جب بھاگ بھری کے بھاگ جگے
کہتے ہیں کہ جب کسی لڑکی کے نصیب
کھلتے ہیں تب آسمان سے نعمتوں کا طباق اس لڑکی کے آنگن میں اترآتا ہے لیکن بھاگ
بھری یا بھاگ متی ایسی لڑکی تھی جس کے لئے اس کا محبوب ایک شوریدہ سر ندّی کے اس
پار سے آکر سیدھا اس کے دل کے آنگن میں اتر آیا تھا -یہ کہانی لگ بھگ چار سو سال
پرانی ہئے جب جنوبی ہندوستان کے قلب مین بہنے والی موسیٰ
ندّی کے ایک جانب رہنے والی ایک ہندو لڑکی پر دریا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے
قطب شاہی شاہزادے کا دل آ گیا -ایک مرتبہ کا زکر ہے کہ شہر میں ہونے والی بارش نے
تمام شہر کو جل تھل کیا ہوا تھا موسیٰ ندّی کے چوڑے پاٹ میں طغیانی کی شوریدہ سر
لہریں اس کے کناروں پر اپنا سر پٹختی ہوئ چلی جارہی تھیں اور ندّی کے کنارے قطب
شاہی شاہزادہ کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی محبوبہ بھاگ بھری سے ملنے کس طرح اس
منہ زور دریا کو پار کرےکہ دریا کے دوسری جانب اس کی دلکشا ء محبوبہ حسب وعدہ اپنے
محبوب کے آنے کے انتظارمیں بیٹھی گھڑیاں گن رہی تھی ،
اور پھر بالآخر قطب شاہی شاہزادے نے
اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے آپ کو د ریا کی لہروں کے سپرد کر دیا اور اپنی
محبوبہ سے ملاقات کو پہنچا-فرمان روائے سلطنت' امور سلطنت سے فراغت کے بعد محل
سراء میں آئے تو شاہزادے کی بابت سوا ل کیا ،ولی عہد کی والدہ نے بتایا کہ دریا کے پار گئے ہیں-قطب شاہ نے
سوال کیا اتنی جل تھل بارش اور دریا کی طغیانی میں وہ کس طرح گئے ہیں تو ان کو
جواب ملا کہ دریا میں تیر کر گئے ہیں -قلی قطب شاہ کو شاہزادے کا یوں دریا پار کر
کے جانا مطلق پسند نہیں آیا اور انہون نے اسی وقت اپنے نائبین کو بلا کر دریا کے
اوپر ایک پل بنانےکے احکامات جاری کئے قلی قطب شا ہ نے کہا جب میرا لخت جگر اپنی
محبوبہ سے ملنے اس طرح دریا کے پار کے جا سکتا ہے تو اور بھی کسی کا جوان بیٹا
جاسکتا ہے
دریا پر پل بنا دیا گیا اور پھر قلی
قطب شاہ اپنے لخت جگر کا رشتہ لے کر اس ہندو لڑکی بھاگ بھری کی دہلیز پر جا پہنچے
،لڑکی والے بھی بھلے نیک لوگ تھے کچھ مقدّر کا زور تھا رشتہ منظور ہو گیا لیکن قلی
قطب شاہ نے شادی کی شر ط لڑ کی کے مسلمان ہو جانے سے منسلک کردی جسے لڑکی سمیت اس
کے تمام گھر والو ں نے تسلیم کیا لڑکی مسلمان ہو ئ اور اس کا نام حیدر محل رکھا گیا
-
پھر بھاگ بھری کے یہاں جب پہلا بیٹا
ہوا تب تخت گاہ گولکنڈا میں کئی دنوں تک جشن منا یا گیا اور مسکینوں اور فقیروں کو
انعام و اکرام دئے جاتے رہے -بھاگ بھری کے اس بیٹے نے طویل عرصہ تک اپنی
راجدھانی کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے دلوں پر راج کیا
وہ بھاگ بھری ہندو لڑکی واقعی ایک
بھاگ بھری شاہزادی بن کر قطب شاہی شا ہی شاہزادے کے عقد میں آئ اب نئ دلہن کا نام
حیدر محل تھا دولہا کے والد قلی قطب شاہ نے شاہزادے کی شادی سے فراغت کے بعد چار
محل تعمیر کرنے کا حکم دیا جن مین ایک محل کا نام نئ دلہن کے نام پر حیدر محل رکھا
گیا اور پھرانہوں نے ایک اور فیصلہ کیا کہ اپنی نئ بہو کے نام پر وہ ا یک نیا شہر
بھی بسائین گے
اس شہر کو بسانے کے لئے انہوں نے ایران
سے بہترین آرکیٹکٹ بلوائے کیونکہ اس شہر کو اصفہان کی طرز پر بنانا چاہتے تھے یہی
وجہ ہے کہ حیدر آباد کی تعمیرات میں ایرانی شہر اصفہان کے طرز تعمیر کی جھلک نظر
آتی ہے
چنانچہ جنوبی ہندوستان کی سرزمین کو
منتخب کر کے وہاں پربرّصغیرکا ایک شہ پارہ شہر بسانے کا فیصلہ کیا -یہ شہر ماضی کی
طرح آج بھی پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد اور خوبصورت مقام رکھتا ہے قلی قطب شاہ
نے شہر کا سنگ بنیاد اپنے وقت کےمعزّز ین ،،رؤسا ء اور وعالی مرتبت افراد کے ساتھ
رکھا ،، سنگ بنیاد رکھنے کے بعد قلی قطب شاہ نے دعاء کے لئے اپنے ہاتھ اسی جگہ زیر
آسمان بلند کئے اور دعاء کی کہ پروردگار تو میرے بسائے ہوئے اس شہر کو عالموں ،طبیبوں
سے ادیبوں سے شاعرون اور ہنر مندوں سے اور نیک لوگون سےمعمور کر دے-
قلی قطب شاہ کی دعاء کے وقت قبو لیت کی
گھڑی تھی اور ان کے دل کی سچّی آ رزو تھی کہ دعاء قبول ہو گئ اور اس بات کا پورا
ہندوستان گواہ ہئے کہ حیدرآبا د دکن میں پورے ہندوستان سے عالم ،طبیب شعراء اساتذہ
،طالب علم اور چنندہ چنندہ ہنر مند آ بسے اور یہ شہر ان کے وجودکے ہنرسے جگمگا اٹھا اس شہر بے مثال نے اپنے
حاکموں کی نیک تمنّاؤں کے طفیل اپنی آغوش میں سب کو سمیٹ لیا-قلی قطب شاہوں کے
کارہائے نمایا ن میں ان کی وہ تعمیرات ہیں جو انہوں نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود
کے لئے بنوائیں ،ان تعمیرات میں مساجد امام بارگاہین ،مدرسے ،اورمدرسوں سے ہی
متّصل شفاء خانے اور طالبعلموں کے لئے طعام و قیام کے ہوسٹل شامل ہیں ،ان کی رگو ں
میں عوام کی بہبود کا لہو دوڑتا تھا انکی سلطنت میں کو ئ بھوکا نہیں سوتاتھا یہ
نادارون اور غریبو ن کے اتنے وظائف مقرّر کرتے تھے کہ ان کو کسی کے سامنے دست سوال
دراز نا کرنا پڑے یہ طالبعلموں کو اتنے وظائف دیتے تھے کہ وہ آسانی سے حصول علم پر
توجّہ دے سکیں انہوں نےبےروزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کا انوکھا طریقہ نکالا
تھا کہ جیسے ہی کسی پڑھے لکھے نوجوان کی بے روزگاری کی اطّلاع ملتی اسے اپنے زاتی
ملازم کا درجہ دیکر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اس کے برسر روزگار ہونے تک اس کو
اپنے آپ سے جدا نہین کرتے تھے اس دوران اگر اس کی شادی ہونی ہوتی تھی تو اس کی شادی
اپنے اخراجات سے کرتے تھے اور اس کے ہونے والےبچّوں کی جروریات بھی پوری کرتے تھے
اور اس طرح اپنے معاشرے کو وہ اخلاقی انتشار سے بھی محفوظ رکھتے تھے
ان بہترین بادشاہوں کے بہترین کاموں کے
عوض میں اللہ تعالٰی نے ان کی دنیا تو روشن کی ہی تھی ان کے مرنے کےبعد ان کی آرام
گاہوں کو بھی باغ ابراہیم کے ہرے بھرے درختوں کی چھاوں میں باغ و بہار جنّت عطا کی
اور بھاگ بھری کی قبر بھی انہی قبروں کے درمیان موجود ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں