جمعہ، 25 اکتوبر، 2024

خالق دینا ہال کراچی کا تاریخی ورثہ


   خالق دینا ہال کراچی کے تاریخی ورثہ  کی تعمیر کےلیے کراچی کے ایک مخیر‘ ممتاز اور علم دوست شخصیت تاجر غلام حسین خالق دینا نے اس وقت 18ہزار روپے کی رقم اور ایک قطعۂ اراضی 2289 گز  بھی عطیہ  کیا لیکن انہوں نے شرط یہ رکھی  کہ اس لائبریری کا نام ان کے نام سے منسوب کیا جائے، لیکن تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے اندازہ لگایا گیا کہ   ہال کے لیے جگہ کم تھی‘ اس لیے اس وقت کی  تعمیراتی کمیٹی نے مزید زمین کے لیے بمبئی حکومت کو ایک درخواست دی ،جو 11فروری 1902ء کو منظور ہوئی ،جس کے بعد حکومت نے اس کی تعمیر کے لیے 2522گز کا ملحقہ قطعہ اراضی دے دیا۔ ہال   زمین کا مسئلہ  حل ہونے کے بعد  بلڈنگ  کی تعمیر کے لیے رقم کی کم تھی  جس کے لیے کمیٹی نے کراچی میونسپلٹی کو مالی مدد کی درخواست دی جو قبول کر لی گئی اور میونسپلٹی نے 16ہزار کی رقم تعمیر کے لیے دی۔


 ہال کی تعمیر کا آغاز 1905ء میں ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصہ میں تقریباً38ہزار روپے کی کثیر رقم سے یہ عمارت مکمل کی گئی ۔ اس کی تعمیر میں غلام حسین خالق دینا کے علاوہ سر بارٹل فریئر‘ مسٹر موتی رام‘ ایس ایڈوانی ‘تھل رام کھیم چند کابھی نمایاں حصہ ہے۔خالق دینا ہال70فٹ لمبا اور 45فٹ چوڑا ہےجبکہ چھت 30فٹ اونچی کنک پوسٹ پر بنائی گئی ہے۔ ہال میں700سے 800افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ہال کے تین اطراف 10فٹ چوڑا برآمدہ اور سامنے 52فٹ لمبا اور 32فٹ چوڑا سائبان ہے۔ یہ سائبان 16ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہال کے چاروں طرف پتھروں کی سیڑھیاں ہیں جن کی تعداد ہر طرف 7ہے۔ ہال کے دو بڑے دروازے ہیں جبکہ دونوں اطراف 7،7 دروازے ہیں۔ہال میں تقریباً 500 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔عمارت کافرش سیمنٹ کی خوب صورت ٹائلوں سے مزین ہے‘ جبکہ اندرکناروں پر کالے ڈیزائن سے مزین فائل کئے ہوئے ہیں ، چھت پر برماٹیک کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔عمارت کافرش سیمنٹ کی خوب صورت ٹائلوں سے مزین ہے‘ جبکہ اندرکناروں پر کالے ڈیزائن سے مزین فائل کئے ہوئے ہیں ، چھت پر برماٹیک کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کی تعمیر میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈیزائن قدیم مغربی اور مشرق طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے


 اس کی تعمیر میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈیزائن قدیم مغربی اور مشرق طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔مقدمہ بغاوت کے فیصلے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس عمارت میں کے ایم سی برابر کی حصہ دار ہوگی ،کیونکہ کے ایم سی نے کم و بیش اس کی تعمیر کے لئے آدھی رقم فراہم کی تھی۔ کمیٹی نے حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج کیا لیکن بلآخر حکومت کے دبائو کے سامنے اس فیصلے کو آخر کار مان لیاکراچی شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک قدیم‘ تاریخی اور خوب صورت عمارت خالق دینا ہال واقع ہے۔ یہاں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے حوالے سے کئی اجلاس منعقد ہوئے جبکہ اس عمارت کو انگریز سرکار کی جانب سے عدالت کا درجہ دے کر تحریک خلافت کے عظیم رہنمائوں مولانا محمد علی جوہر ، ان کے بھائی مولانا شوکت علی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا نثار احمد کانپوری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدت سرہندی اور سوامی شنکر اچاریہ پر مقدمہ بغاوت چلایا گیا اور انہیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی


   اس  کے باعث خالق دینا ہال کو تاریخی حیثیت حاصل ہوئی اور اس عمارت میں جرأت، ہمت، شجاعت اور حریت کی شاندار تاریخ رقم ہوئی۔26ستمبر 1921ء کو کراچی میں مولانا محمدعلی جوہراور ان کے ساتھیوں پر جو مقدمہ 9جولائی 1921ء کو عید گاہ میدان میں منعقدہ خلافت کانفرنس میں اس قرار داد کے منظور کیے جانے کی پاداش میں چلایا گیا جس میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے لیے برطانوی افواج میں ملازمت کو کفر قرار دیا تھا۔ مقدمے میں مسلم قائدین نے الزامات کو قبول کیا-خالق دینا ہال میں قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نام سے آل انڈیا کے الفاظ ختم کردیئے جائیں، اسی طرح 11 اکتوبر 1947 ء کو قائد اعظم نے سول اور فوجی افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح نبی کریم ﷺکے مرتب کردسنہری اصولوں کو اپنانے میں ہی مضمر ہے، آئیں مل کر ہم اسلام کے زریں اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔ ‘‘


قدیم تاریخی اہمیت کا حامل ’’خالق دینا ہال‘‘23جون 1948کو سندھ کے گورنر شیخ غلام حسین ہدایت اللہ نے کراچی کے خالق دینا ہال میں سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے سندھی عوام کو ہدایت کی کہ، وہ مہاجرین کے بارے میں وسیع القلبی کا عملی مظاہرہ کریں۔ غیر مسلم جہاں ہزاروں سرکاری آسامیاں خالی چھوڑ کر گئے ہیں ہمیں یہ خلا ہر صورت پُر کرنا ہے۔ مہاجرین کو متروکہ جائیدادوں اور خالی آسامیوں میں سے ان کے جائز حصّے سے محروم رکھنا غلط ہے۔انہوں نے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو ملازمتوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔خالق دینا ہال، دراصل ایک لائبریری کے طور پر 1906ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔انگریزوں کے دور میں جب انگریز آفیسروں کی سرپرستی میں علم و ادب کی ترقی کا آغاز ہوا تو شہریوں کے لیے لائبریریوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔1851ء میں سندھ کے دوسرے کمشنر ،سربارٹل فریئر تھے، جن کے دور میں ان کاموں کا آغاز ہوکراچی کی پہلی لائبریری 1851ء میں لیڈیز کلب کے ایک کمرے میں وجود میں آئی جس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا تھا جسے بعد میں وسعت دی گئی۔ اور اسی وقت سے کراچی کے علم دوست یادگار لوگوں کا  پینل وجود میں آیا جنہوں نے اس وقت کے کراچی کے ماتھے  کے جھومر میں ایک نگینہ  عمارت کا اضافہ کیا 

1 تبصرہ:

  1. کراچی میں اب جدید عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں لیکن خالق دینا ہال کی اہمیت آ ج بھی برقرار ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر