برصغیر کے کالونیل زمانے میں انگریز آئے تھے قبضہ گروپ کی شکل میں لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں ان شہروں کو چار چاند لگا دئے جو ان کے زیر نگیں رہے-کراچی بھی ان کے دور کا ایک ایسا بے مثال شہر بن کر ابھرا جس کے کچھ نا کچھ آثار ابھی بھی باقی ہیں - ان یاد گاروں میں ایمپریس مارکیٹ 'ویسٹ و ہارف 'کیماڑی کی بندر گاہ' کلفٹن کی چو برجی' فرئر ہال بو ہری بازار وغیرہ 'وغیرہ کراچی کا میری ویدر ٹاور، تو آج میں اسی ٹاور کی بات کروں گی- شہر کی تاریخی یادگاروں میں قیام پاکستان سے قبل یہ تاریخی ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں شہر کے وسط میں موجود ہے صوبہٴسندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی کی لانگ روٹ والی بسوں میں سفر کیا جائے تو نارتھ کراچی، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں سے شہر کے مرکز ایم اے جناح روڈ آنےوالی متعدد بسوں کے کنڈیکٹر کی ’ٹاور۔۔۔ ٹاور۔۔۔۔ ٹاور‘ کی آواز یہ پتا دیتی ہے کہ اس بس کا آخری اسٹاپ ٹاور ہے۔ٹاور کا نام سن کر ذہن میں اکثر پیرس میں قائم دنیا کے سب سے مشہور 'ایفل ٹاور' کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر جناب یہ کوئی ایفل ٹاور نہیں، بلکہ کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم 'میری ویدر ٹاور' ہے
قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔اِسی ٹاور کی موجودگی کے باعث اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس علاقے کو تجارتی لحاظ سے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میں دفاتر اور بینک شامل ہیں۔ٹاور کے قریب شہر کی مشہور کاروباری مرکز ’کراچی اسٹاک ایکسنج‘ کی عمارت بھی ہے۔ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد ہر ہزاروں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کہ رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح، ’میری‘ اور ’ویدر‘ کہیں غائب ہے، زدِ عام رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام، یعنی، 'ٹاور-وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ نے کراچی کے میری ویدر ٹاور کے اطراف گزرتے چند شہریوں سے اس ٹاور کے نام اور اہمیت سے واقفیت کے بارے میں استفسار کیا تو سوائے چند لوگوں کے کئی شہری اس کے اصل نام اور یادگار اہمیت سے لا علم نظر آئے۔اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے آج کے بہت کم شہری واقف ہیں۔
میری ویدر ٹاور کی تاریخی اہمیت:تاریخ بتاتی ہے کہ میری ویدر ٹاور سابق کمشنر سندھ 'ولیم میری ویدر' کی بہترین کارکردگی کے عوض سنہ 1884 میں تعمیر کروایا گیا تھاولیم میری ویدر سنہ 1868 میں سندھ کے کمشنر مقرر ہوئے، جنھوں نے اپنی 10 سالہ کارکردگی میں سندھ سمیت کراچی میں اہم ترقیاتی کام کرائے۔ٹاور کی بناوٹ:سنہ 1884 سے کراچی کی اہم شاہراہ ہر قائم ٹاور پر سندھ کے سابقہ ادوار کے کمشنر 'ولیم میری ویدر‘ کا نام کنندہ ہے۔اس یادگار ٹاور کی لمبائی 102 فٹ اونچی ہے۔اِس کی70 فٹ کی اونچائی پر ایک چار رخی گھڑی آویزاں ہے، جس کے اوپر نقش و نگاری کیلئے صیہونی طرز کے تارے بھی کنندہ ہیں اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےمیری ویدر کلاک ٹاور ایک گوتھک کلاک ٹاور ہے جو وکٹورین دور میں کراچی ، پاکستان میں بنایا گیا تھا۔ یہ ٹاور وسطی کراچی کا ایک تاریخی مقام ہے اور یہ وسطی کراچی کی دو اہم ترین سڑکوں محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ کو علاحدہ کرتا ہے۔ یہ ٹاور شہر کی حدود کی نشان دہی کرتا تھا جب کیماڑی کی بندرگاہ سے آتے تھے، اور کراچی کے اولڈ ٹاؤن اور مشرق میں اس کے نئے یورپی کوارٹرز کے درمیان تقسیم کی لکیر کو نشان زد کرتا تھاتاریخ میری ویدرٹاورکو عوامی رکنیت کے ذریعے سر ولیم L. Merewether کی یادگار کے طور پر اٹھایا گیا تھا، جنھوں نے 1867ء سے 1877ء تک سندھ کے کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اسے کراچی کے میونسپل انجینئر جیمز اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا، اس کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جیمز فرگوسن نے 1884ء میں رکھا تھا اسے باضابطہ طور پر 1892ء میں سندھ کے کمشنر سر ایوان جیمز نے 37,178 روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے کے بعد عوام کے لیے کھولا تھافن تعمیر رات کو Merewether کلاک ٹاورنیپئر مول روڈ کے ساتھ کیماڑی میں بندرگاہ سے پہنچنے پر ٹاور شہر کی جنوبی حد کوظاہرکرتا تھا۔ یہ نئے یورپی سرائی کوارٹرز سے اولڈ ٹاؤن کے درمیان تقسیم کی لکیر کے نشان کے طور پر بھی کام کرتا ہے یہ دو بڑے راستوں کے ٹرمینی پر بھی واقع ہے: محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ اور یہ ایک بڑا بس اسٹاپ ہے۔ ایک اور نظارہ اسٹراچن نے ٹاور کو گوتھک ریوائیول اسٹائل میں ڈیزائن کیا جو وکٹورین انگلینڈ میں مقبول تھا،۔ کلاک ٹاور 44 فٹ مربع کی بنیاد پر کھڑا ہے اور 102 فٹ کی بلندی پر ہے۔ 4 گھڑیاں 70 فٹ کی اونچائی پر ہر اگواڑے پر واقع ہیں، جس میں ایک گھنٹی ہے جس کا وزن 300 پاؤنڈ ہے جو گھنٹے پر ٹکراتی ہے۔ 100 پاؤنڈ وزنی چھوٹی گھنٹیاں چوتھائی گھنٹے میں ٹکراتی ہیں۔ یہ مقامی گیزری ریت کے پتھر سے بنا ہے اور اس کے بیرونی حصے پر سٹار آف ڈیوڈ بھی نظر آتا ہے۔ ٹاور کو نازک پتھر کے کام سے سجایا گیا ہے، ۔
یہ مقامی گیزری ریت کے پتھر سے بنا ہے اور اس کے بیرونی حصے پر سٹار آف ڈیوڈ بھی نظر آتا ہے۔ ٹاور کو نازک پتھر کے کام سے سجایا گیا ہے، جسے سلوات برادری کے پتھروں نے تراشا تھا، جنھیں گزدار بھی کہا جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریں