جمعہ، 11 نومبر، 2022

میرے بچپن کا یادگار واقعہ

crossorigin="anonymous"><

 انسان کی زندگی میں بچپن کا وقت بھی کتنا یادگار اور انوکھا ہوتا ہے۔بہت چھوٹی چھوٹی اور معصوم تمناؤں کا مسکن ۔میرے بھی بچپن میں وہ دور آ یا تھا مہاجرین کی جم غفیر بستیاں تھیں اور ہمارا گھرانہ بھی انہی بستیوں میں سے ایک تھا ۔میری بچپن کی دلچسپیوں میں سب سے بڑی دلچسپی یہ تھی کہ مجھے دوسرے گھرانوں  کے رسم و رواجوں سے اور ان کے رہن سہن  کے انداز سے آگہی حاصل کرنا تھی ۔اور میرے لئے میری پیاری والدہ جنہیں ہم سب بہن بھائ امی جان کہتے تھے میرے اوپر  پابندی لگائ ہوئ تھی کہ ان کے منتخب  کردہ گھرانوں کے علاوہ میں جا نہیں سکتی تھی ۔جبکہ معاشرتی علم معاشرے میں گھلنے ملنے سے ہی ملتا ہے۔بہر حال یہ میرے بچپن کا ایک یادگار قصہ ہے عنوان ہے کلو چھولے والے کی شادی  

میری عمر کا یہ دور تھا جب مجھے ڈھولک بجانے کا جنون کی حد تک شوق تھا ایسے میں ایک دن میری سماعت میں ڈھولک بجنے کی آواز آ ئ میں نے امی جان سے جانے کی اجازت مانگی جو مجھے مل گئ میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کو گود میں اٹھایا کیونکہ اگر میں اس کو  چھوڑ کر جاتی وہ رو 'رو کر گھر سر پر آٹھا لیتا اور میں سامنے کے محلّے میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ اور میری آنکھیں 

   ڈھولک بجانے والی انگلیوں پر جم گئیں اور  میں نے سوچا کاش میں بھی اسی طرح سے ڈھولک بجا نے لگوں لیکن یہ خواہش آج بھی تشنہ ہے۔اب آتی ہوں شادی کی بات پر

کلّو چھولے والے کا تعارف  یہ ہمارے سامنے والے محلے کا ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا سلو نا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا 
جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں اور نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں
خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی
اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے
ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے
اگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی 
ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی
اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ

اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ گئ ،
میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،
نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے
کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور آج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ 
صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ 
بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ
مگر کیسے ؟
دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،
ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں ۔بعد میں جب میری کھوجی فطرت نے زور لگا یا تب مجھے پتا چلا کہ ہندوستان سے ماں اور بیٹی آئ ہوئ ہیں اور اسی بیٹی کی شادی کلو چھولے والے سے ہوئ ہےَُ

بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،
خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،
ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں سہیلیاں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر بڑی مشکل سے کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ 
دولہا نے سامنے ہی بچھے پلنگ پر دلہن کو لڑھکا دیا ،اور گھر کی عورتوں نے اس کو سیدھا کیا لیکن اس نے شرم کے مارے اپنے گٹھری نما ہاتھ پاؤں کھولے نہیں یوںہی گھٹنو ں میں سر دے کے بیٹھی رہی ،اب کھیر چٹائ کی رسم کی پکار پڑی لیکن اس کے ساتھ ہی کمرے میں ایک اور آواز گونجی سب کمرے سے چلے جاؤ دلہن کے دادا دعا ء کرنے آ رہے ہیں بس کمرے میں دولہا دلہن رہیں گے اس کے ساتھ کمرے سے سارے بچّے ہنکا دئے گئے اور ہم دونوں سہیلیوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی ،یہ میرے بچپن کی ایک معصوم سے نوجوان کی یادگار شادی تھی ،ان کی رسمیں انکی بولی ان کا ہر انداز ہم سے جدا تھا اور بہت انوکھا تھا

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا



تختی اور برو کا قلم کہاں کھو گئے

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

ہمارے زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بچو ں کو ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہو۔اس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

 میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب امی جان اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیا

لیکن اگر کوئ بچہ تختی لکھتے ہوئے چون چرا کرتا تو امی جان کہتیں پہلے اپنی رائٹنگ پختہ کرو پھر رعائت مانگنا۔اس زمانے کی تعلیمی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرے۔

خیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھا۔میری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل گئ

اس زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،

اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایا

یہ میرے بچپن کی تعلیمی دور کی کچھ یادیں تھیں جو میں نے آپ سے شئر کیں

جمعہ، 4 نومبر، 2022

بیچارے خستہ حال پل اور نادان عوام




بیچارے خستہ حال پُل اور عقل سے عاری عوام 

سب دیکھ رہے ہیں پُل کافی پرانا ہے اس کی خستگی اس کی سراپے پر موجود ہے پھر بھی سارے باراتی پل پر سیلفی بنوانے کھڑے ہو گئے اور پھر پُل 'پل بھر میں اچھلتے کودتے دریا میں دولہا اور باراتیوں سمیت جا گرا،
گرنے والوں کی دلدوز چیخیں بلند ہوئیں اور پھر بچ جانے والے باراتی روتے دھوتے واپس ہوگئے'یہ تمام منظر نامہ یوٹیوب پر موجود ہے 
ادھر انگریزوں کے معاشرے میں شادیوں کو نت نئے انوکھے رنگ دینے کے لئےکافی کچھ نیا نیا انداز اپنایا جاتا ہے -یہ بھی یو ٹیوب کا ایک منظر ہے  آٹھ'دس دولہا اور انکی اتنی دلہنیں بیچاروں کو خستہ اور پرانے پل کی حالت زار ہی نظر نہیں آئ اور پل پر پہنچتے ہی سارے دولہا اور کچھ دلہنیں ٹوٹے پل کے ساتھ گر چکے تھے-

اب آئے پوری تین بسیں بھر کرکالج کے طالب علم تھے اور ان کے ساتھ ان کے اساتذہ بھی تھے مگر سیلفی کے شوقین پل پر جمع ہوئے اور پھر پُل ٹوٹ گیا -یہ ایک بڑا ہی اندوہنا ک واقعہ تھا جس کی تفصیل میں اپنی ایک تحریر میں بتا چکی ہوں اور اب یہ نیا موربی پُل حادثہ ہے -صرف ۱۰۰ افراد کی گنجائش والے پل پر ۵۰۰ لوگ اکھٹّے جمع ہو گئے اور پھر دریا میں جا گرے--گجرات کے موربی پل حادثہ کا اثر! اتراکھنڈ کے تمام پلوں کا ’سیفٹی آڈٹ‘ کرانے کے احکامات جاری - پرنسپل سکریٹری نے چیف انجینئر محکمہ تعمیرات عامہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ریاست میں واقع پلوں سے متعلق تازہ ترین معلومات ہر صورت میں 3 ہفتوں کے اندر حکومت کو فراہم کی جائیں۔موربی میں رہنے والے سینئیر صحافی پروین ویاس کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے زمانے کا یہ ’ہینگنگ‘ یعنی جھولتا ہوا پل جسے حکومت کی سیاحت سے متعلق ویب سائٹ پر ایک ’تکینیکی عجوبہ‘ کہا گیا ہے، مقامی افراد کے درمیان کافی مقبول تھا اور موربی شہر کا مشہور دلکش سیاحتی مقام تھا۔حادثے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے زخمیوں سے ملاقات کی

دہرادون: اتراکھنڈ میں تمام پلوں کا سیفٹی آڈٹ کیا جائے گا، اس سے متعلق حکم نامہ محکمہ تعمیرات عامہ کے پرنسپل سکریٹری آر کے سدھانشو نے جاری کیا ہے۔ قبل ازیں، وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے بھی اس سلسلہ میں محکمہ تعمیرات عامہ کو ہدایات دی تھیں۔ پرنسپل سکریٹری آر کے سدھانشو کی طرف سے جاری کردہ حکم نامہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ریاست میں پلوں کی مناس دیکھ بھال نہیں ہونے، مقررہ وقت میں   سیفٹی آڈٹ کا انتظام نہیں ہونے، ٹریفک کے نقل و حمل کے دوران لوڈ کی گنجائش سے زیادہ ہونے، پلوں کے قریب سائنز نہ ہونے اور پلوں کی تعمیر میں زیادہ وقت لگنے کی وجہ سے ملک اور ریاست کے کئی اہم پل حادثہ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے سبب جان و مال کا نقصان ہونے کے ساتھ ٹریفک میں خلل پڑا 

انہوں نے چیف انجینئر محکمہ تعمیرات عامہ کو ہدایت دی ہے کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت کے مطابق اس سلسلے میں فوری کارروائی کو یقینی بناتے ہوئے ریاست میں واقع پلوں سے متعلق تازہ ترین معلومات ہر صورت میں 3 ہفتوں کے اندر حکومت کو فراہم کی جائیںانہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پلوں کے سلسلے میں محکمہ تعمیرات عامہ کے ضلعی سطح کے افسران متعلقہ ضلع کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے پل جن کی تعمیر کو برسوں گزر چکے ہیں، ان میں بوجھ برداش کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر نقل و حمل کو یقینی بنایا جائے۔ ہر ایک پل کا سیفٹی آڈٹ کرواتے ہوئے دیکھ بھال وغیرہ کی تجویز فوری طور پر حکومت کو پہنچائی جائے، پلوں کے قریب سائن بورڈوں کا مناسب انتظام کیا جائے۔ کسی بھی قسم کے حادثے کی صورت میں متعلقہ ایگزیکٹیو انجینئر مکمل طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

خیال رہے کہ اتوار کو گجرات کے موربی میں معلق پل گرنے سے تقریباً 400 لوگ مچھو ندی میں گر گئے تھے۔ پل گزشتہ 6 ماہ سے بند تھا اور اسے دیوالی کے ایک دن بعد یعنی 25 اکتوبر کو ہی عام لوگوں کے لیے کھولا گیا گیا۔ پل کی صلاحیت صرف 100 افراد کی تھی لیکن اتوار کو اس پر تقریباً 500 لوگ موجود تھے۔ چنانچہ یہ پل ٹوٹ گیا اور 140 افراد ہلاک ہو گئے۔ موربی کا یہ معلق پل 140 سال سے زیادہ پرانا ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 765 فٹ ہے۔230 میٹر لمبا اور 4۔1 میٹر چوڑے اس پل کے تعمیر کیے جانے صحیح تاریخ کو بارے میں مختلف آراء ہیں لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس کو 1880 میں مقامی مہاراجہ واگجی ٹھاکور نے بنوایا تھا۔

نرجن داس قریب میں ہی ایک مندر کی تعمیر میں مزدوری کررہے تھے۔ حادثے کے بعد لوگوں کو بچانے کے لیے جو لوگ سب سے پہلے پہنچے تھے ان میں وہ بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنے سارے بچوں کے لاشیں ندی سے نکالیں کہ وہ ان کی گنتی بھی بھول گئے ہیں۔مقامی افراد کے کہنا ہے کہ بہت سارے بچے اس لیے مر گئے کیونکہ ان کو تیرنا نہیں آتا تھا اور اس لیے بھی کہ نوجوان لوگوں کی طرح وہ پل کے ملبے کو پکڑ کر لٹک نہیں سکے۔

اور بلاخر دریا کے پانی میں گم ہو گئے

سیدہ زائرہ ،

بریمپٹن ،

کینیڈا۔

جمعرات، 3 نومبر، 2022

قدرت کی ایک پیاری نعمت زعفران

 

 

قدرت نے بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا نعمتیں کن کن شکلوں میں اتاری ہیں زرا سا غور کیجئے تو لا متناہی نعمتوں کی قطار نظر آئے گی -ان بیش بہا نعمتوں میں زعفران بھی شامل ہے

زعفران کا بیج ایک پیاز کی گٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ یاد رکھیے زعفران کے بیج دانے دار یا کسی اور شکل میں نہیں ہوتے۔ جب درجہ حرارت 15-20 سنٹی گریڈ سے کم آتا ہے تو پھول آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر علاقے میں پھول نکلنے کا موسم مختلف پایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پھول آنے کے لیےبلب(زعفران کے بیج کو بلب کہا جاتا ہے) دسمبر اور کچھ علاقوں میں جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ پودوں کو مارچ تک مذید بیج بنانے کے لیے لگائے جا سکتے ہیں۔

زعفران کے بلب اگست سے لے کر دسمبر تک کسی بھی موسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب لگاتے وقت مندرجہ زیل باتوں کا خیال رکھا جائے زعفران کے لئے معتدل موسم والے علاقے بہترین ہیں۔زعفران کا بلب 40 سینٹی گریڈ سےمنفی20 سینٹی گریڈ تک کے موسم میں ٹھیک حالت میں رہتا ہے۔چونکہ گرم موسم میں زعفران کا بلب سو جاتا ہے۔ اور جونہی ٹھنڈا موسم شروع ہوتا ہے پھول نکلناشروع ہو جاتے ہیں۔ سردی میں زعفران کا بلب بڑھنا شروع ہو جاتا ہے, زعفران کا بلب بہت تیزی سے زمین میں بڑھتا ہے۔ یہ 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 اور فر 32 ھو جاتا ہے۔ ہر 2 یا 3 سال بعد ان کو نکال کر اور جگہ پر لگانا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں اگر مناسب حفاظت کی جائے تو زعفران کا بیج 20 سال تک چلتا ہے۔ اور اس کے اگے ہزاروں بلب پیدا کرتا ہے۔

زعفران کی فصل

کم از کم 12 بلب خریدیں۔ عام طور پر چھ چھ بلب اکھٹے گچھے کی صورت میں اگائے جاتے ہیں۔ گچھے کی صورت میں اگانے سے پھول زیادہ آتے ۔ پر آپ ان کو علیحدہ علیحدہ بھی اگا سکتے۔ درمیان میں فاصلہ کم از کم چھ سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔زعفران بلب اگست سے جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسی زمیں جس پر برف باری ہو، اس پر برف باری سے چھ سے آٹھ ہفتے پہلے بلب لگائے جا سکتے ہیں۔ایسے جگہ کا انتخاب کریں جہاں زیادہ ڈاریکٹ سورج کی روشنی آتی ہو۔زمیں میں چھوٹا سا گڑھا بنائیں اور تقریبا بارہ سے سولہ انچ تک اچھی طرح مٹی کو نرم کر لیں۔ اور پھر بارڈر پر زعفران کے بلب لگا دیں۔اس بات کا خیال رکھیں کے پانی زمین میں اکھٹا نہیں ہونا چاہیے۔ ریتلی مٹی کا استعمال بہتر ہے۔ تاکہ نمی قائم رہے۔آٹھ انچ یا 20 سنٹی میٹر کا کا گڑھا بنایں اور اس میں زعفران کا بلب لگا دیں۔ 

مختلف کھادوں اور کیمیکل کا مرکب آپ کھاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یا آپ کھاد کا پیکٹ بایئو ٹیک سے بھی منگوا سکتے ہیں۔بلب کو لگاتے ہوئے خیال رکھیں کے اس کا پتلا یا منہ والا حصہ اوپر کو رکھیں-زعفران بلب لگانے کے بعد اچھی طرح زمیں کو پانی لگائیں -زعفران بلب کو زیادہ پانی مت لگایں۔ سردیوں کی بارش کی وجہ سے پانی کی مناسب مقدار ملتی رہتی ہے۔زعفران کا بلب بہت تیزی سے پھیلتا ہے، اور سردیوں میں پھول نکلنے کے بعد اس سے چھوٹے چھوٹے بے شمار بلب نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان علیحدہ کر کے مزید ٖفصل کو بڑھایا جا سکتا ہے یا مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ئیے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ زعفران کی فصل سے فی کنال کتنی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے؟زعفران کی فی کنال پیداوار کا حساب لگانے کے لئے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ایکڑ میں زعفران کے کتنے پودے لگائے جاتے ہیں.

سیدھا حساب یہ ہے کہ ایک کنال رقبے پر زعفران کے تقریباََ 10 ہزار پودے لگائے جاتے ہیں اگر ایک پودا اوسطاََ تین پھول بھی نکالے تو 10 ہزار پودوں سے 30 ہزار پھول حاصل ہوتے ہیں.زعفران کے 150 پھولوں سے ایک گرام خالص زعفران حاصل ہوتا ہے تو اس طرح 30 ہزار پھولوں سے 200 گرام خالص زعفران حاصل ہو گا واضح رہے کہ زعفران کا ایک پودا سیزن میں 3 پھولوں سے لیکر 15 پھول نکالتا ہے. لیکن ہم نے کم سے کم یعنی 3 پھولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پیداوار کا حساب لگایا ہے

زعفران کے بیج کو بلب کہتے ہیں.

زعفران کے بیج یعنی بلب کی شکل لہسن کی پوتھی جیسی ہوتی ہے

واضح رہے کہ زعفران کا ایک ہی بیج یعنی بلب بار بار لگایا جاتا ہے اور وہ 10 سال تک استعمال ہو سکتا ہے.-دلچسپ بات یہ ہے کہ زعفران کا ایک بلب جب زمین میں لگایا جاتا ہے تو ایک سال کے اندر اندر وہ زمین میں اپنے جیسے کئی اور بلب بنا لیتا ہے عام طور پر زعفران کا ایک بلب ایک سال میں اپنے جیسے کم از کم 5 بلب پیدا کر لیتا ہے اس طرح سے خالص زعفران کی پیداوار کے ساتھ ساتھ کسان کو زعفران کا اضافی بیج بھی حاصل ہوتا ہے.

ایک پودا اگر پانچ بلب پیدا کرے تو ایک کنال میں موجود 10 ہزار پودے 50 ہزار نئے بلب پیدا کریں گے اور اسی حساب سے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں گے

تحریر و تلخیص،

سیّدہ زائرہ،

بریمپٹن ،

کینیڈا۔

ہم اور ہمارے ارادوں کی تکمیل

 

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اپنے رب کو پہچانا -میری زندگی کاا یک  اہم واقعہ یہ  کہ جب اللہ پاک نے اپنے کرم سے پنجتن پاک کے صدقے مین صاحبزادے کو سعودی عرب میں برسرروزگار کر دیا تب ایک دن  میں نے سوچا میری عمر تو گزر تی جارہی ہے  ,,,میں علم معرفت کب حاصل کر سکوں گی ،وقت کہاں سے نکالوں پس میں نے سوچا بیٹے اور شوہر کی کمائ سے کفائت میں گھر چلاؤں گی اور اپنا وقت اپنے لئے حصول علم میں صرف کروں گی میں نےانوار صاحب سے اپنے ارادے کا زکر کیا تو انہون نے سہولت سے جواب دیا جو چاہو کرو  -

بچّوں کے سالانہ امتحانات سر پر تھے میں نے پوری تندہی سے بچّوں کو تیاری کروا کر امتحان دلوائے اور پھر گرمیوں کی چھٹّیاں

 شروع ہو گئیں تھین اور میرا پکّا  پکّا ارادہ تھا کہ چھٹّیون کے بعد جب اسکول کھلیں گے میں بچّوں کو گلی میں موجود دوسرے ٹیوٹرز

 کے پاس بھیج دونگی ،لیکن بھلا ہم کہاں کچھ چاہ سکتے ہیں جب تک وہ نا چاہے ،بس ایک دن میں حسب معمول تین بجے سہ پہر کو

 گھر آئ انوار صاحب کہنے لگے ایک لڑکی تم سے ملنے آئ تھی ،اپنے بچّوں کو ٹیوشن پڑھوانا چاہ رہی ہے

،مین نے اس سے بتا دیا ہے کہ اب وہ پڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں پھر بھی وہ کہ کر گئ ہے کہ کل آئے گی ،خیر بات آئ گئ ہوگئ

 لیکن وہ تو اگلے دن میرے گھر آنے سے پہلے ہی میرے گھر پر بچّون کے ہمراہ موجود تھی ،بیٹی کی عمر تیرہ برس جبکہ ،بڑا بیٹا د

س برس تک اور چھوٹا سات برس کی عمر تک تھا اس نے مجھے سلام کیا میں اسے جواب دے کر اس کے مقابل بیٹھ گیئ تو وہ

 مسکراتے ہوئےکہنے لگی یہ میرے بچّے ہیں بیکن ہاؤس میں پڑھتے ہیں ا ور مین نے سنا ہئے کہ آپ بہت اچّھا ٹیوشن پڑھاتی ہیں اور میں آپ کو بہت اچھّا ہدیہ دوں گی لیکن ان کواب آپ ہی پڑھائیں گی

مین نے بھی مسکرا کر اس سے پوچھا کہ اس ‘‘اب ‘‘کا کیا مطلب ہئے تو کہنے لگی کہ ان کا استاد گھر پر پڑھانے آرہاتھا ،لیکن اب یہاں ہم نے گھر خریدا اور استاد یہاں آنے کو تیّار نہیں ہے اسے اپنے گھر سے ہمارا گھر بہت دور پڑ رہا ہے ،اور میں بچّوں کی چھٹیّان بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی ہوں اس لئے کل سے ٹیوشن شروع کروانا چاہتی ہوں ،

،،میں نے اس کی پوری بات سن کر کہا بیٹی ،کیونکہ میں اب نے ٹیوشن پڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا ہئے اوریہ کہ اس گلی میں ایک این ای ڈی کا اسٹوڈنٹ ،اور ایک دوسرے گھر میں کراچی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ بھی ٹیوشن پڑھاتی ہئے،میری بات سن کر وہ بلکل سنجیدہ ہو گئ اور کہنے لگی کہ میرے شوہر نے سختی سے کہا ہے کہ کسی اور جگہ بچّوں کو بٹھانے کی ضرورت نہیں ہئے کیونکہ بیٹی سیانی ہورہی ہے بتائیے میں کہاں جاؤں پھر جو میری نظر اس کی آنکھوں پر گئ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور اسی لمحے مجھ پر ادراک کا دروازہ کھلا جس میں اللہ تعالٰی مجھ سے ناراض لہجے میں کہ رہا تھا کہ او بد بخت جب تجھ کو اپنی غرض تھی تب تو کس طرح خوشی خوشی بچّے پڑھاتی رہی اور اب جب میری مخلوق کو تیری ضرورت ہئے تو کس طرح بے مروّتی دکھا رہی ہے ،بس میں نے اس سے کہا کل سے بچّے ساڑھے چار بجے لے آنا اس لڑکی کی خوشی اسوقت دیدنی تھی ،

یہ واقعہ میرے لئے اس لئے اہم ثابت ہوا کہ اس وقت لے کر اب تک میں الحمد للہ مسلسل پڑھا رہی ہوں اور یہی میرے مالک کی مرضی تھی- ،میرے علم معرفت جس کا مجھے شوق تھا وہ تشنہ ہے کوشش لگاتار کرتی رہتی ہوں ،دینا یا دینا اس کے اختیار میں ہئے ،اور میرےرب نے میرا ارادہ کی تکمیل نہیں ہونے دی-

اکثر ملنے جلنے والے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ الحمدللہ دو صاحب حیثیت بیٹوں کی کمائ کے باوجود بھی میں کیوں ٹیوشن پڑھاتی ہوں ،میں کسی سے کیا بتاؤں کہ کیوں پڑھاتی ہوں کہ یہ معاملہ میرے اور میرے رب کے درمیان وعدے وعید کا ہے-

سرخ رنگ جوش ولولے کی علامت مانا جاتا ہے-

 سرخ رنگ جوش ولولے کی علامت مانا جاتا ہے-عمومی طور پر قربانی، خطرات اور جرأت سے وابستہ کیے جانے والا سرخ رنگ رخ رنگ:دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ اگر رنگوں کو نفسیات کی نظر سے دیکھا جائے تو سرخ رنگ انتہائی دلچسپ ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ سرخ رنگ طاقت کی علامت ہے۔یہ رنگ جذبات کو بر انگیختہ کرتا ہے یہی وجہ کہ بُل فائٹنگ میں فائٹر بل کو سرخ رنگ کا رومال لہرا کر انہیں چیلنج دیا جاتا ہے

آنکھوں کو بھلا لگنے والا یہ رنگ پہننے والے کی شخصیت کے حوالے سے بھی مختلف خیالات کا باعث بنتا ہے۔ اسی رومانویت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جیسے سرخ گلاب دنیا میں محبت کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 
 اسی طرح عروسی ملبوسات میں ہمیشہ سرخ کا انتخاب کرنے کے پیچھے بھی رومانوی خیالات بیدار کرنے کا اہتمام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر جنوب مشرقی ایشیاء میں دلہن کے لیے سرخ لباس کو ہی چنا جاتا ہے اور اسے سہاگن ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔۔ سرخ رنگ جہاں بہت سی خواتین کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے اور خاص موقعوں پر ان کی کشش بڑھا دیتا ہے -
 یہ کچھ مواقع پہ پہننا موزوں نہیں جیسے کی جاب پہ پہننے کے لیے یہ رنگ آنکھوں کو بھلا لگنے کے بجائے برا لگتا ہے اور ایک نارمل لک دینے کا کام بالکل نہیں کرتا جوکہ کسی بھی جاب کرنے والے مرد یا خاتون کے لیے درست امر نہیں۔ رنگوں کی نفسیات میں سرخ رنگ شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مقصد دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے۔ آپ کی نظر سے ایسے بہت سے برانڈ گزرے ہوں گے جن کا سرخ رنگ آپ کو اپنی جانب کھینچتا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرخ رنگ بھوک کو بڑھتا ہے 


کمزور بدن اور خون کی کمی والے لوگوں کو ان کے طبیب کھانوں میں سرخ رنگ کی چیزوں کا استعمال بتاتے ہیں جیسے چقندر'انار'بڑا گوشت'کلیجی ٹماٹر اور خون بنانے والی سبزیاں وغیرہ'وغیرہ-جن افراد کو غصّہ زیادہ آتا ہو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں سرخ رنگ کا فرنیچر نا رکھّیں 
کینسر کا مرض کیونکہ سرخ رنگ کے خلیات کو کھاجاتا ہے اس لئے مریض کے کمرے میں سرخ رنگ کا بلب جلائیں اور مریض کے بستر کی چادر کھڑکیوں کے پردے بھی سرخ ہونے چاہئے ،

پیر، 31 اکتوبر، 2022

گمشدگی سے بازیابی تک کا سفر

 

میری بیٹیوں دھو کے سے ہوشیار،


میں نے کراچی سے گمشدہ ہونے والی بچّیوں کے لئے قلم نہیں اٹھا یا  تھا -میں الحمد للہ خود بھی دو بیٹیوں کی ماں ہوں اورکسی بھی بیٹی کے لئے دوحرف بھی غلط کہنا انتہائ معیوب سمجھتی ہوں -لیکن اب جبکہ تمام بیٹیوں کے معاملات سلجھ گئے ہیں اس لئے اپنے معاشرے کی بیٹیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ خدارا کوئ بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچئے گا کہ کہیں یہ قدم -مجھے کھائ میں تو نہیں لے جا رہے ہیں 

جیسا کہ میں نے کہا کہ جب لڑکے گھر بسانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایماندار ہوتے ہیں ،بلکل اسی طرح لڑکیاں بھی گھر بس  معاملے میں ایماندار ہوتی ہیں لیکن آ ج کے جدید دور نے اس نوجوان نسل کو گمراہی کی ان راہوں پر لگا دیا ہے کہ والدین کی زمّہ داری دوگنا ہو گئ ہے کہ وہ اپنی جوان اولاد کو اپنے سے اس قدر قریب کر کے رکھیّں کہ دنیا والے ان معصو موں کو آسانی سے اپنا شکار نا بنا لیں

جب بیٹی کے ہاتھ میں دن میں موبائل  ہو گا یا نیٹ بک ہو گی ۔دن تو دن رات کو  بھی اجنبی  لوگوں سے بات کرنے کی سہولت  ہو گی ہے اور ماں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہوں گی کہ بیٹی ابھی چھوٹی ہے تو پھر ،،آگے کیا ہوتا ،،مو بائل اور نیٹ سے پروان چڑھنے والے عشق نے زور کیا تو گھر سے شادی کی اجازت نہیں ملی،تب بنائے ہوئے پلان کے مطابق لڑکی نے گھر سے ماں کا زیور لیا اور لڑکے کی بتائ ہوئ جگہ پر پہنچ گئ س،لڑکا گاڑی لئے تیّار کھڑاتھا ،ور لڑکی کو بٹھا کر گاڑی چل پڑی ،شہر کی حدود ختم ہونے سے پہلے لڑکے نے ایک جگہ گاڑی روکی یہ گاڑیوں کی ایک ورک شاپ تھی ،لڑکے نے کہا زرا ٹہرو مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے یہ میرےf دوستو ں کی جگہ ہے ،تم پریشان مت ہونا میں ابھی آتا ہوں لڑکی کو گاڑی سے اتار کر ورکشاپ پر بٹھایا اور اپنے دوستوں سے کچھ کہ کر لڑکا زیور سمیت چلا گیا دو پہر جب سہ پہر ہو گئ تب لڑکی کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر سے کتنی دور نکل آئ ہے کہ اب واپسی ناممکن ہے

اورپھر جب لڑ کی کی آنکھ کھلی تو وہ بازار حسن میں ایک ایسی فروخت شدہ لڑکی تھی جس کو اپنی ہر رات اجنبی مہمانوں کو فروخت کرنا تھی ،اس لڑکی نے وہیں سے اپنے معاشرے کی لڑکیوں کو پیغام دیا تھا کہ خدارا شادی کا فیصلہ اپنے ماںباپ پر چھوڑ کر انتظار کریں اور محبّت کے دھوکے میں نا آ ئیں ورنہ میری طرح بازار حسن کی زینت بن کر زندگی گزارنی ہوگی،،،،

میری سمجھ کے مطابق،یہ لڑکا اگر شادی کر بھی لیتا تو بھی لڑکی کو فروخت لازمی کرتا کیونکہ اس کا پیشہ ہی یہی تھا کہ لڑکیوں کو جال میں پھانس کر ان کو فروخت کر دینا یہ کاروبار پورے پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ،حیدر آباد شہر میں پولیس کی ملکیت میں لڑکیوں کی سجی ہوئ منڈی تو آپ سب کی  نظروں سے بھی گزری ہو گی جس میں اقرار الحسن زخمی بھی ہوئے تھے۔

صادق آباد کے چنگی ناکے سے گزر کر گھوٹکی شہر میں آ نے والی ایسی انگنت کاریں ہوتی ہیں جن میں فروخت شدہ لڑکیا ں ہوتی ہیں ،ان میں کچھ اپنے ہوش و حواس میں ہوتی اور کچھ بے ہوش بھی ہوتی ہیں پولس کو معلوم ہوتا ہے کہ اندر کون ہے اس لئے مسکراتے ہوئے جانے کی اجا زت چند ہزار نوٹوں کے عوض مل جاتی ہے وہ اجازت نہیں دیں گے تو ان کی روزی چلی جائے گی کیو نکہ گاڑیا ں بہت اعلٰی درجے کے افراد سے وابستہ ہوتی ہیں

کراچی میں عا ئشہ منزل پر طاہر ولا کے پیچھے بلاک ڈ ی فیڈرل بی ایریا سے متصل علاقے میں ایک چھو ٹی سی کچّی بستی میں ،میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولس موبائل کی سرپرستی میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتے دیکھی ہے ،خدا ہمارے معاشرے پر رحم کرے

میں نے یہ تحریر صدق دل سے بچیّوں کی بھلائ کے لئے لکھی ہے گھوٹکی شہر کی تو پوری تفصیل ایک موقر روزنامے میں آ چکی ہے اور کراچی کا تو کہنا ہی کیا ،بحر زخّار شہر میں جرائم کی سر پرستی کرنے والوں کو کون پوچھنے والا ہے جس کا جو جی چاہے کرے ،یہ محض ایک جگہ میری نظر میں آ گئ وہ بھی اتنے خوشحال علاقے میں ورنہ تو آج کی مضافاتی بستیاں تو ایسے جرائم کے دم سے لہلہا رہی ہیں ،

بس ا للہ ہر دم محفوظ و ما مون رکھّے

اللہ نگہبان

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر