جمعرات، 24 اکتوبر، 2024

پاکستان میں مذید صوبے وقت کی اہم ترین ضرورت

 

 دوسری بڑی ہی بدقسمتی ہے کہ  جب بھی ملک میں مزید صوبوں کی بات ہوتی ہے  انکی زبردست مخالفت شروع ہو جاتی ہے ۔اب اگر ہم پاکستان کی آبادی کا دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں ہمیں احساس ہوگا کہ کس طرح ہم اپنے ملک کے عوام سے زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں پاکستان کی آبادی  پچیس  کروڑ سے کچھ زیادہ  ہی ہو چکی ہے اسکے باوجود یہاں صرف چار صوبے ہیں جب کہ Ireland  -انگلستان ، ایران اور فرانس کی آبادی چھ کروڑ ہے اور صوبے بالتر تیب 54 ، 24 اور 22 ہیں یعنی فی صوبہ تناسب انگلستان گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ ، ایران پچیس لاکھ ، فرانس پچیس لاکھ ستائیس ہزار دو سو بہتر جبکہ سعودی عرب جسکی آبادی ایک کروڑ چھتیس لاکھ ہے وہاں 14 صوبے اور آسٹر یلیا جہاں کی آبادی ایک کروڑ چھ لاکھ ہے وہاں آٹھ صوبے ہیں ۔

 مصر پانچ کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور صوبوں کی تعداد وہاں بیالیس ہے وہاں کا فی صوبہ آبادی کا تناسب تقریبا گیارہ لاکھ نوے ہزا ر بنتا ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت جسکا قیام ہمارے ساتھ ہی وجود میں آیا قیام کے وقت وہاں صرف آٹھ صوبے تھے اور اب 27 صوبے موجود ہونے کے با وجود مزید تین صوبوں کے قیام کی منظوری کا بل پارلیمنٹ میں موجود ہے-ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیئے کہ مزید صوبوں کے قیام کا منصوبہ تشکیل دیں اور اسے اپنی پالیسیوں میں اولین تر جیح دیں تبدیلی ہند میں صوبوں میں اضافے کے وجہ سے بھی ترقی کے رفتار بہت تیز رہی ہے ۔ہندآزاد ہواتو 13صوبے تھے70سال میں 36صوبے بن گئے جن میں 7یونین ٹیریٹریز بھی شامل ہیں ۔گویا 29بھر پور صوبوں کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ کم حقوق کی 7یونین ہیں کیونکہ ریاستیں ختم اور جاگیرداری نظام ختم ہوچکا تھا لہذا عوام میں شعور پیدا ہواتو نئے نئے صوبوں کا مطالبہ رہا ۔

تو ہر 2سال بعد نئے صوبوں کا رجحان بڑھا تو آج 13صوبے بڑھ کر 36صوبے بن چکے ہیں ۔ہمارے ان جاگیرداروں ،نوابوں ،زمینداروں نے نئے صوبے نہیں بننے دیئے بلکہ سب سے زیادہ نقصان کراچی کو پہنچا جو پاکستان کا دارالحکومت تھا ساتھ ہی ایک مکمل بڑا صوبہ بھی تھا۔ اسلام آباد کو دارالحکومت بنا کر کراچی کا کردار ختم کیا ۔پھر اس آزاد صوبے کراچی کو سندھ میں ضم کرکے صوبہ کادرجہ بھی چھین لیا اسی طرح خیر پور او ربہاولپور بھی الگ الگ صوبے تھے ان کو بھی بالترتیب سندھ اور پنجاب میں ضم کرکے ان کے عوام کو بھی محکوم بنا ڈالا۔وہ آج تک سرائیکی صوبے کاخواب دیکھ رہے ہیں ۔جس طرح ماضی میں کئی کمیشن بھی بنے انہوں نے بھی اپنی اپنی رپوٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی 25کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود نئے صوبے نہیں بنائے گئے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کی دیگر ممالک کی طرح عوام کو ان کی بنیادی حقوق اورسہولیات فراہم کرنے میں ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔

کیونکہ جب تک پاکستان میں مزید صوبے نہیں بنائے جائیں گے، عوام کے معاشی وسماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے صوبے اور نئے اضلاع بنائے جارہے ہیں تاکہ قومی وسائل کو منصفانہ طورپر تقسیم کرکے معاشرتی وتہذبی ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ بھارت جب 1947ء میں آزاد ہوا تو اس وقت اس کے صرف آٹھ صوبے تھے اور آبادی چالیس کروڑ کے قریب تھی ، لیکن اب بھارت میں 36صوبے بن چکے ہیں اور آبادی ایک ارب بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں آزادی کے بعد جتنے بھی صوبے بنے ہیں، ان کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ خالصتاً انتظامی ومعاشی بنیادوں پر کی گئی تھی یہی وجہ ہے جب بھارت میں نئے صوبے بنے تو آبادی کے کسی بھی طبقے کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی فساد برپا ہوا۔ ہمارے ایک اور پڑوسی ملک افغانستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کئی صوبے بن چکے ہیں، جسکی وجہ سے وہاں غربت وافلاس کا گراف نیچے آیاہے، اس قسم کا تجربہ بنگلہ دیش میں بھی ہوا ہے، اس لئے اگر پاکستان میں بھی مزید صوبے بن جاتے ہیں جس کا پاکستان میں کئی دہائیوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور وغوض کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاںیہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ آبادی اٹھارہ کروڑ نہیں بلکہ اب پچیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس  پچیس کروڑ کی آبادی میں بارہ کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،

مزید براں ہمارا سیاسی نظام چند خاندانوں کی اجارہ داری تک محدود ہوچکا ہے، جبکہ ایک عام آدمی صرف ووٹ دینے کی حد تک تو ''جمہوریت‘‘ کے نام سے آشنا ہے، لیکن کوئی اسے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ وسائل کی گردش بھی چند خاندانوں تک محدود ہے، اس لئے اگر پاکستان میں مزید صوبے بن جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ممالک  میں ہوا ہے، تو اس میں تشویش یا گھبرانے کی کیا بات ہے؟ دراصل مزید صوبوں کے مطالبے سے موجودہ سیاسی نظام کے تحت بننے اور پرورش پانے والے چند خاندان   ہیں  جو مزید صوبوں کے قیام کے مطالبے کو رد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر انتظامی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ، ہزارہ صوبہ 'کراچی صوبہ ' اگر یہ صوبے بن جاتے ہیں تو ان کی وجہ سے عوام کے بہت سے مسائل حل ہوسکیں گے، نیز سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری بھی ٹوٹ سکے گی، جن کی زیادتیوں کی وجہ سے عوام ہر سطح پر مجبور ومحکوم نظر آرہے ہیں، سندھ میں مزید صوبوں کے قیام کے خلاف بیان دیتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ نے'' طنزا ًکہا تھا ‘‘ کہ سندھ کسی کا برتھ ڈے کیک نہیں ہے، بچہ بچہ اسکی حفاظت کرے گا۔ قائم علی شاہ کا یہ بیان دراصل ان کی ترجمانی کررہا ہے جو سندھ کے موجودہ استحصالی نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا نہیں چاہتے ۔حالانکہ سندھ میں مزید صوبوں کا قیام خود سندھیوں کے حق میں انتہائی با ثمر اور سود مند ثابت ہوگا۔وہ خود بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب تک پاکستان میں بھارت کی طرز پر انتظامی بنیادوں پر صوبے نہیں بنیں گے، بڑھتی ہوئی آبادی کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کا مطالبہ آئین اور عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی ومعاشرتی ضروریات کے پیش نظر کیا ہے ۔ اس سے قبل کراچی کے ایک سیاسی رہنما اور دانشور ظفر انصاری مرحوم نے بھی پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کو پاکستان کی ترقی اور قومی یکجہتی کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیا تھا۔اس وقت مرحوم نے تیرہ صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جبکہ پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ سے زیادہ نہیں تھی۔ اب پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے، وسائل سکڑتے جارہے ہیں ، 

1 تبصرہ:

  1. خلیل احمد نینی تال والا نے ''صوبے کیوں ضروری ہیں؟‘‘ کے عنوان کو 342 صفحات پر مشتمل کتاب کی شکل میں تخلیق کرکے پاکستان کی سب سے بڑی فکری جنگ کا آغاز کردیاہے۔ اس کتاب میں 200 ممالک کے صوبوں کی تعداد‘ آبادی‘ رقبہ سمیت دیگر معلومات دی گئی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر