ہفتہ، 1 اپریل، 2023

سرکار فتویٰ آ گیا ہے

 

 

سرکار فتویٰ آ گیا ہے۔ فتویٰ کیا ہوتا ہے۔ ہم دین اسلام کے پیروکاروں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو اس کے معانی اور مفہوم سے نا آشنا ہو لیکن وہ محترم علمائے دین جن کے کاندھوں پر قوم کی پیشوائی کی فریضہ ہوتا ہے کیا اس کے جاری کرنے کے اثرات و ثمرات سے واقف ہوتے ہیں۔فتویٰ دینا ایک بہت اہم منصب ہے اس منصب کو پانے کے لئے علمائے کرام کو بہت علمی محنت کرنا ہوتی ہے تب جا کر ان کو فتویٰ دینے کا منصب عطا ہوتا ہے لیکن تاریخ کی ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے برصغیر کے غیر منقسم ہندوستان میں انگریز کے آنے کے بعد کی تاریخ پڑھی تو مجھے حیرت اور دلی تکلیف سے گزرنا پڑا۔اس زمانے میں پہلا فتویٰ دیا گیا کہ ایک بدیسی قوم کے آ جانے کے بعد اب ہندوستان رہنے کے قابل ملک نہیں ہے اس لئے رہائش کے لئے کسی اسلامی ملک کا انتخاب کرنا ہو گا چنانچہ نگاہ انتخاب نے افغانستان کو جائے رہائش کے لئے موزوں قرار دیا اس فتوے کی پیروی پچیس ہزار خاندانوں نے کی اور اپنا مال و اسباب لہلہاتے کھیت و کھلیان بیچے اور اور بیل گاڑیوں پر اپنی نقل مکانی کا آغاز کیا۔

یہ سفر اپنے آغاز میں اچھا تھا لیکن جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا تو سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور قافلہ کے لوگوں پر راستہ کی مسافت کی تھکن بھی طاری ہو گئی تھی۔ ایک اور اہم قابل غور بات یہ تھی کہ میدانی علاقے کے لوگوں کی جسمانی ساخت پہاڑی علاقہ کے کے لوگوں کی ساخت کی نسبت مختلف ہوتی ہے میدانی علاقہ کے لوگ سخت جان نہیں ہوتے ہیں جس طرح پہاڑی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ یوں ہوا کہ  لکھوکھا کی تعداد میں جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا اور وہاں کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ افغانستان میں پناہ کے لئے پہنچ چکے ہیں وہاں کی حکومت سے اپنی سرحدوں پر پہرے بٹھا دیے اور سختی سے حکم نافذ کیا کہ جو بھی سرحد کے پاس آئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ 

اب قافلہ کے پاس واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور واپسی کا سفر بڑا ہی درد ناک تھا برف باری میں شدت تھی اور چھوٹے بچے اور ضیف افراد پر برفانی موسم موت بن کر وارد ہو رہا تھا یہاں تک پھر جوانوں کی بھی قوت مدافعت ساتھ چھوڑ گئی اور یہ قافلہ جب دوبارہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹا تو بس چند ہزار خستہ بدن اور مفلوک الحال لوگ زندہ بچے تھے باقی راستے کی ایسی خاک بن چکے تھے جس پر کوئی فاتحہ بھی پڑھنے کو نہیں موجود تھا۔

اب دیکھئے جو مر کھپ گئے وہ تو زندگی کے ہر آزار سے فراغت پا گئے لیکن جو زندہ بچے ان کا کیا انجام ہوا ہوگا، اور اس تمام قصہ کا مآخذ صرف ایک فتویٰ ہی تو تھا کہ ہندوستان چھوڑ دو، کوئی ان نادانوں سے پوچھتا کہ جب تمھارے پرکھے ہندوستان آئے تھے تو کیا ہندوستان ایک اسلامی ملک تھا جو انگریز کے آنے سے رہنے کے قابل نا رہا-

اب ایک اور فتویٰ-

اس فتوے کا تعلق بھی برصغیر کے مسلمانوں سے ہے اس ایک فتوے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا- ہوا یہ کہ انگریز نے ہندوستان پر جب اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور اس کو اب مزاحمت کا خوف نہیں رہا تو اس نے ہندوستان کے طول و عرض میں فارسی زبان کی جگہ انگلش زبان رائج کر دی اور ہندوستان کی تمام قومیتوں کے لوگوں بے چوں چرا انگلش سیکھنے پر توجہ مبذول کر لی لیکن مسلمان وہ واحد قوم تھی جس کے پیشواوں نے اس قوم پر فتویٰ لاگو کر دیا کہ انگلش زبان سیکھنا حرام ہے۔ یہ فتویٰ اس زمانے کے کسی مفتی محترم نے یا متفق علیہ مفتیان نے دیا تھا اس فتوے کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوتے گئے اور ہندو قوم کا بچہ، بچہ فرفر انگلش بولنے اور لکھنے لگا اور جب ہند و اور مسلم قوم کے یہ بچے جوان ہوئے تو ہندو انگلش زبان کی بنیاد پر مسلمانوں سے سبقت لے گیا اور مسلمانوں کی قسمت میں کلرکی لکھی گئی اس فتوے کے اثرات پاکستان بننے کے بعد بھی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ 

جیسا کہ ابھی حالیہ ماضی میں اسلامی مملکت سعودی عرب کے مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ مجاہدین کے لئے ان حالات میں جہاد النکاح کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مجاہدین کی ضرورت ہے اس فتوے کے آتے ہی ساری دنیا سے داعش کے بنا نکاح کے حرم میں شامل ہونے لئے لڑکیاں دیوانہ وار شام کی جانب دوڑ پڑیں۔

ان میں صرف لڑکیاں ہی نہیں تھیں کئی، کئی بچوں کی مائیں بھی تھیں جنہوں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں داعش کے لئے اپنی جنسی خدمات پیش کرنا تھیں ان میں پاکستان کے طول عرض کی لڑکیاں اور خواتین تھیں جو اپنے شوہروں کی لاعلمی میں اپنے بال بچوں سمیت غائب ہو چکی تھیں۔ شوہروں کے آنگن ویران کر کے جانے والی ان لڑکیوں اور خواتین کو اب اپنے شوہروں سے طلاق کے بغیر اپنی خدمات داعشی دہشت گردوں کو خوشی فراہم کرنا تھیں اور اس خدمت کے عوض ان کے لئے جنت کی نوید تھی۔

شامی کیمپ اور بچوں کی ہلاکتیں 

رواں برس مئی میں ایک آٹھ سالہ لڑکا گندے نالے میں گر کر ہلاک ہو گیااسی سال نومبر میں دو لڑکیوں کی سربُریدہ لاشیں گٹر میں سے برآمد ہوئی ان میں سے ایک کی عمر 12 اور دوسری کی 15 سال تھی۔ مبینہ طور پر ان کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور بعد ازاں ان کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں گٹر میں ڈال دی گئیں

شمال مشرقی شام میں واقع الہول کیمپ جسے اکثر ''دنیا کا سب سے خطرناک کیمپ‘‘ کہا جاتا ہے، 53 ہزار سے زیادہ افراد کا مسکن ہے۔ اگرچہ اس کیمپ کے تمام رہائشی  اسلامک اسٹیٹ کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ  آئی ایس گروپ کی طرف سے اُس وقت یہاں پہنچے تھے جب اس سفاک انتہا پسند گروپ کو اس کے عراق اور شام کے مضبوط گڑھوں میں شکست دی جا رہی تھی۔الہول کے کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق عراق یا شام سے ہے۔  تاہم اس کیمپ میں قریب دس سے گیارہ ہزار  افراد ایسے ہیں جن کا تعلق امریکہ، کینیڈا، اور یورپی ممالک سے ۔ الہول کیمپ کی آبادی کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ امدادی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق کیمپ کی آبادی کا 60 تا  64 فیصد بچوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر 12 الہول کا سب سے پُرتشدد سال

الہول کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ انسان رہ رہے ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی کمی، روزمرہ کی ضروری اشیاءکی قلت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ الہول کیمپ کے بچوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال پہلے ہی تھی کہ گزشتہ سال یعنی 2021 ء کے دوران قتل اور پُرتشدد واقعات نے ان بچوں کے اذہان کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں محض اس ایک سال میں 126 افراد قتل ہوئے اور 41 بار قتل کی کوششیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح یہ سال اس کیمپ کا سب سے پُر تشدد سال قرار پایا۔ خوفناک امر یہ کہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ رواں سال پچھلے برس سے بھی بد تر رہا۔ مزید یہ کہ پڑوسی ملک ترکی کی طرف سے اس علاقے پر فضائی حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا کیا یہ سب کچھ جاننے کے بعد کبھی  ماں باپ یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے بچے اسی کسمپرسی کی صورتحال کا سامنا کرتے رہیں اور ایسے کسی علاقے میں پھنسے رہیں؟ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے اسی مستقبل کا خود انتخاب کر رکھا ہے۔ یعنی وہ اس کیمپ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔

بچوں کی واپسی کا عمل

ہیومن رائٹس واچ نے نومبر کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 30 سے زائد ممالک، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، نے اپنے شہریوں کو الہول سے واپس بلایا ہے، اور مجموعی طور پر تقریباً 1500 بچوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے چند خواتین کو وطن واپسی کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مثلاً جرمن دفتر خارجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آخری خاتون جو جرمنی واپس جانا چاہتی تھی نومبر میں اپنے چار بچوں کے ساتھ واپس لائی گئی تھی۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب بھی درجنوں جرمن مائیں اور بچے روج اور الہول کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چند خواتین جرمنی واپس نہیں آنا چاہتیں۔‘‘ 

 ان کیمپوں میں رہنے کی وجوہات

 ہیومن رائٹس واچ HRW میں بچوں کے حقوق کے لیے ایڈوکیسی ڈائریکٹر جو بیکر کے مطابق جو مائیں گھر نہیں جانا چاہتی تھیں، انہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا، ''کچھ ایسی ہیں جو کسی غیر مسلم ملک میں نہیں رہنا چاہتیں یا انہیں اپنے ساتھ امتیازی سلوک اور مظالم کا خوف ہے یا خود پر مقدمہ چلنے جیسے خدشات سے بچنا چاہتی ہیں۔ دیگر ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر جیل میں ہو سکتے ہیں اور وہ ان کی رہائی کا انتظار کرنا چاہتی ہیں، یا ان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘ جو بیکر کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے بچوں کے لیے یہ فیصلہ ان کے بہترین مفاد میں  ہو۔ 

1 تبصرہ:

  1. الہول کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ انسان رہ رہے ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی کمی، روزمرہ کی ضروری اشیاءکی قلت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ الہول کیمپ کے بچوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال پہلے ہی تھی کہ گزشتہ سال یعنی 2021 ء کے دوران قتل اور پُرتشدد واقعات نے ان بچوں کے اذہان کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں محض اس ایک سال میں 126 افراد قتل ہوئے اور 41 بار قتل کی کوششیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح یہ سال اس کیمپ کا سب سے پُر تشدد سال قرار پایا۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر