جمعہ، 17 فروری، 2023

بولتی تہذیب کا درخشاں باب ضیاء محی الدّین بھی رخصت ہو گئے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا 
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے 

امجد اسلا م امجد کے بعد ضيا ءمحي ا لد ين بھی چل بسے ضیاء محی الدین 20 جون 1933ء کو آ ج کے فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان روہتک (ہریانہ) سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری آپ وہ واحد ادبی شخصیت تھے جن کےپڑھنے اور بولنے کے انداز کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اردو طنزو مزاح کے بادشاہ مشتاق احمد یوسفی نے ضیاء محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ضیاء اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے، برطانیہ میں 1960ء میں عالمی شہرت یافتہ ادیب ایڈورڈ مورگن فوسٹر کے مشہور ناول ”A Passage to India“ پر بنے اسٹیج ڈرامے میں ضیاء محی الدین صاحب نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اس ڈرامے میں ایسی شاندار اور باکمال پرفارمنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے،

 اس کے علاوہ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ”ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو، ڈیتھ آف اے پرنسس، دی جیول پرائڈ، ان دی کرائون اور فیملی“ سرفہرست ہیں ،ضیاء محی الدین نے اپنے فلمی سفر کا آغام 1962ء میں ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ کلاسیکی فلم ”لارنس آف عریبیہ“ سے کیا تھا اس فلم میں انہوں نے عربی بدو کا کردار ادا کیا جسے عمر شریف اس بنا پر گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے کیوں کہ وہ غلط کنویں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ انھوں نے اس فلم میں مختصر کردار ادا کیا لیکن یادگار پرفارمنس دی ان کی مشہور انگریزی فلموں میں ”خرطوم، دی سیلر فرام جبرالٹر، بمبئے ٹاکی اور پارٹیشن‘‘ بھی شامل ہیں،1969ء اور 1973ء میں انہوں نے پی ٹی وی سے ایک اسٹیج شو ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ کا آغاز کیا اور بطور میزبان ایسی پرفارمنس دی کہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 

اس پروگرام کے ذریعے انہوں نے اردو ادب کی توجیح و تشریح اورپاکستانیوں میں اردو زبان سے محبت بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے قوم کو احساس دلایا کہ اردو زبان دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے جس کے لہجے میں الہامی کیفیت ہے، اسی لیے ضیاء محی الدین کو اردو زبان کا سب سے حسین و دلکش لہجہ کہا جاتا تھا اس شو کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اختتام پر وہ ایک منفرد ڈانس کیا کرتے تھے، جو شائقین کے دلوں کو بہت بھاتا تھا اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں چچا چھکن پائل، ، ضیاء کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں ،انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلسفی مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس انداز میں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی ضیاء محی الدین نے دو کتابیں ”دی گاڈ آف مائی ایڈولیٹری“ اور ”اے کیرٹ از اے کیرٹ: میموریز اینڈ ریفلیکشنز“ بھی تخلیق کی تھیں،تھیٹر کی باقاعدہ تربیت کی وجہ سے ضیا محی الدین آواز کے زیر و بم اور کسی تحریر یا مکالمے کے مطابق آواز کو ڈھالنے کا فن جانتے تھے۔ وہ ادارکاری کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی ادب کے خوش ذوق قاری تھے۔ ضیا محی الدین نے ادب سے انتخاب کرکے انہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ا

نہیں  پڑھنے سے نہ صرف بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے سامعین کو کلاسیکی ادب کے کئی شاہ کار فن پاروں سے بھی اپنے سامعین کو متعارف کرایا۔ان کی آواز میں خطوطِ غالب، رتن ناتھ سرشار، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، شان الحق حقی، چوہدری محمد علی ردولوی، اسد محمد خاں کے نثر پاروں کو سامعین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔انہوں ںے شاعری میں غالب، میر، اقبال، فیض، ن م راشد، ناصر کاظمی جیسے معروف شعرا کے کلام بھی پڑھا۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی کے فن پاروں کو پڑھنے سے 2003ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور 2012ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا، انہیں پیپلز پارٹی دور میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی اور 2004ء میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا-نیویارک ( اردو نیوز ) پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ صدا کار ہدایت کار، صداکار، اداکاراور دانشور ضیا ءمحی الدین امریکہ میںبسنے والی کمیونٹی میں اپنی بے شمار اور خوبصورت یادیں چھوڑ گئے ۔ ضیاءمحی الدین جن کا 12فروری کو 91سال کی عمر میں کراچی میں انتقال ہو گیا ، اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل امریکہ آئے۔ انہیں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی ایک اہم و نمائندہ تنظیم ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ ( اے پی پیک۔APPAC) کے عید ملن استقبالیہمیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کے لئے مدعو کیا گیا تھا ۔

 ضیاءمحی الدین کے دورہ امریکہ اور APPACکے عید ملن شو میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے شرکت کرنے پر ناہید بھٹی نے کلیدی کرد ار ادا کیا ۔ میریٹ ہوٹل لانگ آئی لینڈ میںمنعقد ہونیوالے عید ملن استقبالیہ میں میں ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ ( اے پی پیک۔APPAC) کے ڈاکٹراعجاز احمد ، ناہید بھٹی اور صبا اعجاز نے ضیاءمحی الدین کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا ۔ اس تقریب میں ضیاءمحی الدین اپنی اہلیہ عذرا محی الدین کے ساتھ شریک ہوئے ۔ ”امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی “ کے ڈاکٹر اعجاز احمد اور ناہید بھٹی کا کہنا ہے کہ ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ نیویارک میں ضیاءمحی الدین جیسی عظیم شخصیت کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا اور ان کی جانب سے بہت ایوارڈ وصول کرکے بہت عزت افزائی کی گئی ۔عید ملن استقبالیہ سے خطاب کے دوران ضیاءمحی الدین نے اپنے مخصوص انداز اور آواز میں اپنا مضمون پڑھ کر سماں باندھے رکھا۔ نیویارک میں 90سالہ ضیاءمحی الدین کو اپنے درمیان پا کر اے پی پیک کے استقبالیہ میں موجود پاکستانی امریکن کمیونٹی کی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور ارکان نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا –خد ا و ند عا لم مغفر ت فر ما ۓ -آمین

۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ



۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک فرد واحدنہیں بلکہ چلتے پھرتے ایک ادارہ تھے ،آپ ایک تنظیم تھے ایک تحریک تھے ،آپ کھلی کتاب تھے جس سے ہزاروں تشنگان علم نے اپنی پیاس بجھائی تھی ،آپ کروڑوں عاشقان رسول کی منزل کی راہ کے چراغ تھے ، آپ فطری و پیدائشی فنافی الرسول ﷺ تھے ،اسی عشق کی بدولت رب کریم نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا ۔آپکے اُصول چٹانوں کی طرح مضبوط ،الفاظ سچ کی طرح روشن عزم غیر متزلزل اور جذبے صادق تھے ،آپ کا کردار قابل تقلید اور گفتار قابل تعریف تھی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی ہر بات عزم و حوصلہ سے مزین تھی ،آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا دین تو حید پروردگار تھا اور ایمان عشق رسول ﷺ کا پرچار تھا ۔ احمد رضا خان نے  محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید سیکھا

 احمد رضا خان نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو احمد رضا خان فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے

 احمد رضا خان نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیر ہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام کو ایک مجدد اعظم کی ضرورت تھی جو رسول اﷲ ﷺ کا سچا وارث بن کر اپنی نورانی کرنوں سے بد مذہبی کی کالی گھٹاؤں کر تتر بتر کر سکے ،جو جلال موسیٰ کا پر توبن کر اﷲ تعالیٰ جل شانہ کی ردائے عظمت میں جھوٹ کا دھبہ لگانے والوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا سکے ،جو حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر قہر کی بجلی بن کر گرنے کے قابل ہو ،جو اپنے زمانے کا امام ابو منصور اور امام ابو الحسن اشعری بن کر ڈارون اور نیوٹن کے فلسفے کا شیشہ چکنا چور کر سکے ،جو ظاہری مسلم رہنماؤں کی پھیلائی گئی نیچریت کا گلا گھونٹ سکے ،جو آفتاب رشد و ہدایت بن کر قادیانیت کی پھیلائی گئی تاریکیوں کو اجالے میں بدل سکے ،

جو اپنے تجدیدی کارناموں سے امت مرحومہ کا دین تازہ کر کے حضور اقدس ﷺ کی سنتوں کو پھر سے زندہ کر سکے اور جو محمد ی کچھار کا شیر بن کر بد مذہب بھیڑیوں کی گردنوں پر اپنے مضبوط پنجے گاڑ سکے ۔اور اﷲ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی کے لئے رسول اﷲ ﷺ کی نظر شفقت کے سبب امام احمد رضا خان کو چن لیا اور ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کا بندو بست فرما دیا 

عنائیت خداوندی کی وہ کتنی ارجمند گھڑی تھی جب رب کریم نے امام احمد رضا خان جیسا مرد قلندر پیدا فرمایا ۔کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر سیلِ رواں بن کر اہل باطل کے مزعومات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور اس کے قلم کی لو سے ڈالا ہوا شگاف ہمیشہ کے لئے دشمن کے سینے کا ناسور بن جائے گا اور پھر کسے معلوم تھا کہ ایک شخص کی محنت رنگ لائیگی اور اسکا ایک ایک لفظ بحر و بر میں پھیل جائے گا اور ایک چراغ کی لو سے ایمان و عقیدت کے شبستانوں میں کروڑوں چراغ جل اٹھیں گے ۔بلا شبہ یہ احسان عظیم ہے اس خالق لوح و قلم کا جس کے دست قدرت میں انسانی اذہان ،زبان اور قلوب کی کنجیاں ہیں کہ اس نے اپنے حبیب مجتبیٰ ﷺ کی حمایت و دفاع میں اٹھنے والے امام احمد رضا خان کو عزت و اقبال کی بلندی بخشی اور اسے قبول عام کا اعزاز مرحمت فرمایا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ملحد ،فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ سر انجام دیا 

۔آپ نے اپنی کتاب ’’مقال العرفاء‘‘ میں قرآن و حدیث و اقوال علماء سے ثابت کیا کہ شریعت اصل ہے اور طریقت اس کی فرع ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا ایک دریا ،طریقت کی جدائی شریعت سے محال و دشوار ہے ۔شریعت ہی پر طریقت کادار و مدار ہے
 ۔شریعت ہی اصل معیار ہے ۔طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے شریعت مطہرہ ہی کی اتباع کا صدقہ ہے جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے 
۔مختصر یہ کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی پوری عمر اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کے سچے دین اور محمد مصطفےٰﷺ کی سنن مقدسہ کی خدمت کی اور جہاں بھی کسی بد مذہب ،بد دین نے سر اٹھایا آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے اسے کچل کر رکھ دیا اور اسکے رد میں کتابیں تصنیف کیں ۔امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ سہ عالی مرتبت شخصیت تھے جو اپنی شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے ۔زور تقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے ۔سیف قلم سے باطل پرستوں کو مجروح و مردہ کرتے رہے ۔آپ نے گلشن عظمت مصطفےٰ ﷺ کو ہرا بھرا بنایا ،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محبت کی ،ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو دوبارہ در نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا آپ دشمنان خدا اور رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے رہے ۔آپ نے اﷲ جل جلالہ کی وحدانیت اور سر کارِ مصطفےٰ ﷺ کی عظمت و حرمت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجایا 
۔آپ نے بڑے بڑے فلاسفروں کو اپنے خدا داد علوم کی تابناک شعاعوں سے چکا چوند کر دیا آپ نے دین مبین کی راہ میں آندھیوں سے تیز اٹھنے والے فتنوں اور سیلاب کی طرح بڑھنے والی گمراہیوں کے سامنے دیوار آہن کا کام کیا ۔آپ اس پر آشوب دور میں میدان عمل میں کود پڑے جب ہزاروں بے درد اسلام کے ہرے بھرے چمن کو اجاڑ دینے کی غلیظ کوشش میں مصروف تھے وہ بد بخت ڈاکو مسلمانوں کا متاع ایمان لوٹنے پر تلے ہوئے تھے ۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے  احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی،   عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے
آپ کے علم کا احاطہ کرنا میرے قلم کی دسترس سے کہیں بالا تر ہے ۔لیکن وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے زمانے میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم موجود نہ تھا ۔ اسی لئے تو بعض چرب زبان مخالفین نے بھی کہا کہ مولانا احمد رضا جس قابلیت و جامعیت کے عالم تھے اس کے پیش نظر سارا زمانہ انکی قدم بوسی کرتا اور انکو پیشوا مانتا مگر انہوں نے عمر بھر سب کا رد کر کے اپنی مقبولیت کو بڑا دھچکا پہنچایا ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ نے جس ملاں میں بھی محمد ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کا عنصر دیکھا اسکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے بد بخت اور ذلیل جانتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ دیا ۔اور یہی باب تو ہم جیسے دیوانوں کے لئے پسندیدہ ہے ۔کیونکہ اگر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم کے ہوتے ہوئے بھی آقا نامدار ﷺ کی توہین اور گستاخی برداشت کرتے رہتے تو پھر ہمارا ان سے کیا واسطہ تھا ۔انکی اسی عادت پر تو ہر غلام محمد ﷺ اپنی جان و ارتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور جو حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کو برداشت کرنے کی منافقانہ صلاحیت رکھتا ہے وہ امام احمد رضا خان سے عداوت اور بغض رکھتا ہے ۔امام احمد رضا خان نے اگر اپنی شہرت اور مقبولیت کو دھچکا پہنچایا تو عین سنت رسول ﷺ پر عمل کیا کیونکہ جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے کفار مکہ کو دعوت اسلام دی اور تمام بت پرستوں کے خلاف آواز حق بلند کی کافروں نے آپ ﷺ سے کہا اگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں اور سب مل کر دولت کے انبار آپ ﷺ کیسا منے لا کر رکھنے کو تیار ہیں ،جس قبیلہ میں آپ ﷺ چاہیں وہاں آپ ﷺ کی شادی کرنے کو تیار ہیں ۔
لیکن ہمارے پیارے نبی آخر زماں ﷺنے کفار مکہ کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور چونکہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ بھی اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے سچے غلام اور عاشق تھے اس لئے آپ نے بھی اپنے زمانے کے باطل پرستوں کی پیش کی گئی سردار ی اور شہرت کو رد کر دیا ۔اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے آپکو نہ صرف یہ کہ علوم دینیہ کا صاحب بصیرت عالم بنایا بلکہ آپ کو اپنے دور کے فقہا و محدثین کا امام اور ارباب فلسفہ و منطق کا اُستاد بنایا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اکابر علمائے اسلام نے آپ کے علم و فضل کا مشاہدہ کر کے تحریر ی گواہی دی کہ شیخ احمد رضا خان بریلوی علامہ کامل ،استاذ ماہر ،فاضل سریع الفقہہ، ہیں ۔مکہ شریف کے فقیہہ جلیل حضرت مولانا سید اسمٰعیل بن سید خلیل نے آپ کے فتاویٰ کے چند اوراق پڑھ کر یہاں تک لکھ دیا کہ :’’بخدا میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے اس فتویٰ کو ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں اور وہ آپ کو اپنے شاگردوں کے طبقہ میں شامل کرتے ۔‘‘(رسائل رضویہ صفحہ258مطبوعہ لاہور )ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا اطباع و ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا ۔(فاضل بریلوی اور ترک موالا ت صفحہ16)
امام احمد رضا خان بریلو ی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم و فضل اور فتویٰ کے معترف چند گنے چنے علماء برصغیر ہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے کثیر علمائے کرام بھی تھے ۔بلکہ انہوں نے آپ کو اپنا سردار اور پیشوا تسلیم کیا ۔مکہ معظمہ سے مولانا شیخ محمد سعید مکی رحمۃ اﷲ علیہ ،شیخ مولانا احمد ابو الخیر میر داد (امام و مدرس مسجد حرام) مفتی علامہ شیخ صالح کمال مکی (مدرس حرم شریف) علامہ شیخ اسعد بن احمد دہان مکی (مدرس حرم شریف) و دیگر 16علماء کرام اور مدینہ منورہ کے مفتی مولانا تاج الدین الیاس مدنی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا عثمان بن عبد السلام داغستانی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا سید احمد جزائری مدنی ،و دیگر 10علمائے کرام نے امام احمد رضا خان کے مجموعہ فتاویٰ ’’حسام الحرمین‘‘ پر دستخط فر ما کر آپ کے علم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنا سردار و پیشوا کہا ۔(بحوالہ امام احمد رضا خان اور ان کے مخالفین مصنف حضرت مولانا بد رالدین قادری مطبوعہ فضل نور اکیڈمی گجرات)
اعلیٰ حضرت نے حدود شریعت میں رہ کر جس جوش اور خلوص سے اپنے آقا سید عالم ﷺ کی عظمت و جلالت کے نغمے گائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ میدان نعت میں آپ کا کوئی حریف و مقابل نہیں ۔آپ نے حضور اقدس ﷺ کے لئے ایسے الفاظ اور ایسے استعارے استعمال کئے ہیں جو انتہائی ادب اور محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں آپ کے نعتیہ کلام کی خوبیاں گنی نہیں جا سکتیں ’’حدائق بخشش‘‘ آپ کی نعتیہ تصنیف ہے جس کا ہر اک شعر عشق مصطفےٰ ﷺ سے سرشار ہے ۔آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حدود شریعت کو ازحد قائم رکھا ہے آپ نے آقائے نامدار ﷺ کی تعریف اور انکا تقابل دیگر انبیاء سے اس طرح کیا ہے کہ باقی انبیائے کرام کا احترام بھی باقی رہا ہے آپ کے اشعار میں مبالغہ تصنع اور بناوٹ کی بجائے خلوص و عقیدت کی ترجمانی ہے ،آپ کے کلام میں قرآن وحدیث کے بعینہٖ کلمات و عبارات یا ترجمے موجود ہیں یعنی آپ کی شاعری کا ماخذ ہی کلام الہٰی اور حدیث نبوی کے مضامین ہیں ۔
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علوم کا تذکرہ میرے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ نے علم تفسیر میں 7،علم حدیث میں 45,عقائد و کلام میں 22،فقہ و تجوید میں 70،علم زیجات میں 7، علم جفر و تکسیر میں 11،جبرو مقابلہ میں 4اوردیگر علوم میں کتب و رسائل تصنیف کئے ،آپ نے عشق رسول ﷺ کی شمع وقت رخصت تک جلا رکھی آپ نے جو آخری مجلس میں وعظ فرمایا اس کی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہیں جن پر ہمیں ضرور عمل کرنا چاہیے آپ نے فرمایا اے لوگو! تم ہمارے مصطفےٰ ﷺ کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو اور بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بہکا ئیں ،تمہیں فتنہ میں ڈالیں اور اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں ان سے بچو اور دُور بھاگو۔
حضور اقدس ﷺ رب العزت کے نور ہیں ۔حضور ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم روشن ہوئے ۔صحابہ کرام سے تابعین عظام رضی اﷲ عنہم روشن ہوئے ،تابعین سے تبع تابعین روشن ہوئے ۔ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ۔ان سے ہم روشن ہوئے ۔اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو ۔وہ نور یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ ﷺ کی سچی محبت ،انکی تعظیم ،انکے دوستوں کی خدمت اور تکریم اور انکے دشمنوں سے سچی عداوت ۔جس سے اﷲ جل شانہٗ رسول اﷲ ﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ۔میں پونے چودہ برس کی عمر سے یہ بتاتا رہا ہوں اور اس وقت پھر یہی عرض کرتا ہوں ،اﷲ تعالیٰ ضرور اپنے دین کی حمایت کے لئے کسی بندے کو کھڑا کر دیگا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لئے ان باتوں کو خوب سن لو ۔حجۃ اﷲ قائم ہو چکی ہے ۔اب میں قبر سے اُٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لئے نور نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت و ہلاکت ہے ۔آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق مصطفےٰﷺ کی دولت سے مالا مال رکھے-
حب اہل بیت آپ کی زندگی میں آپ کے لہو میں موجزن رہا

یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو

شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات

اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر

امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے

صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر

سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن

دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں

عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں

اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے

چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو

یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں

اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط

آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے

رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں

قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے

دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو


اولاد کے حق میں حضرت امام سجاد علیہ السّلام کی دعا

اولاد کے حق میں حضرت امام سجاد علیہ السّلام کی دعا امام سید السّاجدین کے-صحیفہ سجّادیہ جیسی انمول  کتاب کومولا سجّاد علیہ السّلام نے واقعہ کربلا کے بعد اپنی گوشہ نشینی میں مرتّب کیامرتب کیا گیا۔یہ کتاب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی وضاحت پیش کرتی ہے، اگرچہ کتاب دعا کی شکل میں اسلامی علم و فکر کا ایک مجموعہ اصولی ہے۔ صحیفہ سجادیہ بلاغت کی اعلیٰ ترین شکل میں ہے۔ اور اس کے مندرجات، بیان اور تفسیر کی کئی زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں۔اس نادر و نایاب کتاب میں مولا سجّاد نے ۵۲ دعاوں کا خزانہ انسانیت کو دے دیا ہے- ان میں ایک دعا میں مولا اپنی اولاد کے حق میں کس طرح دعائیں مانگنے کا سلیقہ سکھا  رہے ہیں 

آئے ہم بھی پڑھتے ہیں-  نزدیک اولا د کے حق میں دعا کی اہمیت کا اندازہ آ پ کی اپنی دعا سے ہوتا ہے اے میرے معبود ! میری اولاد کی بقا اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کر کے مجھے ممنون احسان فرما۔ اور میرے سہارے کے لیے ان کی عمروں میں برکت اور زندگیوں میں طول دے اور ان میں سے چھوٹوں کی پرورش فرما اور کمزوروں کو توانائی دے اور ان کی جسمانی، ایمانی اور اخلاقی حالت کو درست فرما اور ان کے جسم و جان اور ان کے دوسرے معاملات میں جن میں مجھے اہتمام کرنا پڑے، انہیں عافیت سے ہمکنار رکھ اور میرے لیے اور میرے ذریعہ ان کے لیے رزق فراواں جاری کر اور انہیں نیکوکار، پرہیزگار، روشن دل، حق نیوش اور اپنا فرمانبردار اور اپنے دوستوں کا دوست و خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن و بدخواہ قرارد

 آمین۔ اے اللہ! ان کے ذریعہ میرے بازوؤں کو قوی اور میری پریشان حالی کی اصلاح اور ان کی وجہ سے میری جمعیت میں اضافہ اور میری مجلس کی رونق دوبالا فرما اور ان کی بدولت میرا نام زندہ رکھ اور میری عدم موجودگی میں انہیں میرا قائم مقام قرار دے اوران کے وسیلہ سے میری حاجتوں میں میری مدد فرما اور انہیں میرے لیے دوست، مہربان، ہمہ تن متوجہ ،ثابت قدم اور فرمانبردار قرار دے ۔ وہ نافرمان ، سرکش، مخالف و خطاکار نہ ہوں اور ان کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاؤ میں میری مدد فرما اور ان کے علاوہ بھی انہیں میرے لیے سراپا خیر و برکت قرار دے اور انہیں ان چیزوں میں جن کا میں طلبگار ہوں میرا مدد گار بنا اور مجھے اور میری ذریت کو شیطان مردود سے پناہ دے۔

 اس لیے کہ تو نے ہمیں پیدا کیا اور امر و نہی کی اور جو حکم دیا اس کے ثواب کی طرف راغب کیا اور جس سے منع کیا اس کے عذاب سے ڈرایا ۔ اور ہمارا ایک دشمن بنایا جو ہم سے مکرکرتا ہے اور جتنا ہماری چیزوں پر اسے تسلط دیا ہے،
 اتنا ہمیں اس کی کسی چیز پر تسلط نہیں دیا۔ اس طرح کہ اسے ہمارے سینوں میں ٹھہرا دیا اور ہمارے رگ وپے میں دوڑا دیا ۔ ہم غافل ہو جائیں مگر وہ غافل نہیںہوتا۔ ہم بھول جائیں مگر وہ نہیں بھولتا۔ وہ ہمیں تیرے عذاب سے مطمئن کرتا اور تیرے علاوہ دوسروں سے ڈراتا ہے۔ اگر ہم کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ہماری ہمت بندھاتا ہے اور اگر کسی عمل خیر کاارادہ کرتے ہیں تو ہمیں اس سے باز رکھتا ہے اور گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور ہمارے سامنے شبہے کھڑے کر دیتا ہے اگر وعدہ کرتا ہے تو جھوٹا اور امید دلاتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ 

اگر تو اس کے مکر کو نہ ہٹائے تو وہ ہمیں گمراہ کرکے چھوڑے گا اور اس کے فتنوں سے نہ بچائے تو وہ ہمیں ڈگمائے گا۔ خدایا! اس لعین کے تسلط کو اپنی قوت و توانائی کے ذریعہ ہم سے دفع کر دے اور کثرت دعا کے وسیلہ سے اسے ہماری راہ ہی سے ہٹا دے تاکہ ہم اس کی مکاریوں سے محفوظ ہوجائیں۔ اے اللہ ! میری درخواست کو قبول فرما اورمیری حاجتیں برلا اور جب کہ تو نے استجابت دعا کا ذمہ لیا ہے تو میری دعا کو اپنی بارگاہ سے روک نہ دے اور جن چیزوں سے میرا دینی و دنیوی مفاد وابستہ ہے ان کی تکمیل سے مجھ پر احسان فرما ۔ جو یاد ہوں اورجو بھول گیا ہوں، ظاہر کی ہوں، یا پوشیدہ رہنے دی ہوں، علانیہ طلب کی ہوں یا درپردہ، ان تمام صورتوں میں اس وجہ سے کہ تجھ سے سوال کیاہے  نیت و عمل کی  اصلاح کرنے والوں اور اس بنا پر کہ تجھ سے طلب کیا ہے، کامیاب ہونے والوں اور اس سبب سے کہ تجھ پر بھروسہ کیاہے،

 غیر مسترد ہونے والوں میں سے قرار دے اور (ان لوگوں میں شمار کر ) جو تیرے دامن میں پناہ لینے کے خوگر، تجھ سے بیوپار میں فائدہ اٹھانے والے اور تیرے دامن عزت میں پناہ گزیں ہیں۔ جنہیں تیرے ہمہ گیر فضل اورجو د و کرم سے رزق حلال میں فراوانی حاصل ہوئی ہے اور تیری وجہ سے ذلت سے عزت تک پہنچے ہیں اور تیرے عدل و انصاف کے دامن میں ظلم سے پناہ لی ہے اور رحمت کے ذریعہ بلا و مصیبت سے محفوظ ہیں اور تیری بے نیازی کی وجہ سے فقیر سے غنی ہوچکے ہیں اور تیرے تقوےٰ کی وجہ سے گناہوں، لغزشوں اور خطاؤں سے معصوم ہیں اور تیری اطاعت کی وجہ سے خیرو رشد و صواب کی توفیق انہیں حاصل ہے اور تیری قدرت سے ان کے اور گناہوں کے درمیان پردہ حائل ہے اور جو تمام گناہوں سے دست بردار اور تیرے جواِ رحمت میں مقیم ہیں۔

 بارالٰہا! اپنی توفیق و رحمت سے یہ تمام چیزیں ہمیں عطا فرما اور دوزخ کے آزا رسے پناہ دے اور جن چیزوں کا میں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے سوال کیا ہے ایسی ہی چیزیں تمام مسلمین و مسلمات اورمؤمنین ومومنات کو دنیا و آخرت میں مرحمت فرما ۔ اس لیے کہ تُو نزدیک اور دُعا کا قبول کرنے والا ہے ، سننے والا اور جاننے والا ہے ،معاف کرنے والا اور بخشنے والا اور شفیق و مہربان ہے۔ اور ہمیں دُنیا میں نیکی کی توفیق عبادت اورآخرت میں نیکی اوربہشت جاودانی عطا کر   
اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
الٰہی آمین

بدھ، 15 فروری، 2023

فراز دار سے میثم بیان دیتے ہیں-میثم تمّار

 



زمانہ گواہ ہے کہ حبّ علی علیہ السّلام میں محبّان مولاعلی علیہ السّلام  نے کیا کیا مصیبتیں برداشت کیں لیکن مولا علی علیہ السّلام کا دامن ولائت نہیں چھوڑا اور بالآخر تختہء دار تک جا پہنچے ،حضرت میثم تمّار بھی مولا کے انہی عاشقوں کے گروہ سے تعلّق رکھتے ہیں 
 تعارف میثم تمّار
 میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔
امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔میثم حاضر جواب اور شعلہ بیان اور نڈر خطیب تھے۔ جب انھوں نے بازار کوفہ کے معترضین کے نمائندے کے عنوان سے ابن زیاد کے دربار میں خطا کیا، ابن زیاد ان کی منطق، خطابت، فصاحت اور بلاغت سے حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔امویوں کی حکومت کے خلاف ان کے بلیغ خطبات نے انہیں حکومت کے مخالفین میں ممتاز شخصیت کے طور پر نمایاں کردیا 
  میثم تمّار نے کئی موضوعات میں کتب لکھی ہیں جن میں تفسیر بھی شامل ہے۔  میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ام المؤمنین ام سلمہ فرماتی ہیں کہ، رسول اللہؐ ﷺ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔

 میثم کو پہلے تین ائمۂ شیعہ یعنی امام علی، حسن اور حسین علیہم السلام، کے اصحاب میں گردانا گیا ہے؛ تاہم ان کی شہرت زیادہ تر حضرت علیؑ کی شاگردی کی وجہ سے ہے میثم بہت زیادہ حبدار اہل بیت رسولؑ تھےاہل بیتؑ بھی  میثم  کی  طرف سخاص  توجہ دیتے تھے۔ ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔ میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ امامؑ ان کے ساتھ زیادہ بات چیت کرتے تھے۔ آپؑ نے میثم کو "اسرارِ وصیت" سمیت بہت سے علوم سکھائے اور انہیں غیبی امور سے آگاہ کیا اور انہیں ان "آزمائے ہوئے مؤمنین" کے گروہ میں قرار دیا جو رسول اللہؐ کے اوامر اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے ادراک اور تحمل کے سلسلے میں اعلی ترین مقام و منزلت سے بہرہ ور تھے۔ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ میثم روحانی ظرف اور اہلیت کے بلند مراتب پر فائز تھے۔

  علیہ السلام کے شاگرد تھےمروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے  جب حجاز  گئے  تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے کہا یہ خبر صداقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ دل سے گڑ ھ کر سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی  پیشینگو  ئی پوری ہو گئیامام علیؑ نے میثم کو ان کی شہادت کی کیفیت، ان کے قاتل اور کھجور کے درخت پر ـ جو آپؑ نے انہیں دکھا دیا تھا ـ  

منگل، 14 فروری، 2023

مولا علی علیہ السلام کا خط مالک اشتر کے نام

امام دنیا امام عقبیٰ مولائے کائنات حضرت  علی علیہ السلام نے اس خط کو مالک اشتر کیلئے اس وقت تحریر فرمایا جب آپ نے اسے مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا تھا اسلئے اس کے اکثر مضامین حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کا عام مسلمان اور غیر مسلمان شہریوں کے ساتھ برتاؤ اور ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے حکمرانوں کے وظائف کی بیان میں ہے۔ اس حوالے سے امام علی علیہ السلام کی جانب سے مالک اشتر کو مصر کے گورنر کے عنوان سے کرنے والے بعض سفارشات درج ذیل ہیں:
راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے- کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے
نہج البلاغہ، 
ناحق خون ریزی سے پرہیز کرنا ۔وجہ کے بغیر تلوار نیام سے ہر گز نہیں نکالنا
دیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔
اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔
نہج البلاغہ،
گھمنڈ اور خود پسندی سے پرہیز کرو
دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔
نہج البلاغہ، 
ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرن۔۱اعام لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو نہیں کرنا
لوگوں کی عیب‌جویی کے پیچھے نہ پڑنا اور ان کے عیبوں کو حتی آلمقدور ۲ 
چھپانا۔
لوگوں پر حسن ظن رکھنا۔[3]
شہروں کی آباد کاری کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا۔[4]
معاشرے کی طبقہ‌بندی اور یہ کہ ہر طبقے کے مخصوص حقوق۔[5]
قاضی کے اوصاف۔ [6]
حکومتی مسئولین کے اوصاف۔
ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادی ،کی بہبود پر توجہ دینا۔[7]
شرائط کاتبین۔
تاجروں اور صنعتگروں کے ساتھ اچھا برتاؤ۔[8]
معاشرے کے نچلے طبقے کی خاص نگرانی۔
نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان نماز گزار کی رعایت کرنا۔
بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا۔[9]
لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنا۔[10]
دشمن کے ساتھ صلح (اگر دشمن کی طرف سے صلح کی درخواست اور خدا کی رضایت بھی اسی میں ہو تو)[11]
عہد و پیمان کو پورا کرنا اور اس پر 
 یمن سے کوفہ تک کی زندگیی
مالک اشتر کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن اس بات میں شک نہیں کہ آپ یمن میں پلے بڑے تھے اور سنہ 11 یا 12 ہجری قمری کو وہاں سے ہجرت کی۔آپ نے زمانہ جاہلیت کو بھی دیکھااور اپنی قوم کے سرکردہ فرد تھے ۔یمن سے آنے کے بعد کوفہ میں مقیم ہوئے اور ان کے بعد کوفہ میں ان کی نسل باقی رہی ہے۔ جنگ یرموک میں شرکت کیا اور اسی جنگ میں ان کی ایک آنکھ پر تیر لگا اور آپ آیک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ جنگ یرموک میں آپ نے دشمن کے 13 افراد کو واصل جہنم کیا۔[5]
اے مالک، آپ کو معلوم ہو جائے کہ میں آپ کو ایک ایسے 
نعلاقہ   کا گورنر بنا کر بھیج رہا ہوں جس نے ماضی میں منصفانہ اور   جسے بہت شفاف حکمرانی کا تجربہ کیا ہے۔ یاد رکھو لوگ تمھارے  اعمال کا کھوج لگانے والی نظر سے جائزہ لیں گے، جیسا کہ تم اپنے سے پہلے لوگوں کے اعمال کا جائزہ لیا کرتے تھے، اور تمھارے بارے میں اسی طرح بات کرتے تھے جیسے تم ان کے بارے میں کہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام صرف اچھے کام کرنے والوں کو اچھا سمجھے  ہیں۔ یہ وہ ہیں جو آپ کے اعمال کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے سب سے امیر خزانہ جس کی تم خواہش کر سکتے ہو وہ نیکیوں کا خزانہ ہو گا۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں اور اپنے آپ کو ان چیزوں سے ضرور روک کر رکھنا  جن سے آپ کو خداوند تبارک تعالی نے منع فرمایا  ہے، 

کیونکہ صرف اس طرح کی پرہیزگاری ہی تم کو اللہ کی بارگا ہ اور بندوں میں مقرب بنا سکتی ہے
اپنے دل میں اپنے لوگوں کے لیے محبت کا جذبہ بیدار رکھنا اور اسے ان کے لیے مہربانی اور برکت کا ذریعہ بنانا۔ ان کے ساتھ وحشیا نہ سلوک نہ کرنا اور جو اپنے لئے مناسب سمجھو وہی ان کے لئے بھی مناسب جانو۔ یاد رہے کہ ریاست کے شہری دو قسموں کے ہوتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کے دین میں بھائی ہیں یا آپ کے بھائی ہیں۔ وہ کمزوریوں کے تابع ہیں اور غلطیوں کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں۔
کچھ لوگ واقعی غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ان کو معاف کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ یاد رکھو کہ تم اُن پر حاکم ہوجیسا کہ میں تم پر رکھا گیا ہوں۔ اور پھر اس کے اوپر بھی خدا ہے جس نے تمہیں گورنر کا عہدہ دیا ہے تاکہ تم اپنے ماتحتوں کی دیکھ بھال کرو اور ان کے لیے کافی ہو۔ اور آپ ان کے لیے کیا کرتے ہیں اس سے آپ کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اپنے آپ کو خدا کے خلاف مت کرو، کیونکہ نہ تو تم میں طاقت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے خلاف اپنے آپ کو ڈھال سکے، اور نہ ہی تم اپنے آپ کو اس کی رحمت اور بخشش کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہو۔ معافی کے کسی عمل پر نادم نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایسی سزا پر خوش ہوں جس سے آپ کسی کو مل سکیں۔  تحریر کنندہ علی ابن طالب 

پیر، 13 فروری، 2023

جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے- خدا حافظ امجد اسلام امجد

> جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے- خدا حافظ امجد اسلام امجد
 امجد اسلام امجد محبت کا دوسرا نام تھے وہ محبّت کی علامت تھے-محبّت کا استعارہ تھے -وہ اپنی زاتی زندگی میں بھی تقسیم محبّت کے فامولے پر کاربند رہے۔ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی محبت آمیز اور محبت آموز تھی۔وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے- وہ کرکٹ کی دنیا میں قسمت آزمائ کو نکلے تھے لیکن ان کے مقدّر کا ستارہ ادب کے آسمان پربراجمان ہو چکا تھا -اس لئے کرکٹ کے میدان سے ادب کے طولانی میدان کے سفر پر آن پہنچے-ان کا خود بھی کہنا تھا کہ اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو میں 1965-66 میں شروع کر کے 1971-72 تک فارغ ہوچکا ہوتا اور ادبی دنیا میں ان کی جو شناخت بنی وہ اس سے محروم رہتے۔امجد اسلام امجد کا گھرانہ بنیادی طور پر دستکاروں کا اور تجارتی کام کرنے والوں کا تھا لیکن امجد اسلام امجد کے لہو میں ایک ادیب اور شاعر بس رہا تھا اس ادیب بچّے کو اپنے گھر کے پڑوس میں ہی اپنے زوق کی تسکین کا سامان مل گیا -ان کے پڑوسی کا نام تھا آغا بیدار بخت- آغا بیدار بخت جیسے بیدار مغز نے جب اس بچے میں لکھنے پڑھنے کا ذوق دیکھا تو اسے اپنی کتابوں کے زخیرے تک رسائی دے دی۔ بعد میں اس بچے نے اعتراف کیا کہ اس کے ادبی سفر میں آغا بیدار بخت کا یہ کتب خانہ سنگ میل ثابت ہوا۔یہ بچہ نویں دسویں کلاس میں پہنچا تو اس نے شعر کہنا شروع کردیا۔ فرسٹ ایئر میں تھا تو ایک شعر لکھا:بچے کا نام امجد اسلام تھا۔ شاعری شروع کی تو تخلص کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنے نام ہی کو تخلص بنا لیا اور امجد اسلام امجد کے نام سے معروف ہوا۔ لیکن کالج کی منزل آتے آتے امجد اسلام امجد میں کرکٹ کھیلنے کا شوق بھی پلنے لگا 

-کھیل کا سفر آگے بڑھا تو اسلامیہ کالج 12 سال بعد چیمپیئن بنا جس میں امجد اسلام امجد کی کارکردگی بہت عمدہ تھی مگر ان کی جگہ قومی ٹیم میں ایک بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کر لیا گیا اور امجد اسلام امجد کو ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا۔یہ امجد اسلام امجد کی زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ انھوں نے غصے میں اپنا بلا توڑ دیا۔لیکن کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونا ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوا۔اب انھوں نے شاعری کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی اورادبی جرائد میں اپنا کلام چھپوانے لگے۔ اسی زمانے میں انھوں نے عربی شاعری کے تراجم کیے، جس کا مجموعہ بعدازاں ’عکس‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔امجد اسلام امجد کے گروپ میں کچھ ان سے سینیئر شاعر شامل تھے جن میں سرمد صہبائی، اسلم انصاری، ریاض مجید، خورشید رضوی اور انور مسعود اور ہم عصروں میں خالد شریف، عطا الحق قاسمی اور جونیئرز میں سعادت سعید، اجمل نیازی، حسن رضوی، ایوب خاور اور پروین شاکر شامل تھیں۔ 1972 میں امجد اسلام امجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ایک ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ تحریر کیا، یہاں سے ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا آغاز ہوا۔ 

ابتدا میں اکا دکا ڈرامے لکھے اور اردو کے مختلف افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔انھی ڈراموں میں طویل دورانیے کا ایک ڈرامہ ’خواب جاگتے ہیں‘ شامل تھا جو ناظرین کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہا۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے قیام کی سِلور جوبلی کے موقع پر نشر ہوا تھا مگر جس ڈرامہ سیریل نے انھیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا وہ ’وارث‘ تھا۔اس ڈرامے کی پہلی قسط 13 اکتوبر 1979 کو نشر ہوئی، اس کی کہانی جاگیردار معاشرے کے گرد گھومتی تھی، یہ ایک سادہ اور حقیقی کہانی تھی جس کے کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ اس سادہ سی کہانی نے وارث کو پاکستان کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل بنا دیا۔ یہ سیریل اس قدر مقبول ہوا کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کے قومی نیٹ ورک پر چینی زبان میں ڈب کر کے بھی پیش کیا گیا۔ وارث کے بعد ان کے لکھے ہوئے جو ڈرامہ سیریل ناظرین میں بے حد پسند کیے گئے ان میں دہلیز، سمندر، دن، وقت، گرہ، بندگی، اگر، اپنے لوگ، رات، ایندھن، زمانہ، شیرازہ اور انکار کے نام سرفہرست رہے۔ڈراموں کی مقبولیت انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئی۔ انھوں نے چند فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے جن میں قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کا شعری سفر بھی جاری رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ تھا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد ان کے پچیس تیس مجموعے شائع ہوئے جن میں ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میںاور اسباب شامل ہیں۔ ان کی کئی شعری کلیات بھی شائع ہوئیں جن میں خزاں کے آخری دن، ہم اس کے ہیں، نزدیک، شام سرائے، باتیں کرتے دن، سپنوں سے بھری آنکھیں اور میرے بھی ہیں کچھ خواب سرفہرست ہیں۔انھوں نے عالمی شاعری کے تراجم بھی کیے۔ 

ان نظموں کے مجموعے ’عکس‘ اور ’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔1970 کی دہائی میں امجد اسلام امجد کی ایک نظم ’محبت کی ایک نظم‘ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی اور زندگی بھر امجد اسلام امجد کی پہچان بنی رہی، وہ جہاں بھی جاتے تھے ان سے اسی نظم کی فرمائش ہوتی تھی۔ پھر ان کی مقبولیت کا یہ سفر عمر بھر جاری رہا-امجد اسلام امجد کا نثری سفر بھی بہت طویل ہے۔ ان کے کئی سفرنامے شائع ہوئے جن میں شہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں سرفہرست ہیں۔ وہ اردو ادب کے ایک مقبول اور بہترین استاد تھے۔شاعر وہ فطرتا تھے۔یہ جوہر اللہ تعالی نے ان میں پیدائشی صفت عطا کی تھی وہ غزل اور نظم دونوں کے شاعر تھے۔ وہ دونوں اصناف پر قادر تھے۔ان کی کتنی ہی غزلیں مقبول عام ہوئیں۔نظم سننے یا پڑھنے کی چیز تو ہے لیکن یہ غزل کے اشعار کی طرح زبان زد عام کم ہی ہوتی ہے لیکن امجد صاحب نے یہ کرشمہ بھی کر دکھایا۔ان کی بہت سی نظمیں بھی مقبول ہوئیں۔وہ جب کسی مشاعرے یا ادبی تقریب میں ہوتے تو حاضرین ان سے ان کی مشہور نظمیں فرمائش کر کے سنتے- امجد صاحب کو اپنی لمبی لمبی آزاد نظمیں یاد کس طرح رہ جاتی ہیں۔وہ بہت سہولت اور روانی سے اپنی طویل آزاد نظمیں پڑھتے جاتے اوراور اپنے الفاظ کی سلاست اور روانی مجمع کو گم کر لیتے

اور پھر بالآخر اردو ادب کا یہ روشن ستارہ اپنے غروب کو پہنچا لیکن سفر آخرت سے محض پانچ دن پہلےروضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی سعادت حاصل کی  اور مسجد نبوی میں اپنا حضوری کلام بھی پیش کیا -
امجد اسلام امجد کی نماز جنازہ ڈیفنس فیز 1 کی جامع مسجد میں ادا کی گئی جس میں مرحوم کے عزیز و اقارب ، ادبی حلقوں کی شخصیات اور اہل علاقہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔نمازجنازہ کے بعد امجد اسلام امجد کا جسد خاکی تدفین کیلئے میانی صاحب لایا گیا، تدفین کے وقت بھی امجد اسلام امجد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے ۔خداوند عالم مرحوم و مغفور کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین

اتوار، 12 فروری، 2023

جابر بن حیان: امام جعفرصادق علیہ السّلام کے ایک عظیم شاگرد

 


﷽ 

جابر بن حیان: امام صادق علیہ السّلام کے ایک عظیم شاگرد-کیمیا گری کی دنیا بابائے اعظم کہلائے جانے والے حیّان نے اپنے متّقی با حیّان القحطانی کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس نے اپنے چاروں جانب اہلبیت کی محبّت کے شامیانے دیکھے حیّا ن اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قریبی مراسم پر بھی غور کیا اور پھر خود بھی اپنے والد کے رنگ میں رنگ گئے -بس یہی موقع تھا جب ان کے والد نے ان کو کوفے جانے کا مشورہ دیا  اوروہ اما م جعفر صادق کے شاگرد بن کر کوفہ آ گئے

جابر بن حیان، جنکی کنیت ابو موسی تھی، وہ امام صادق علیہ السّلام کے اصحاب میں سے تھے اور کیمیا (alchemy) میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں جس نے جگہ بنائی دور حاضر کی کیمسٹری کیلئے۔ انکی ولادت تقریبا 103 یا 104 ہجری میں ہوئی اور، وہ 200 ہجری میں طوس میں وفات پا گئے انکی لکھی ہوئی کتاب “کتاب الرحمة” انکے سرہانے موجود تھی۔ ان سے منسوب بہت سی تالیفات ہیں، وہ ہمہ وقت تصنیف و تالیف اور ریسرچ میں مصروف رہا کرتے تھے، علم کیمیا میں جابر کی شخصیت شہرۂ آفاق حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے علم کیمیا میں نام پیدا کیا ہے۔ 

۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور بعض لوگوں نے انھیں الجبرا کا موجد قرار دیا ہے۔-ہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس علم میں نام پیدا کیا ہے۔ ان کو صوفی اور حرانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ علم کیمیا کے بارے میں انھوں نے ہزار صفحہ کے پانچ سو رسالے تألیف کئے ہیں۔جابر  علوم کے ذخیرے جمع کرنے کی فکر میں مصروف رہتے تھے، لوگوں کو جدید تحقیقات سے آشنا  کرنا ان کا دلپسند مشغلہ تھا  -وہ ایک ایسی ہستی کے طالب علم تھے جو عالم بے معلّم تھی اسی لئے۔ جابر ایک شہرۂ آفاق شخصیت بن کے ابھرے اور تاقیامت اپنا نام کر گئے -ا ن کی تألیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔-

جابر نے خود اپنے رسالوں میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ میں نے  یہ علوم براہ راست امام جعفر صادق علیہ السّلام  سے لئےہیں۔خواص کبیر کے ص:۲۰۵ پر جابر کا بیان ہے کہ میں ایک دن امام جعفر صادق علیہ السّلام کے گھر جارہا تھا... اس کے علاوہ جابجا اس کی تصریح موجود ہے، ص:۳۱۶ مقالہ ۲۴ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ان خواص کے جمع کرنے کا حکم دیا اور آئندہ بھی ایسی تحقیقات کے اضافہ کا مشورہ دیا۔

 اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔ کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادقؒ کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور کیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے

استاذ محمد یحییٰ نے اپنی کتاب ’’امام صادق علیہ السّلام مُلھم الکیمیا‘‘ میں لکھا ہے کہ علوم کی تاریخ میں جابر کا مسئلہ اور ان کا امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ارتباط بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کو اکثر مستشرقین اور اہل کیمیا نے محل بحث بنایا ہے لیکن کوئی قابل اطمینان کام نہیں کیا ہے اس لئے کہ انھوں نے موضوع کے دیگر مصادر کی چھان بین کی ہے اور خود جابر کے بیانات کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم جابر ہی کے رسائل کی روشنی میں اس بحث کا تجزیہ کریں اور امام صادق  علیہ السّلام کے فکری خدمات کا صحیح جائزہ لیں!.......اس کے بعد ص:۳۹ پر لکھتے ہیں کہ جابر کے چھوڑے ہوئے علمی ذخیرہ کی چھان بین کرنے کے بعد یہ اعتراف کرنا پڑتاہے کہ انھیں یہ سب کچھ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ملا تھا۔

ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران ’’ قرع النبیق‘‘ میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی، جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہوگئے، چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی۔ اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے’’ تیزاب‘‘ یعنی ’’ریزاب‘‘ کا نام دیا۔ پھر اس تیزاب کو دیگر متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتین گل گئیں۔

جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا۔اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔اس کے علاوہ فولاد کی تیاری، پارچہ بافی ، چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔

جابر نے کیمیا کی اپنی کتابوں میں بہت سی اشیاء بنانے کے طریقے درج کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ قرع النبیق‘‘ کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی ’’ سائنسی ‘‘ اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطو، اقلیدس، ارشمیدس، بطلیموس اور جالینوس کے بعد صرف اسکندریہ کی آخری محقق ’’پائپا تیا ‘‘چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی لہٰذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان کی تھی۔ اس کے بعد گیارہویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا۔ جابر بن حیان کا انتقال ۸۰۶ء میں دمشق میں ہوا۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر