جمعہ، 31 مارچ، 2023

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی

 

 

دین اسلام کا جونہی بول بالا ہوا ویسے ہی بڑی بڑی نامور مسلمان ہستیاں دنیا کے منظر عام پر آئیں -جیسے فارابی-ابن الہیشم'الکندی'بوعلی سینا -ابو ریحان البیرونی اور بھی کئ قابل زکر نام لیکن اسی کے ساتھ کمزور -بودے دماغ والے کند زہن ملّاوں کا گروہ بھی وجود میں آ گیا جو علم کے شجر کو جڑ سے کاٹ دینے کے لئےکلہاڑے لے کر  قابل لوگوں کے مد مقابل آ گئے- یہ خیر و شر کی جنگ تھی جس کو صاحبان عقل و دانش کہیں روپوش ہو کر- کہیں اور کسی طریقہ سے جان بچا کر ہم کو وہ علم دے گئے جن پر زمانہ آج بھی ناز کرتا ہے الکندی بھی انہی نامور لوگوں کے قبیلے کے ایک فرد تھے جن کے لئے آپ اس مضمون میں پڑھِین گے-

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی کا شمار اسلامی دنیا کے اوّلین حکما اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ فلسفہ کے علاوہ انہوں نے حساب، طب، فلکیات اور موسیقی میں بھی مہارت حاصل کی۔ الکندی کے نمایاں کارناموں میں سے ایک کارنامہ، اسلامی دنیا کو حکیم ارسطو کے خیالات سے روشناس کرنا تھا۔ قرون وسطیٰ کے زمانے میں ان کو چند بڑی اور نمایاں شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔ یعقوب کندی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اس لیے ان کی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ریاضی، طبیعیات، فلسفہ، ہیئت، موسیقی، طب اور جغرافیہ جیسے علوم پر انہوں نے اعلیٰ پائے کی کتب تحریر کیں۔ وہ یونانی و سریانی زبانوں پر بھی مہارت رکھتے تھے۔

الکندی 801ء میں عراق کے شہر کوفہ میں ایک صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’’عربوں کا فلسفی‘‘ اور ’’عربی فلسفہ کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الکندی مسلمانوں میں ارسطو کی تتبع میں جاری ہونے والی فلسفیانہ روایت کے بانیان میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیائے اسلام میں یونانی فلسفے کے لیے فضا تیار کی اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کی۔ نہ صرف یہ بلکہ یونانی فلسفیانہ مزاج سے اسلامی مزاج کو ہم آہنگ کرنے کے لیے انہوں نے علمی سطح پر کاوشیں کیں اور فلسفہ اور مختلف اسلامی علوم جیسے الہٰیات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم الکندی نے بصرہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ بغداد منتقل ہو گئے۔ الکندی کا انتقال 873ء میں ہوا۔

فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھ۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے‏ -

وقت کے ظلم کو دیکھتے ہوئےکندی نے اپنے کام کو دو نکات تک محدود رکھا، پہلا: فلسفیانہ کتابوں کی تلاش جس کا اس کے ترجمہ کے ذرائع نے براہ راست ذکر نہیں کیا، جو کہ دیگر فلسفیوں کے کاموں کی وضاحتیں، مخففات، تبصرے یا ترجمے ہیں۔ دوسرا: اس کے سائنسی کاموں پر بحث کرنا جو اس کے ترجمے کے ماخذ کی فہرست میں شامل نہیں تھے، جن میں شاید سب سے نمایاں النادیم کا فہرست ہے۔ دونوں محققین نے مطالعہ کی تیاری میں تاریخی تجزیاتی طریقہ پر عمل کیا، اور ان کا مطالعہ نتائج کے ایک سیٹ کے ساتھ ختم ہوا، جن میں سب سے اہم ہیں: الکندی کے فلسفیانہ اور سائنسی متن کے درمیان علمی تقاطع کو جاننے کی ضرورت۔ ہمیں فلسفہ اور سائنس پر الکندی کی کتابوں کی مکمل کتابیات نہیں ملتی ہیں اور کچھ کتابیں الکندی نے  لکھی تھیں لیکن زمانے کے ظلم سے بچنے کے لئے ان کو اپنے شاگردوں سے معنون کیا-الکندی نے مختلف مضوعات پر 260 کتابیں لکھیں. ان میں ہندسہ پر 32 ، طب اور فلسفہ پر 22 ، منطق پر 9 اور طبیعیات پر 12 کتابیں لکھیں.

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ (آیت 269) میں ’’حکمت‘‘ کو ’’خیرکثیر‘ ‘ کہا ہے۔ اس خیرکثیر کو حاصل کرنے والے دانشمند لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اسلام کے سنہری دور میں ایسے عظیم لوگوں کی کثرت تھی جو ہر قسم کے علم کا احاطہ کرتے رہے۔ مسلمانوں نے علم کی وحدت کو سمجھا اور اس کو قائم رکھا۔ مسلمان سائنسدان بیک وقت ماہر طبیعات ، فلکیات ، فلسفی، طبیب، ریاضی دان، کیمیادان، جغرافیہ دان، مورخ اور شاعر ہوتے تھے۔

اسحاق الکندی (801-873ئ) وہ ریاضی، فلسفی، طبیعات، موسیقی، فلکیات، فلسفہ طب، جغرافیہ وغیرہ جیسے مختلف النوع مضامین پر دو سو ستر (270) کتابوں کے مصنف میں کندی نے آسمان کا نیلا رنگ ہونے کے اسباب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کندی نے ان قوانین کی تصدیق کی جو اجسام کے گرنے کے متعلق ہیں۔ کندی کو بجا طور پر نیوٹن (1652-1727ئ) کے نظریۂ تجاذب (Gravitation)کا پیشرو کہا جاتا ہے۔ وہ کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اور انہیں دنیائے اسلام کے چار عظیم مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔

 الکندی کہتا ہے کہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے جس کی تعمیل مادے کے تمام جاندار اور غیرجاندار انواع پر فرض ہے وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی  ہیں-اس سے قطع نظر کہ اب یورپ مسلمانوں سے سائنسی لحاظ سے صدیوں آگے نکل چکا ہے تاہم مسلم تاریخ کے اس روشن دور کی چند ایسی اہم ایجادات کا احوال جاننا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا جس نے آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی اور آج ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین دور سے مستفید ہو رہے ہیں۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر