منگل، 4 جنوری، 2022

کالے کوّے سے ڈریو

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

 

کالے کوّے سے ڈریو

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سب کی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دی

وار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں

 بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔

بچپن میں گاؤں میں اکثر بچوں کے ہاتھوں سے کوا روٹی کا ٹکڑا چھین لیتا تھا مگر پھر بھی اسے لوگ نہیں مارتے تھے صرف اسے دور رکھنے کے لیے ہاتھوں کی دو

 انگلیاں ملاکر دوسرے ہاتھ کی انگلی سے کوے کو بتانا ہوتا تھا کہ اسے ہم غلیل مار رہے ہیں اور وہ بھاگ جاتا تھا۔ کوے کو سیانا پرندہ مانا جاتا ہے -

 اس کے لیے

 ایک یہ کہاوت ہے کہ سیانا کوا جب بھی کہیں پھنستا ہے دونوں ٹانگوں سے۔ یہ پرندہ گرمی میں گھبراتا ہے اورکڑی دھوپ میں درخت پر ہی رہتا ہے اس لیے

 سندھ میں کہاوت ہے کہ اتنی گرمی ہے کہ کوے کی آنکھ نکل رہی ہے۔گاؤں میں لوگ کوے کے لیے مکھن اور چینی سے گندم والی چوری (پنجیری) بنا رکھتے تھے۔

اب تو کوے کی نسل بے حد بڑھ گئی ہے اورکراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں ہر جگہ آپ کو یہ پرندہ ملے گا لیکن پالنے کے لیے اسے کوئی بھی پنجرے

 میں نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ آپ کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ کراچی سے اس پرندے نے طوطے، بلبل کی نسل کو ختم کردیا ہے اب بھی اگر طوطا کہیں

 درخت پر نظر آجاتا ہے تو یہ اسے مار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کوے نے کبوتر کو دیکھا کہ وہ بیمار ہے وہ اس کے سر پر ٹھونگیں مار کرگرا دیتے ہیں اور پھر اپنا بھوجن

 بناکر چٹ کردیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سبکی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں

 جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دیوار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے

 ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ

 کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سےشاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔ کوئل اپنا گھونسلا نہیں بناتی اور اپنے انڈے کوے کے

 گھونسلے میں دے آتی ہے۔ کوا ان بچوں کو اپنا سمجھ کر پالتا ہے جب وہ بڑے ہوتے ہیں اور پھر وہ انھیں نکال باہر کرتے ہیں۔،

 

                  


مغرور بادشاہ کو ہدائت کیسے ملی

 

  بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبر دست لشکر کا مالک تھا۔  اس کے پاس ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج

 تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہو جاتے اور اطاعت میں سر خم کر دیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے

 دس دانا آدمی منتخب کر کے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔اس طرح اس کے پاس چار سو بہترین علمائے دین جمع ہو گئے تھے جن کے پاس کتب سماویہ کا علم تھا

جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ میں داخل  ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس وقت اس کے پاس چار ہزار حکماء

 اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟

اس کے مشیر نے جواب دیا 'ائے بادشاہ اس شہر میں ایک گھر ہے جس کی زیارت کو تمام دنیا سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور جتنا تیرا لشکر ہے اتنے آدمی تو

 روز اس کا طواف کرتے ہیں بس اس بات نے تُبَّع الحمیری کو طیش دلا دیا اور اس نے کہا فوج کو تیّار ی کا حکم دیا جائے میں خانہ ء کعبہ کو نیست و نابود کر دوں گا  اور

 اس کے دّام کو غلام بنا وں گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ ککو ایسی بیماری لاحق ہوئ کہ وہ اس کا جسم اکڑ گیا اور جسم کے ہر حصّے سے بدبو دار پیپ کا اخراج ہو نے 

جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔دربار کے تمام حکماء اور علماء کو بلایا گیا

لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہیں کر سکا جو دوا دیتا بالاخر سب سے آخر میں عالم ربّانی کو بلایا گیا عالم ربّانی نے بادشاہ کو ایک نظر دیکھا اورکہا مرض زمینی نہیں آسمان

ی ہے جو بادشاہ کی کسی سنگین خطا کے سبب لاحق ہوا ہے عالم ربّانی کے روبرو بادشاہ  نے اعتراف کیا کہ اس نے خانہء کعبہ اور خدّام کعبہ کے لئے بری نیت کی تھی-

عالم ربّانی نے بادشاہ سے کہا اگر تو توبہ کر لے گا تو تجھے نجات مل جائے گی ورنہ موت تیرے سر پر کھڑی ہے اور تو ابھی صدق دل سے توبہ کر لے

بادشاہ نے اسی وقت صدق دل سے تو بہ کی اور کہا کہ میں دل سے خانہ ء کعبہ کی تعظیم کروں گا اور خدّام کی خدمت بھی کروں گا ۔ ابھی وہ عالم ربّانی بادشاہ کے

 پاس سے ہٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہو گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔پھر  اس نے خانہ کعبہ کے سات قیمتی غلاف تیار کروائے۔اور خدّام کعبہ کو

 سات 'سات جوڑے زربفت اور کمخواب کے دئے پھر وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوا-

سر زمین ِیثرب ان دنوں ایک صحرا تھا ، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے

 کے پاس پڑاؤ ڈال  دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جومختلف شہروں سے منتخب کر کے ہمراہ رکھے گئے تھے۔

ان میں وہ صاف باطن، دین الٰہی کا خیر خواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمت کعبہ سے رو شناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی

 تھی۔ بادشاہ کے علمائے دین نے یثرب پہنچ کر ناجانے کیا محسوس کیا کہ زمین کی کنکریاں ہاتھ میں آٹھا کر سونگھیں اور پھر کہنے لگے اس شہر کی مٹّی  نبی آخر

 الزّماں کی خوشبو سے معمور اس لئے ہم   اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آ کر بادشاہ کے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو

 گئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو

 نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کر دے یا جلا ڈالے۔

بادشاہ کا دل اب ہدائت یافتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے ان چار سو علمائے دین کے بہترین گھر بنوائے اور تمام گھروں کو ساز سامان سے آراستہ کیا اور پھر  لونڈیوں کو

 آزاد کر کے اپنے عالموں کے نکاح کرواتا گیا تاکہ جب نبئ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دنیا میں تشریف لائِں تب مدینہ اُن کی پاکیزہ نسلوں سے معمور ہو اس

بعد اس نے ایک متبرّک خط تحریر کیا جس کا متن یہ تھا - یہ خط تبّع الحمیری کی جانب سے نبئ آخرالزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت میں لکھا گیا کے

کمترین مخلوق تبع اول الحمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -اما بعد

اے اللہ کے حبیب!حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے

 دین پرآ گیا  ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تومیری بڑی خوش نصیبی ہو گی لیکن  اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائے گا  اور

 قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ

 اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً عالم ربّانی کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک وہ دنیا نے وہ سنہری ساعتیں بھی دیکھیں جب  ایک ہزار چالیس برس گزر گئے ان

 علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیااور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے

 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور نبئ مکرّم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ

 وسلّم کے مدینہ آنے پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے خط پڑھا اور مسکرائے اور فرمایا -شاباش میرے بھائ،،  ،


ہفتہ، 1 جنوری، 2022

وٹّہ سٹّہ کی عذاب کہانیاں

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

 وٹّہ سٹّہ کی عذاب کہانیاں

اب سے تقریباً ستائس برس پہلے کا واقعہ ہے جو میری آنکھوں کے سامنے پیش آ یا نازک کومل  تعلیم یافتہ  لڑکی کی شادی ہوئ بھائ کے ساتھ بدلے پر اپنے قریبی عزیزوں میں بیاہ کر چلی گئ کہ سال بھر سے کچھ اوپرگزرا تھا کہ اچانک ایک دن اس کی گلی سے گزر ہوا- لڑکی بصد اصرار اپنے گھر کے اندر لے گئ  اور پھر میں نے حسب دستور اس کی شادی شدہ زندگی کا احوال پوچھا تو اس نے بتایا کہ جیسا کہ مجھے معلوم ہو گا کہاس کی شادی اس کے قریبی  عزیزوں میں وٹّہ سٹّہ کے بدلے میں  ہوئ تھی جو میری  بھابھی کا میرے والدین سے نہیں نباہ سکی اس لئے مجھے بھی طلاق ہو گئ -

لڑکی نے بتایا کہ ہم دونوں شوہر بیوی بہت اچھّا نباہ کر رہے تھے میرے شوہر مجھ سے بہت محبّت کرتے تھے -میں بھی ان سے بہت محبّت کرتی تھی لیکن پھر ہمارے گھر میں روز بدمزگی رہنے لگی شوہر مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے کیونکہ میں اوپر کی منزل میں رہتی تھی اور ساس سسر نیچے کی منزل میں رہتے تھے تو جب میرے میاں دفتر سے آتے تو میری ساس ان کو انکی بہن کی مظلومیت کا حال بتاتی تھی اور پھر وہ مجھ سے دور ہونے لگے یہاں تک کہ ایک دن میری نند جو میری بھابھی تھی گھر آ کر بیٹھ گئ اوراس نے خلع کا مطالبہ کر دیا میرے والدین نے پہلے سمجھوتہ کی کوشش کی پھر ہار مان کربھائ سے خلع دلوا دیا

  میرے یہاں پہلا بچّہ ہونے والا تھا پھر جب میرے یہاں بچّہ ہوا تو میری ساس نے اسے مجھے دیکھنے تک نہیں دیا اورہسپتال سے ہی وہ اسے اپنے ساتھ لے گئیں بچّے کی پیدائش کے بعد میرا طلاق نامہ بھی آ گیا  -اور مجھے ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے امّی بتا رہی تھِین کہ میں اچانک چیختی تھی کہ میرا بچّہ مجھے لادو-تقدیر کا لکھا توپورا ہو چکا تھا اورپھرمیرے دوہرے صدمہ سے امّی شدید بیمار ہوئیں کہ ایک جانب میرا گھر اجڑا تو دوسری طرف میرا لخت جگر مجھ سے چھین لیا گیا اور پھر یوں ہوا کہ مجھے تو اللہ نے ٹھیک کر دیا  لیکن امّی  میری اور بھائ کی طلاق کا صدمہ نہیں جھیل سکیں اور اللہ میا ں کے پاس چلی گئیں-میرے بھائ حالات سے دلبرداشتہ ہو کر باہر چلے گئے اور میں یہیں ابّو کے ساتھ رہنے لگی-ان تمام سختیوں سے گھبرا کر میں نے دوبارہ اپنی تعلیم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اچانک ایک روز  میرے ایک کزن میرے گھر آئے مجھ سے سر سری ملاقات کے بعد بس انہوں نے مجھ سے اتنا پوچھا کہ کیا میں ان سے شادی کروں گی میں نے ان کو جواب دیا اب میرے وارث میرے ابّو ہیں آپ ان سے بات کر لیجئے پھر وہ ابّو کے ساتھ کافی دیر دوسرے کمرے میں رہےاورپھران کے ساتھ ساتھ  ان کی فیمیلی نے متّفقہ فیصلہ کیا اور گھر کے چند افراد کے درمیان مجھے اپنا بنا لیا -یہ زندگی کا بڑا انوکھا موڑ تھا خوشی اور دکھ کاا متزاج - اب میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں الحمد للہ

 اب میرے شوہر یہیں میرے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ اگر مین سسرال جاتی ہوں تو ابّو تنہا ہو جائیں گے -لڑکی نے مجھ سے کہا آنٹی آ پ کہانیاں لکھتی ہیں میری کہانی بھی لکھیے اور سماج کو بتائیے کہ  شادی کی یہ ظالمانہ رسم ختم ہونی چاہئے کیونکہ دیکھئے میراگھر دوبارہ آباد ہو گیا میرے سابقہ شوہر کی بھی شادی ہوگئ ہے لیکن میرا وہ لخت جگر جس نے میری شکل بھی نہیں دیکھی

 میرے کلیجے کو چیر کر مجھ سے جدا کر دیا گیا-اور بھائ کی معصوم بیٹیا ں جن کو ان کی ماں اپنی مرضی سے چھوڑ گئ وہ اب سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر پل رہی ہیں

وٹّہ سٹّہ کی ایک اور سچّی کہانی

میری اور میرے بھائی کی شادی کئ سال پہلے وٹہ سٹہ کی رسم  میں ہوئی تھی۔شادی کا ابتدائ وقت تو  میری بھابھی نے اچھّا نباہ کیا لیکن پھربھابھی کا رویہ اچانک میرے بھائی اور گھر والوں کے ساتھ تلخ ہونے لگا ۔ ان کے ہاں دوجڑواں بیٹیاں بھی  بھی ہوگئں ۔  پھر ایک  دن ایک چھوٹی سی بات پر میری بھابھی ناراض ہو کر میکے بیٹھ گئیں میرے والدین اور بھائی کئی مرتبہ بھابھی کو منانے گئے لیکن وہ نہیں مانیں اور میکے میں ہی بیٹھی رہیں

 اس کے بعد سے پورا سسرال میرا دشمن بن گیا۔ سارا گھر میرے شوہر کے پیچھے پڑ گیا کہ اس کے بھائی نے تمہاری بہن کو چھوڑ دیا ہے۔ تم بھی اسے طلاق دے کر گھر بھیج دو۔ شوہر کچھ عرصے تک تو گھر والوں کو منع کرتے رہے اس کے بعد بھی انہوں نے مجھے اپنے والدین کے گھر تو نہیں بھیجا لیکن مجھ سے تعلق ختم کرلیا ہے۔

میں اپنے  کمرے میں بند رہتی ہوں۔ ۔ میرے والدین اور خاندان کے بڑوں نے بہت کوشش کی کہ یہ معاملات سدھر جائیں۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ تمھیں  اپنے گھر جانا ہے تو چلی جاؤ لیکن پھر واپس آنا چاہو گی تو دروازے بند ملیں گے-کوئ بتائے میں نے کس جرم کی سزا پائ


 


اتوار، 22 اگست، 2021

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی اس عید کے شب و روز میں عبادت، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ہونے کے ساتھ مومنین اس عید پر اچھے کپڑے پہنتے اور زینت کرتے ہیں ۔ یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ہیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاہے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ہوں یا چوتھا خلیفہ۔ بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے ۔ ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں: ”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ہے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا ”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ہو وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ہے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“ ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور راتوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ وہ شب ہے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ہے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ہیں۔“ غدیر کے کچھ اہم پیغامات ۱۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ ۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ہے اور ہے امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔ ۳۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔ ۴۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ۵۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ عید غدیر وہ مبارک اور سعد دن ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپناخلیفہ و جانشین منصوب فرمایا اور اس دن خدانے دین کو مکمل اور نعمتوں کا اتمام کیا اس طرح رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے امت کو اپنے بعد کا راستہ دکھادیا ۔ 18 ذوالحجہ کا دن ہے جب رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے بعد واپس جاتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حکم خداوندی سے توقف فرمایا اور تمام ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ سے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جناب علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایا۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔اور ارشاد فرمایا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں 10ھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق 26 ذیقعدہ مطابق 22 فروری 633ء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے چلے۔اتفاقا ان دنوں چیچک یا تاٗیفائیڈ کی وبا پھیلی ہوئی تھی اس وجہ سے بہت سے لوگ پیغمبر کے ساتھ حج کرنے نہ جاسکے ،اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی جمعیت پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ نکلی بعض تاریخی شواہد کے مطابق اس مقدس سفر میں جو لوگ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کی تعداد 90 ہزار سے کم نہ تھی اسی طرح دوسرے علاقوں سے جو لوگ مکہ پہنچے تھے وہ بھی ہزاروں میں تھے۔ جیسا کہ حضرت علی بھی یمن سے حاجیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ مناسک حج بجا لانے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کو الوداع کہا اور ارض حرم سے رخصت ہو گئے۔ آنحضرت نے ہجرت کے زمانے سے رحلت تک اس حج کے علاوہ کوئی اور حج انجام نہ دیا تھا۔ اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘،حجۃ الاسلام‘‘،حجۃ البلاغ‘‘،حجۃ الکمال‘‘اور حجۃ التمام ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ غدیر خم جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لیے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں صدیوں سے مولائے کائنات کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی خوشی میں یہ عید دنیا بھر میں منائی جاتی ہے. باب شہر علم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تقوی،دین داری،دین کی مطلق پابندی،غیر خدا اور غیر راہ حق کو نظر میں نہ لانے،راہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کرنے،علم،عقل،تدبیر،طاقت،اور عزم و ارادے کا مظہرتھے اور ایسی شخصیت کو غدیر کے دن اپنا جانشین معین کرنا تاریخ میں امت اسلامی کی رہبری کے معیار کو ظاہرکرتاہے. آج اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدیر جیسے اہم واقعے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور ان کی کمزوری کا بہانہ نہیں بننا چاہیے میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام پروردگار(کہ وہ سلام ھے )کا یہ حکم لے کر نازل هوئے کہ میں اسی مقام پرٹھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ھیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ هوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ھے : ”بس تمھارا ولی الله ھے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ھے وہ ھر حال میں رضا ء الٰھی کے طلب میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبرهوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “۔اسی طرح منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُن'' ھر بات پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی هوں چونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے:

بدھ، 11 اگست، 2021

زرا زمین میں چل پھر کے تو دیکھو-القران

 

  تاریخ کی گم گشتہ قوم ''اصحاب الرّ س"

عربی زبان میں کنوئیں کو رس کہتے ہیں 'اس قوم کے پاس پانی  کی فراہمی کا کوئ زریعہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے پہاڑوں سے نہرین نکال کر ان نہروں کو کنوؤں

 سے ملا کر بہترین آبپاشی کا نظام قائم   کیا تھا-لیکن اس قوم کے اجتماعی اعما ل و افعال بہت برے تھے –اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ

قومو ن کے اجتماعی اعمال و افکار ہی ہوتے ہیں جو ان کو زندہ یا مردہ بناتے جاتے ہیں دنیا کے افق سے مٹ جانے والی ایک قوم کا نام قران پاک کے مطابق

 اصحاب الرّس تھا ،یہ قوم بت پرست تھی اور درختو ں کی پوجا کرتی تھی اورصنوبر کا درخت ان کے لئے بے حد مقدّس تھا یہ وہ درخت تھا جسے حضرت نوح علیہ

 السّلام کے بیٹے یافث نے طوفان نوح علی السّلام کے تھم جانے کے بعد ایک بڑے آ بی زخیرے جس کا نام روشن آب تھااُسے لگایا تھا صنوبر کے درخت کویہ قوم

 تمام درختو ں کا بادشاہ کہتے تھے اور پھر اس قوم نے اسی آ بی زخیرے سے ایک نہر نکال کر اس کے کنارے بارہ شہر اباد کئے تھے جن کے نام ہیں

1۔ آبان2 ۔ازد3۔ رے4۔ بہمن5۔اسفند6۔ فروردین7،،،ارد بہشت

8،،،،خرداد9،،،تیر10،،،،مرداد11،،،شہریور12،،،مہر,,,,ان کے شہروں کے بار ہ ہی بادشاہ ہوتے تھے لیکن گیارہ

 بادشاہ بارھویں بادشاہ کے تابع کام کرتے تھے یہ ہر مہینے اپنے اپنے شہر وں میں عید مناتے تھے لیکن اسفند کے مہینے میں

 یہ اپنے سب سے بڑے اور مقدّس شہر اسفند جمع ہو کر بارہ دن کی عید مناتے یہ بہت ترقّی یافتہ قوم تھی ان کے شہر بہت خوبصورت تھے جو پتھّر سے تراش کر بنائے جاتے تھے ،ان کی ہر ہر عمارت پتّھر سے تراشیدہ ہوتی تھی

ان کے عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ یہ شہر سے باہر جاکر اپنے لگائے ہوئے صنوبر کے درختو ں کے پاس جا کر آ گ جلاتے اور پھرجانور قربان کر کے اسےآگ

 میں ڈال دیتے تھے جب جانور پوری طرح آگ میں جلنے لگتا تو یہ سجدے میں گر جاتے اور خوب رو رو کر درخت کی پو جا کرتے تھےاور سال میں جب ان کے

 شہر اسفند کی باری آتی تو وہدرختوں کو خوش کرنے کے لئے خوب خوب جانور زبح کرتے اور درختوں کے آگے سجدے کر تے ہوئے روتے رہتے تھے یہ شہر

 ان کے بادشاہوں کی تخت گاہ بھی مانا جاتا تھا-جب وہ کفر کی حدوں سے بھی تب اللہ تعالٰی نے ان کی فہمائش کے لئے بنی اسرائیل سے ایک نبی علیہ السّلام کو بھیجا وہ نبی اللہ کے آنے پر اور بھی زور آور ہو گئے ،

در اصل وہ اپنی عادتوں کے اس قدر خوگرہو گئے تھے کہ اس سے دست بردار ہونے کو تیّار ہی نہیں تھے چنا نچہ نبی اللہ نے ان کے درختوں کو بد دعا دی جس کے

 سبب سارے درخت سوکھ گئے اور وہ قوم کہنے لگی کہ نعو ذو باللہ )اس شخص نے ہمارے درختوں پر جادو کر دیا ہئے اور انہون نے نبی اللہ کو ایک گہرے کنوئیں

 میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر خود بیٹھ گئے ،نبی اللہ کنوئیں کے اندر سے آہ بکا کرتے رہے لیکن انہون نے ان کی فریاد نا سنی اور نبی اللہ بالآخر اللہ کو پیارے ہو

 گئے اس قوم کو اللہ تعا لٰی نے یہ سزا دی کہ ان کے پانی کے زخائر کو پانی بند کر دیا ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر زندہ شئے پانی کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہے اس لئے جب

 ان کے پانی کے زخائر سوکھے تودرخت بھی سوکھ گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گئے


منگل، 10 اگست، 2021

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے

 

ہندوستان میں شیعت کی بات ہو گی تو قطب شا ہی خاندان کے حکمرانوں کو تزکرہ لازمی ہو گااا

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے لیکن انہون نے اہل بیت کی تعلیمات کو اس طر ح اپنی زندگی میں سمو لیا تھا کہ وہ سراپا اہل تشیع ہی ہو گئے تھے ماہ محرّم

 کا آغازہوتے ہی ان کے محل میں تمام شاہی خواتین اور حضرات سیاہ ماتمی لباس سے آراستہ ہو جاتے تھے اور سوگ بڑھنے تک سیاہ لباس ہی زیب تن رکھتے تھے 

شہدائے کربلا سے ان کی عقیدت کا وہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں ہی ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر چلنے کے لئے وقف کر دی تھین صرف ماہ محرّم

 کے لئے وہ جو کچھ اہتمام کرتے تھے اس کی تفصیل لکھنے کے لئے تو ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو گی محرّم کا چاند نظر آنے سے لے کر بالخصوص عاشور کی شام

 غریباں تک قطب شاہ خود بھی مجالس سننے کے لئے حاضر ہوتے اور تمام اہل دربار کو بھی ساتھ لاتے تھے

سات محرّم سے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ان جلوسوں میں بھی بنفس نفیس شریک ہوتے تھے اور صبح عاشور کے علم تعزیہ کے جلوس میں برہنہ پاء جلوس

 کے ہمراہ چلتے تھے اس جلوس میں شہدائے کربلا کے تبرّکات ہاتھی کی پشت پر ہودج مین سجا کر زیا رت عام کے لئے رکھے جاتے تھے یہ تبرّکات کربلا ء سے جو

 حضرت اپنے ہمراہ لائے تھے-حیدر آباد دکن میں ہاتھی پر نکلنے والا بی بی کا الاوہ علم

پرانے شہر کے دارالشفا میں واقع عاشور خانہ" سرطوق" کا شمار ایک تاریخی عاشور خانہ کے طور پر ہوتا ہے۔دکن کےپانچویں پشت کے  قطب شاہ نے اپنے

 دورحکمرانی میں یہ عاشور خانہ تعمیر کروایا گیا تھا-عاشورہ کے موقع پر شہر حیدرآباد میں سب سے اہم علؐم بی بی کا علؐم کہلاتا ہے، جو دختر رسول سیدہ فاطمۃ الزہرا سلا

 م اللہ عنہا کے نام سے موسوم ہے۔اور اسی عاشور خانہ میں امام زین العابدین علیہ السّلام کے طوق کا وہ ٹکڑا موجود ہے جوآپ علیہ السّلام کو طویل قید کے دوران

 پہنا کر قید کیا گیا تھا -اس عاشور خانہ کے قیام سے لے کر آج تک شہروالیء  حیدرآباد میں قائم قلی قطب شاہ کا یہ یادگارجلوس محرم الحرام کے موقع پر نہایت ہی

 عقیدت و احترام سےہاتھی کی پشت پرروز عاشورہ  اور مزید تبرّکات  کے ہمراہ رکھ کر جلوس کی شکل میں اپنے قدیم مقرّرہ راستوں پرپا پیادہ خاص و عام زیارت

 کروائ جاتی ہے ۔حیدرآباد میں بلا لحاظ مذہب و ملت عقیدت مند اپنے اپنے طریقے سے یوم عاشورہ کا اہتمام کرتے ہیں۔

۔یہ عاشور خانہ دواخانہ دارالشفاء کی عمارت میں تعمیر کیا گیا تھا جو اپنی تاریخی اہمیت کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل تھا۔تاہم حکومت  کی جانب

 سے 2017 میں ترمیم کئے جانے کے بعد اسے فہرست سے خارج کردیا گیا جس سے شیعہ برادری میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔

محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھوانا پسند کرتا تھا۔

 قطب شاہی پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے

 لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ‘ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی

کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں اس قصیدے کاعنوان ’عید میلادالنبی‘ دیا گیا ہے ۔ (ص 711) ۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے اور

 منقبت بھی‘ کیوں کہ اس کے زیادہ تر اشعار میں سرکارِ دوعالم ؐ کی مدح کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کی مدح بھی ملتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد قلی

 قطب شاہ اثنائے عشری عقائد کا پیرو تھا ۔کلیات میں ’بعثت نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ کے عنوان سے ایک قصیدے کے صرف دو شعر درج کیے گئے ہیں اور نیچے نوٹ دیا گیا ہے کہ اس کے بعد کے صفحات موجود نہیں ہیں

سلطان محمد قلی قطب شاہ : (1580 – 1611) قطب شاہی سلطنت کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دارالسلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر

 کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے فرزند تھے۔

 انہوں نے شہر حیدر آباد، دکن کی تعمیر کی۔ ان کی  راجدھانی گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔ شہر حیدر آباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی آرکٹکٹس سے کروائ  گئی۔

شہر حیدرآباد کو حضرت امام علی علیہ السّلام  کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر حیدرآباد دلیروں کا شہر ہے۔محمد قلی قطب شاہ نے

 1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان چار مینار کی تعمیر کروائی۔حیدر آباد دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بنائی ہوئی تاریخی یادگار۔ اس کا سنگ بنیاد

 999ھ میں رکھا گیا۔ جس جگہ چار مینار واقع ہے وہاں کبھی موضع چچلم واقع تھا۔

محمد قلی قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبی‘ احمد شریف‘ وجہی‘ غواصی‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطیف‘ شاہی‘ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔وہ  اچھے حکمرانوں کی

 اولاد تھےاور زمانے میں اپنے نیک نام جان نشینوں کو چھوڑ گئے جن کی نشانیاں حیدرآباد کے چپّے چپّے پر عظیم عمارتوں کی صورت موجو د ہیں  


پیر، 9 اگست، 2021

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

 حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السّلام میں آب زم زم کے معدوم ہو جانے والے کنوئیں کی بنیاد

 یں اپنے اکلوتے بارہ برس کے بیٹے جناب حارث کے ہمراہ محض قیاس کی بنیاد پرتمام'تمام دن زمین کھود کھود کر تلاش کرتے تھے اس وقت ان کا ایک پڑوسی

 ان پر طعنہ زنی کرتا ہوا گزرتا تھا اور کہتا تھا عبد المطّلب چھوڑو 'رہنے دو بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ یہ مشکل کام کیسے کر سکتے ہو'دراصل اس شخص کے بہت

 سے بیٹے تھے ایک دن حضرت عبدا لمطّلب اس کی طعنہ زنی سے اتنے بیزار ہوئے کہ انہوں نے منّت مانی کہ اللہ مجھے کثرت سے  بیٹے دے تو اپنا ایک بیٹا قربان کروں گا

اللہ بڑی شان والا ہے دکھی دل کی فریاد ضرور سن لیتا ہے اور اس نے کثرت سے بیٹے دے دئے لیکن بشری فطرت کے عین مطابق حضرت عبالمطّلب اپنی مانی

 ہوئ منّت بھول گئے یہاں تک کہ سب بیٹے جوان ہو گئے،تب ایک رات جناب عبد المطّلب کو بشارت ہوئ کہ انہوں نے منّت مانی تھی لیکن منّت یاد نہیں

 آئ کہ کیا مانی تھی پھر انہوں نے اپنا قاصد کاہنہ کے پاس بھیجا کہ منّت یاد نہیں آ رہی ہے کہ کیا مانی تھی'کاہنہ نے کہلوایا کہ سوتے وقت ایک اونٹ صدقہ کر

 کے سوئیں تب معلوم ہو گا کہ منّت کیا تھی

 حضرت عبد المطّلب نے اونٹ صدقہ کیا لیکن منّت پھر بھی یاد نہیں آئ پھر کاہنہ سے کہلوایا کہ اونٹ صدقہ کر نے کے بعد بھی منّت یاد نہیں آئ ہے تو کاہنہ

 نے جواب میں کہلوایا کہ دوسری رات بھی اونٹ صدقہ کیا جائے اور اگر دوسری رات بھی بشارت نا ہو توتیسری رات بھی اونٹ کا صدقہ کیا جائے حضرت عبد المطّلب کوتیسری رات کی قربانی کے بعد بشارت ہوئ کہ بیٹا قربان کرنے کی منّت مانی تھی

ا ب کون سا بیٹا قربان کیا جائے حضرت عبد المطّلب سوچ بچار میں پڑ گئے اورپھر کاہنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ کیا کروں؟

کاہنہ نے کہلوایا کہ بیٹوں کے نام کے قرعہ ڈالے جائیں گے جس بیٹے کا نام آئے گا اس کی قربانی ہوگی قرعے ڈالے گئے تو جناب عبد اللہ کا نام نکلا  جب بستی کے

 لوگوں کو پتا چلا کہ جناب عبد اللہ کی قربانی ہونی ہے تو وہ سراپا احتجاج بن گئےاور احتجاج اتنا بڑھا کہ پھر کاہنہ سے مدد لی گئ

 در اصل جناب عبد اللہ حضرت عبد المطّلب کے سب بیٹوں میں سب سے چھوٹے اور تمام بیٹوں میں سب سے خوبصورت اور بہت  نفیس مزاج اور بلند اخلاق

 کے مالک تھے –اور انہی اعلیٰ  اوصاف کی بنا  پر وہ  حضرت عبد المطلب  کی بستی کے لوگوں میں بھی بہت پسند کئے جاتے تھے اب حضرت عبد المطّلب کسی اور بیٹے

 کی قربانی چاہتے تھے -لیکن کاہنہ نے کہلوا دیا کہ قربانی صرف اسی بیٹے کی ہو گی جس کے نام قرعہ نکلا ہے ورنہ بیٹے کے بدلے اونٹ قربان کیے جائیں گے

سوال یہ تھا کہ  اونٹوں کی کتنی تعداد  صدقہ کی جائے

      کاہنہ نے اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس

 اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر

 بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -

حضرت عبدالمطلب نے ویسا ہی کیا ہے جیسا کہ کاہنہ نے بتایا  "اور ہر بار جناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوتا گیا اور اونٹوں کی تعداد دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے

 " ہر بارجناب  عبداللہ کے نام کی پرچی نکلتی گئ, یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکرجناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوا - اس طرح ان کی جان

 کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے – حضرت عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے --اور اس طرح حضرت عبد اللہ کی جان بچ گئ

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر