ہفتہ، 5 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔ حصہ سو ئم

 

میں نے کہا۔!میڈم اٹھو۔!ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں، وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں۔؟وہ چمک کر اٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی، یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چھوکر ی کو پھانس لایا ہے۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے۔؟ہاں۔!روز ہی دیکھتا ہوں، میں نے کہا۔اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی۔:تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے۔میں خاموش رہا۔اس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی۔تمہیں ایک مزے کی بات سناں۔؟ضرور سنا۔میں نے کہا۔وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی۔وہاں اس کی ایک سہیلی مل گئی،


اس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے۔یہ سن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا۔ارے۔!ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر۔!ہاں ہاں بیگم صاحبہ۔!دیکھ لیا۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں۔چلو۔!طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں، دوستوں، یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی، ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں۔


جب میں نے اسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اٹھائے بغیر وہ بولی۔اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے، تو بسم اللہ۔!ضرور استفعی دے دو۔اس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا، بیگم صاحبہ۔!آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اٹھا سکتا ہوں۔؟اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔اس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا  اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی۔ارے یار۔!میں تجھے کیسے سمجھاں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی۔مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی، تو میں نے چپکے سے اس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب امیدوں کی موم بتیاں سجا رکھی تھیں لیکن ان میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتی روشن نہ ہوئی۔


وہ مر گئی تھی ! ہم نے اسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔باقی اللہ اللہ خیر سللا۔یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں اور باہمی شکر رنجیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہییں لیکن ہماری اصلی بڑی لڑائی صرف ایک بار ہوئی۔اسلام آباد میں اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا۔میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور درمیان میں رنگین پھول تھے۔عفت نے اسے فورا یوں مسترد کر دیا جس طرح وہ کسی چالاک سبزی فروش کو الٹے ہاتھوں باسی پالک،مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو۔مجھے بڑا رنج ہوا، گھر آکر میں نے سارا دن اس سے کوئی بات نہ کی۔رات کو وہ میرے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ کر کہنے لگی، دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے۔جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہےآج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے۔؟میں نے قالین کی بات اٹھائی۔قالین تو نہایت عمدہ ہے ،اس نے کہا۔لیکن ہمارے کام کا نہیں۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا۔دراصل بات یہ ہے۔جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔


1 تبصرہ:


  1. مجھے لگتا ہے شہاب نامہ اردو ادب کا وہ چھتر چھاوں درخت کا سرمایہ ہے -چاہے رزم ہو یا بزم ہو وہ اپنے وجود کو کہیں گرنے نہیں دیتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر