منگل، 4 جنوری، 2022

کالے کوّے سے ڈریو

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

 

کالے کوّے سے ڈریو

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سب کی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دی

وار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں

 بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔

بچپن میں گاؤں میں اکثر بچوں کے ہاتھوں سے کوا روٹی کا ٹکڑا چھین لیتا تھا مگر پھر بھی اسے لوگ نہیں مارتے تھے صرف اسے دور رکھنے کے لیے ہاتھوں کی دو

 انگلیاں ملاکر دوسرے ہاتھ کی انگلی سے کوے کو بتانا ہوتا تھا کہ اسے ہم غلیل مار رہے ہیں اور وہ بھاگ جاتا تھا۔ کوے کو سیانا پرندہ مانا جاتا ہے -

 اس کے لیے

 ایک یہ کہاوت ہے کہ سیانا کوا جب بھی کہیں پھنستا ہے دونوں ٹانگوں سے۔ یہ پرندہ گرمی میں گھبراتا ہے اورکڑی دھوپ میں درخت پر ہی رہتا ہے اس لیے

 سندھ میں کہاوت ہے کہ اتنی گرمی ہے کہ کوے کی آنکھ نکل رہی ہے۔گاؤں میں لوگ کوے کے لیے مکھن اور چینی سے گندم والی چوری (پنجیری) بنا رکھتے تھے۔

اب تو کوے کی نسل بے حد بڑھ گئی ہے اورکراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں ہر جگہ آپ کو یہ پرندہ ملے گا لیکن پالنے کے لیے اسے کوئی بھی پنجرے

 میں نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ آپ کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ کراچی سے اس پرندے نے طوطے، بلبل کی نسل کو ختم کردیا ہے اب بھی اگر طوطا کہیں

 درخت پر نظر آجاتا ہے تو یہ اسے مار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کوے نے کبوتر کو دیکھا کہ وہ بیمار ہے وہ اس کے سر پر ٹھونگیں مار کرگرا دیتے ہیں اور پھر اپنا بھوجن

 بناکر چٹ کردیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سبکی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں

 جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دیوار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے

 ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ

 کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سےشاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔ کوئل اپنا گھونسلا نہیں بناتی اور اپنے انڈے کوے کے

 گھونسلے میں دے آتی ہے۔ کوا ان بچوں کو اپنا سمجھ کر پالتا ہے جب وہ بڑے ہوتے ہیں اور پھر وہ انھیں نکال باہر کرتے ہیں۔،

 

                  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر