جمعرات، 23 جون، 2022

حیوانوں کے دیس میں

حیوانوں کے دیس میں

آج کے روشن زمانے میں بھی پاکستان میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں کس قدر تنگ نظری پائ جاتی ہے اس کا اندازہ روزانہ کی خبریں سن کردل اندر ہی اندر کانپ جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع سرگودھا میں ایک لڑکی کو اس بنیاد پر سسر نے قتل کر دیا کہ وہ سسرال میں رہنے کے بجائے اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے واپس آسٹریلیا جانا چاہتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی آسٹریلیا میں ملازمت کرتی تھی جبکہ اس کا شوہر بحرین میں ملازمت کر رہا ہے۔ شوہر نے بیوی کو یہ کہہ کر دھوکے سے پاکستان بھیجا کہ میرے ماں باپ اپنے پوتے پوتیوں سے ملنا چاہتے ہیں، لڑکی شوہر کی بات مان کر پاکستان آئی تو سسر نے اس سے پاسپورٹ لے کر واپس آسٹریلیا بھیجنے سے انکار کر دیا اور سسر کی بات نہ ماننے پر کلہاڑی کےوار کرکے قتل کر دیا گیا

پچھلے ماہ 21 مئی 2022 کو بھی سپین سے آئی دو بہنوں کو گجرات میں قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے چچازادبیٹوں سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جو ان سے شادی کر کے سپین جانا چاہتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورت ظلم سہنے میں برابر ہے۔ آئے دن ان دونوں کو شادی سے انکار پر گولی مار دی جاتی ہے یا اپنی مرضی سے گزارنے کی شریفانہ خواہش  پر کلہاڑی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔

اور اگر یہ سب نہیں ہے تو زمین کی خاطر طرح طرح کی جاہلانہ رسومات کے بندھن میں باندھ کر ان سے شادی کا حق چھین لیا جاتا ہے-سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا سنگ دل اور بے خوف کیوں ہے؟ 

پاکستان کی ٹوٹل آبادی میں سے 64 فیصد لوگ دیہات جبکہ صرف 36 فیصد شہروں میں رہتے ہیں۔ تو بہتر صورت یہی ہے کہ عورتوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس تقسیم اور دونوں جگہ کے مخصوص حالات کو ذہن میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں عورتوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بجائے سارا زور اپنے منشور و نظریات کو پھیلانے اور مخالف کو زیر کرنے پر صرف کرتے ہیں۔

بائیں بازو کا سارا زور عورتوں کو گھروں سے نکالنے پر ہوتا ہے گویا کہ عورت گھر سے نکل کر تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے بعد بالکل محفوظ ہو جائے گی اور پھر کوئی سپین اور آسٹریلیا سے آنے کے بعد پاکستان میں قتل نہیں ہوگی، اور دوسری طرف دائیں بازو کا زور انہیں سات پردوں کے اندر اور مشترکہ خاندانی نظام جیسے فرسودہ سسٹم سے باندھے رکھنے پر ہے، کہ اگر کسی عورت نے سسرال سے باہر جانے کی بات کی تو ہمارا معاشرہ بھی یورپ بن جائے گا۔

افراط و تفریط کے ان دو انتہاؤں پر بیٹھنے کے بعد اس بات پر کوئی سوچنے کو تیار نہیں کہ اگرچہ بحیثیت پاکستانی ہم ایک قوم ہیں لیکن پاکستان کے ہر علاقے کے قبائل اور نسلیں جدا جدا ہیں جن کی اپنی ثقافت اور اپنے اپنے روایات ہیں۔ ان کے مخصوص ثقافت اور روایات میں موجود غلطی کی نشاندہی کر کے اس پر تو بات کی جا سکتی ہے لیکن اگر مجموعی طور تخصیص کیے بغیر روایات کی مخالفت کی جائے اور کچھ الگ لایا جائے تو انسان فطری طور پر اس کی مخالفت ہی کرے گا، کیونکہ انسان نے ابتدائی طور پر ہر چیز سے انکار ہی کیا ہے۔

اگر کوئی وزیرستان، ژوب، پسنی، مٹھیاری اور سخی سرور میں لڑکیوں کی تعلیم کے بجائے ان کی نوکری اور آزادی کے لئے عورت مارچ کرے تو کم از کم درجہ میں بھی اسے بے وقوف کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر علاقے کے اعتبار سے مخصوص مسائل اور ظلم کی نشاندہی کر کے ہی قدم بقدم ترقی کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں جنس کی بنیاد پر کسی پر بھی ظلم نہ ہو سکے۔ لیکن اگر دیہی علاقوں کے بجائے شہروں کی بات کی جائے تو وہاں کے ایشوز بالکل مختلف ہیں اور وہاں عورتوں کو تعلیم کے بجائے پسند کی شادی اور گھریلو تشدد جیسے مظالم کا سامنا ہے۔

ملکی قوانین اور اسلام نے بے شک خواتین کو سارے حقوق دیے ہوں لیکن کیا ہمارا معاشرہ وہ حقوق دیتا ہے؟ کیا بحیثیت فرد ہم نے کبھی ان مظالم پر آواز اٹھائی ہے؟ اگر ہم آواز اٹھا بھی لیں تو ہماری آواز یا تو دائیں اور بائیں بازو کے بیانیہ میں کہیں دب جاتی ہے یا پھر کلچر اور مذہب کے ٹھیکیدار سامنے آ کر دفاع میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ا س بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے نے عورت پر ہر وہ ظلم کیا جو وہ سہ سکتی تھی، اور اگر کہیں اس نے ظلم سہنے اور مظلوم بننے سے انکار کیا تو ہم ثقافتی اور مذہبی حوالے سے اسے بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں -کاش کوئ زمانہ پاکستان میں بھی ایسا آجائے جب عورت زات اپنے آپ کو مردوں کے بے جا مظالم اپنے آپ کو مامون سمجھ سکے آمین

ہفتہ، 18 جون، 2022

حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم


حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سنہ (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں شہر مکہ میں  ہوئ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ایک واقعہ اس وقت  پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ ۔

تقریباًً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔

جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔

میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی قیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔

مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔

بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔

یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔

  

منگل، 14 جون، 2022

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

 



جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات  


  دنیا کی پانچ سو مشہور اسلامی شخصیات کی فہرست میں جن کا تین مرتبہ  نام آیا۔وہ 

 پروگرام ’عالم آن لائن‘ کے روح روان گئے اور  دیکھتے ہی دیکھتے یہی نام انہیں

 شہرت کی بلندیوں تک لے گیا اور وہ پی ٹی وی کے مشہور ترین اینکر بن گئے۔ 

2002 کے عام انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور

 جنرل  پرویز مشرف کی حمایت سے انہیں کابینہ میں وزارت مذہبی امور کا وزیر بھی

 نامزد کیا گیا

اس کے باوجود انہوں نے ٹی وی پر مذہبی پروگرام جاری رکھا جس میں ملک کے

 ممتاز علمائے کرام سے اسلام اور زندگی کے حوالے سے موضوعات پر بات چیت

 کی جاتی تھی۔

ٹی وی میں آنے سے قبل کراچی میں عامر لیاقت کی وجہ شہرت تقریری مقابلوں میں

 کامیابی تھی۔وہ اپنے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے

عامر لیاقت حسین کی زاتی گھریلو زندگی کافی نشیب و فراز سے گزر رہی تھی اور

 پوری قوم کی نظریں ان کی نجی زندگی کے طلاطم پر مرکوز تھیں کہ اچانک  ان کی

 وفات کی خبرسن کرپوری قوم کو افسوسناک دھچکہ لگا اپنے کیرئر کے ابتدائ

 عرصہ میں وہ عام ہی تھے کہ ان کی زات سے منسلک کئ بہترین کرداروں نے انہیں

 بہت خاص بنا دیا -اور پھر ناجانے کیا ہوا کہ ان کے زوال کا دور بہت جلد ان کا دامن

 گیر ہو گیا جس سے وہ تادم حیات نجات نہیں پا سکے یہاں تک کہ فرشتہء اجل نے ان

 کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا 

یہ دنیا بھی ہمارے لئے کتنی بے ثبات ہے کوئ کہ نہیں سکتا کہ  کب کہاں کیسے قضا

 ہم پر وارد ہو جائے لیکن کم از کم ہم خود تو ایک حد تک احتیاط برت سکتے ہیں

 جنریٹر جیسی ہلاکت خیز مشین وہ بھی کمروں میں چلا کر سونا بزات خود اپنی

 قضاکو آواز دینا ہے اور آج کی اس اندوہناک خبر نے ہم سب کو بے حد غمزدہ کر دیا

 کہ معروف شخصیت عامر حسین کمرے میں جنریٹر کا دھواں بھر جانے سے انتقال

 کرگئے

معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے دوست فہد خان

 نے ان کی موت سے قبل جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر کی تردید کردی میڈیا

 سےگفتگو کرتے ہوئے عامر لیاقت کے دوست فہد خان نے کہا کہ رات کو وہ عامر

 لیاقت کے ساتھ تھے، ان کی طبعیت خراب تھی۔فہد خان نے مزید کہا کہ عامر لیاقت

 پریشا ن بھی تھے، تاہم جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر درست نہیں ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل عامر لیاقت کے ملازم ممتاز کا کہنا تھا کہ گھر

میں اچانک جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، ڈرائیور جاوید کی آواز آئی

 کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ ملازم ممتاز نے پولیس کو دیے گئے

 بیان میں کہا کہ میں ڈرائیور جاوید اور عامر لیاقت حسین گھر میں موجود تھے، دو

 گھنٹے سے بجلی بند تھی، جنریٹر چل رہا تھا۔ممتاز نے اپنے بیان میں بتایا کہ اچانک

 جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، میں گھر کا مرکزی دروازہ کھول کر باہر آیا،

 پھر ڈرائیور جاوید کی آواز آئی کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ملازم

 ممتاز کے مطابق ڈرائیور جاوید کے ساتھ مل کر میں نے عامر لیاقت کے کمرے کا

 دروازہ کھولنے کی کوشش کی جس کے بعد ہم کمرے میں داخل ہوئے تو عامر لیاقت

 صوفے پر بے ہوش پڑے تھے۔ممتاز نے بتایا کہ ہم نے عامر لیاقت کی حالت دیکھ

 کرپولیس اور ریسکیو کو اطلاع دی۔ملازم نے مزید بتایا کہ عامر لیاقت کو آج اسلام

 آباد روانہ ہونا تھا۔ 

جنریٹر سے ہلاکتوں کی ایک اور خبر-

پشاور شہر میں جنریٹر سے نکلنے والا دھواں موت کا سبب بن گیا۔ یہاں بھی جنریٹر

 کے دھوئیں سے دم گھٹنے سے چار افراد جاں بحق ہوگئے۔پشاور کے علاقے

 بشیرآباد شگئی ہندکیان میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں کمرے میں گیس 

 جنریٹرلگایا

 ہواتھا،لائٹ کے جانےاور آنے کی آنکھ مچولی میں جنریٹر آف تو ہو گیا لیکن اس

 سے نکلنے والا دھواں کمرے سے باہر جانے کا کوئ انتظام نا ہونے کے سبب دھواں

 کمرے میں ہی بھر جانے کےباعث  سے کمرے میں سوئے ہوئے چار افراد کی

 زندگیوں   کو نگل گیا ہسپتال کے زرائع کے مطابق چاروں افراد دم گھٹنے کے باعث

 جاں بحق ہوئے ،مرنے والوں میں باپ ، بیٹا ، بھتیجا اور ایک مہمان شامل ہے۔واقعے

 کی اطلاع ملنے پر ریسکیو اہلکاروں نے لاشوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا۔

اسی طرح ایک شادی کے گھر میں عین شادی کے دن برطانیہ سے آنے والے ایک

 خاندان کو سانحہ سے دو چار ہونا پڑا-ہوا یوں کہ مہندی کی تقریب جب ہو چکی

 توسب اپنی اپنی جگہ سونے چلے گئے اوردو کم عمر مہمان بچّے اپنے کمرے میں

جنریٹر چلا کر سو گئے رات کو جب لائٹ گئ تو بچّے غافل سوتے رہے جنریٹر

 دھواں چھوڑتا رہا  یہاں تک کہ ایک بچّے کی آنکھ کھل گئ اور وہ باہر کی جانب

 بھاگا لیکن دیر ہو چکی تھی وہ معصوم سیڑھیوں پر ہی گر کر مر گیا اور دوسرا

 کمرے میں مردہ ہو چکا تھا  -شادی کے گھر کی خوشیوں کو جنریٹر کا دھواں نگل

 گیا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنریٹر کمرے میں ہرگز نہیں رکھّا جائے اور

 مجبوری سے رکھنا ہو تو ایگزاسٹ پنکھوں یا روشن دان کا بندوبست کر کے رکھّا جائے 

جمعرات، 9 جون، 2022

جب بھاگ بھری کے بھاگ جگے

 

جب بھاگ بھری کے بھاگ جگے

کہتے ہیں کہ جب کسی لڑکی کے نصیب کھلتے ہیں تب آسمان سے نعمتوں کا طباق اس لڑکی کے آنگن میں اترآتا ہے لیکن بھاگ بھری یا بھاگ متی ایسی لڑکی تھی جس کے لئے اس کا محبوب ایک شوریدہ سر ندّی کے اس پار سے آکر سیدھا اس کے دل کے آنگن میں اتر آیا تھا -یہ کہانی لگ بھگ چار سو سال پرانی  ہئے  جب جنوبی ہندوستان کے قلب مین بہنے والی موسیٰ ندّی کے ایک جانب رہنے والی ایک ہندو لڑکی پر دریا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے قطب شاہی شاہزادے کا دل آ گیا -ایک مرتبہ کا زکر ہے کہ شہر میں ہونے والی بارش نے تمام شہر کو جل تھل کیا ہوا تھا موسیٰ ندّی کے چوڑے پاٹ میں طغیانی کی شوریدہ سر لہریں اس کے کناروں پر اپنا سر پٹختی ہوئ چلی جارہی تھیں اور ندّی کے کنارے قطب شاہی شاہزادہ کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی محبوبہ بھاگ بھری سے ملنے کس طرح اس منہ زور دریا کو پار کرےکہ دریا کے دوسری جانب اس کی دلکشا ء محبوبہ حسب وعدہ اپنے محبوب کے آنے کے انتظارمیں بیٹھی گھڑیاں گن رہی تھی ،

اور پھر بالآخر قطب شاہی شاہزادے نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے آپ کو د ریا کی لہروں کے سپرد کر دیا اور اپنی محبوبہ سے ملاقات کو پہنچا-فرمان روائے سلطنت' امور سلطنت سے فراغت کے بعد محل سراء میں آئے تو شاہزادے کی بابت سوا ل کیا ،ولی عہد کی والدہ  نے بتایا کہ دریا کے پار گئے ہیں-قطب شاہ نے سوال کیا اتنی جل تھل بارش اور دریا کی طغیانی میں وہ کس طرح گئے ہیں تو ان کو جواب ملا کہ دریا میں تیر کر گئے ہیں -قلی قطب شاہ کو شاہزادے کا یوں دریا پار کر کے جانا مطلق پسند نہیں آیا اور انہون نے اسی وقت اپنے نائبین کو بلا کر دریا کے اوپر ایک پل بنانےکے احکامات جاری کئے قلی قطب شا ہ نے کہا جب میرا لخت جگر اپنی محبوبہ سے ملنے اس طرح دریا کے پار کے جا سکتا ہے تو اور بھی کسی کا جوان بیٹا جاسکتا ہے

دریا پر پل بنا دیا گیا اور پھر قلی قطب شاہ اپنے لخت جگر کا رشتہ لے کر اس ہندو لڑکی بھاگ بھری کی دہلیز پر جا پہنچے ،لڑکی والے بھی بھلے نیک لوگ تھے کچھ مقدّر کا زور تھا رشتہ منظور ہو گیا لیکن قلی قطب شاہ نے شادی کی شر ط لڑ کی کے مسلمان ہو جانے سے منسلک کردی جسے لڑکی سمیت اس کے تمام گھر والو ں نے تسلیم کیا لڑکی مسلمان ہو ئ اور اس کا نام حیدر محل رکھا گیا -

پھر بھاگ بھری کے یہاں جب پہلا بیٹا ہوا تب تخت گاہ گولکنڈا میں کئی دنوں تک جشن منا یا گیا اور مسکینوں اور فقیروں کو انعام و اکرام  دئے جاتے رہے  -بھاگ بھری کے اس بیٹے نے طویل عرصہ تک اپنی راجدھانی کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے دلوں پر راج کیا

وہ بھاگ بھری ہندو لڑکی واقعی ایک بھاگ بھری شاہزادی بن کر قطب شاہی شا ہی شاہزادے کے عقد میں آئ اب نئ دلہن کا نام حیدر محل تھا دولہا کے والد قلی قطب شاہ نے شاہزادے کی شادی سے فراغت کے بعد چار محل تعمیر کرنے کا حکم دیا جن مین ایک محل کا نام نئ دلہن کے نام پر حیدر محل رکھا گیا اور پھرانہوں نے ایک اور فیصلہ کیا کہ اپنی نئ بہو کے نام پر وہ ا یک نیا شہر بھی بسائین گے

اس شہر کو بسانے کے لئے انہوں نے ایران سے بہترین آرکیٹکٹ بلوائے کیونکہ اس شہر کو اصفہان کی طرز پر بنانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ حیدر آباد کی تعمیرات میں ایرانی شہر اصفہان کے طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے

چنانچہ جنوبی ہندوستان کی سرزمین کو منتخب کر کے وہاں پربرّصغیرکا ایک شہ پارہ شہر بسانے کا فیصلہ کیا -یہ شہر ماضی کی طرح آج بھی پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد اور خوبصورت مقام رکھتا ہے قلی قطب شاہ نے شہر کا سنگ بنیاد اپنے وقت کےمعزّز ین ،،رؤسا ء اور وعالی مرتبت افراد کے ساتھ رکھا ،، سنگ بنیاد رکھنے کے بعد قلی قطب شاہ نے دعاء کے لئے اپنے ہاتھ اسی جگہ زیر آسمان بلند کئے اور دعاء کی کہ پروردگار تو میرے بسائے ہوئے اس شہر کو عالموں ،طبیبوں سے ادیبوں سے شاعرون اور ہنر مندوں سے اور نیک لوگون سےمعمور کر دے-

قلی قطب شاہ کی دعاء کے وقت قبو لیت کی گھڑی تھی اور ان کے دل کی سچّی آ رزو تھی کہ دعاء قبول ہو گئ اور اس بات کا پورا ہندوستان گواہ ہئے کہ حیدرآبا د دکن میں پورے ہندوستان سے عالم ،طبیب شعراء اساتذہ ،طالب علم اور چنندہ چنندہ ہنر مند آ بسے اور یہ شہر ان کے وجودکے  ہنرسے جگمگا اٹھا اس شہر بے مثال نے اپنے حاکموں کی نیک تمنّاؤں کے طفیل اپنی آغوش میں سب کو سمیٹ لیا-قلی قطب شاہوں کے کارہائے نمایا ن میں ان کی وہ تعمیرات ہیں جو انہوں نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بنوائیں ،ان تعمیرات میں مساجد امام بارگاہین ،مدرسے ،اورمدرسوں سے ہی متّصل شفاء خانے اور طالبعلموں کے لئے طعام و قیام کے ہوسٹل شامل ہیں ،ان کی رگو ں میں عوام کی بہبود کا لہو دوڑتا تھا انکی سلطنت میں کو ئ بھوکا نہیں سوتاتھا یہ نادارون اور غریبو ن کے اتنے وظائف مقرّر کرتے تھے کہ ان کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نا کرنا پڑے یہ طالبعلموں کو اتنے وظائف دیتے تھے کہ وہ آسانی سے حصول علم پر توجّہ دے سکیں انہوں نےبےروزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کا انوکھا طریقہ نکالا تھا کہ جیسے ہی کسی پڑھے لکھے نوجوان کی بے روزگاری کی اطّلاع ملتی اسے اپنے زاتی ملازم کا درجہ دیکر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اس کے برسر روزگار ہونے تک اس کو اپنے آپ سے جدا نہین کرتے تھے اس دوران اگر اس کی شادی ہونی ہوتی تھی تو اس کی شادی اپنے اخراجات سے کرتے تھے اور اس کے ہونے والےبچّوں کی جروریات بھی پوری کرتے تھے اور اس طرح اپنے معاشرے کو وہ اخلاقی انتشار سے بھی محفوظ رکھتے تھے

ان بہترین بادشاہوں کے بہترین کاموں کے عوض میں اللہ تعالٰی نے ان کی دنیا تو روشن کی ہی تھی ان کے مرنے کےبعد ان کی آرام گاہوں کو بھی باغ ابراہیم کے ہرے بھرے درختوں کی چھاوں میں باغ و بہار جنّت عطا کی اور بھاگ بھری کی قبر بھی انہی قبروں کے درمیان موجود ہے

 


پیر، 18 اپریل، 2022

مناجات برائے ماہ صیام’

مناجات برائے ماہ صیام’

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مناجات برائے ماہ صیام

منقول از امام زین العابدین

 فرمان نبوی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ  واٰلہ وسلّم  ہے -دعاء مومن کاہتھیار ہے

 اور  پھر وہ دعا ئیں جنہیں  اللہ کے برگزیدہ بندوں نے خود مانگا ہو تو اس کی تاثیر

 کے کیا کہنے۔  امام علیہ السّلام  کی عاشقانہ عبادات دیکھ کر جب  آپ  کے رفقاء 

 نے کہا” آپ اپنے جد بزرگوار مولا علی علیہ السلام سے کہیں زیادہ عبادت گذار ہیں

 تو آپ  نے فرمایا  کہ

“‌میں نے ان کے ایک دن کے اعمال پر نظر کی تو مجھ پر واضح ہوگیا کہ میں سال

 بھر میں بھی ان کے ایک روز کے اعمال کی برابری نہیں کرسکتا۔سبحان اللہ ۔۔ زرا

 سوچئے ہمارے پیارے نبی آخر سرکار تمام عالم ، شافی کل مکان رسول خدا حضرت

 محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات کا کیا عالم ہوگا جن کے لئے خود خداوند

 متعال نے قرآن کریم میں فرمایا کہ ا”‌ عبادات میں اپنے آپ کو اس قدر تھکا نہیں دیں

اے میرے معبود اے میرے مالک !اے میرے پاک رب

رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آل پاک پر اور ہمیں ہدایت

 عطا کرکہ اس کی عزت اور حرمت کو ہر ماہ سے بلند جانیں جن چیزوں سے تو نے

 منع کیا ہے اسے منع  سمجھیں میرے پاک رب- ہمارے اعضاء کو نافرمانیوں سے

 روک دے یارب اے میرے پاک رب-ہمیں غَلَط گوئی اور غلط کاموں سے ٹوک دے

 یارب ہمیں اتنی فرصت ہی نا دینا کہ ہم تیری نافرمانیوں  میں مبتلا ہو جائیں- ہمیں ان

 نیکیو ں کےکاموں میں مشغول  کردے جن  میں تیری رضا ہو یارب

ہماری سماعتوں کو اپنے بہترین کلام سے فیض یاب فرما-یارب ہماری بے محابہ نگاہ

 کو پردہ و حیاداری عطا فرما -تاکہ ہم روز قیامت  تیرے فضل و کرم سے محروم نا ہو

 جاءیں یارب

ہمارے دست رسا کو امر ممنوع سے ہٹا دے یارب ہمارے شکم کو پاکیزہ بھوک عطا

 کر یارب ہماری فِکْرِ اِسْتِدْلالی کو باریاب رسائی دے-رحمت نازل  فرما محمد صلی اللہ

 علیہ والہ وسلم اور ان کی آل پاک پر اے میرے پاک

ہمیں با نصیب کر اور آگہی کے دروازے کھول دے یارب ہمیں نماز ہائے پنجگانہ کی

 پابندی اور سعادت نصیب کر یارب ہمیں واجبات انسانی دل سے ادا کرنے کی توفیق

 عطا کر یارب ہمیں اپنی معرفت عطا فرما اور اپنی مھبّت سے فیض یاب ہو نے کا

 سلیقہ عطا فرما

اے میرے پاک رب ہمیں ان کے مرتبے پر فائز فرما جو نمازوں میں سب سے آگے

 تھے- واجبات کی نشاندہی کرنے والے تھے -رکوع و سجود میں سب سے ا فضل تھے

برکتوں کو جاری و ساری کرنے والے تھے تیری زات با برکات سے صحیح معنوں

 میں آشنا تھے خاص اور عبد خاص تھے-ان کے چہرے کامل ، پاکیزگی اور خشوع

 میں نمایاں تھے    اے میرے پاک رب

ہمیں اس ماہ رمضان مبارک میں توفیق دے کہ

ہم اوروں سے نیکی اور احسان کریں -عزیزوں سے صلہ رحمی سے پیش آءیں

ہمسایوں کی خبر گیری  کریں اور ان کی خطاؤ ن پردرگزر کریں اپنے اموال کو

زکوات دے کر غرباء پر خرچ کر کے انہیں پاکیزہ اور طیب بنا لیں

 اے میرے پاک پروردگار 

رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آل پاک -ائے اللہ ہمارے

 صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو اپنی رحمت کاملہ سے  مٹا دےاور ہمیں گناہوں سے بری

 کر کے ساری خطاوں سے پاک کر

رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی ال پاک پر

اے میرے پاک

 گر ہم حق سے مُنہ موڑیں توہمیں سیدھے سچے راستے پر لگا دینا  –اگر ہمپروردگار

 کجروی اختیار کریں تو ہماری اصلاح و دُرستگی  کا سا مان عطا کرنا -

اور اگرشیطان ہمارے گرد احاطہ کرے تو اسکے پنجے سے چُھڑا دینا- اس ماہ

 مبارک  میں ہمارا دامن  اپنی  عبادتوں سے بھر دے ان لمحات کو ہماری اطاعتوں سے سجادے

 ہماری ہر شب کو  شب بیدار اور دن کو روزہ داربنا دے

تیرے حضور ا شکباری کریں اور تو ہماری تطہیر کر دے اور ہماری عجز و الحاح

 تیرے روبرو ہمیں زلت سے بچا لے اے دعاؤں کو قبول کرنے والے مہربان رب

میرے پاک رب اے 

اے دعاؤں کو قبول کرنے والے مہربان رب اے میرے پاک رب یہ سب تیرے ازن کے

 بغیر ناممکن ہے

ہماری مدد فرما ۔۔۔۔۔۔ ہماری مدد فرما

آمین ثمہ آمین

الہی آمین

اتوار، 10 اپریل، 2022

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں .

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں

سنہ انّیس سو ستّاون ،، یہ میرے بچپن کا دور تھا جب پاکستان میں بننے والی فلم سات لاکھ کے اس گانے نے کراچی کے گلی کوچوں میں دھوم مچا دی تھی  مجھے بھی یہ گیت بہت پسند تھا میرے زہن کے شائد کسی گوشہ میں اب تک یہ گیت یقیناً محفوظ ہو گا جو حال ہی میں انٹر نیٹ پر شائع ہونے والی ایک  خبر اور تصویر کو دیکھ کر جاگ گیا خبر کا عنوان ہے

تھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز،

تصویر میں تھری لباس میں  ملبوس لاتعداد لڑکیاں اپنے اٹرویو کی باری آ نے  کے لئےکھڑی ہیں –کچھ لڑ کیوں کے چہرے کھلے ہیں لیکن دونے ماتھا چھپایابہوا ہے کچھ نے ابھی بھی جبکہ اٹرویو دینے آئ ہیں گھونگھٹ نکالا ہوا ہےمیں نے تھر کی عورت کا چہرہ کبھی بھی کھلا نہیں دیکھا نا اس کو کبھی  کوئ جدّت طراز معاشرے کی رکن کی حیثیت سے  جانابس  اس کو اپنی گو د میں بچّہ اٹھائے اور سر پر پانی سے بھرے کئ مٹکے رکھ کر ننگے پاوں جلتی ریت پر چلتے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس تصویر کو دیکھ کر میں حیران ہوں کہ گھونگھٹ کی اوٹ میں  مٹکے اٹھانے والی عورت  اپنے گھونگھٹ کی اوٹ سے ڈمپر ڈرائیونگ کس طرح کر سکے گی  -لیکن تھری  مرد فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ  اپنی پسماندگی کو دور کرنے لئے  اپنی عورتو ں سے بھی کام لیں گے جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔-۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شام ہیں جن کو منتخب کیا گیا  ہے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزپاکستان میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تھرپارکر جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی چلانا اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے ۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔

ایک تھری  عورت نے بتایا کہ جب کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تو انھیں بعض اوقات اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'ہم بہت غریب لوگ ہیں، اسی لیے میں نے ڈمپر ڈرائیور کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ جب میرے بھائیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔ محلے والوں نے بھی مذاق اُڑایا۔ لیکن میں نے کسی کی نہیں سنی۔ مجھے حوصلہ ہے کہ میرا شوہر میرے ساتھ ہے۔'

خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔ 'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟'

ڈمپر ڈرائیور بننے کی ایک اور خواہشمند خاتون  نے بتایا: '

کہ  میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ میں اور میرے گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ بنوں گی۔'ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوکری کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے آنے والی خواتین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے تھے جن میں رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔

جہاں آرا کے مطابق: 'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی بہو بیٹیوں کو بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے اور ڈرائیونگ سیکھنے کے شوق میں تھر کی 17 سالہ کئی پرجوش لڑکیوں نے اس بات پر اعتراض بھی کیا کہ ڈمپر ڈرائیور بننے کے لیے عمر کی کم از کم حد 20 سال نہیں ہونی چاہیے۔

مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گیا ہے یہ وہ خواتین ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔ زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھی ہیں، ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنےصوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی قصبے مٹھی کی رہائشی  پیلے رنگ کے ایک ڈمپر کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شامل ہیں جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔

 خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ نے  بتایا کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔'تھر کی سخت جان عورتیں گھنٹوں کام کرتی ہیں اسی لیے ہم نے انہیں یہاں کا سب سے مشکل کام سونپنے کا سوچا تاکہ یہی خواتین ثابت کر سکیں کہ وہ تھر کے مردوں سے کسی طور کم نہیں، بلکہ اُن سے کہیں آگے ہیں۔ یہ خواتین صرف اپنے علاقے کی باقی خواتین ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے جرات کی مثال قائم کر سکیں۔' 

انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔ 'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟'ڈمپر ڈرائیور بننے کی ایک اور خواہشمند خاتون  نے بتایا: 'میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عورت مضبوط ہے اس لیے میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ میں اور میرے گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ بنوں گی۔'

ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوکری کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے آنے والی خواتین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے تھے جن میں رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔

جہاں آرا کے مطابق: 'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی ہو بیٹیوں کو بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے اور ڈرائیونگ سیکھنے کے شوق میں تھر کی 17 سالہ کئی پرجوش لڑکیوں نے اس بات پر اعتراض بھی کیا کہ ڈمپر ڈرائیور بننے کے لیے عمر کی کم از کم حد 20 سال نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خاندان بھی سامنے آئے جن کا کہنا تھا کہ 'تھر میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہماری خواتین گھر سے باہر نہیں جائیں گی۔'مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گی۔'یہ وہ خواتین ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔ زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھیں، ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنے ہوتے ہیں اس لیے اِن خواتین کی ایک سال کی ٹریننگ ضروری ہے۔ ایک مرد جو ڈرائیونگ بالکل نہیں جانتا چار ماہ کی ٹرینگ کے بعد یہ کام شروع کر دیتا ہے۔' ٹریننگ کے اختتام پر یہ خواتین روزانہ آٹھ گھنٹے ڈمپر چلائیں گی۔

 تین سے چار کلو میٹر کے راؤنڈ ٹرپ میں یہ خواتین مٹی سے بھرے ڈمپر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائیں گی۔ یہ کام اُنھیں ایئر کنڈیشنڈ ڈمپر میں بیٹھ کر ہی کرنا ہو گا۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے 16 بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جو جیولوجیکل سروے آف پاکستان اور یونائٹیڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے اشتراک سے 1991 میں دریافت ہوئے تھے۔ نو ہزار کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے مالامال ہے۔بحیثیت ایک پاکستانی خاتون کے میں سوچتی ہوں کہ اگر پاکستان کے قدامت پرست معاشرے نے عورت کے اس روپ کو قبول کر لیا تودیہی عورت کی  یہ آزادی بہت بڑی خوشی کی نوید ہے-

 

سرخ رنگ سے کینسر کا علاج رنگ و روشنی کے باب میں

>

 

 

سرخ  رنگ سے کینسر کا علاج  رنگ و روشنی  کے باب میں

در اصل ہمارے جسم مین رنگ ایک حساب و کتاب کے تحت اپنا اپنا میزان رکھتے ہین جب کسی بھی وجہ سے وہ میزان اپنا توا زن نہیں رکھ پاتا ھے تب ہم بیمار ہو جاتے ہیں

اب کینسر کی بیماری کو لے لیجئے ، یہ بیماری کیو ن ھو تی ھے اس کے اسباب یہ ہین بہ تحقیق کہ جب ہمارا زہن مسلسل دباؤ کا شکار ہو جاتا ھے تو فکرو ں کا بو جھ ا ٹھا نے کے بجا ئے جسم کے کمز ور حصّے کو منتقل کر د یتا ھے اس کمز ور حصّے میں جانے کے بعد یہ فکریں زندہ جر ثو مو ں مین تبدیل ہو کر و ہان اپنا ڈ یرہ جما لیتی ہین اوربد ن کے سر خ خلیا ت کو بہت تیزی سی کھانے لگتی ہیں

 کینسر  اللہ نا کرے "کسی بھی قسم کا ہو جسم کے کسی بھی حصْہ میں نمودار ہوا ہو اس کے لئے ڈاکٹر کے علاج کے علاوہ ایک کام یہ بھی کرنا ہے کہ سرخ رنگ سے مریض کی کلر تھراپی کرنا ہے-کلر تھراپی کیسے کی جاتی ہے -اس کا ماخذ کیا ہے ؟

سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ کلر تھراپی سے علاج قدیم زمانے سے کیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں اس علم کا استفادہ سب سے پہلے چوتھے امام سیّد السّاجدین کی طب میں ملتا

یہ مرض اپنے آ خری امکان تک کو شش کرتا ہے کہ اپنے مریض کو مبتلائے ازیّت نہ کرے بلکہ خا موش رہ کر اپنا کام کرتا رہے یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی یہ اس و قت نمو دار ہو تا ھے جب مریض کو ڈاکٹرز کہتے اس کو گھر لے جاؤ اور اپنی مرضی سے جینے دو ڈ اکٹرز کو معلوم ہو جاتا  ہے کہ ا ب اس مریض کی زندگی کتنے دن کی ہے۔

کینسر کا علاج ممکن ہے،، اگر خدا چاہے"

اس کے لئے مریض کے ساتھ اس کے گھر والو ن کا بھی تعا ون ضروری ہے ۔کینسر کے مریض کے بسترکی چا در پہننے کے کپڑے کھڑ کی دروا زے کے پردے سب سرخ رنگ کے کر د یے جائں- اب میں آ پکو بتاتی ہو ن کہ کسی بھی کلر کا پانی کیسے بنا یا جاتا ہے ۔

پانی بنانے کے لئے جو اشیاء در کار ہیں

ایک شیشے کی شفّا ف بو تل ،،یہ بو تل رو ح افزاء شر بت یا اسی ٹا ئپ کی ہو نی چا ہیئے

سیلو فین پیپر ۔۔ یہ پیپر اگر بتّی کے پیکٹو ن پر و تا ھے اور مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتا ہے ورنہ پھر سرخ رنگ کی بوتل ہی دستیاب ہو جائے تو کیا کہنے

سٹیل کا برتن ،،،جس مین پانی ابالا جا سکے

پا نی بنا نے کا طریقہ

سب سے پہلے بو تل کو اس میں مو جود ہر طر ح کی شئے سے صا ف کر لیا جائےمثلاً شر بت یا اس مین جو بھی چیز مو جود ہو

پھر اس کو تیز گرم پانی سے دھو کر سکھا لیجئے

پھر اس پر سرخ رنگ کا پیپر چڑ ھا د یجیئے

اب سٹیل کے برتن میں خو ب اچھّی طر ح پکایا ہو مکّمل ٹھنڈ ا ہو نے کے بعد بو تل کو تین چو تھا ئی بھر کر صبح 10 بجے د ھو پ میں رکھ دیجئے اور شا م 4 بجے ا ٹھا لیجے پانی تیّا ر ہے

خو راک کس طر ح لینی ہے ؟

رات کو سو تے و قت 2 او نس صبح نہا ر منہ 2 او نس

ایک با ر بنا یا ہوا پا نی 36 گھنٹے قا بل استعمال رہتا ہے ۔

کینسر کے مریض کو دو قسم کا پانی دیا جائے  گا

سرخ اور زرد رنگ

سرخ رنگ کا پانی ایک اونس صبح

زرد رنگ کا پانی شام کے وقت

جبکہ روشنی دیتے وقت کمرہ مکمّل اندھیرا کر کر روشنی دی جائے گی

اب آئیے روشنی کا انتظام  کس طرح کیا جائے گا

اب تو بازار سے ہر رنگ کے روشنی کے بلب ملتے ہیں لیکن جن لوگوں کو یہ بلب نا مل سکیں ان کو چائے کہ اسٹڈی لیمپ لے آءیں اور اس میں 100 پاور بلب لے کر لگا دیں بلب کے آگے لیمپ کے اوپر سیلوفین پیپر مظبوطی سے چڑھا دین -اور مریض سے ڈھائ فٹ کے فاصلے پر لیمپ رکھ کر اسے اون کر دیجئے اب دس منٹ تک متاثرہ حصّہ کو اسی روشنی میں رکھئے اور لیمپ آف کر دیجئے

اب آئے کینسر کے مریض کی غذا کی جانب تو تیماردار کو معلوم ہونا چاہئے کہ کینسر کے مریض کو ہر وہ غذادی  جاستی ہے جس میں سرخ رنگ کی آمیزش ہو یا وہ خود  سرخ کی ہو

جیسے تٹماٹر'گاجر'چقندر'انارگلابی امرود'وغیرہ وغیرہ

اللہ کریم آپ کا حامئ  و ناصر ہو(آمین)

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر