یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے
فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے
لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں
اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے
سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے
کو ملتی ہیں کہ ان
میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا
آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو
قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام
نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ
السلام،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر
دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین
معلمان راہ
سعادت ہیں۔میدان کربلا میں چھ مہینہ کے بچّے سے
لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے
جوہمیشہ کے لئے تاریخ کا درخشاں باب بن گئے۔
شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق
پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین
رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے
تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر
میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں
آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار
ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔
۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے
ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے
دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی امیر شام
سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے امیر شام کے مرنے تک اس عہد پر باقی
رہے
حسین بن علیؑ کی امامت امیر شام کی
حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے امیر شام کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے،
بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی
عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ امیر شا م اور بعض دوسروں کے سامنے
آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قراردیا
امیر شام کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو
شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر
28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی
طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی
طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل کو فہ کے بے وفا
لوگوں نے بے دردی سے شہید کر دیا
جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ
کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب
آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ روزعاشور امام حسین اور
عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار
میں سے 72 نفوس شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت
خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے
۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین
کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام
کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے آپ کا
روضہء پُر نور کربلا میں زیارت خاص و عام ہے جہاں ہر سال کروڑو ں زائرین آتے ہیں-
کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر معاشرہ میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو
معاشرہ میں موجود ہر طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو
سکے جیسے امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی
طرح کے لوگ موجود تھے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ جو
آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی
ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت
عزیز نواسے حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو ۱۰محرم ۶۱ ہجری کو میدان کربلا میں
دی گئی کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔درس کربلا میں
بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کی
تعلیم ملتی ہے درس گاہ کربلا کے معلّم اعظم امام حسین علیہ السّلام ہیں اور پھر باقی شہدائے کربلا میں ہر ایک کو
آپ علیہ السّلام نے مناصب عطا کئے ہیں
کربلا زندہ باد