصورت اور یادگار دن تھا ،اس دن کے بعد میری امّی جان میرے لئے بھی ا یک ملتانی مٹّی سے نفاست سے لیپی ہو ئ تختی تیّار کرنے لگیں یہ ہمارے گھر کا دستور تھا کہ جب بچّے کی لکھائ میں پختگی محسوس کی جاتی تب وہ تختی کی لکھائ سے برئ الذّمّہ کیا جاتا تھا ،اگر اس سے پہلے وہ کبھی تختی لکھنے پر چوں چرا کرتا تو امّی جان ناراض ہو کر کہتیں ،پہلے اپنی لکھائ میں پختگی پیدا کرو تب ہی تختی چھوٹے گی ،

والدہ گرامی کی اس وقتی سختی نے ہم سب بہن بھائیو ں کی لکھا ئ کو بہت اچھا رنگ دیا اور ہم سب بہن بھائو ں نے اچھّے رسم الخط کو اپنی زندگی مین شامل کر لیا جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہو- اس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے-

 یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیااس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرے-خیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھا-میری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل گئ- اس زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایا- اللہ پاک ھم سبکو آزمائش سے ھر بری گھڑی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین

 تختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے اس وقت کہ فرستوں کی ضرورت نہیں تھ۔فرست ہوتی ہی نہیں تھی ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اورتختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اور حلاوت تھی جو آج خوابوں میں بھی نصیب نہیں-

 اب میں قلم کہانی کے اختتام پر اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ دیویزن پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-

جمعہ، 3 مارچ، 2023

جمیل الدین عالی-جیوے 'جیوے پاکستان

 

 

 

 

 

پاکستان سے محبت، اتحاد اور اتفاق سے مل جل کر رہنے کا پرچار کرنے والے، امن اور سلامتی کا درس دینے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے نوجوان نسل میں‌ جذبہ حب الوطنی اور جوش و ولولہ پیدا کرنے والے ادیبوں کا ذکر کیا جائے تو جمیل الدین عالی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے-کسی نے کیا خوب کہا ہے -تخلیقیت انسان کا ایسا وصف ہے جو نہیں مرتا۔ جسے پیشگی بھی ہے اورپائیداری بھی ۔تو یہ بات تو جمیل الدّین عالی کی شخصیت پرپوری اترتی ہے-عالی جی نے  اپنے گیتوں میں اپنے لہجے کی چاشنی اور جذبات  کی نغمگی کا وہ امتزاج رکھّا کہ انہیں پڑھنے والا اور سننے والا دونوں ہی ان کے اسیر ہو گئے-جن کے ملّی نغمات ہمارا سرمایہ ہیں۔جمیل الدین عالی پاکستان سے محبت کا پرچار اور اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے جو ملّی نغمے لکھے انھیں‌ لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی

ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور دہلوی میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان تقریب ڈاکٹر حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر، خطاط اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم انجم اور آصف علی نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری، حسن وقار گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل تھے۔ ڈاکٹر مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالی جی دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین عالی کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے اوجھل ہیں۔ ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری میں ایک سنگ میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ شاعری کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ عالی جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا ہے جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے کلمات تشکر ادا کئے۔

۔ یہاں ہم ان کے چند مقبولِ عام نغمات کا ذکر کررہے ہیں جنھیں‌ آپ نے آج بھی جشنِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے دوران یا اپنے گھروں میں‌ ٹیلی ویژن پر سنا ہو گا۔جیوے… جیوے… جیوے پاکستان 'پاکستان، پاکستان جیوے پاکستان…یہ ملّی نغمہ جیسے ہر دل کی دھڑکن اور ایک ایسی دُعا بن گیا جو ہر لب پر جاری ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم، زندہ و پائندہ رہے۔ 90 کی دہائی میں‌ جمیل الدین عالی کا یہ نغمہ ملک کی فضاؤں میں گونجا اور دنیا بھر میں ہماری پہچان بن گیا۔پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر قوم نے جذبات اور امنگوں سے بھرپور ایک ترانہ سنا اور یہ بھی بچے بچے کی زبان پر جاری ہو گیا۔س کے بول تھے: ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں…سندھ کے لوک فن کار علن فقیر کی آواز میں‌ یہ ملّی نغمہ بہت مشہور ہوا جس کے بول ہیں: اتنے بڑے جیون ساگر میں‌، تُو نے پاکستان دیا….اس گیت کے خالق بھی جمیل الدین عالی ہیں اور جب 1965 میں‌ دشمن نے ہمیں للکارا تو جرات و بہادری اور سرفروشی کی تاریخ رقم کرنے والے سپاہیوں تک جمیل الدین عالی نے قوم کے جذبات ان الفاظ میں‌ پہنچائے:اے وطن کی سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں…

عالی صاحب بیوروکریٹ تھے جب کہ انہوں نے سیاسی میدان میں بھی کچھ عرصہ طبع آزمائی کی۔ وہ وزارت تجارت سے بھی وابستہ رہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ ٹیکسیشن کا حصہ بھی رہے۔جمیل الدین عالی نے درجنوں ملی نغمے لکھے اور ایک سے بڑھ کر ایک لکھے۔ جیسے، جْگ جْگ جیے میرا پیارا وطن، جیوے جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو، اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد۔۔ تاہم جو ملی نغمہ ان کی پہچان بنا وہ ’جیوے جیوے پاکستان‘ تھا۔جمیل الدین عالی 'پاکستان رائٹرز گلڈ' کے اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے بھی وابستہ رہے اور ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جن کا مجموعہ ’ دعا کرچلے‘ اور ’صدا کرچلے‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔جمیل الدین عالی جس طرح ملی نغموں میں سب سے برتر رہے وہیں دوہوں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ یہ ان کا خاص میدان طبع تھا اور اس کے وہ بے تاج بادشا ہ تھے۔جمیل الدین عالی نے1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقے این اے 191 سے انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔انہیں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات پر ”ہلال امتیاز“ اور” تمغہ حسن کارکردگی“ سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا۔-جمیل الدین عالی کے لکھے گئے مشہور ملی نغمے آج بھی لوگوں کے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔بیس جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کا نام کسی تعریف کا محتاج نہیں،جن کے لکھے گئے خوبصورت ملی نغموں میں شہناز بیگم کی ایواز میں گایا ہوا جیوے جیوے پاکستان، نصرت فتح علی خان کی ایواز میں "میرا انعام پاکستان،"،،،نور جہاں کی آواز میں "اے وطن کے سجیلے جوانوں"،مہدی ظہیر کی آواز میں "ہم مصطفٰوی مصطفٰوی ہیں"،علن فقیر کی آواز میں "اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا"اور نئیرا نور کی آواز میں "جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان" کو نہ صرف پزیرائی ملی،بلکہ یہ نغمے آج بھی ہر عمرکے لوگوں کی زبان پر نقش ہیں۔جیوے جیوے پاکستان اور ایسے ہی کتنے ملی اور قومی نغموں کے خالق ،اردو کے محسن، ادب میں تہذیب کی روایت امین اور شعر سے عشق کرنے والے جمیل الدین عالی تئیس نومبر کو کراچی میں لگ بھگ نوے سال کی عمر میں وفات پا گئے اور چوبیس نومبر کو انکی نماز جنازہ کراچی میں ادا کر کے احباب نے انکو اسی مٹی کے حوالے کر دیا جس کے خمیر سے خالق نے انکو گوندھا تھاعالی جی نے یوں تو ساری عمر سرکاری نوکری کی لیکن سرکاری رعب اور سرکاری بدعنوانی ان پر غالب نہ آ سکی، وہ پاکستان کی سینٹ میں سینٹر بھی بنے لیکن سیاسی مکروہ پن سے دور رہےنقاد ، دانشور ، شاعر ، کالم نگار اورادیب کے طور پر انہوں نے اپنی الگ شان اور منفرد مضبوط ادبی حثیت کو منوایا ،وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے  کم عمری میں والد کا انتقال ھوگیا تھا اس لیے انکی والدہ عالی جی سے بہت پیار کرتی تھیں اور اب باری آگئ اللہ کی بارگاہ میں  حاضری عالی جی کی ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور دہلوی میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان تقریب ڈاکٹر حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر، خطاط اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم انجم اور آصف علی نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔

محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری، حسن وقار گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل تھے۔ ڈاکٹر مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالی جی دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین عالی کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے اوجھل ہیں۔ ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری میں ایک سنگ میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ شاعری کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ عالی جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا ہے جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے کلمات تشکر ادا کئے۔

جمعرات، 2 مارچ، 2023

پاکستان میں بیروزگاری کی عفریت

   میری نظروں کے سامنے ایک چونکا دینے والا منظر تھااسلام آباد پولیس فورس کے تحریری امتحان میں شرکت کرنے والے سال 2022ء کے آخری روز،اسلام آباد پولیس فورس میں کانسٹیبل (بی ایس-07) کی اسامیوں کے لیے تحریری امتحان منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے 30 ہزار سے زائد مرد اور خواتین امیدواروں نے شرکت کی۔جس اسٹیڈیم میں یہ امتحان ہوا وہ اس طرح بھرا ہوا تھا گویا وہاں فٹ بال کا میچ شروع ہونے والا ہو۔ یہ 30 ہزار سے زائد افراد صرف ایک ہزار 667 اسامیوں کے لیے امتحان دے رہے تھے۔ اسٹیڈ یم میں  جگہ بھر جا نے  کے بعد سیکڑو ں امیدوا ر ذمین پر بیٹھے دکھا ئ د ے رہے ہیں -اس ملازمت کے لیے نشستیں اوپن میرٹ پر مختص کی جاتی ہیں جبکہ علاقائی کوٹے میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مزید تقسیم کی جاتی ہے۔ 

امتحان میں شرکت کرنے کے لیےامیدواروں کا میٹرک پاس ہونا شرط ہے۔ اگر وہ جسمانی امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ہی انہیں شارٹ لسٹ کر کے تحریری امتحان کے لیے بلایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر اسامی کے لیے جسمانی امتحان کی شرط نہیں ہوتی تو امتحان میں بیٹھے امیدواروں کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس مواقع کتنے محدود ہیں اور انہیں کیا مسائل درپیش ہیں۔خواتین اور مخنث افراد کو ملازمت کے حصول میں خاص رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ثقافتی اور قانونی دفعات ان لوگوں کے لیے جائیداد کی ملکیت اور کاروبار شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم حکومت نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے چند ٹیکس اقدامات بھی متعارف کروائے ہیں۔مثال کے طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کےدوسرے شیڈول کی شق 19 فنانس ایکٹ 2021ء کے ذریعے یہ سہولت دیتی ہے کہ خواتین کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار کے منافع پر ٹیکس ادائیگی کو 25 فیصد تک کم کیا جائے۔ تاہم ٹیکس میں کمی کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کاروبار ایک اسٹارٹ اپ ہو جو یکم جولائی 2021ء کے بعد شروع کیا گیا ہو۔ مزیدبرآں اس شق سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کاروبار کو کسی دوسرے کے نام پر منتقل کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کی تنظیمِ نو ممنوع ہے۔۔

پاکستان کو اس وقت جن بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کے بارے میں تجربہ کار ماہرینِ اقتصادیات، سابق وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنرز میڈیا میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ تاہم روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اس وقت قرضوں کی ادائیگی، معاشی اتار چڑھاؤ اور دیوالیہ ہونے کے خطرے جیسے بڑے اقتصادی مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں نجی شعبہ ہی روزگار کے حوالے سے پائیدار حل پیش کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقے نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں جس میں نجی شعبہ ترقی کرسکے۔لیکن کچھ انفرااسٹرکچر اور ریگولیٹری رکاوٹیں نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے۔پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان میں شاید نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں میں مہارت کی عدم مطابقت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انہیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بناسکے--آسان ٹیکس شرائط کے علاوہ کاروباری خواتین کو تربیت اور مشاورت کے ذریعے کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے آگہی بھی دینی چاہیے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقےسے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انہیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنہیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلےسے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔

سال 2021ء میں پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے میں بےروزگاری مں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے لیے امیدواروں کے ہجوم نے بھی اسی رجحان کی عکاسی کی ہے۔حکومت کے پاس موجود اعدادوشمار کے ذریعے مسائل کی شناخت کرکے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے انسانی سرمایہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آڈیولپمنٹ اکانومکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور ڈائریکٹر درِنایاب کی تحقیق ’پاکستانز اپورچنیٹی ٹو ایکسیل: ناؤ اینڈ دی فیوچر‘ میں لیبر فورس سروے کا بغورجائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بےروزگاری کی شرح 31 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کم جانب اشارہ ہے۔  

ملک کی گرتی ہوئی معیشت، کمر توڑ مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دوبارہ سر اٹھاتے دہشتگردی کے عفریت کے پس منظر میں ملک میں   سیاست کی جارہی ہے  ۔اقتدار کے حصول کی کوشش سیاست کا ایک لازمی جز ہے کیونکہ سیاستدان اور ان کی جماعتیں ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد ہی اپنے وعدوں کو پورا کرسکتی ہیں اور اپنے منشور پر عمل درآمد شروع کرسکتی ہیں لیکن یہ کوشش جمہوری اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے اور اسے زمینی حقائق سے الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ماہرِ تعلیم فیصل باری نے جمعے کے روز ڈان میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ لوگوں کو کس طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور یہاں تک کہ ماضی میں جو طبقات معاشی بدحالی سے محفوظ تصور کیے جاتے تھے وہ بھی ان مشکل معاشی حالات کے اثرات برداشت کررہے ہیں۔اب تو ماہانہ لاکھ روپے کے آس پاس کمانے والے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں تو سوچیے کہ 30 فیصد مہنگائی میں کم آمدن والے یا بے روزگار افراد کا کیا حال ہوگا۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس دور میں 4 لوگوں کا خاندان کم از کم ماہانہ آمدن سے دوگنے یعنی 50 ہزار روپے میں بھی کس طرح گزز بسر کرسکتا ہے (میں اور آپ دونوں ہی یہ بات جانتے ہیں کہ کئی لوگ اس کم از کم تنخواہ سے بھی کم کماتے ہیں)۔ ان لوگوں کو گھروں کے کرائے، پانی، بجلی، گیس کے بل اور بچوں کے اسکول کی فیسیں دینی ہیں اور پھر انہیں گھر والوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑتی  ہے -موجودہ حکومت نے عوام کو خون کے آنسو رلائے ہیں  

 لوگ بتا رہے ہیں کہ انہیں کم کرائے کے گھروں میں منتقل ہونا پڑا اور اپنے بچوں کو نسبتاً سستے اسکولوں میں داخل کروانا پڑا لیکن پھر بھی ان کا گزارا مشکل سے ہی ہورہا ہے۔۔افراطِ زر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہے کہ معاشی اعتبار سے نچلے طبقے کے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی اسکیموں کے تحت دی جانے والی براہِ راست نقد سبسڈی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ یہ معمولی نقد رقم کتنے دنوں تک ایک غربت زدہ خاندان کے لیے صرف کھانے کا انتظام بھی کرسکے گی۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی رہنما چاہے ان میں وہ لوگ ہوں جنہیں بدعنوان کہا جاتا ہے یا پھر وہ جن کے پاس ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے، ایک دوسرے کے خلاف اپنی متعصبانہ روش کے ساتھ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسا اس دوران بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے گوچی جوتوں، ییزی ٹرینرز اور برکن ہیڈ بیگ جیسی مہنگی اشیا اور 40 ایکڑ پر بھیلی جائیداد کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ کفایت شعار سیاستدان بھی ایس یو ویز میں سفر کرتا ہے ۔ تو یہ بات درست ہے کہ یہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کو کسی اور طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غریبوں کو نعرے لگانے والوں کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ اس نظام کو ملک کی سول ملٹری اشرافیہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تیار کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ جبکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ایک پریشانی سے نکلتے ہیں تو دوسری پریشانی ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور وہ ایک سے دوسرے دن تک پہنچنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔معلوم نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے آرام دہ مقامات سے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن صورتحال تیزی سے ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے یا پھر ہوگئی ہے۔ سراسر نرگسیت سے لے کر مادی لالچ اور شان و شوکت تک جو کچھ بھی ہمارے لیڈروں کو متحرک کرسکتا ہے، اب انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بنیادی تنظیمِ نو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور یہ کہ کرائے کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ کے دن ختم ہوچکے ہیں۔

اب اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ساتھ بیٹھنے اور معیشت کے بحالی کے اقدامات پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کرنا ہوگا جس سے ترقی میں اضافہ، روزگار کے مواقع بڑھیں، برآمدات میں اضافہ ہو اور ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ہو جو ہماری اکثر مشکلات کی وجہ ہے۔کسی بھی معاشی پالیسی کا اوّلین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا

-

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر