منگل، 24 دسمبر، 2024

صا حب کشف و کرامت ولی اللہ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی

 


حضرت  محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعلان نبوت کے آغاز سے  ہی  بھارت میں اسلام کی تبلیغ  کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کا دائرہ طویل ہوتے ہوئے اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان کے خطہ ملتان تک آ پہنچا جہاں صوفیائے کرام نے اپنے علم اور حلم سے اپنے حلقہ ارادت بنائے اور عوام الناس کو علم دین سے روشناس کیا - اللہ کے ان ولیوں میں حضرت بہا الدین زکریا  ملتانی کا نام ایک روشن سورج  کی مانند ہے -حضرت  بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 565ھ کو ملتان میں ایک ہاشمی گھرانے میں  پیدا ہوئے -حضرت بہاؤالدینؒ سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں، ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی، دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریاؒ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ نماز کا صدقہ ہے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا ہے وہ نماز کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔


حضرت نظام الدین اولیا ءکی ایک کرامت کی روایت ہے کہ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ اپنی طویل سیاحت کے دوران سراندیہ بھی تشریف لے گئے تھے اور ایک پہاڑ پر سال بھر تک آپ کا قیام رہا تھا۔ ایک دن ایک بوڑھا شخص اپنے سر پر لکڑیوںکا گٹھر اٹھائے ہوئے آپ کے قریب سے گزرا۔ گرم موسم اور ناتوانی کے سبب وہ بوڑھا لڑکھڑایا اور لکڑیاں اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑیں۔ بوڑھے نے دوبارہ اس بوجھ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کچھ دیر تک یہ منظر دیکھتے رہے۔ بوڑھا شخص بار بار لکڑیوں کے گٹھر کو اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن ہر مرتبہ اس کی طاقت جواب دے جاتی تھی۔ آخر حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ پہاڑ سے اُترے اور بوڑھے شخص کے پاس تشریف لائے۔’بابا! اس ضعیفی میں تم اتنی محنت کیوں کرتے ہو؟‘‘ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے بوڑھے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’کیا تمہارا کوئی بیٹا نہیں جو یہ کام انجام دے سکے؟‘‘’یہی تو میری مجبوری ہے کہ میں کوئی بیٹا نہیں رکھتا۔‘‘ بوڑھے شخص نے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا۔ ’’گھر میں کئی جوان بیٹیاں بیٹھی ہیں، ان ہی کے شادی بیاہ کے لئے محنت کر رہا ہوں۔‘‘

حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کو بوڑھے کی حالت زار سُن کر بہت افسوس ہوا۔ ’’چلو ہم دونوں مل کر اس بوجھ کو اٹھاتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے لکڑیاں اٹھا کر بوڑھے کے سر پر رکھ دیں۔بوڑھے نے حضرت شیخؒ کا شکریہ ادا کیا۔ ’’خدا کرے کہ یہ بھاری بوجھ گھر تک پہنچ جائے۔ اگر کہیں راستے میں ہی گر گیا تو کوئی سر پر اٹھا کر رکھنے والا بھی نہیں ہو گا۔ لوگ تو میری ضعیفی کا تماشا ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ اللہ تمہارا بھلا کرے کہ تم نے میرا حال تو پوچھا۔‘‘مجھے اسی کام لئے یہاں بٹھایا گیا تھا۔ انشاء اللہ اب تمہارے سر سے یہ بوجھ اُتر جائے گا۔‘‘ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے فرمایا اور بوڑھا شخص آپ کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔

پھر جب وہ ضعیف انسان لکڑیوں کا بوجھ لے کر گھر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ تمام لکڑیاں چمکتے ہوئے سونے میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ بوڑھے کی بیوی اور بچیاں حیران تھیں کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کس طرح پیش آ گیا؟ آخر بہت غور و فکر کے بعد بوڑھے کو حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ یاد آئے اور وہ بے اختیار چیخ اُٹھا :’ہاں! یہ اُسی مردِ حق کی کرامت ہے۔‘‘ بوڑھا جوشِ مسرت میں بہت مضطرب نظر آ رہا تھا ’’اُسی نے گری ہوئی لکڑیاں اُٹھا کر میرے سر پر رکھی تھیں۔‘‘بوڑھا اسی وقت پہاڑ کی طرف روانہ ہو گیا مگر جب وہاں پہنچا تو حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ  اپنے سفر پر  جا  چکے تھے۔


ایک اور موقع پر حضرت شیخ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا، جسے سن کر حاضرین بھی حیرت میں مبتلا ہوگئے، ''میں نے بڑے بڑے مشائخ کے جملہ وظائف کا ورد کیا مگر مجھ سے ختم قرآن نہ ہوسکا۔'' مجلس سے ایک عقیدت مند نے اٹھ کر سوال کیا، ''مخدوم! آپ تو حافظ قرآن ہیں، ہزاروں بار کلام الٰہی ختم کرچکے ہیں۔''حضرت شیخ نے جواباً فرمایا، کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ فلاں بزرگ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک قرآن ختم کرلیا کرتے تھے، میں نے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا، مگر خاصان خدا کے لیے بہت آسان ہے۔ حضرت شیخ نے سخت سے سخت ریاضتیں کی تھیں اور انھی وظائف نے انھیں روحانیت کے درجے پر پہنچایا، ایک موقع پر بہاؤ الدین ذکریاؒ نے دو رکعت نماز میں پورا قرآن پاک ختم کرنے کا شرف حاصل کیا تھا، ایک رکعت میں ایک قرآن اور چار پارے ختم کیے اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی۔ اور پھر ایک زمانے کو اپنی علمی  اور روحانی بصیرت تقسیم کرتے ہوئے 666ھ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد  کی  اور ملتان میں ہی آسودہء خاک ہوئے 

1 تبصرہ:

  1. خاصان خدا کا یہ وطیرہ ہے کہ دنیا ان کے دل میں بسیرا نہیں کرتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر