جمعرات، 18 اگست، 2022

علم حضوری ،علم حصولی 'منبع وماخذ

>شروع کرتی ہوں خدائے بزرگ و برتر کے نام سے جو بڑا مہربان نہائت رحم والاہے اپنی پوسٹ کی ابتداء اس حدیث نبوی سے :---

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں -

صاحبان علم و عرفان بتاتے ہیں کہ علم کی دو شاخیں بہت اہم ہیں ،ایک علم حصولی ،دوسرا علم حضوری ،علم حصولی وہ ہے جسے

 مکتب ومدرسے یعنی سکول کالج یونیورسٹی یا کسی بھی درس گاہ سے کتابی شکل میں پڑھ کر یا اپنے اساتذہ سے لکچر کی صورت میں 

حاصل کیا جائے اور علم حضوری وہ علم ہئے جس کا تعلّق انسان کی وجدانی صلاحیتوں سے تعلّق رکھتا ہے۔ یہ علم ویسے تو انبیاء و

 مرسلین اور ائمّہ طاہرین کو,اولیاء اقطاب کرام و عظام کو ربّ العزّت کی جانب سے عطا ہوتا ہے ،لیکن ہم ادنٰی انسانوں میں بھی

 جواللہ تعالٰی سے اس علم کا طالب ہوتا ہئے اس کو وہ مالک کون مکاں مایوس نہیں کرتا ہئے ،اوریہ گرانقدر نایاب علمی زروجواہر ان کو

 بھی ضرور عطا کر دیتا ہے

 علم ایک سہ حرفی لفظ ہے جو  ع -ل -اور م پر مشتمل ہے زرا سا سوچنے کا مقام ہے کہ اس تین حرفی  لفظ کی ہماری زندگی میں  کیا

 اہمیت ہئےاور اس کے اندر کون سے معجزاتی خزینے موجود ہیں کہ ان کو پانے کے لئے اس کو محد سے لحد تک حاصل کرنا ہر

 مسلمان عورت اور مرد پر فرض کردیا گیا۔ جیسا کہ بحیثیت ایک مسلمان ہم جانتے ہیں کہ قران کریم کائناتی علوم کی سب سے

 عظیم اور مقدّ س کتاب ہئے ,,اس محترم و منّور کتاب علم سے پہلےبھی اللہ تعالٰی نےانسانیت کی رہبری کے لئے تین سوسے کچھ

 اوپر مقدّس کتابیں اور صحیفے اپنے انبیاء اورمرسلین علیہم  السّلام پر نازل کئے جن میں توریت و زبور و انجیل بھی  علم  کےمنبع وماخذ

 سے معمور تھیں لیکن قران کریم کی ہم سری کسی بھی کتاب کو حاصل نہیں ہو سکی

اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل  زّکر کتب میں اس وقت کے انسانوں نے اپنی مرضی سے تحریفات کر لی تھیں ،لیکن قران کریم کی

 حفاظت کاوعدہ اللہ تعالٰی نے اپنے زمّہ لے کر اس کوشرّی انسانوں کی خود ساختہ تحریفات کے شر سے ہمیشہ کےلئےمحفوظ کر لیا

 جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب مقدّس کائنات کے نوراعلٰی کے نور سے منوّر علم کا خزینہ ہے اس لئے اگر ہم اسکی تلاوت و معنی

 سمجھنے کی روش کو اختیا ر کرتے ہوئے اس کلام مقدّس کو اپنی زندگی کےشب و روز میں شامل کرلیں تو ہماری زندگی بجائے

 خودہمارے لئے ایک ناز بن جائے-

 زرا سا غور کیجئے ،اس کے تذکرے کیا کہتے ہیں بہتی ندّیاں, گرتے آبشار ,, اچھلتے دریا ؤں کی طغیانی ،سمندر کی موجوں کی روانی ,

 صحراؤں کی وسعتیں ,آسمان کی رفعتیں ،پر ہیبت کوہسار،وسیع دشت و صحرا ہمارے جینے کے سامان سے لہلہاتے ہوئے کھیت

 وکھلیان  ،قسم قسم کے پھولوں اور پھلوں کی خوشبو سے مہکتے ہوئے باغات میں اس کی حمدوثناء کے گیت گاتے ہوئے قسم قسم کے

 رنگوں سے مزّین چھوٹے بڑے پرندے,,ارض و سماں کی بلندیوں اور گھا ٹیوں میں صرف اس کی معمورکردہ دلکشی ورعنائ کے

 تذکرے ان تمام نشانیوں  کو قران کریم زمین پر اللہ تعالٰی کی حجّت قراردیتے ہوئے کہ رہا ہئے کہ اس میں تفکّر کرو ،کہ کارخانہ ء

 قدرت میں فکر کرنا بھی ایک علمی عبادت ہئے

مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ جبل نور میں واقع ایک غار، جہاں پہلی وحی لے کر حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اوریہ

 ہمارے علم کی ابتداء تھی-پھرعلم و سائنس کی ترقی اور تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوکر قدرت کی نشانیوں تک پہنچا جس کی طرف

 اشارہ قرآن پاک میں ایک جگہ اس طرح کیا گیا :’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی

 اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائیگا کہ حق یہی ہے ، کیا تمہارے رب کا ہر چیز سے واقف اور آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ۔(

 حم السجدہ53)

اب کائناتی نظام کے جزئیات پر غور کیجئے تو ہم دیکھیں گےکہﷲ تعالیٰ نے نہ صرف زمین و آسمان بلکہ ان کے درمیان کی تمام

 مخلوقات اور فضائے بسیط میں گردش کرنیوالے بے شمار سیاروں کے درمیان اپنے علم و حکمت سے ایسا زبردست توازن قائم

 کردیا ہے : ’’ اور ان کیلئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج

 کیلئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے ، یہ غالب اور علم والے کا اندازہ ( مقرر کردہ ) ہے اورچاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر

 کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ، نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے

 بڑھ جانیوالی ہے ، سب کے سب آسمان پر ( اپنے مدار میں ) تیرتے پھرتے ہیں۔ ‘‘ ( یٰسین40-37)آسمانوں اور زمین کی

 پیدائش کیسے ہوئ

زمین کی پیدائش اوراس کے ار تقائی مراحل سے متعلق گفتگو کے بعد آسمانوں کی تخلیق سے متعلق گفتگو کی گئی ہے . ار شاد فرمایا گیا

 ہے : پھر آسمان کی تخلیق کاارادہ فرمایاجبکہ وہ دھواں تھا ، اس وقت زمین اور آسمان سے فرمایا وجود میں آؤ اورصورت اختیار کرو ،

 خواہ ازروئے اطاعت یاپھر مجبوراً (ثُمَّ اسْتَوی إِلَی السَّماء ِ وَ ہِیَ دُخانٌ فَقالَ لَہا وَ لِلْاٴَرْضِ ائْتِیا طَوْعاً اٴَوْ کَرْہاً )۔

انہوں نے کہاہم از روئے اطاعت وجود میں آئیں گے (قالَتا اٴَتَیْنا طائِعینَ )۔

اس وقت خدانے انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دو دنوں میں پیدا کیااور مکمل کردیا(فَقَضاہُنَّ سَبْعَ سَماواتٍ فی یَوْمَیْنِ )۔ جی

 ہاں ! ” یہ ہے خدا وند قاد ر وعلیم کی تقدیر “ (ذلِکَ تَقْدیرُ الْعَزیزِ الْعَلیمِ)۔

 یو ں تو علم ایک لا محدود سمندر ہئے جس کی گہرائ تک ہماری ناقص عقلوں کی رسائ ہو ہی نہیں  سکتی ہئے, زرا دیکھئے مولائے

 کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام فرماتے ہیں کہ حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نےمجھ کو ہزاروں علوم سکھائے جن میں

 ہر ،ہر علم کی ہزاروں شاخین ہیں ،اب زرا غور کیجئے ہزار کو ہزاروں سے ضرب دے کر دیکھئے ،جواب کتنے ہندسوں میں آتاہئے


تو آئیے علم حاصل کریں علم تقسیم کریں


منگل، 16 اگست، 2022

شیر نیستان حیدر “عباس

-بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد جناب امیر کائنات سے جب    جناب عقیل  نے عقد ثانی کی درخواست کی تو حضرت علی علیہ السّلام نے جناب عقیل سے کہا مجھے شجاع اور دلیر قبیلے کی شریک زند گی چاہئے -چنانچہ جناب عقیل جو ایک نامور ماہر انساب تھے قبیلہ بنی کلاب کا انتخاب کیا اور پھر مولائے کائنات سے رشتہ دینے کی اجازت طلب کی -
اور اس طرح بی بی ا مّ البنین آپ کے عقد میں آئیں -اور پھر ایک روز باسعادت گھڑی میں جناب عبّاس قبیلہ بنو ہاشم میں مثل چاند کے اترے - یہ چار شعبان سن ۲۶ ہجری کی تاریخ تھی اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔  
حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

 لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔ صفین میں جنگ زوروں پر تھی جب اچانک ایک نقاب دار مثل حیدر کرّارمولا علی علیہ السلام کے لشکر سے جدا ہوا۔ اور اپنے گھوڑے کو ایڑ دیتے ہوئے مخالف لشکر کے سامنے آکر رکا اور ہل من مبارز کی صدا بلند کی۔ اس نوجوان کے مقابلے میں لشکر کے طاقتور ترین پہلوان ابو شعثاء کو بھیجا گیا اس نے میدان میں نکل کر اس نوجوان کو کہا: شام والے سمجھتے ہیں کہ میں ایک ہزار گھڑسوار شہسواروں کے برابر ہوں ؟ میں اپنے بجائے اپنے بیٹوں کو اس مقابلہ میں اتاروں گا میرے سات بیٹے ہیں جو اس اس نوجوان کوجواب دے سکتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا ایک بیٹا میدان کارزار میں جناب عبّاس کے مقابل بھییجا جو چند ہی لمحوں میں نوجوان کے ہاتھوں اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ ابو شعثاء نے بڑی حیرت سے یہ نظارہ دیکھا اور اپنا دوسرا بیٹا نئی ہدایات دے کر میدان میں اتارا لیکن نتیجہ وہی تھا اور یوں ابو شعثاء کے سات اس نوجوان کے ہاتھوں مارے گئے۔ آخر کار ابو شعثاء شاید سات بیٹوں کا بدلہ لینے نوجوان کا جواب دینے کے لئے میدان میں اترا لیکن وہ بھی چند ہی لمحوں میں اس نوجوان کی ایک کاری ضرب کا شکار ہوکر اپنے بیٹوں سے جا ملا۔ 

مزید مخالف کے لشکر میں کسی میں اس نوجوان کا جواب دینے کی جرأت نہ تھی یہ جوان کون ہے اور جنگ صفّین جو امیر شام کی جانب سے مولائے کائنات کے خلاف کی گئ تھی بدترین شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئ لڑائ ختم ہونے بعد جب آپ نے لشکر سے کچھ دور جا کر نقاب الٹی تب لوگ سمجھے کہ جنگ مولا علی علیہ السّلام نہیں حضرت عبّاس علمدار کر رہے تھے کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

 حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرکرّار کہلانے لگے۔ 

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔۔ 
حرم حسینؑ کےنگہدار، پرچم اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار ، خاندانِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کے شیر دلیر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہ انکی فضیلت کا احاطہ کر سکے جناب سیّدسجّاد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ خدا میرے چچا عباس پراپنی رحمت سایہ فگن کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کرتے ہوئے اپنے بھائی پر فدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پردئے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے -

شب عاشور امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ کے درمیان اپنے بیعت کو ان پر سے اٹھا کر فرمایا: آپ لوگ چلے جائیں ان کو صرف مجھ سے مطلب ہے۔ اس ہنگام سب سے پہلے جس نے اعلان وفاداری کیا حضرت عباس ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسا کیونکر کریں۔ کیا اس لیے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا کبھی ایسا دن نہ لائے۔ سقائے کربلا حضرت عباسؑ علمدار کی شہادت امام حسینؑ کیلئے اس قدر کٹھن تھی کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ عباسؑ کی شہادت میری کمر توڑ گئی‘‘۔ بی بی سکینہ اور حضرت عبّاس علمدارحضرت عباسؑ علمدار عاشور کے دن خیمہ حسینی میں پیاس سے بلکتے بچوں کیلئے پانی لینے دریائے فرات پہنچے اور فوج اشقیا کو للکارا ۔ آپ نے مشک بھری اور واپس جانے لگے تو اس دوران گھات لگائے اشقیاء نے آپ کے دونوں ہاتھ قلم کرکے شہید کردیا۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی
 رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع! عباس الوداع، اے علم دار الوداع اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع! اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!

اتوار، 14 اگست، 2022

میں چلا ہو ں علی سے ملاقات کو'آہ سبط جعفر،

.

آہ سبط جعفر،

.

موت اُن کے محبوّں کو آتی نہیں

آ بھی جائے تو پھر بچ کے جاتی نہیں

ہم تم کو نہیں بھولے تم بھی کوئ بھلا دینے والی شخصیت تھے مرثیے ' سوزو سلام کی مسند جاودانی ادارے کی شکل میں بچھا ئ اور

 دیکھتے' دیکھتے ہزاروں شاگردوں کو مثل پروانے جمع کر لیا لیکن طاغوت تو آپ کی گھات میں بیٹھ چکا تھا اور پھر 19 مارچ 2013

 جب امام عالی مقام 'مظلوم کربلا '- سید الشہداء کے ایک عظیم و بے لوث مدح خواں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر خلد

-بریں کے سفر پر روانہ ہو گئے

 یہ بزم سیّدہ ہے چلے آو مہ رخوں

مسند بچھی ہے سوز و سلام مرثیہ و منقبت

تشریف لارہے ہیں مولائے کائنات و شافع اُمم

کیوں نا آئیں اس محفل و مجلس میں شاہ دیں

پڑھنے کو آئیں گے استاد سبط جعفر و ہم نشیں

سیّدہ زائرہ عابدی

مرقّع سادگی اتنا کہ پہلی نظر میں دیکھنے والے یہی  سمجھیں کہ بس ایک درمیانہ درجہ کے سفید پوش سے ملاقات کر رہے ہیں لیکن علمی قابلیت معلوم ہو تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں کہ کردار کی عظمت  کو بے اختیارجھک جائیں جی ہاں یہ خاکہ ہے سیّد سبط جعفر مرحوم کا - موٹر سائیکل پر سوار پورے شہر میں سر وعدہ پہنچنے والے شخص کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ شخص ایڈووکیٹ، مصنف و شاعر اور سوز خوان و قومی سماجی کارکن ایک کالج کا پروفیسر، کئی مذہبی اور تعلیمی اداروں کا بانی، پاکستان میں فن سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کے مؤثر ترین بلکہ واحد ادارے، ادارہ ترویج سوز خوانی کا سربراه اور ان سب باتوں سے بڑھ کر شاعر و مداح اہلبیت  تھا۔ ہزاروں شاگردوں کی مختلف میدانوں میں تربیت کرنے والے سبط جعفر کی شخصیت سادگی میں پر کاری کا مصداق تھی۔طبیعت کی سادگی نے مزاج کو اتنا شفیق کر دیا تھا کہ ہر ملاقات کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ استاد اسی سے اتنا قریب ہیں ۔ بچے بڑے کا فرق ان کی نظر میں کیا تھا بس احترام کرنا تھا ہر انسان کا اور وہ بھی عبادت جان کر۔ ہر وقت خوشگوار مزاج میں دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے مشاق ہر حال میں راضی برضائے الہی نظر آتے-وہ علم کے ایسے جویا تھے کہ دینی علم تھا یا دنیا وی 'وہ ہوش سنبھال کر اپنے علمی بستے سے ایسے وابستہ ہوئے کہ ہر منزل پر انہوں نے اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوا لیا

مختلف علمی و سماجی و ثقافتی دینی، ادبی اداروں سے مختلف حیثیتوں میں وابستگی کے علاوہ دورانِ طالب علمی اسکول، کالج اور یونیورسٹی

 میں مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا کونسلر، FR چیئرمین پریس اینڈ پبلیکیشنز اور چیئرمین

 اسپورٹس بورڈ۔ اس دوران اعلٰی سطح پر کرکٹ اور ٹیبل ٹینس بھی کھیلی  انجمن محمدی قدیم   رجسٹرڈکے صدر اور انجمن سوز

 خوانان کراچی کے بھی عہدے دار رہے۔ انجمن محبان اولیاء کے مرکزی خادم، بانی رکن ہونے کے علاوہ کراچی بار ایسوسی ایشن

 اور سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کی رکنیت کے علاوہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی  کی تاحیات رکنیت حاصل تھی۔ نیز

 بین الاقوامی ادارہ تزویج سوز خوانی کے بانی ہونے کے علاوہ انجمن وظیفہ سادات و مومنین پاکستان رجسٹرڈ کے مرکزی صدر

 (2005ء تا 2008ء) ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ بطور شاعر و سوز خوان مختلف ممالک کی سیاحت و زیارت کا شرف حاصل

 ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹیز بالخصوس ہارورڈ یونیورسٹی نے بطور ماہر فن خصوصی پذیرائی کی۔

1996ء پاکستان ٹیلی وژن نے صوتی علوم و فنونِ اسلامی پر “لحن عقیدت” کے نام سے دس خصوصی تحقیقی و معلوماتی پروگرام

 نشر کئے۔ بطور شاعر و سوز خوان تقریباً 50 آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز EMI، شالیمار، رضوی کیسٹس، زیدی پروڈکشن،

 یاسین اسٹوڈیو، جعفری کسیٹس، پنجتن کیسٹن، AB میوزک سینٹر، باب العلم کیسٹ لائبریری، عترت فاؤنڈیشن، پیام،

 ترابی کیسٹس لائبریری، شاہ جی اسلامک سی ڈی سینٹر وغیرہ نے جاری کئے۔

 اسی نظریہ کے پیش نظر ہزاروں جوانوں کے مربی اور مرد مومن استاد سبط جعفر کو ڈگری کالج لیاقت آباد کہ جس کالج میں وہ علم

 دوست جوانوں کو علم کی دولت سے مالا مال کیا کرتے تھے علم دشمنوں نے اپنے ہدف کا نشانہ بنایا اور وہ اس حملے میں شہید ہو گئے

 وہ خاص شاعری کا انداز کہ جس میں دنیا و آخرت کے لیے وہ قبل از موت اور بعد از موت کا منظر کس حسین انداز میں پیش کیا :

قبل از موت کی شاعری کا مفہوم سمجھئے: '

العجل جو کہتے ہیں آ گئے تو کیا ہو گا        

کیا ہے اپنی تیاری پیش ہم کریں گے کیا'

'بعد از وفات کی منظر کشی کا حسین منظر یوں سپرد شاعری کیا 

غسل میت نہ کہنا میرے غسل کو

اجلے ملبوس کو مت کفن نام دو

میں چلا ہوں علی ع سے ملاقات کو

جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئ

ان کے اہل خانہ کا کہنا کہ سبط جعفر کو شہادت کی موت کی تمنّا اپنی آخری حد پر تھی کہ سرا پائے  عشق حسین  ,محبتوں کا ٹھاٹھیں

 مارتا ہوادریائے رواں  اپنی زندگی کو اور اپنے چاروں جانب کے لوگوں کو با مقصد زندگی کا درس دیتا ہوا مالک یزداں کے حضور تاج

 شہادت پہن کر سرخرو چلا گیا-ان کی آخری رسومات میں کراچی لاکھوں لوگوں نے شرکت کی جن میں شیعہ حضرات کے علاوہ بڑی

تعداد میں  اہل سنّت افراد نے بھی شرکت کی اور ان کی شہادت کو قوم اک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا


خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را


ہفتہ، 6 اگست، 2022

ازل سے تا ابد'درس گاہ کربلا


 کربلا'' ایک عظیم درسگاہ ''حُسینی  کربلا  معرفت خداوندی رکھنے والوں کی امتحان گاہ تھی۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اور حقیقت میں آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے

یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں

 اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان

 میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ

 سعادت ہیں۔میدان کربلا میں چھ مہینہ کے بچّے سے لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جوہمیشہ کے لئے تاریخ کا درخشاں باب بن گئے۔

شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔

 ۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی  امیر شام سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے امیر شام کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے 

حسین بن علیؑ کی امامت امیر شام کی حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے  امیر شام کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ امیر شا م اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قراردیا

امیر شام  کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل  کو فہ کے بے وفا لوگوں نے بے دردی سے شہید کر دیا

جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ روزعاشور امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 نفوس شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے

 ۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے آپ کا روضہء پُر نور کربلا میں زیارت خاص و عام ہے جہاں ہر سال کروڑو ں زائرین آتے ہیں- کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر معاشرہ میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو معاشرہ میں موجود ہر طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے جیسے امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔ 

  دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت عزیز نواسے حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو ۱۰محرم ۶۱ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔درس کربلا میں  بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر  کی تعلیم ملتی ہے درس گاہ کربلا کے معلّم اعظم امام حسین علیہ السّلام  ہیں اور پھر باقی شہدائے کربلا میں ہر ایک کو آپ علیہ السّلام نے مناصب عطا کئے ہیں

کربلا زندہ باد


جمعرات، 4 اگست، 2022

کیا اندھیرا ہے پھوپھی-


 

کیا اندھیرا ہے پھوپھی--  ہوا یہ کہ جس وقت یزید کا دربار ختم ہوا اور قیدی بھیجے گئے تو اس کی محل سرا کے پاس ایک ٹوٹا ہوا مکان تھا اُس کا حکم یہ تھا کہ یہ قیدی وہاں بھیج دئیے جائیں۔ آج بھی وہاں آثار نظر آرہے ہیں کہ کہاں محل سرائے یزید تھی۔ دنیا مٹ گئی، یزید مٹ گیا لیکن اُس بچی کی قبر آج بھی باقی ہے۔ جب قیدی اس خرابے میں داخل کئے گئے اور دروازہ بند کردیا گیا تو دن میں اتنا اندھیرا ہوگیا کہ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا تھا۔

  تمام قیدی گھبرا گئے۔ انہوں نے کہاں ایسی جگہیں دیکھی تھیں جہاں دن میں بھی اتنا اندھیرا ہو۔ اپنی ماؤں کی گودیوں میں بلک بلک کر رونے لگے۔ ماؤں نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھا، بچو! روؤ نہیں۔ شہزادی کو تکلیف ہوگی، ۔جنابِ سکینہ گھبرا گئیں اور بار بار کہتی تھیں: پھوپھی جان! ہم کہاں آگئے؟ آخر جنابِ زینب بچی کو سمجھاتی رہیں۔ صاحبانِ اولاد! بعض بچے تاریکی میں گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ تاریکی اور گھٹن ،چونسٹھ بیبیاں، اُن کی گودوں میں بچے، جنابِ سکینہ بہت گھبرا گئیں۔ آپ نے سمجھا کر سکینہ کو سلا دیا۔ رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں دن نہیں نکلے گا؟یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیےروائت میں ہے کہ چند دن قید خانہٴ کوفہ کمیں رکھنے کے بعد مخدراتِ عصمت وطہارت اور سرہائے شہداء کو امام زین العابدین علیہ السّلام  کے ساتھ شام کے لئے

 روانہ کر دیا گیا۔ جب اہل حرم دربار یذید کے قر یب پہنچےدربار کے سجنے میں کچھ وقت باقی تھا ۔ اس لیے اہلِ حرم کا قافلہ "باب الساعات" پر تین گھنٹے بروایت

 تین دن تک ٹھہرا رہا۔

یہ تباہ حال قافلہٴ حسینی اس طرح دربار میں داخل ہوا  کہ آگے آگے سرہائے شہداء ،اُن کے پیچھے مخدراتِ عصمت تھیں۔لیکن شام اور کوفہ کے درمیان 

کے راستے میں جا بجا جناب زینب سلام اللہ علیہا خطبہ فرماتی تھیں۔ جناب اُم کلثوم مرثیہ پڑھتی تھیں۔ جناب سکینہ "نحن سبایا آل محمد"ہم قیدی اہل بیت رسول

 ہیں"۔ امام حسین علیہ السّلام کا سر مبارک تلاوت سورہٴ کہف کرتا تھا۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۵۰)

یہ سُننا تھا کہ حضرت زینب  سلام اللہ علیہا کھڑی ہو گئیں اور بہ لہجہ امیرالمومنین  علیہ السّلام  فرمانے لگیں۔

"تمام حمد اس خدائے کائنات کے لئے سزاوار ہے جس نے عالمین کے لیے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور اس کی رحمتیں جناب رسالت ماب اور ان کی آلِ اطہار

 کے لیے موزوں ہیں۔ اے شامیو! خداوند عالم نے قرآن مجید میں تم جیسے لوگوں کی طرف سچا خطاب فرمایا ہے کہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھٹھہ بن

 کر جھٹلانے کے باعث فسق وفجور کے سمندر میں غوطہ لگایا ہے ان کی عاقبت اور ان کا نتیجہ نہایت مہلک اور قبیح ہو گا۔ اے یزید! خدا تجھ پر لعنت کرے، تُو نے

 ہمارے اوپر اطرافِ عالم کو تنگ کر دینے اور مصائب و آلام نازل کر کے اسیر بنانے کے باعث یہ خیال قائم کر رکھا ہے کہ تُو اللہ کے نزدیک مقرب اور ہم ذلیل

 وخوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تیرے اس بے محل خوشی منانے کا باعث فقط تیرا تکبر اور تیری حماقت ہے اور لوگوں کا تیری طرف رغبت کرنا ہے۔

اے ملعون! اس خوشی اور فخریہ اشعار (جنہیں تُو نے ابھی ابھی پڑھا ہے) یکسوئی اختیار کرکے کیا تُو نے خداوند عالم کے اس ارشاد باصواب کو نہیں سُنا کہ کفار کو جو

 مہلت دی گئی ہے، یہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ سرکش اور معصیت کی طغیانی میں کماحقہ غرق ہو لیں۔

"یاابن الطلقا" اے گندی نسل کی بنیاد ! کیا تُو نے یہ عدل برتا ہے کہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کو تو پردہ میں محفوظ رکھا ہے اور دخترانِ رسول کو بے مقنع وچادر شہربہ

 شہر پھرایا جا رہا ہے۔ اور ہر خاص وعام بطور تماش بین ان کے گِرد محیط ہے،

اے ملعون! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ دخترانِ رسول کو اس منظرِ عام میں لا کر خوشی مناتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ساتھ کوئی مددگار نہیں جو ہماری اعانت وحمایت

 کرے۔ پھر آپ کمال مایوسی کی حالت میں فرماتی ہیں:۔ ایسے خبیث الاصل سے رقت قلب اور رحم کی کیا اُمید ہو سکتی ہے جو ابتداء سے ہی ازکیاء کے جگر چبانے

 کے عادی ہیں اور جن کا گوشت خونِ شہداء بہانے کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور ہماری طرف بغض وکینہ کی نگاہ سے دیکھنے والا ہماری عداوت میں کیوں کر کوتاہی کر

 سکتا ہے پھر تُو اے خبیث ربیع بدری کے اشعار پڑھ کر یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ اگر میرے گذشتہ آباؤ اجداد موجود ہوتے تو میرے اس فعل پر مرحبا کے

 نعرے بلند کرتے ہوئے دعا دیتے کہ اے یزید تیرے دونوں ہاتھ کبھی شل نہ ہوں حالانکہ اے خبیث تُو اس مقام پر چھڑی مار رہا ہے جہاں رسول بوسے دیتے

 ہوئے تھکتے نہ تھے۔

اے ملعون تُو کس طرح یہ نہ کہے حالانکہ تُو ایسا ظالم ہے کہ جس نے درد رسیدہ زخموں کو دوبارہ تراش دیا ہے اور آلِ محمد جو نجوم ارض تھے اُن کے خون بہانے کے

 باعث تُو نے قبر میں لے جانے والے زخم ڈال دئیے ہیں۔ اے ملعون تپو نے اپنے آباؤ اجداد کو خوشی کے باعث پکارا ہے، یقینا تُو بھی اُن کی طرح جہنم میں

 جاگزیں ہو گا۔ اس وقت تُو یہ خواہش کرے گا کہ دُنیا میں میرے ہاتھ پاؤں شل ہوتے کہ کسی پر ظلم نہ کر سکتا اور گونگا ہی ہوتا کہ کسی کو لسانی تکلیف نہ دیتا اور جو

 کچھ دنیا میں کِیا ہے نہ کِیا ہوتا۔ پھر فرماتی ہیں: اللّٰھُم خذبحقنا وانتقم من ظالمنا خدایا ہمارے شہداء کا انتقام اور ہمارے حق کا بدلہ تیرے ذمّہ ہے۔ …… (پھر فرماتی

 ہیں) اے ملعون! یاد رکھ یہ تُو نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے چمڑے اور گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ کیونکہ عنقریب تجھے اس کے بدلہ سے دوچار ہونا

 پڑے گا۔ اور تُو لازمی طور پر رسول اللہ کے سامنے ان جرموں کا حامل ہو کر پیش ہو گا۔ اور ہمارے جن اشخاص کو تُو نے قتل کرایا ہے انہیں مردہ مت گمان کر

 کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اور تجھ سے اس دن انتقام لیا جائے گا جس دن خدا کے سوا کسی کی حکومت نہ ہو گی اور رسول اللہ تیرے خصم اور مدمقابل ہوں

 گے۔ اور جبریل ان کے مددگار اور ناصر ہوں گے۔ اور تیرے مددگاروں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ظالمین کی عافیت کیسی ہوتی ہے اور کون سی جماعت نے فتح

 پائی۔ اور کس جماعت کو شکست نصیب ہوئی اور اے ملعون تیرے ساتھ ہمکلامی کے سبب چاہے جتنے مصائب نازل کر دئیے جائیں۔ میں تیری ذلت طبع اور

 گمراہی کے اظہار سے باز نہ آؤں گی اور تیرے سامنے حق ضرور بیان کروں گی۔اور بی زینب کے آتشیں خطبا ت نے بہت جلد سانحہ ء کربلا کو انقلاب کر بلا میں

 بدل کربنی اُمیّہ کے تخت کی بنیادیں ہلا کر اسے تاراج کر دیا

 



یاد آو گے بھیّا

 بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
اللّهُمّ كُنْ لِوَلِيّكَ الحُجّةِ ابْنِ الحَسَنِ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَى آبَائِهِ
فِي هذِهِ السَّاعَةِ وَفي كُلّ سَاعَةٍ وَلِيّاً وَحَافِظاً وَقَائِداً وَنَاصِراً
وَدَلِيلاً وَعَيْناًحَتَّى تُسْكِنَهُ أَرْضَكَ طَوْعاًوَتُمَتّعَهُ فِيهَا طَوِيلاً

 .,ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب  صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی

 انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد

 سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت

 کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام

 اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد

 کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل

 کرنے چلا ہئے  ,

جناب زینب کی تنبیہ وہ بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے

 لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ تاکہ حسین کا بیمار اور باقی سب بھی جل راکھ ہو جائیں اور بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری

 میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو چھوڑ


 کر جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی

 ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر

 سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی ایسے وقت میں بی بی

 زینب سیّد سجّاد کو خیمے میں چھوڑ کر چھوٹے بچّوں کوایک جگہ جمع کرنے کے لئےجیسے ہی سیّد سجّاد کے خیمے سے باہرآ  کر بچّون کی

 جانب متوجّہ ہوئیں ویسے ہی شمر لعیں اور اس کے ساتھیوں نے بیمار کربلا کے خیمے کو آگ لگا دی اور پھر بی بی زینب سب کو چھوڑ کر

 وارث امامت کی جان بچانے کے لئے بھڑکتے اورآگ اگلتے شعلوں کی پروا نا کرتے ہوئے بیمار کربلا کےخیمے میں داخل ہو کر

 جناب سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر اٹھا کرجلتے ہوئے خیمے سے باہر لےآ ئیں اور اپنے وارث امامت بھتیجے کو صحرائے کربلا کی گرم ریت

 پر لٹا دیا

 اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم

 ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود  یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات

 پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل

 مقصود تک ضرور پہنچا دے ،وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح

 کے اجالے پھیل رہئے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ

 بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے

 ہوئے  گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا

 تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر

 پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ

 کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔

  قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی

 ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں

 میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی

 لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں

 ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے

 رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  فوج اشقیاء کے حکم سے  پس گردن بندھوائے  ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ

 علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک

 دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ

( آپ ) کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے

 حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس

 طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے

 تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر

 پڑی

 آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا

لخت دل رباب ششماہے علی اصغر

 

 

لخت دل رباب ششماہے علی اصغر

کربلا کے سب نے ننھے شہید علی اصغر نے بہ حیثیت غنچہء نوروزگلستان نبوّت کے باغیچہ ء امامت میں د س رجب المرجب سنہ

 ساٹھ ہجری کو آنکھ کھولی ۔ آپ کی والدہ گرامی حضرت اُمّ  رباب سلام اللہ علیہا تھیں جن کے والد کا نام امرا لقیس تھا۔ سفر کربلا

 کے آغاز کے وقت آپ کی عمر محض سولہ دن تھی- جو کربلا پہنچتے'پہنچتے چھ مہینہ ہو گئ تھی

آپ کو علی اصغر، طفل صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، باب الحوائج، طفل رضیع کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔۔حضرت علی اصغر

 علیہ السلام کربلا کے ایک درخشاں چہرے، مظلومیت کی سب سے مظلوم سند اور شہادت کا معتبر ترین زاویہ ہیں۔ تاریخ نے آپ

 سے زیادہ مظلوم شہادت کسی کی بھی نہیں دیکھی۔

زیارت ناحیہ میں آپ کے لیے آیا ہے۔السلام علي عبدالله بن‏الحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء،

 المذبوح ‏بالسهم في حجر ابيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الاسدي‏۔    حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبرؓ بھی جب شہید

 ہو گئے تو حضرت امامؓ نے اہل بیت کو تسلی و تشفی دے کر خود میدان میں آنے کا ارادہ کیا، ایک بار خیمہ سے رونے کی آواز سنی

، آپ خیمہ کی طرف پھرے اور حال دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ طفل شیر خوار حضرت علی اصغر پیاس سے بے چین ہیں۔ چھ 

مہینے کی عمر میں یہ مصیبت کہ تین دن سے بھوک اور پیاسے ہیں، زبان منہ کے باہر نکل پڑی ہے،

مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں، حضرت امام نے فرمایا: علی اصغر کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت زینبؓ لے کر آئیں، آپؓ نے علی اصغر

 کو گود میں لیا اور میدان میں ظالموں کے سامنے لا کر فرمایا۔ ’’اے قوم! تمہارے نزدیک اگر مجرم ہوں تو میں ہوں، مگر یہ میرا

 ننھا بچہ تو بے گناہ ہے، خدارا ترس کھاؤ اور اس میرے ننھے مسافر سید بیکس مظلوم کو تو چلو بھر پانی پلا دو۔ اے قوم! آج جو میرے

 اس ننھے مسافر کو پانی پلائے گا میرا وعدہ ہے کہ میں اسے حوض کوثر پیر سیراب کروں گا۔‘‘ حضرت امام حسینؓ کی یہ درد ناک

 تقریر سن کر بھی ان ظالموں کا دل نہ پسیجا اور ایک ظالم حرملا ابن کاہل نے ایک ایسا تیر مارا جو حضرت امام کی بغل سے نکل گیا آہ

 ایک فوارہ خون کا اس ننھے شہید کے حلق سے چلنے لگا اور ننھے شہید کی آنکھیں اپنے والد کے چہرے کی طرف تکتی کی تکتی رہ گئیں

 اور امام نے بے قرار ہو کر اپنی زبان انور ننھے کے منہ میں ڈال دی اور ننھے سید نے وہیں اپنے ابا کی گود میں شہادت پا لی اور آپ اس

 کی ننھی سی لاش مبارک لے کر خیمہ میں آئے اور ماں کی گود میں دے کر فرمایا: لو علی اصغر بھی حوض کوثر سے سیراب ہو گئے اس

 ننھی نعش کو دیکھ کر اہل بیت بے قرار ہو گئے اور حضرت امام حسینؓ کی مبارک آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے

 ۔ آپ کو عاشور کے دن آپ کے والد گرامی کی آغوش میں حرملہ نے اس وقت تیر مارا جب وہ آپ کی تشنگی بجھانے کے لیے پانی

 کا تقاضا کر رہے تھے۔ امام عالی مقام نے آپ کے معصوم سے جسد کو خیمہ گاہ کے نزدیک قبر کھود کر سپرد خاک کر دیا۔جنگ ختم

 ہوئی تو  لشکر کے امیر نے شہیدوں کے سر گنے۔ وہ اکہتر تھے۔ اس نے پوچھا، ایک سر کم کیوں ہے۔ایک سیاہ بخت نے جواب دیا

 اسے دفن کر دیا گیا سپاہ یزیدکے امیر نے ھکم دیا قبر ہر حال میں ڈھونڈو ,,,یذیدی سپا ہ نے زمین میں نیزے کی انی جگہ جگہ مار کر

 دیکھا کہیں زمین نرم ملے تو وہ حسینی سپاہ کے  نننّھے شہید کو نکال کر سر کاٹ سکیں بالآخر جلے ہوئے خیال اہلبیت کی پشت پر ایک

 جگہ زمین نر م ملی تووہیں خدا کی لعنت کردہ سپاہ یذید نےنیزہ مار کر ننھے شہید کا سر کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا گیا اور سر بریدہ جسم مبارک

 کو تپتی ریت پر پھینک دیا   -

میرے مظلوم مولا امام حسین فرماتے ہیں کربلا کے تمام مجاہد ایک بار شہید کیے گئے، لیکن میرے معصوم لخت جگرعلی اصغر کو دو بار شہید کیا گیا۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر