میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا
دروازہ ہیں -
صاحبان علم و عرفان بتاتے ہیں کہ علم کی دو شاخیں بہت اہم ہیں ،ایک علم حصولی ،دوسرا علم حضوری ،علم حصولی وہ ہے جسے
مکتب ومدرسے یعنی سکول کالج یونیورسٹی یا کسی بھی درس گاہ سے کتابی شکل میں پڑھ کر یا اپنے اساتذہ سے لکچر کی صورت میں
حاصل کیا جائے اور علم حضوری وہ علم ہئے جس کا تعلّق انسان کی وجدانی صلاحیتوں سے تعلّق رکھتا ہے۔ یہ علم ویسے تو انبیاء و
مرسلین اور ائمّہ طاہرین کو,اولیاء اقطاب کرام و عظام کو ربّ العزّت کی جانب سے عطا ہوتا ہے ،لیکن ہم ادنٰی انسانوں میں بھی
جواللہ تعالٰی سے اس علم کا طالب ہوتا ہئے اس کو وہ مالک کون مکاں مایوس نہیں کرتا ہئے ،اوریہ گرانقدر نایاب علمی زروجواہر ان کو
بھی ضرور عطا کر دیتا ہے
علم ایک سہ حرفی لفظ ہے جو ع -ل -اور م پر مشتمل ہے زرا سا سوچنے کا مقام ہے کہ اس تین حرفی لفظ کی ہماری زندگی میں کیا
اہمیت ہئےاور اس کے اندر کون سے معجزاتی خزینے موجود ہیں کہ ان کو پانے کے لئے اس کو محد سے لحد تک حاصل کرنا ہر
مسلمان عورت اور مرد پر فرض کردیا گیا۔ جیسا کہ بحیثیت ایک مسلمان ہم جانتے ہیں کہ قران کریم کائناتی علوم کی سب سے
عظیم اور مقدّ س کتاب ہئے ,,اس محترم و منّور کتاب علم سے پہلےبھی اللہ تعالٰی نےانسانیت کی رہبری کے لئے تین سوسے کچھ
اوپر مقدّس کتابیں اور صحیفے اپنے انبیاء اورمرسلین علیہم السّلام پر نازل کئے جن میں توریت و زبور و انجیل بھی علم کےمنبع وماخذ
سے معمور تھیں لیکن قران کریم کی ہم سری کسی بھی کتاب کو حاصل
نہیں ہو سکی
اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل زّکر کتب میں اس وقت کے انسانوں نے اپنی مرضی سے تحریفات کر لی تھیں ،لیکن قران کریم کی
حفاظت کاوعدہ اللہ تعالٰی نے اپنے زمّہ لے کر اس کوشرّی انسانوں کی خود ساختہ تحریفات کے شر سے ہمیشہ کےلئےمحفوظ کر لیا
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب مقدّس کائنات کے نوراعلٰی کے نور سے منوّر علم کا خزینہ ہے اس لئے اگر ہم اسکی تلاوت و معنی
سمجھنے کی روش کو اختیا ر کرتے ہوئے اس کلام مقدّس کو اپنی زندگی کےشب و روز میں شامل کرلیں تو ہماری زندگی بجائے
خودہمارے لئے
ایک ناز بن جائے-
زرا سا غور کیجئے ،اس کے تذکرے کیا کہتے ہیں بہتی ندّیاں, گرتے آبشار ,, اچھلتے دریا ؤں کی طغیانی ،سمندر کی موجوں کی روانی ,
صحراؤں کی وسعتیں ,آسمان کی رفعتیں ،پر ہیبت کوہسار،وسیع دشت و صحرا ہمارے جینے کے سامان سے لہلہاتے ہوئے کھیت
وکھلیان ،قسم قسم کے پھولوں اور پھلوں کی خوشبو سے مہکتے ہوئے باغات میں اس کی حمدوثناء کے گیت گاتے ہوئے قسم قسم کے
رنگوں سے مزّین چھوٹے بڑے پرندے,,ارض و سماں کی بلندیوں اور گھا ٹیوں میں صرف اس کی معمورکردہ دلکشی ورعنائ کے
تذکرے ان تمام نشانیوں کو قران کریم زمین پر اللہ تعالٰی کی حجّت قراردیتے ہوئے کہ رہا ہئے کہ اس میں تفکّر کرو ،کہ کارخانہ ء
قدرت میں فکر کرنا بھی
ایک علمی عبادت ہئے
مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ جبل نور میں واقع ایک غار، جہاں پہلی وحی لے کر حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اوریہ
ہمارے علم کی ابتداء تھی-پھرعلم و سائنس کی ترقی اور تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوکر قدرت کی نشانیوں تک پہنچا جس کی طرف
اشارہ قرآن پاک میں ایک جگہ اس طرح کیا گیا :’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی
اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائیگا کہ حق یہی ہے ، کیا تمہارے رب کا ہر چیز سے واقف اور آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ۔(
حم السجدہ53)
اب کائناتی نظام کے جزئیات پر غور کیجئے تو ہم دیکھیں گےکہﷲ تعالیٰ نے نہ صرف زمین و آسمان بلکہ ان کے درمیان کی تمام
مخلوقات اور فضائے بسیط میں گردش کرنیوالے بے شمار سیاروں کے درمیان اپنے علم و حکمت سے ایسا زبردست توازن قائم
کردیا ہے : ’’ اور ان کیلئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج
کیلئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے ، یہ غالب اور علم والے کا اندازہ ( مقرر کردہ ) ہے اورچاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر
کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ، نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے
بڑھ جانیوالی ہے ، سب کے سب آسمان پر ( اپنے مدار میں ) تیرتے پھرتے ہیں۔ ‘‘ ( یٰسین40-37)آسمانوں اور زمین کی
پیدائش کیسے ہوئ
زمین کی پیدائش اوراس کے ار تقائی مراحل سے متعلق گفتگو کے بعد آسمانوں کی تخلیق سے متعلق گفتگو کی گئی ہے . ار شاد فرمایا گیا
ہے : پھر آسمان کی تخلیق کاارادہ فرمایاجبکہ وہ دھواں تھا ، اس وقت زمین اور آسمان سے فرمایا وجود میں آؤ اورصورت اختیار کرو ،
خواہ ازروئے اطاعت یاپھر
مجبوراً (ثُمَّ اسْتَوی إِلَی السَّماء ِ وَ ہِیَ دُخانٌ فَقالَ لَہا وَ لِلْاٴَرْضِ
ائْتِیا طَوْعاً اٴَوْ کَرْہاً )۔
انہوں نے کہاہم از روئے اطاعت وجود میں
آئیں گے (قالَتا اٴَتَیْنا طائِعینَ )۔
اس وقت خدانے انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دو دنوں میں پیدا کیااور مکمل کردیا(فَقَضاہُنَّ سَبْعَ سَماواتٍ فی یَوْمَیْنِ )۔ جی
ہاں ! ” یہ ہے خدا وند قاد ر وعلیم کی تقدیر “ (ذلِکَ تَقْدیرُ الْعَزیزِ
الْعَلیمِ)۔
یو ں تو علم ایک لا محدود سمندر ہئے جس کی گہرائ تک ہماری ناقص عقلوں کی رسائ ہو ہی نہیں سکتی ہئے, زرا دیکھئے مولائے
کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام فرماتے ہیں کہ حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نےمجھ کو ہزاروں علوم سکھائے جن میں
ہر ،ہر علم کی ہزاروں شاخین ہیں ،اب زرا غور کیجئے ہزار کو ہزاروں سے ضرب دے کر دیکھئے
،جواب کتنے ہندسوں میں آتاہئے
تو آئیے علم حاصل کریں علم تقسیم کریں