Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
منگل، 31 جنوری، 2023
آسمانی بجلی کیوں گرتی ہے اور اس سے بچاو کے طریقے
پیر، 30 جنوری، 2023
فرزند نبی( صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم) پنجم اما م محمد باقر علیہ السلام
فرزند نبی( صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم) پنجم اما م محمد باقر علیہ السلام یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ۔ کسی بھی مکتب فکر کی پائیداری کے لئے یہ ضروری ہے اس کے پاس اپنی اگلی نسلوں کو دینے کے لئے کوئ بہترین عملی مثال موجود ہواور یہ بہترین مثال امام محمد باقر علیہ السّلام ہیں آپ علیہ السّلام کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی حوالے سے آپ کو باقرالعلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنیوالے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو سلجھا کر عوام کو رسائ دینا ہیں امام محمد باقر علیہ السّلام کی ولادت یکم رجب ٥٧ھ بمقام مدینہ ہوئی، سنہ پیدائش میں ٥٦تا ٥٩ ھ میں ٥٧ پرمورخین کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ کربلا کے وقت آپ کا سن ٤ سال تھا۔
غضبِ الہی کا خوف و ڈر
امام محمد باقر علیہ السلام کا افلح نامی ایک غلام کہتا ہے :میں امام علیہ السلام کے ساتھ حج کے لئے گیا ، لیکن جب مسجد الحرام میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا جیسے ہی امام علیہ السلام نے مسجد الحرام میں قدم رکھا اور آپ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ نے بلند آواز سے گریہ فرمایا : میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں لوگ دیکھ رہے ہیں کیا بہتر نہیں کہ آپ کی آواز تھوڑا
دھیمی رہے ، آپ نے جواب دیا : ویحک یا افلح ، وائے ہو تجھ پر افلح کیوں کرمیں گریہ نہ ہوں ،میرا گریہ اس لئے ہے کہ شاید خدا میرے اوپر ایک نظر
رحمت ڈال دے اور قیامت کے دن میں کامیاب ہو جاو اس کے بعد آپ نے خانہکعبہ کا طواف کیا اور آپ مقام ابراہیم کے پاس آئے آپ نے نماز پڑھی اور جبآپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا تو میں نے دیکھا سجدگاہ آنسووں کی کثرت سےبھیگ چکی تھی ،صرف یہی مقام نہیں اگر آپ کسی بات پر مسکراتے تب بھی یہی دعاء کرتے اللهم لاتمقتنى پروردگار میرے اوپر غضبناک نہ ہونا
محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام
ابو حمزہ سے نقل ہے کہ سعد بن عبد اللہ جو کہ عبد العزیز بن مروان کےفرزندوں میں تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں سعد الخیر کہا امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رقیق القلب عورتوں کی طرح گریہ کرنے لگے امام علیہ السلام نے فرمایا: ائے سعد کیوں گریہ کر رہے ہو ؟ سعدنے کہا کیونکر گریہ نہ کروں جب کہ میں بنی امیہ کے گھرانے سے تعلق رکھتاہوں جسے خدا نے قرآن میں شجرہ ملعونہ کہا ہے آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو تم ہم میں سے ہو تم دوست داران اہلبیت میں سے ہو کیا تم نے خدا وند متعال کا یہ قول نہیں سنا ہے جس میں جناب ابراہیم علیہ السلام سے نقل کر کےخدا فرماتا ہے : فمن تَبعنى فانه منّى جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے ۔ یعنی امام بتانا یہ چاہتے تھے کہ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے ممکن ہے تم کسی جگہ سے وابستہ کیوں نہ ہو لیکن حقیقت میں تم اگر ہمارا اتباع کرتے ہو توہم میں سے ہو۔ برید بن معاویہ عجلی سے نقل ہے امام محمد باقر علیہ السلام کیخدمت میں تھا کہ خراسان سے ایک شخص آیا اور امام کے گھر میں داخل ہو گیا اس نے اپنے پیروں کو دکھایا جو پیدل چلنے کی وجہ سے چاک چاک ہو گئے تھے اور بری طرح زخمی تھے اس آنے والے شخص نے کہا کہ میں خراسان سے آ رہا ہوں خدا کی قسم خراسان کا یہ طولانی سفر طے کرکے میں نہیں آیا مگر یہ کہ آپ کی محبت میں، امام علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم ایک پتھر بھی ہم سے محبت کرے گا تو خدا اسے بھی ہمارے ساتھ محشورکرے گا کیا دین محبت کے علاوہ اور کچھ ہے یعنی مکمل دین محبت میں سمٹا ہوا ہے ۔
رزق حلال اور محنت و مشقت
سخت گرمیوں کے دنوں میں میں مدینہ کے مضافات سے نکل رہا تھا کہ میں نے گرم ہوا میں محمد بن علی علیہ السلام کو دیکھا جو اپنے دو خادموں کے ساتھ کام میں مشغول تھے میں نے اپنے آپ سے کہا کس طرح قریش کے بزرگوں کی ایک بڑی شخصیت اتنی گرمی میں اور اتنے بھاری بدن کے ساتھ دنیا کی فکر میں مشغول ہے خدا کی قسم میں ابھی جا کر انہیں موعظہ کرتاہوں یہ سوچکر میں امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک گیا اور میں نے انہیں سلام کیاانہوں نے ہانپتے ہوئے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے میرے سلام کا جواب دیا میں نے کہا خدا آپ کے کاموں کو سدھارے کیوں آپ جیسی بزرگ شخصیت اتنی سخت گرمی میں مال دنیا کے حصول میں لگی ہے اگر اس حالت میں موت آ جائے تو کیا کروگے ا مام باقر علیہ السلام نے خادموں کے ہاتھوں کو چھوڑا اور کھڑے ہو گئے اورپھر فرمایا: خدا کی قسم اگر اس حالت میں موت آ جائے تو خدا کی اطاعت کی حالت میں آئے گی میری یہ جدو جہد و کوشش خدا کی اطاعت میں صرف ہورہی ہے اس لئے میں اس کام کے ذریعہ اپنے آپ کو تم سے اور دوسروں سے بے نیاز کر رہا ہوں تاکہ مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے میں اسوقت خدا کے حضور جانے سے ڈرتا ہوں جب معصیت میں مبتلا ہوں اور میری موت آ جائے محمد بن منکدر کا کہنا ہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو میں نےکہا خدا آپ پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے میں آ پ کو وعظ و نصیحت کرناچاہتا تھا لیکن آپ نے مجھے نصحیت کر دی یعنی آپ نے مجھے صحیح راستہ دکھا دیا اور میری راہنمائی کی ۔
امام باقر علیہ السّلام صبر و رضا کی منزل پر
امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس کچھ لوگ آئے ، دیکھا کہ امام علیہ السلامکے پاس ایک بچہ ہے جس کی طبیعت خراب ہے اور سخت علیل ہے بچے کی علالت کی وجہ سے امام علیہ السلام بھی شدید طور پر متاثر ہیں اور سخت مضطرب و پریشان ہیں انہوں نے اپنے آپ سے کہا خدا نہ کرے اس بچے انتقال ہو جائے ورنہ امام کو جس پریشانی کہ عالم میں ہم نے دیکھا ہے اس کےمطابق امام کو بھی خطرہ لاحق ہے اتنے بھی عورتوں کے نالہ و شیون کیآوازیں بلند ہو گئیں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچہ دنیا سے چلا گیا کچھ ہی دیرکے بعد امام علیہ السلام انکے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا اب امام کی وہ کیفیت نہیں ہے جو پہلے تھی لوگوں نے کہا ہماری جانیں آپ پر قربان ہم نے توجب بچہ مریض تھا تو آپ کواس عالم میں دیکھا کہ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جائے تو آپ کی جان کو خطرہ ہو جائے گا لیکن اس وقت تو آپ پہلے سےزیادہ مطمئن نظر آ رہے ہیں امام علیہ السلام نے جواب دیا ہم یہ دوست رکھتےہیں کہ ہمارا جو بھی محبوب و عزیز ہے وہ بخیر و عافیت رہے لیکن جب قضائے الہی کو دیکھتے ہیں تواس کے حکم کے آگے تسلیم ہو جاتے ہیں اس طرح جوخدا چاہتا ہے ہم بھی وہی چاہتے ہیں۔ تسلیم و رضا کی یہ منزل یقینا بیان کرنا آسان ہے اور اس پر عمل سخت ہے لیکن اگر امام علیہ السلام کی یہ سیرت ہم سامنے رکھیں تو ان لوگوں کو بڑا حوصلہ ملے گا جن سے ان کی قیمتی چیزچھن گئی یا کوئی عزیز و چاہنے والی ذات اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر دیارباقی کی طرف کوچ کر گئی ۔
نجا شی کا دربار اور حضرت جعفر طیّار
حضر ت جعفر ابن ابی طالب جعفر طیار کے نام سے آ پ کی خا نوا د ہ حضرت عبد المطّلب میں آ پ کی شہرت ہے ۔ آپ حضرت علی
علیہ السلام کے بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم زاد بھائی تھے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور
اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اسی جنگ میں شہادت پائی اور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے طیار ’’تیز اڑنے والا، جنت کی طرف‘‘ کا لقب مرحمت۔ شرکینِ مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مس
لمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفرؓ بھی اس کے ساتھ ہو گئے؛ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی
کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے
درخواست کی کہ"ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کے قلمرو حکومت میں چلے آئے
ہیں، انہوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اوررشتہ داروں نے بھیجا
ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی،نجاشی نے
مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا دین ترک کر دیا اس موقع پرُمسلمانوں نے
نجاشی سے گفتگو کے لیے
اپنی طرف سے حضرت جعفر ؓ کو منتخب کیا،انہوں نے اس طرح تقریر کی
بادشاہ سلامت!ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکاریاں کرتے تھے،رشتہ داروں
اورپڑوسیوں کو ستاتے تھے،طاقت ورکمزوروں کو کھاجاتا تھا، غرض! ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت
میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت،راستی،دیانت داری اورپاکبازی سے اچھی طرح آگاہ ھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی،راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اوررشتہ داروں سے محبت کاسبق ہم کو سکھایا اورہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں،بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں،بدکاری اورفریب سے بازآئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑدیں،ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں،روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اوراس کی تعلیم پرچلے -ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اورحلال کو حلال اورحرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اورجاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔نجاشی نے کہا تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ، حضرت جعفر ؓ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی اس نے کہا خدا کی قسم !یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اورقریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر کہا واللہ! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا۔تمام افراد
چھ سال بعد تک حبشہ ہی میں رہے،7ھ میں وہ حبش سے مدینہ آئے،یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہو گیا تھا اور مسلمان اس کی خوشی
منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائیوں کہ واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی،حضرت جعفر ؓ سامنے آئے تو
آنحضرت ﷺ نے ان کو گلے سے لگایا اورپیشانی چوم کر فرمایا، میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا
خیبر کی فتح
سے۔ حضرت جعفر ؓ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان
کا وقت آگیا۔
غزوۂ موتہ کا دشمن اسلام کی جانب سے آغاز ہو رسول ﷺ حضرت جعفرؑ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے غزوہ
بدر سے ملنے والے مال غنیمت میں سے حضرت جعفرؑ کا حصہ الگ کرلیا تھا، حالانکہ حضرت جعفرؑ اس جنگ میں شریک نہیں تھے، اور حبشہ میں قیام پذیر تھے۔ رسول خدا ﷺ غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ تشریف فرما ہوئے تو حضرت جعفرنے آپ ﷺ کا استقبال کیا، جو حبشہ سے واپس آچکے تھے، ان سے معانقہ کیا، ان کی دو آنکھوں کے درمیان پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: “خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفرؑ کی ملاقات پر؟“۔
فتح خیبر کے اور حضرت جعفرؑ کی حبشہ سے واپس کے بعد آپ ﷺ نے جمادی الاول 8ھ میں حضرت جعفرؑ کو سپاہ اسلام کے
امیر اول کی حیثیت سے “موتہ” کی جانب روانہ کیا تا کہ مشرقی روم کی فوج کا مقابلہ کریں۔ (کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ زید بن
حارثہؓ امیر اول تھے اور جعفرؑ امیر ثانی جناب جعفر بن ابی طالبؑ نے جنگ میں شجاعت و بہادری کے وہ کمالات دکھائے کہ دشمن
کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیا۔ طبری
لکھتے ہیں:
حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کے بعد حضرت جعفرؑ فورا آگے بڑھے اور اپنے گھوڑے سے اتر ے اور علم کو تھام کر پیادہ ہی لڑنا
شوع کر دیا۔ آپ نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق نوے زخم کھائے۔ دشمن سے لڑتے لڑتے پہلے آپ کا دایاں بازو کٹا تو آپ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تھام لیا اور جب دشمن نے آپ کے بائیں بازو پر وار کیا تو آپ نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے اور آپ کو ’’ذوالجناحین‘‘ (دو پروں والا) لقب ملا۔ عبد الله بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا ہم نے جعفر بن ابی طالب کو ڈھونڈ وہ شہداء میں تھے اور ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے لگے ہوئے نوے زخم تھے اور ایک زخم بھی پشت پر نہیں تھا-ابوالفرج اصفہانی نے لکھا کہ: اولاد جناب ابو طالبؑ میں اسلام کے سب سے پہلے شہید جعفر بن ابی طالب تھے)
شیخ صدوقؒ نے روایت کی ہے کہ:
“پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جعفرؑ کی شہادت کی خبر سن کر بہت غمگین ہوئے اور آپؑ کے گھرانہ کے پاس تشریف لائے
۔ آپؑ کے بچوں کو گود میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی اور فرمایا:” خدا جناب جعفر کو دو کٹے ہوئے ہاتھوں کی بدلے میں دو پر عطا
کریگا جس کے ذریعہ وہ جنت میں
پرواز کرینگے، اسی لئے جناب جعفر ’’ذوالجناحین‘‘ سے مشہور ہیں۔ )
اتوار، 29 جنوری، 2023
ساحل کراچی کی پُر شکوہ عمارت -کراچی پورٹ ٹرسٹ
ساحل کراچی کی پُر شکوہ عمارت -کراچی پورٹ ٹرسٹ -قدرت نے کراچی کے ساحل کوگہرے پانی کی خلیج دے کر ایسی نعمت عطا کی ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہی کم ہے -کیونکہ گہرے پانی میں سمندری جہاز بہت آرام سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں اگر آپ کا کیماڑی جانا ہو توضرور یہ خوبصورت منظر دیکھئے گا کہ کس طرح لاتعداد دیو ہیکل جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے لنگر انداز ہو نے کو آ بھی رہے ہوتے ہیں اور اپنے مستقر پر جا بھی رہے ہوتے ہیں
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشّان بحری تجارت کی نگہبانی کر نے والی خوبصورت عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے
ساحلی ہوا کے سر پھرے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو تعمیر ہوئے ایک صدی مکمل ہوگئی۔ یہ وہ عمارت ہے ،جس پر یہ شہر فخر کرتا آیا ہے۔عمارت کی منفرد بات یہ ہے کہ جہاں یہ ایک جانب برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کی عکاس نظر آتی ہے تو دوسری طرف اسے رومن فن تعمیر سے بھی ملتا جلتا کہا جاتا ہے، جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔
کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ محدود پیمانے پر تالپوروں کے عہد سے بھی پہلے فعال تھی لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے اس شہر اور اس کی قدیم بندرگاہ کی اہمیت کو جان کر یہاں پر جب تعمیرات کا بیڑہ اُ ٹھایا تو اس بندر گاہ کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ندری تجارت کے تمام معاملات کی دیکھ بھال کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام سے یہ پر شکوہ بلڈنگ بنا کر سمندری تجارت کے تمام معاملات کا اسے نگہبان بنا یا انگریزوں نے اسے ایک جدید بندرگاہ کی شکل دے دی۔ کراچی بندرگاہ کے بارے میں جاننے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو قدیم تذکروں میں سب سے پہلے عرب سیاح سلیمان ال مہری نے 1511ء میںن اپنی سفرگزشت میں ’’راس الکراشی ‘‘کے عنوان سے اس تاریخی بندرگاہ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
وہ پسنی سے سمندر کے راستے کراچی آیا تھااور یہاں اس نے خاصا وقت گزارا۔ چند سال بعد ترک عثمانی کیپٹن سیدی علی رئیس نے اپنے سفر نامے ’’ملکوں کا آئینہ‘‘ میں تفصیل سے اس قدیم بندرگاہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کراچی کی یہ بندرگاہ کاروباری اعتبار سے اس زمانے میں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھی اسے کولاچی بندرگاہ کا نام دیا گیا۔ یوں تو تالپوروں کے دور 1820ء میں بھی یہ بندرگاہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی اورانیسویں صدی کے آخری سالوں میں کراچی کی بندر گاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکی تھی اور اس کا چرچا چار سو پھیل چکا تھا۔انگریزوں کے آنے کے بعد تو پھر یہ ایک ایسی بندرگاہ بن گئی کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہازرانوں اور جہازوں نے کراچی کا رخ کر لیا اور عالمی نقشے پر اس کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس بندرگاہ کی وہ ساکھ برقرار نہ رہ سکی جو انگریزوں کے قبضے کے دور میں تھی
کراچی قدیم فن تعمیر کے شاہکار نمونوں کا مسکن ہے۔ یہاں کی پرانی عمارتیں ہندو راجائوں اور برطانوی حکمرانوں نے بنوائیں، جو اس دور کے مقامی کاریگروں کے تعمیراتی فن کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ عمارتیں مغلیہ ، گوتھک، وینس اور وکٹوریہ ادوار کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں- جبکہ عمارت کے عین وسط میں واقعہ گنبد اسے اسلامی فن تعمیر سے بھی ملاتا ہے۔ اتنے زیادہ فن تعمیر کے نمونوں کا روپ دکھانے والی اس جیسی کوئی اور عمارت پورے شہر میں نہیں۔
کے پی ٹی کی ایگزیکٹو انجینئر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نور عین حسین کا کہنا ہے ’100 سال گزر جانے کے باوجود، عمارت کی تعمیر میں کارفرما شاندار آرکیٹکچر اور ڈیزائن حقیقی معنوں میں قابلِ ستائش ہے۔ عمارت کو بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان ہی نے ممبئی کی جانی پہچانی سنگ میل نوعیت کی عمارتیں بھی ڈیزائن کی تھیں، جن میں ’پرنس آف ویلز میوزیم‘ اور ’گیٹ وے آف انڈیا‘ شامل ہیں۔‘کراچی پورٹ ٹرسٹ آفس کے انتظامی دفاتر کو 1916 میں تعمیر کیا گیا تھا اور آج تک کراچی پورٹ میں سرگرمیوں سے متعلق تمام کاموں کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران کراچی بندرگاہ کے لئے تعمیر ہونے والی اس عمارت کو انڈیا جنرل ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا اور مئی 1919 تک یہ عمارت فوجی ہسپتال کی حیثیت سے انجام دیتی رہی۔
عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع ہوا جو 4سال کے عرصے میں تکمیل کو پہنچا، اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے یہاں5جنوری 1916ءکو کے پی ٹی ہیڈ آفس کا افتتاح کیاتھا، جبکہ بلڈنگ کی تعمیر پر مجموعی طور پر 9لاکھ 74ہزار 990روپے لاگت آئی تھی۔
کے پی ٹی نے تاریخی حوالوں کے ہمراہ دی گئی معلومات میں کہا ہے کہ عمارت تقریباً 1400 اسکوائر میٹر پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ عمارت کے عین درمیان میں واقع گنبد سے دائیں بائیں جانب گھوم جاتی ہے۔ یہی گھماوٴ اسے دوسری عمارتوں کے مقابلے میں قدآور بنادیتا ہے۔
کراچی بندرگاہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60% ہے۔بندرگاہ قدیم کراچی شہر کے مرکز کے قریب کیماڑی اور صدر کے علاقوں کے درمیان واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہ بندرگاہ اہم آبی گزرگاہوں مثلاً آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ بندرگاہ کا انتظام ایک وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہ ادارہ انیسویں صدی عیسوی میں برطانوی دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا-
کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔
’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ ہالٹ ریلوے اسٹیشن سے سامان تجارت کس طرح ہوتی ہے-کراچی کی بندرگاہ پر ۲۴ گھنٹے بذنس آپریشن جاری رہتا ہے جس میں ہمارے وطن عزیز کے سینکڑوں کارکن کام کرتے ہیں اور بحری جہازوں سے اترنے والے سامان کو یہاں کے ہالٹ ریلوے اسٹیشن پر موجود مال گاڑیوں کے ڈبّوں میں بھر کر ملک کے گوشے گوشے میں روانہ کرتے ہیں
ہفتہ، 28 جنوری، 2023
سموگ۔ آخر اپنے بچوں کو کہا ں لے کے کہاں جائیں ہم
کہ گزشتہ 7، 8 ماہ میں میری بیٹی متعدد بار بیمار ہوچکی ہے۔ تیز بخار اور کھانسی معمول کی علامات ہیں۔کئی مرتبہ تو کھانسی کے شربت اور بخار کی ادویات سے یہ مسئلہ ایک ہفتے میں ہی حل ہوجاتا تھا لیکن بعض دفعہ ٹھیک ہونے کے لیے اسے اینٹی بایوٹکس کا پورا کورس مکمل کرنا پڑتا ہے۔ کھانسی زیادہ دن تک رہتی ہے جبکہ وہ اس دوران اینٹی الرجی کی ادویات کے طویل کورس پر بھی کرچکی ہے
ہم واحد ایسے والدین نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہماری بیٹی کی جماعت اور اسکول میں متعدد بچے گزشتہ چند ماہ سے اسی طرح بیماریوں کا بار بار شکار ہورہے ہیں۔ بہت سے بچے بخار اور کھانسی کی وجہ سے کئی دنوں تک اسکول آنے سے بھی قاصر ہیں۔صرف لاہور میں ہی بیماری کے باعث اسکول نہیں جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ان کی موجودہ اور مستقبل کی صحت پر آلودگی کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے تمام بچوں کی بہبود خطرے میں پڑچکی ہے-جب میں اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں بعض بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کھانسی کے باوجود اسکول میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مجھے بہت سے دوستوں نے بتایا کہ یہ ایک عام بات ہے۔ رواں موسمِ سرما میں بے شمار بچے بیمار ہوئے لیکن ان بیماریوں کا شکار تو بچے موسمِ سرما سے پہلے بھی تھے۔کیا ہمارے بچے اپنی صحت گنوا کر سموگ اور آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت ادا کریں گے؟
حکومت بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے اور اس نے تمام اسکولوں کو جمعے کے روز بند کیا تاکہ بچے اسموگ کا شکار آلودہ ماحول میں گھر سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ سموگ کی وجہ سے موسمِ سرما کی تعطیلات میں بھی توسیع کی گئی۔سوشل میڈیا کے استعمال سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت صرف ہم اپنی صحت کے ذریعے ادا نہیں کرتے بلکہ طویل عرصہ آلودہ ماحول میں سانس لینے کی وجہ سے انسانوں کی عمر میں اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں بالخصوص ان کے آئی کیو میں واضح کمی واقع ہوتی ہے - فضائی آلودگی کے اثرات عمر کے کس حصے میں پڑتے ہیں اس کا تخمینہ لگانا تو کافی مشکل ہے کیونکہ کسی فرد نے آلودہ ماحول کا کتنا سامنا کیا اور اسی طرح کے دیگر عناصر پر اس کا انحصار ہوتا ہے لیکن صرف ان ماحولیاتی اثرات کی حقیقت ہی کافی خوفناک ہے۔ حکومت اس کی سنگینی کا ادراک تو رکھتی ہے لیکن وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتی نظر نہیں آتی۔
چین کے شہر بیجنگ میں مقیم میرے ایک دوست نے بتایا کہ کیسے دہائیوں پہلے بیجنگ میں فضائی آلودگی کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ تھی۔ اگرچہ آج بھی فضا میں آلودگی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوسکی ہے لیکن شہر کی صفائی کے بعد اب ہوا کا معیار لاہور سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔چینی حکومت نے آلودگی کو کم کرنے کے لیے صفائی کے کافی سخت اقدامات لینے کا آغاز کیا۔ ان اقدامات میں کوئلے کے استعمال کو ترک کرنا، صنعتوں کو شہر سے دُور کرنا، گیسوں کے اخراج کے حوالے سے سخت معیارات نافذ کرنا، ان معیارات کی نگرانی اور تعمیل نہ کرنے کی صورت میں صنعتوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنا اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ان ذرائع پر منتقل کرنا جس سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج نہ ہو، شامل ہیں۔
بیجنگ کی فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے کئی سالوں تک محنت اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑے۔ کچھ اندازوں کے مطابق شہر میں فضائی آلودگی کی کمی کے سبب رہائشیوں کی زندگیوں میں کم از کم 2 سال کا اضافہ ہوا ہے۔ مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ آلودگی سے صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں کمی بھی صحت پر پڑنے والے اثرات میں ہی شمار ہوتی ہے۔
لاہور کے شہریوں کے لیے یہ ایک ایسا واحد مسئلہ ہے جس کا نجی سطح پر کوئی حل دستیاب نہیں ہے۔ چند صاحبِ حیثیت لوگ گھروں اور گاڑیوں میں پیوریفائرز کی سہولت لگا سکتے ہیں لیکن کیا آپ بچوں اور بڑوں کی حرکات کو صرف گاڑی اور گھروں تک محدود کرسکتے ہیں؟ میرے خیال سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ان دنوں جب آلودگی کی شرح انتہا پر ہوتی ہے، وہ لوگ جو نقل مکانی کرسکتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لے کر کسی اور مقام پر منتقل ہوجاتے ہیں لیکن پہلی بات یہ کہ کتنے لوگ ہیں جو نقل مکانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ اسکول اور دفاتر وغیرہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے آلودہ فضا سے بچنے کے لیے یہ حل عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔صحت کے مسائل، تعلیم حتیٰ پینے کے پانی کے لیے بھی ہم ذاتی طور پر کوئی نہ کوئی حل نکال سکتے ہیں لیکن فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ لوگ صحت کے لیے نجی ہسپتالوں کا رخ کرسکتے ہیں، اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کروا سکتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کے لیے بوتل خرید سکتے ہیں لیکن پھر بھی نجی ذرائع سے سانس لینے کے لیے صاف فضا کا حصول کافی مشکل ہے۔
اس سے پہلے کہ عوام اس حد تک مجبور ہوجائیں کہ وہ اس مسئلے کو نجی طور پر حل کرنے کی کوششیں شروع کردیں، امید ہے حکومت آگے بڑھ کر عوامی سطح پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی۔اسکول بند کرنے اور دفاتر کے عملے کو گھر سے کام کرنے پر زور دینے جیسے وقتی اقدامات سے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس سے کچھ عرصے کے لیے شاید محسوس ہو کہ صورتحال قابو میں ہے اور شاید حکومت کو بھی کچھ وقت مل جائے لیکن یہ وقتی اقدامات کبھی بھی ان طویل مدتی منصوبوں کے متبادل نہیں ہوسکتے جن پر سختی سے عمل درآمد اور نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اسی طرح صنعتیں بنتی رہیں گی، سڑکوں پر مزید گاڑیاں آتی رہیں گی اور نہ صرف ہم یونہی آلودہ صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ اگر مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہ سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرتی ہیں تو یہ لاہور (اور دیگر آلودہ علاقوں) کے رہائشیوں کے قتلِ عام کے مترادف ہوگا۔جب تک ہماری حکومت سنجیدگی سے موثر حکمتِ عملی تیار کر کے اس پر عمل درآمد نہیں کرتی تب تک لاہور اور فضائی آلودگی کا شکار دیگر شہروں کے باسی اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کی بھاری قیمت چکاتے رہیں گے۔
یقیناً فضائی آلودگی سے بچوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے لیکن ہم بڑے بھی کم عمری کی اموات اور صحت کے مسائل کی صورت میں اس المیے کا خمیازہ بھگتیں گے۔ مگر حکومت اس انسانی المیے سے متعلق صرف چند بناوٹی اور سطحی اقدامات لینے کا اعلان کرکے ہی کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے لیکن کیا کوئی حکومت اس طرح کے اقدامات کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور کیا وہ ان اقدامات ہر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہے؟
جمعرات، 26 جنوری، 2023
کراچی کا مایہ ءنا زتعلیمی ادارہ-ڈی جے سائینس کالج -
اگر لاہور شہر میں سر گنگا رام نے لاہور کے نوجوانوں کے لئے تعلیمی خدمات کا بیڑہ اٹھا یا تھا تو ہم کو سندھ میں بھی ایک ایسی ہی بے لوث شخصیت تعلیمی میدان میں سرگرداں نظر آتی ہے جن کا نام دیوان دیارام جیٹھ مل ہے-
ء 1887میں انگریز دورِ حکومت سے قبل کراچی کے طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کے شہر بمبئی یا دنیا کے دوسرے ممالک جانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں طویل سفر زیادہ تر سمندری راستوں سے ہوا کرتے تھے لیکن ہوائی جہاز کے ذریعے بھی دوسرے ملکوں میں پہنچا جا سکتا تھا، البتہ عام آدمی کے لیے یہ سفر تقریباً ناممکن ہی تھا۔ کراچی گوکہ تعلیمی ‘ تجارتی‘ صنعتی اور معاشی طور پر سندھ کا مرکز تھا لیکن اعلیٰ تعلیم کا حصول یہاں ممکن نہیں تھا
کراچی میں واقع ڈی جے سائنس کالج کا شمار پاکستان کے معروف ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ کالج کی خوبصورت ار دلکش تاریخی عمارت حسنِ تعمیر کا حسین شاہکار ہے جس کا شمار بجا طور پر کراچی کی چند اہم اور قدیم تاریخی عمارات میں کیا جاسکتا ہے۔1887۔
کراچی کے شہریوں کی ان تکالیف کو دیکھتے ہوئے دیوان دیارام جیٹھ مل نے کراچی میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کراچی اور سندھ کے لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کام کا آغاز کیا‘ شہریوں کو اس نیک کام میں شامل کیا اور ممبئی جا کر اعلیٰ حکام سے کراچی میں کالج کے قیام کی درخواست کی، جسے مشروط طور پر منظور کر لیا گیا، شرط یہ تھی کہ وہ ایک مخصوص رقم کراچی کے شہریوں سے چندے کی صورت میں جمع کر یںگے او رباقی ماندہ رقم حکومت وقت انہیں فراہم کرے گی۔
سیٹھ دیارام جیٹھ مل نے کراچی واپس آکر پُرجوش انداز میں کالج کے قیام کی کوششوں کا آغاز کیا ۔شہر شہر جا کر لوگوں سے چندے کی درخواست کی جس کے جواب میں فراخ دل شہریوں نے دل کھول کر چندہ دیا۔ سیٹھ دیارام نے خود بھی خطیر رقم چندے میں دی ، یوں جلد ہی مقررہ رقم سے کئی گنا زائد رقم اکٹھی ہوگئی ۔عمارت پر لاگت کا تخمینہ سوادولاکھ روپے تھا۔ لیکن شہریوں نے سیٹھ دیا رام کے عظیم مقصد کو سمجھ لیا تھا اور وہ ہر طرح سے ان کے ساتھ تھے۔
مقصد نیک ہو تو منزل از خود قریب آجاتی ہے۔ آخر وہ دن آہی گیا جب جنوری 1887ء میں ایم اے جناح روڈ پر ٹھٹھائی کمپائونڈ کے ایک بنگلے میں کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا جس کے لیے ممبئی کے گورنر لارڈ ہیرس کو دعوت دی گئی کہ وہ کالج کا باقاعدہ افتتاح کریں۔ یوں سیٹھ دیارام کے اس خواب کو تعبیرملی جو انہوں نے اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے دیکھا تھا۔ یہ عمارت سولہ ہزار چار سو پچاسی مربع گز پر مشتمل ہے۔ اس شاندار عمارت کے آرکیٹکٹ مسٹر جے اسٹریچن تھے جنہوں نے اسلامی طرز تعمیر اور دنیا کی بہت ساری عمارات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ڈیزائن کیا اور ماسٹر پلان بناتے ہوئے رومن طرز تعمیر کو بھی پیش نظر رکھا ۔
اپریل 1889ء میں اس کالج کو ایک دو منزلہ بنگلے میں منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سندھ جیم خانہ واقع تھا۔14نومبر1887ء کو موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ ڈیفرن نے عمارت کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں معززین شہر نے بھی شرکت کی ۔ کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد تعمیری کاموں کا آغاز زور و شور سے ہوا اور تقریباً پانچ سال کی قلیل مدت میں عمارت کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
1892ء کالج کا نام ’’سندھ آرٹس کالج‘‘ رکھا گیا جو پورے سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا واحد ادارہ تھا ۔ اس زمانے میں اس کالج میں پڑھنا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ سندھ کے علاوہ بھی دوسرے شہروں سے حصول علم کے لیے طلباء اس کالج کا رخ کرتے ،جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش بھی فراہم کی جاتی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کراچی کے باشعور شہری اپنے محسن سیٹھ دیارام کو بھلا دیں جنہوں نے علم و آگہی کے نئے چراغ روشن اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے اُن پر وا کیے تھے۔
وہ طلباء جو اس سے قبل ممبئی اور دوسرے شہریوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے تھے انہیں اپنے ہی شہر میں تعلیم کے مواقع میسر آنے لگے۔ کالج کا نام سیٹھ دیارام جیٹھ مل کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ جو اس بات کا اظہار تھا کہ کراچی کے شہری سیٹھ دیارام کا بے انتہا احترام کرتے ہیں اور اُن کی خدمات کو بھرپور انداز میں سراہتے ہیں ۔آہستہ آہستہ کالج کا نام مختصر کر کے ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج ، اب یہ کالج ڈی جے سائنس کالج کے نام سے مشہور ہے۔
محمد بن قاسم روڈ پر واقع اس کالج کی عمارت انتہائی پُرشکوہ اور 129سالہ شاندار تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کالج کے قریب ایس ایم لاء کالج ‘ برنس روڈ‘ سندھ سیکریٹریٹ‘ پاکستان چوک اور قومی عجائب گھر واقع ہیں۔ حال ہی میں یہاں حکومت سندھ نے پیپلز اسکوائر تعمیر کیا ہے جس میں زیر زمین کار پارکنگ کا وسیع نظام ہے اور شہریوں کی تفریح و طبع کے لئے فوڈ اسٹالز اور بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی ہے۔ پودوں اور درختوں سے پیپلز اسکوائر کو خوبصورت بنایا گیا ہے۔ کراچی کی عمارتوں کی تعمیر میں زیادہ تر جے پور اور جودھ پور کے سرخ پتھروں اور جنگ شاہی کے پتھر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پتھروں کی کٹائی کے بعد ان کو گھسا جاتا ہے۔
بعض عمارتوں کے پتھروں پر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں۔ سلاوٹ برادری کو سنگ تراشی کا ماہر تصور کیاجاتا ہے۔کراچی کی بیشتر عمارتیں انہی کی فنی مہارت کا بہترین نمونہ ہے لیکن ڈی جے کالج کی عمارت میں استعمال ہونے والے پتھر اجمیر شریف بھارت سے منگوائے گئے، جب کہ فرش میں استعمال ہونے والی ٹائلز بیلجیم سے درآمد کی گئیں۔آبنوس کی لکڑیوں پر نقش و نگار بنا کر چھت اور دروازے بنائے گئے ۔ باقی میٹریل اپنےملک کا استعمال کیا گیا۔ دلکش اور خوبصورت ڈیزائن سے مرصع یہ دروازے اب کالج میں نہیں ہیں البتہ کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں صرف ایک دروازہ موجود ہے
کالج کے پہلے پرنسپل ہونے کا اعزاز پروفیسر ڈاکٹر مولینکس آرویلمسلے Mullineux R. Walmsleyکو حاصل ہوا جو 1887ء سے 1888 ء تک پرنسپل تعینات رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تک اس کالج کے لیے 9پرنسپلوں نے اپنے فرائض انجام دیے۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک 30کے لگ بھگ شخصیات کو اس کالج کا پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔
دہ گلونہ نندارہ ''جشن نو روز''
دہ گلونہ نندارہ ''جشن نو روز''
کیا یہ شیعو ں کا تہوار ہے جبکہ ہمارے پشتون ہم وطن بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گُلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔نوروز بہاری اعتدالین کا دن ہے اور شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان رسومات ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں کبھی آپ کا جانا ہو آپ دیکھیں گے وہاں مسلمانوں تہوار جیسے عیدبقرعید تو یہ اقوام ان دنوں کو ایک مقدّس فریضہ تو جانتے ہیں لیکن ان کے یہاں صحیھ معنوں مین اگر جشن ہوتا ہے تو نوروز کا ہوتا ہے - سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں نوروزکیسے منایا جاتا ہے نوروز ایک جشن ہے جس کو مناکر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے پشتون بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔
مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔
وسطی ایشیا ء اور ایران میں نوروز کا جشن دو ہفتے تک منایا جاتا ہے۔ نوروز کے دن خاص پکوان پکتے ہیں جس میں سات”ش یا س” سے شروع ہونے والی ایشیا ء لازمی ہوتی ہیں مثلاً شیر(دودھ)، شہد، شیرنی، شراب ، سیب، سرکہ اور سبزہ شامل ہوتے ہیں۔ نوروز کے دن سے شروع ہونے والی تقریبات میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اور رشتے داروں خصوصاً اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ملنا اور ان کو تحائف دینا انتہا ئی لازمی ہوتا ہے۔ سات کے عدد کو متبرک سمجھنے والے اہل فارس تیرہ کے عدد کو چونکہ منحوس سمجھتے ہیں اس لئے نوروز کے تیرویں دن گھر میں کوئی نہیں رہتا سب باہر دن گزارتے ہیں اور یوں سات بدی اور سات اچھائی کی طاقتوں پر یقین رکھنے والے دو ہفتوں تک سات قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوکر پھر سے زندگی کے معمول کے ہل میں پورے سال کے لئے جوت جاتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں لوگ سردیوں کا پورا موسم اپنے گھروں میں محدود رہ کر بہار کی آمد کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل کر کھیتی باڑی کرسکیں اور بند گھروں کے اندر سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جلائی جانے والی آگ کےدھویں سے ان کی جان چھٹے۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی سخت سردی کا خاتمہ اور کھیتی باڑی کے موسم کی آمد لوگوں کے لئے شکر ادا کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے جس کو نئے سال کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جنوبی اور شمالی ہندوستان کے بھی اپنے ایسے تہوار ہیں جو کاشتکاری کے نئے سال کی آمد پر منائے جاتے ہیں ۔ بسنت اور بیساکھی بھی در حقیقت موسمی تہوار ہیں جو ہمارے ہاں بھی بہار کی آمد اور فصل کی کاشت کے جشن تھے مگر اب وہ تاویلات کی موت مار کر شجر ممنوع قرار دیے جا چکے ہیں۔
پاکستان کے شمال گلگت بلتستان اور چترال میں بھی نوروز کا تہوار بڑذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ نوروز کو عورتوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن پورے گاؤں کی عورتیں ایک مرکزی مقام پر اکھٹی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس دن اس سال کے دوران پیدا ہونے والے تمام بچوں کی ڈا ڈا (پچوں کو پیٹ پر اٹھانے ) اور بال کاٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس دن عورتیں اپنے خاندان کی دیگر عورتوں اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر گاتی اور رقص کرتی ہیں۔ جب چھوٹے تھے تو ہمیں بھی نوروز کی زنانی محفل میں جانے کی اجازت تھی اور جب عمر بڑھ گئی تو ہمیں بھگا دیا جانے لگا ۔
لوگوں نے جشن نوروز کو مذہبی تہوار بناکر خصوصاً شیعوں کے مختلف فرقوں کیساتھ جوڑ کر اس موسمی تہوار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس تہوار کا آغاز اسلام سے قبل کا ہے اور جہاں جہاں یہ منایا جاتا ہے وہاں کے سبھی لوگ اہلیان تشیع کے کسی فرقے سے تعلق بھی نہیں رکھتے ہیں۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...