اللهم صلى على محمد وآل محمد وعجل
فرجهم
بعد عاشور یہ گزری آل نبی پر-شام کے بازاروں میں اہل حرم کو پا پیادہ پھرا گیا -اور پھر
قصر یزید میں-زَحر بن قَیس نے واقعہ کربلا کی جنگ کی رپورٹ یذید کے سامنےبیان کی۔ یزید نے سارا ماجرا سننے کے بعد حکم دیا کہ محل کو سجایا جائے، بزرگان شام کو بلایا جائے اور اسیروں کو حاضر کیا جائے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسیروں کو رسیوں سے جکڑے ہوئی حالت میں پیش کیا گیا۔
: یزید قیدیوں کی موجودگی میں سونے کے تھال میں رکھے ہوئے سر امام حسینؑ کو لکڑی کی چوب سے ما رہا تھا جب سکینہ اور فاطمہ یہ منظر دیکھا تو انہوں نے اس طرح فریاد کی کہ یزید اور معاویہ بن ابوسفیان کی بیٹیوں نے گریہ کرنا شروع کیا۔شیخ صدوق سے امام رضاؑ کی مروی روایت کے مطابق یزید نے سر امام حسین کو طشت میں رکھا اور اسے کھانے کی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیااس کے بعد اسے شطرنج کی میز پر رکھ کر شطرنج کھیلنے مشغول ہوا۔ کہتے ہیں جب وہ بازی جیت جاتا تو ایک جام فقاع (جَو کی شرآب) کا پیتا اور اس کا آخری بچا ہوا پانی طشت کے پاس زمین پر گرا دیتا
حاضرین کا اعتراض: یزید کی اس قبیح حرکت پر حاضرین میں سے بعض نے اعتراض کیا، ان میں سے مروان بن حکم کا بھائی یحیی بن حکم تھا جس کے اعتراض کے جواب میں یزید نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔اَبوبَرْزہ اَسْلَمی نے بھی اعتراض کیا تو یزید کے حکم پر اسے دربار سے نکال دیا گیا۔
زرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے دس محرّم کو سیّد سجّاد پر بیماری اس قدر نقاہت طاری تھی کہ آ پ کے نیچے سے بستر جو کھینچا تو امام علیہ السّلام غشی کی حالت میں
زمین پر آرہے اورپھر خیمہ کو شمر نے آگ لگادی اسی اثنا میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو جلتے ہوئے خیام سے بچّوں کو بچانے کے لئےجمع کر رہی تھیں اور دوڑتی
ہوئ بیمار کربلا کے خیمہ میں داخل ہوئیں اور سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر لے کر باہر آئیں اور بیمار بھتیجے کو گرم ریتی پر لٹا دیا جی ہاں اسی بیمار کو اگلی صبح طوق و سلاسل کے
ساتھ ماں بہنوں کے قافلے کی ساربانی کرنی پڑی -
آل نبی کو شہید کردینے کے بعدعرب قبائل کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور اللہ کی لعنت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم
کرکے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لئے تیار ہوئے؛ اور حرم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی بےچادر خواتین، بچیوں اور بچوں کو ، بے کجاوہ اونٹوں پر سوار
کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح
انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔جب ابن سعد اسیروں کے ہمراہ کوفے کے نزدیک پہنچا تو
وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے کے لئے آئے تھے۔ ایک کوفی خاتون اپنے گھر کی
چھت سے اسیروں کے کارواں کا نظارہ کررہی تھی۔ اس نے اسراء سے پوچھا: "تم کس
قوم کے اسیر ہو؟"۔جواب ملا :"ہم اسیران آل محمدعلیہ السلام ہیں
اب ذرا تصور کریں کہ امام سجاد علیہ السلام کا حال کیا رہا ہوگا؟ ایک طرف سے بیماری کی وجہ سے نقاہت جسم مبارک پر طاری تھی، دوسری طرف سے اہل
خاندان، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں، رشتہ داروں، چچا اور بابا کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور ان کے کٹے سر آپ علیہ السلام کے سامنے نیزوں پر تھے مگر
ان سب غموں اور دکھوں سے بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام امام تھے اور غیرت الہی کا مظہر تامّ و تمام تھے اور اب خاندان محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ
وسلّم کی سیدانیاں اس حال میں آپ علیہ السلام کے ہمراہ اسیر ہوکر
جارہی تھیں
دارالامارہ میں اسیران آل محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے داخلے سے قبل امام حسین علیہ السلام کا سر مطہر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا۔ ابن مرجانہ کے ہاتھ میں
خیزران کی ایک چھڑی تھی اور امام کے لب و دندان پر اس چھڑی سے بے ادبی کرنے لگا۔ یہ بے ادبی اور جسارت حاضرین کے اعتراض و تنقید کا باعث ہوئی
رسول الل صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے صحابی اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ جہاد کرنے والے بزرگ "زید بن ارقم" جو اس وقت معمر اور
بوڑھے ہوچکے تھے، نے عبیداللہ سے خطاب کرکے تنبیہ کی: "اپنی چھڑی اٹھالینا! خدا کی قسم میں نے پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو دیکھا کہ جن لبوں اور
دانتوں کو تم چھڑی مار رہے ہو آپ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ان کے بوسے لیا کرتے تھے"۔ ابن ارقم یہ کہہ کر رونے لگے۔یزید کے گورنر نے کہا: "اگر تم پاگل اور
عقل باختہ بوڑھے نہ ہوتے ابھی اسی وقت تمہارا سر قلم کردیتا"۔ابن ارقم اسی وقت اٹھے اور دارالامارہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا: "اے عرب! آج سے تم سب
غلام بن گئے۔ تم نے
فرزند فاطمہ (س) کو قتل کیا اور ابن مرجانہ کو اپنا امیر تسلیم کیا!۔
خدا کی قسم! یہ شخص تمہارے نیک اور
صالح افراد کو قتل کرے گا اور تمہارے شریروں اور جرائم پیشہ افراد سے کام لے
گا"۔
"انس بن مالک" بھی موجود
تھے جو امام علیہ السلام کا سر دیکھ کر اور عبیداللہ کی جسارت کا مشاہدہ کرکے روئے
اور کہا: "یہ رسول اللہ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں"۔
اس کے بعد اسراء ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے۔ابن مرجانہ نے امام علیہ السلام کو دیکھا تو کہا:"تم کون ہو؟ فرمایا: میں "علی بن الحسین"ہوں۔ اس ملعون
نے کہا: "کیا علی ابن الحسین کو خدا نے نہیں مارا؟ امام نے فرمایا: "میرے ایک بھائی کا نام بھی علی تھا جن کو لوگوں نے قتل کر ڈالا۔ابن زیاد نے کہا: "خدا نے مارا
اسے"۔ امام نے فرمایا:’’ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا ‘‘ خدا موت کے وقت انسانوں کی روح اپنے قبضے میں لے لیتا ہے" (سورہ زمر آیہ 42)-ابن زیاد نے غصے
میں کہا: "میرے جواب میں دلیری دکھاتے ہو؟" اور اپنے جلادوں کوحکم دیا کہ ان کا کلام قطع کردیں اور ان کا سر قلم کردیں"۔پس حضرت زینب نے فرمایا:
"اے پسر زیاد! تم نے ہمارا جتنا خون بہایا اتنا ہی بس ہے" اور جناب زینب نے امام کو اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا: "واللہ میں ان سے جدا نہ ہونگی،اگر تم انہیں مارنا
چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل
کردو"۔
ابن زیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا:
"عجبا کہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ہمراہ قتل ہونا چاہتی ہے! چھوڑو اس کو کیوں
کہ یہ اپنی بیماری سے ہی مر جائے گا"…
امام سجاد علیہ السلام شام کی مشقتیں، اسیری کے دکھ درد اور دربار یزید
کے عذاب کو برداشت کیا… اور اپنی عمر شریف کے آخری ایام تک کربلا اور کوفہ و شام
کے مصائب کو یاد کرتے تھے
آپ علیہ السلامنے ان ایام میں، اپنے تمام فرزندوں کو بلایا اور اپنے فرزند ارجمند "محمد بن علی الباقر علیہ السلام جو اپنے والد کے ہمراہ ۴سال کی عمر میں کربلا، کوفہ
اور شام میں حاضر تھے ـ اپنا وصی اور جانشین قرار دیا اور اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کی ذمہ داری انہیں سونپ دی اور ان سب کو وصیت و نصیحت فرمائی۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے امام باقر کو سینے سے لگایا اور فرمایا: "میں تم کو وہی وصیت کرتا ہوں جو مجھے میرے والد نے شہادت کے وقت فرمائی تھی
اور فرمایا تھا کہ ان کو بھی اپنے والد علی علیہ
السلام نے اپنی شہادت کے وقت یہی وصیت فرمائی تهی اور وہ یہ کہ: "خبردار! ظلم
نہ کرنا ایسے شخص پر جس کا تمہارے مقابلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے-
امام سجاد علیہ السلام
اموی بادشاہ "عبدالملک بن مروان" کے حکم پر اس کے ایک بیٹے کے
ہاتھوں مسموم ہوئے اور شہادت پائی۔