جمعرات، 5 جون، 2025

سفیر امام ع حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ)

  


حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے فرزند تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں   حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین ؑ مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے ۔ مکے میں کوفیوں کے خطوط کی کثرت کو دیکھتے ہوئے امام نے عراق کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے حضرت مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔اگر وہاں کے حالات کوفیوں کے خطوط کی غمازی کرتے ہوں تو آپ کوفہ کی جانب سفر کریں گے ۔جناب مسلم بن عقيل امام حسين عليہ السلام كے خط كے ساتھ كوفہ ميں جناب مختار كے گھر پہنچے ،


 خط ميں امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم كو اپنا بھائي اور مورد اعتماد قرار ديا تھا ۔باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔مسلم اور کوفہ -حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے ۔شیعیان اس گھر میں آپ کو ملنے آتے۔ مسلم نے حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا   ۔ابن عساکر کہتا ہے کہ 12000 افراد نے مسلم کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی بیعت کی  بعض نے بیعت کرنے والوں کی تعداد 18000 لکھی ہے   دیگر بعض نے 30000 افراد ذکر کی  ۔مسلم کی اس قدر حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط میں کوفہ کے حالات لکھے اور کہا کہ حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کمزور ہے یا کمزوری کا اظہار کر رہا ہے اگر کوفہ چاہتے ہو تو بصرے کے موجودہ حاکم عبید اللہ کو کوفہ کا حاکم بنا دو پس یزید نے عبید اللہ کو کوفے کا حاکم مقرر کر دیا ۔ امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو  


عبید اللہ کے کوفہ آنے پر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروۃ کے گھر منتقل ہوئے جو کوفہ کے ایک بزگ شخصیت مانے جاتے تھے ۔ہر چند مسلم کے شیعیاں کوفہ سے روابط پوشیدہ تھے لیکن عبید اللہ کے ذریعے مسلم کی رہائشگاہ کا پتہ لگا لیا ۔لہذا اس نے ہانی کو اپنے قصر میں طلب کیا اور تقاضا کیا کہ وہ مسلم اس کے حوالے کر دے لیکن ہانی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ہانی کی قصر میں حاضر طلبی کی وجہ سے قبیلۂ مذجج نے قصر کا گھیراؤ کر لیا لیکن عبید اللہ نے قاضی شریح کے ذریعے انہیں دھوکہ دے کر منتشر کر لیا ۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین ) دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔جس وقت كوفہ والوں كو جناب مسلم كے آنے كي خبر ملي تو ۱۸ہزار افراد نے آكر جناب مسلم كے ہاتھوں پر بيعت كي ، اور جب جناب مسلم كو ان كي باتوں پر اطمينان ہو گيا تو آپ نے امام حسين عليہ السلام كو خط لكھا كہ ۱۸ ہزار اہل كوفہ نے آپ كے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بيعت كر لي ہے لہذا خط ملتے ہي آپ كوفہ كے لئے روانہ ہو جائيں ۔ 



امويوں نے جناب مسلم كے اس عظيم استقبال كو ديكھتے ہوئے يزيد كو خط لكھا كہ اگر كوفہ بچانا چاہتے ہو تو كسي لائق والي كو يہاں بھيجو ۔ چنانچہ يزيد نے عبيداللہ بن زياد كو كوفہ كا والي مقرر كيا اور وہ بصرہ سے كوفہ آيا اور لوگوں كو ڈرانا دھمكانا شروع كيا جس كي وجہ سے اہل كوفہ نے جناب مختار كي حمايت كم كر دي اور جيسے جيسے عبيداللہ كا منحوس سايہ اہل كوفہ پر پڑتا گيا جناب مسلم كے حامي كم ہوتے گئے ۔جب عبيداللہ نے ڈرا دھمكا كر اہل كوفہ كو مسلم سے دور كر ديا تو جناب مسلم كي تلاش شروع كي اور جناب مسلم كا پتہ بتانے والے كو انعام و اكرام سے نوازنے كا وعدہ كيا ۔ جناب مسلم كے ميزبان ہاني بن عروہ كو دار الامارہ ميں بلا كر سزا دي ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد كے ساتھ دارالامارہ كا محاصرہ كيا ليكن عبيداللہ كي سازشوں كي وجہ سے لشكر كے درميان پھوٹ پڑ گئي اور لوگ جناب مسلم كا ساتھ چھوڑنے لگے يہاں تك كہ نماز مغرب و عشاء كے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔


آخر كار كوفہ كي گليوں ميں عبيداللہ كے سپاہيوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہيوں كو واصل جہنم كيا ليكن پياس كي شدت اور شديد زخموں كي وجہ سے مقابلے كي تاب نہ لا سكے ۔ ايك سپاہي نے پيچھے سے نيزہ مارا آپ زمين پر گر پڑے ۔ لشكر والوں نے آپ كو گرفتار كر ليا اور دارالامارہ لے گئے ، عبيداللہ بن زياد نے حكم ديا كہ آپ كو دارالامارہ كي چھت سے نيچے پھينك ديا جائے جس سے آپ كي شہادت واقع ہو گئي اس كے بعد ابن زياد نے جناب ہاني بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ عليھم كے سر اقدس كو يزيد كے پاس بھيج ديا ۔ "آپ كي شہادت ۹ ذي الحجہ سن ۶۰ ہجري ميں واقع ہوئي ۔ آپ كي شہادت سے ايك دن قبل امام حسين عليہ السلام نے كوفہ كے ارادہ سے مكہ كو چھوڑا اس لئے آپ كو شہادت كي خبر راستے ميں ملي ۔ جس وقت امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہاني كي شہادت كي خبر سني تو آپ نے كئي مرتبہ يہ آيت پڑھي "" انا للہ وانا اليہ راجعون"" اور جناب مسلم كے حق ميں دعا كي- 

منگل، 3 جون، 2025

مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل



   مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل مشعل   اوبامہ  وہائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے صرف امریکی خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام  خواتین کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ گئ ہیں  اور اس کے علاوہ ان کی تحریریں ان لاکھوں دلوں میں   روشن  قندیل کی  مانند  جھملاتی رہیں گی  جو خواتین ان سے رہنمائ چاہیں گی -جی ہاں  یہ پیشورانہ لحاظ سے وکیل ہیں' ایک خاتون خا نہ ہیں جو اپنے شوہر اور اپنے گھر بار پر اور بچوں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں-سماجی تقریبات ہوں یا خاندانی سلسلے یہ آپ کو ہر جگہ ایکٹیو نظر آئیں گی لیکن انکی سب  سے بڑی خوبی ان کی تحریریں  ہیں جن کو یہ کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں   - مشعل اوبامہ جن کی پہلی  کتاب نے  کسی بھی لکھاری کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئے ہیں- اور یہ پہلی کتاب  ان کی لائف کی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔  سابق خاتون اول مشعل اوباما نے دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور قوموں کے نئے بحرانوں کے حوالے سے ایک اور کتاب 'دی لائٹ وی کیری' لکھی۔ اس کتاب کا اعلان انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کیا۔ سابق خاتون اول نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کی پہلی کتاب کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہت سے بحرانوں کے علاوہ ایک عالمی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 


ان تمام وجوہات کی وجہ سے ہم کمزور ہو چکے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کا سامنا کیسے کریں؟ اپنے خوف کا سامنا کیسے کریں؟ اپنی مایوسی اور پریشانی کو مثبت انداز میں کیسے ہینڈل کریں۔ مشعل نے اس ویڈیو میں اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ یہ ایک ٹول باکس کی طرح ہوگی۔ مشعل کی دوسری کتاب کا ٹائٹل 'دی لائٹ وی کیری' ہے۔ یہ کتاب 15 نومبر سے کتابوں کے شائقین کے لئے تھی۔مشعل اوباما کی پہلی کتاب 2018 کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے طور پر درج کی گئی تھی، جس کی دنیا بھر میں تقریباً 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ اور امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام خاتون اول، 54 سالہ مشیل اوباما نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مصنوعی حمل کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو جنم دیا۔مشیل اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اپنی شادی کے ابتدائی سالوں کے بعد حاملہ ہونے میں مشکل پیش آئی تھی۔


 سابق امریکی خاتون اول کے مطابق حمل ضائع ہونے کے بعد ان کے شوہر براک اوباما نے انہیں بچے پیدا کرنے کے لیے ’ان وٹرو فرٹیلائزیشن‘ (IVF) کی تکنیک کا سہارا لینے کا مشورہ دیا۔خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق مشعل اوباما نے اپنی آنے والی کتاب میں نہ صرف اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں بلکہ کئی دیگر معاملات پر بھی کھل کر بات کی ہے۔20رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشیل اوباما نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ جب وہ 33 یا 34 سال کی تھیں تو ان کا حمل ضائع ہوا، جس کے بعد انہوں نے آئی وی ایف کی مدد سے لڑکیوں کو جنم دینے کا فیصلہ کیا۔ مشیل اوباما نے یہ اعتراف اپنی آنے والی کتاب میں کیا ہے۔ سابق خاتون اول نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے مشورے پر IVF کے ذریعے اپنی دونوں بیٹیوں کو جنم دیا۔ 


واضح رہے کہ آئی وی ایف کے لیے بچوں کو دوبارہ پیدا کرنے کا عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے، اس کے لیے ماں کے رحم سے انڈوں کو نکال کر لیبارٹری میں والد کے سپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ دونوں کے ملاپ کے صرف ایک ہفتے کے اندر حمل پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد حمل کو دوسری  ۔ مشیل اوباما نے  کے ذریعے جن بیٹیوں کو جنم دیا تھا ان کی عمریں اب 17 اور 20 سال ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی مالیہ کی عمر 20 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی ساشا کی عمر 17 سال ہے۔ مالیا اور ساشا کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی تمام توجہ بیٹیوں کی تعلیم تربیت پر رکھی  -مشیل اوباما نے 1992 میں سابق امریکی صدر براک اوباما سے شادی کی، لیکن ان کا رشتہ 1980 میں شروع ہوا، جب وہ طالب علم تھیں۔


 مشعل اوباما ریاستہائے متحدہ کی 44 ویں خاتون اول اور پہلی سیاہ فام خاتون اول تھیں۔ ان کے شوہر 59 سالہ باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام اور 44ویں صدر منتخب ہوئے۔ باراک اوباما پہلی بار 20 جنوری 2009 اور دوسری بار 2013 میں امریکی صدر منتخب ہوئے اور وہ 20 جنوری 2017 تک خدمات انجام دیتے رہےریٹائرمنٹ کے بعد سابق امریکی صدر نے اوباما فاؤنڈیشن کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کی جس کے تحت دنیا بھر میں صحت، تعلیم، خواتین کی خود مختاری اور غربت کے خاتمے کے لیے منصوبے جاری ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران سابق صدر کی بیٹیاں میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں  -مشعل اوباما کی یادداشتیں جلد شائع ہونے والی ہیں، جس میں انہوں نے امریکی خاتون اول کے طور پر اپنے بچپن، شادی اور واقعات کے بارے میں بھی لکھا۔ مشعل اوباما نے اپنی کتاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما کی سوانح عمری 'بیکمنگ' نے رواں سال صرف 15 دنوں میں امریکا میں شائع ہونے والی تمام کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ توڑ دیا  ہے -میری دعاء ہے کہ اللہ تعالٰی  ان کے قلم کو یوں ہی رواں دواں رکھے آمین ہے-


تحریر و تلخیص بقلم خود     




اتوار، 1 جون، 2025

قدرت کبھی خاموش نہیں رہتی ہے

 

 نظام قدرت ہے کہیں سمندر میں جوار بھاٹا ہے تو کہیں دریا اپنے رخ بدل رہے ہیں  تو کہیں بلند و بالا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہے ہیں  میں نے ابھی حال ہی میں  انٹر نیٹ پر  ایک وڈیو دیکھی جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ  سوئٹزرلینڈ کی ایک پوری بستی کیسے  دنیا کے  نقشے سے اچانک غائب ہو رہی ہے۔یہ  سانحہ سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع خوبصورت پہاڑی بستی "بلاتن"میں پیش آیا ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، وادی "بِرش" کے گلیشیئر میں شدید دراڑیں اور کمزوری پیدا ہونے کے بعد برف اور مٹی کی  چٹانوں کا ایک عظیم تودہ اچانک نیچے آ گرا، جس نے بلاتن گاؤں کے ہر گھر کو  مکمل طور پر اپنے نیچے دفن کر دیا۔ یہ تودہ کئی میٹر موٹا اور دو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا۔خوش قسمتی سے، مقامی حکام نے جدید سرویلیئنس سسٹمز کے ذریعے زمین میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور ممکنہ خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا، جس کے باعث حادثے سے دو دن قبل ہی گاؤں کے تمام مکینوں کو بحفاظت منتقل کر لیا گیا۔فرانسیسی روزنامے "لوباریزیان" نے اس المیے کو ایک "غیر معمولی قدرتی سانحہ" قرار دیا ہے۔ -اس سانحہ میں انسانی جانوں کا زیاں اس لئے نہیں ہوا کہ سوئس حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں سےپہلے ہی بحفاظت نکال  لیا تھا 


 ماحولیاتی ماہر رافائیل لودووِک کے مطابق، اس پیمانے کا واقعہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، وہ بھی صرف ہمالیہ یا اینڈیز جیسے پہاڑی سلسلوں میں، نہ کہ یورپ کے قلب میں واقع الپس جیسے نسبتاً مستحکم پہاڑی سلسلے میں۔ لودووِک نے مزید انکشاف کیا کہ  گلیشیئر کی چوٹی میں غیر معمولی دراڑیں اور جھکاؤ نوٹ کیا گیا تھا، جو بالآخر اس ہولناک سرکنے کا سبب بنا۔خطرے کی دوسری لہر؟ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پہاڑ سے نیچے آنے والی چٹانوں اور برف نے دریائے "لونزا" کو تقریباً دو کلومیٹر تک بند کر دیا ہے، جس سے وہاں ایک مصنوعی جھیل بن چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس جھیل کو قابو میں نہ رکھا گیا تو اس کے پھٹنے سے ایک تباہ کن مٹی اور پانی کا سیلاب آسکتا ہے۔ سوئس حکام نے فوری طور پر فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ مصنوعی جھیل سے پانی نکالنے کے لیے پمپوں اور پائپوں کے ذریعے کام کر سکیں۔


لودووِک نے کہا: "جیسے جیسے برف پگھلے گی، پانی کی مقدار بڑھے گی اور اگر نکاسی کا مؤثر بندوبست نہ ہوا تو وادی کے نچلے علاقے شدید طوفانی سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔"ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات -ماہرین کے مطابق، اس سانحے کی جڑیں "کلائمٹ چینج" یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے جا ملتی ہیں۔ الپس میں گہرائی تک جما ہوا برفانی جُبہ(permafrost) تیزی سے پگھل رہا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے میں چٹانوں کے سرکنے اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے جیسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی خبردار کیا ہے۔ رافائیل لودووِک کے مطابق "ہم فرانس کے الپائن علاقوں میں بھی عدم استحکام کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ نومبر میں فرانس کے وانویز سلسلے میں ''مونٹ بوری'' نامی پہاڑ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبا تودہ گرا تھا، جس میں سینکڑوں ٹن چٹانیں نیچے آ گریں۔"


-اب یہ دوسری  کہانی ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے   

عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیاسنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ 


پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ کیونکہ  ہماری حکومت نے رہائشیوں کی جانوں کی حفاظت سے چشم پوشی برتی -عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ انکے  کھیت کی زمین ایک جگہ سے اوپر ہو گئ  اور تھا اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسا لگ رہا   تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہےپہاڑ گرنےاور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں


تحریر و تلخیص  بقلم خود

ہفتہ، 31 مئی، 2025

فن لینڈ کی خوشحالی کا کیا راز ہے

 


 فن لینڈ   کی خوشحالی کا کیا راز  ہے؟آ ئیے جانتے ہیں ' پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘مسلسل ساتویں سال فن لینڈ دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں 13ویں نمبر پر براجمان ہے۔ورلڈ ہیپی نیس‘ رپورٹ میں فن لینڈ کو مسلسل چھ برسوں تک دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک قرار دیا گیا ہے۔فن لینڈ کو خوشحال ملک اس لیے قرار نہیں دیا جاتا کہ وہاں کے لوگ ہر وقت مسکراتے رہتے ہیں یا اُنہیں کبھی کوئی پریشانی پیش نہیں آتی، فن لینڈ اس لیے بھی خوشحال ملک قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کو اعلیٰ معیار کی جمہوریت اور معاون عوامی اداروں سے عوام دوست پالیسیز حاصل ہیں۔فن لینڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک غیر ملکی طالبِ علم محمد الاسلام نے دنیا کے خوشحال ترین ملک سے متعلق بات کی ہے۔محمد الاسلام  نے 2016ء سے 2019ء تک فن لینڈ کے ایک اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ظالب علم کے مطابق فن لینڈ کی حکومت اور اُن کی جانب سے بنائی گئی عوام دوست پالیسیاں ملک میں خوشحالی میں کتنی  مددگار ہیں۔


طالبِ علم محمد الاسلام کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ اُس نے کتنی راحت اور پرسکون زندگی کا تجربہ کیا ہے۔ محمد الاسلام کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کے لوگ عام طور پر اپنے پڑوسیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اُنہیں بھی پُراعتماد اور پرسکون محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طالبِ علم کے مطابق اُس نے کبھی سڑک پر کھڑے ہوئے اپنے لیے کسی دوسرے کی آنکھوں میں اجنبیوں والی غیریقینی کی سی کیفیت یا بدنیتی پر مبنی ارادے محسوس نہیں کیے، اُس نے وہاں خود کو ہر طرح سے آزاد محسوس کیا، اُس نے محسوس کیا کہ یہاں وہ کسی بوجھ یا ذبردستی کے بغیر اپنی سیاسی رائے (مثبت یا منفی) کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔فن لینڈ کے عوام بھی اپنے مقامی سیاست دانوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، وہاں انتخابات کا عمل بہت پرسکون ماحول میں آزادانہ ہوتا ہے۔طالبِ علم کا بتانا ہے کہ فِن لینڈ کی سب سے اچھی بات اُنہیں یہ لگی کہ وہاں کا تعلیمی نظام بالکل مفت ہے، انہوں نے فن لینڈ میں 2016ء میں اسکول شروع کیا تھا، اس لیے اُنہیں اور دیگر بین الاقوامی طلبہ کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ 2017ء میں پالیسی میں تبدیلی کے بعد بعض طلبہ کو ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑ سکتی ہے جو کہ ہر اسکول کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔



طالبِ علم نے بتایا کہ مفت تعلیم اُن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی مگر اُنہیں اپنی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود اٹھانے تھے جس کے لیے نوکری ڈھونڈنے میں اُنہیں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔طالبِ علم نے بتایا کہ انہوں نے وہاں ایک صحت سے متعلق پالیسی بھی خرید لی تھی اور صحت کی مفت خدمات بھی حاصل کی تھیں۔فن لینڈ کے سابق طالبِ علم کا کہنا ہے کہ اِس ملک میں رہتے ہوئے تحفظ کا زبردست احساس ہی فن لینڈ کو خوشحال بناتا ہے۔محمد الاسلام کے مطابق فن لینڈ کی خوشحالی کے پیچھے وسیع فلاحی پالیسیاں بھی ہے جو پیدائش سے لے کر قبر تک بہت سی بنیادی ضروریات کا احاطہ کرتی ہیں اور رہائشیوں کو تحفظ کا اعلیٰ احساس فراہم کرتی ہے۔محمد الاسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں عوام کو اپنی خوشی اور بہتر زندگی کے لیے مکمل طور پر خود ذمہ دار نہیں ہونا چاہیے، پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘عالمی دہشتگردی کے انڈیکس میں اس کا 89واں نمبر ہے جو اس فہرست میں نچلے درجے کی نشاندہی کرتا ہے۔



اگرچہ یہ دنیا کے محفوظ ترین ملک میں سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود پُرتشدد انتہاپسندی پر قابو پانا فن لینڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔انتہاپسندی روکنے کا فن لینڈ کا پہلا نیشنل ایکشن پلان 2012ء میں تیار کیا گیا جبکہ اس کا دوسرا ورژن 2016ء میں ڈرافٹ کیا گیا تھا۔ بیرونی مشاہدین نے اس کا جائزہ لیا اور 2019ء میں تشخیصی رپورٹ شائع ہوئی۔ منصوبے کے مقاصد میں پُرتشدد انتہاپسندی کو کم کرنا اور اس سے لاحق خطرات، مساوات، آزادی اظہار، دیگر آئینی حقوق کے نفاذ کو فروغ دینا، نفرت انگیز جرائم کا پتا لگانا اور ان کی تحقیقات کرنا شامل تھا۔فن لینڈ کی وزارت داخلہ اب پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی ذمہ دار ہے اور وہ نیشنل کوآپریشن نیٹ ورک کی قیادت بھی کرتی ہے جبکہ فن لینڈ کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ فن لینڈ کا یہ منصوبہ، معاشرے کی سمت کا تعین کرنے اور پُرتشدد انتہاپسندی کے حوالے سے رائے عامہ اور رویوں کو متاثر کرنے والی اقدار کی وضاحت کرنے میں سیاست دانوں کے اثرورسوخ کا بھی معترف ہے۔



ہر سال یو این او کی سرپرستی میں دنیا بھر کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اس کی سالانہ رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برس سے یورپ کا ایک چھوٹا ملک فن لینڈ خوش ترین ملک کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں فن لینڈ کی خوشی کا راز کیا ہے؟یو این او کے سروے کے تحت جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اُن میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں اوسط عمر کیا ہے۔ خوشحالی اور سوشل سکیورٹی کتنی ہے۔ لوگوں کو کتنی فریڈم حاصل ہے۔ اس فریڈم میں سیاسی‘ صحافتی‘ سماجی اور ذاتی آزادی سب شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک میں گورننس کیسی ہے اور کرپشن کتنی ہے۔فن لینڈ خوشحال ہے مگر دنیا کے پہلے بیس امیر ترین ممالک میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ فن لینڈ ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 56 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں کے باسیوں کی خوشی کا ایک نہیں‘ کئی رازہیں۔ فن لینڈ میں کسی شہری کو بے بسی کا ہرگز کوئی احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی آمدنی اور قیمتوں کے درمیان کوئی بڑا تفاوت نہیں۔ یہ نہیں کہ راتوں رات گیس چھ سو فیصد بڑھا دی جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنے شعبے کا کام نہیں ملتا تو حکومت اسے نہایت معقول وظیفہ دیتی ہے۔ یو این او کے مقرر کردہ خوشحالی اور خوشی کے تمام معیارات پر فن لینڈپورا اترتا ہے۔ اس ملک کے خوش ترین ہونے کے رازوں تک رسائی حاصل کرتے کرتے بعض دلچسپ انکشافات بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ فن لینڈ میں مقبولِ عام 'سونا باتھ‘ وہاں کے شہریوں کی خوشی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ فن لینڈ میں جھیلیں اور جنگل بہت ہیں۔ یہاں 40 نیشنل پارک ہیں۔ لوگ سیرو سیاحت اور قدرتی  مناظر کے دلدادہ ہیں فضائ آلودگی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ غرض یہ کہ فن لینڈ ایک  بے پناہ خوبصورت  ملک ہے  جس کے  دامن آنے والا ہر شہری اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرنے لگتا ہے

 

جمعہ، 30 مئی، 2025

جدید تعلیم میں سیلانی ویلفئر مددگار

 



ایک طرف جہاں تعلیمی معیار کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے وہیں انتظامی امور کے لئے بھی تعلیمی ادارے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول کی سطح پر ایسا سافٹ ویراستعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم کے داخلے سے لے کر اس کے اسکول چھوڑنے تک تمام ریکارڈ ایک داخلہ نمبر کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ طلبا کے پروگریس کارڈ اور امتحانی پرچے اور ماڈل پیپر وغیرہ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہےسیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےجس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے


 اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔موجودہ دور آئی ٹی کا دور ہے جس کی اہمیت کو پاکستان سے پہلے بھارت نے تسلیم کیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کے مقابلے میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیر سے تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتوں کی طرف سے آئی ٹی کی تعلیم پر دیر سے توجہ دی گئی۔ اب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی تعلیم دینے کے لیے جو اقدامات ہوئے وہاں ملک کے نجی اداروں نے بھی ملک کے بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم کے حصول پر راغب کیا جن میں ملک میں ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ہے جہاں بلا معاوضہ آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے نوجوان میدان میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے لگے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔


سیلانی آئی ٹی پروگرام سے منسلک ہزاروں نوجوانوں نے عہد کیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے حاصل کردہ اپنی آمدنی کو پاکستان میں ترسیلات زر کی شکل میں لائیں گے تاکہ ملک کے کروڑوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد دے سکیں، موہٹہ پیلس میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت آئی ٹی تربیتی پروگرام کے گریجویٹس کے پہلے اجتماع کا انعقاد کیا گیا ،تقریب کے مہمان خصوصی محمد علی ٹبہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا اقتصادی بحران آئی ٹی پروفیشنلز کی تیاری سے ختم ہوسکتا ہے، حکومت پرائیویٹ سیکٹر اور غیر منافع بخش اداروں کے آئی ٹی پروگراموں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے،،بینکار یوسف حسین، تاجر عارف حبیب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، مولانا بشیر فاروق قادری نے تقریب میں موجود آئی ٹی لرننگ پروگرام کے گریجویٹس کو اپنی نشستوں سے اٹھ کر عہد کرنے کی دعوت دی ۔تفصیلات کے مطابق سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت فالکن سوسائٹی کے قریب بلوچ کالونی پل سے متصل جدید ترین عمارت میں زیتون اشرف آئی ٹی پارک قائم کردیا گیا ہے ۔


 زیتون اشرف آئی ٹی پارک کا افتتاح بدھ(کل)  سہ پہر ساڑھے تین بجے ہوگا۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری افتتاح کریں گے ۔تقریب میں سیلانی کے بانی اور چیئرمین مولانا بشیر فاروق قادری کے علاوہ اہم کاروباری شخصیات بھی شرکت کریں گی سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔


آئی ٹی میں نوجوانوں کا رجحان جس طرح تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے کمرشل ادارے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسوں پر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے لگے ہیں مگر سیلانی ٹرسٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مفت میں آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح ہی آئی ٹی کی تعلیم زیادہ سے زیادہ نئی نسل کو فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کی جدید تعلیم دینے کے لیے سیلانی ٹرسٹ نے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم کے حصول کے خواہش مند تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔آئی ٹی کے تعلیم کا بڑھتا رجحان اب نئی نسل کی مجبوری بن چکا ہے اور لوگ آئی ٹی کی تعلیم کے سینٹروں کا رخ کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر نوجوانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمرشل اداروں نے منہ مانگی فیسوں پر آئی ٹی کی تعلیم دینا شروع کر دی ہے جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور ان کا اس سلسلے میں طریقہ معیاری نہیں۔سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ جو گزشتہ 20 سالوں سے زندگی کے 63 شعبوں پیدائش سے موت تک سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

جمعرات، 29 مئی، 2025

ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا حصہ

     معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔بلوچ عوام کی محرومیوں کی بنیادی وجوہات میں مقامی سیاست دانوں کی بے حسی، سرداری نظام اور وسائل کا غلط استعمال شامل ہیں۔مقامی سیاست دان عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، آپ اندازہ لگا یئے کہ  سوئ کے مقام سے گیس برامد ہوتی ہے جو تمام ملک کے طول عرض میں بھیجی جاتی ہے لیکن بلوچ عورت آج بھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر  اس کا گٹھا سر پر رکھ کر لاتی ہے تب اس کے گھر کا چولہا جلتا ایسے میں  احساس محرومی پیدا ہو گا کہ نہیں -دراصل سرداری نظام عوام کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے،   اب آیئے دیکھتے ہیں کہ ریکوڈیک   کیا ہے،  اہم معدنی منصوبے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں تاہم بلوچستان میں اس منصوبےکو لے کر خدشات اور تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے آخر یہ منصوبہ ہے کیا اور اس سے کیا فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں؟ ریکوڈک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ایک اہم معدنی منصوبہ ہے، جس میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔خود اس صوبے کے اندر اس منصوبےکو لے کر خدشات ہیں تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے کیا فوائد اٹھائے جاسکیں گے؟ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔لیکن غریب تر صوبہ ہے -حالانکہ  یہاں تیل، قدرتی گیس، سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں 


 ء2024 میں ایک فزیبلٹی سٹڈی نے ریکوڈک میں 15 ملین ٹن تانبے اور 26 ملین اونس سونے کی موجودگی کی تصدیق  ہو چکی ہے۔وزیر برائے توانائی پیٹرولیم ڈویژن علی پرویز ملک نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا کہ ریکوڈک سے پہلے مرحلے میں پیداوار 2028 میں شروع ہوگی جوکہ سالانہ سونے کی تین لاکھ اونس اور تانبے کی دو لاکھ ٹن ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں پیداوار 2034 میں شروع ہوگی جو کہ سالانہ سونے کی بڑھ کر پانچ لاکھ اونس اور تانبے کی چار لاکھ ٹن ہو جائے گی۔سعودی کمپنی منارہ ریکوڈک میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے: پاکستانی وزیر-سعودی عرب کی ریکوڈک مں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کا امکان: میڈیا-ریکوڈک سے بندرگاہ تک آمدورفت کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے: حکومت ریکوڈک معاہدہ: ’بلوچستان کے لیے 25 فیصد حصہ قابلِ قبول نہیں‘یہ پاکستان میں سب سے بڑا مغربی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہو گا اور اس سے موجودہ مائن پلان کی تقریباً 37 سالہ زندگی میں 75 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی مفت کیش فلو پیدا کرنے کی توقع کی گئی ہے۔


یہ اعداد و شمار حقیقی کیش فلو پر مبنی ہیں، جو محتاط ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر مفت کیش فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی پیداوار بھی کر سکتا ہے۔اس وقت کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے 25 فیصد حصص ہیں۔ایک اہم حالیہ پیش رفت سعودی عرب کے ریاستی سرمایہ کاری کے فنڈ، منارا منرلز، کی بظاہر دلچسپی ہے۔ اس کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 10-20 فیصد حصص حاصل کرنے کی توقع ہے۔بلوچستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یقینی بنایا کہ صوبے کی ترقی کے لیے وہاں کام کرنے والی کمپنی صوبائی حکومت کو پہلے سال 50 لاکھ ڈالر جبکہ دوسرے سال 75 لاکھ ڈالر قبل از وقت رائلٹی کی ادائیگی کرے گی جو تیسرے سال اور اس کے بعد تجارتی پیداوار تک ایک کروڑ ڈالر سالانہ کی ہو گی۔


وفاقی حکومت کے علاوہ بلوچستان حکومت کا بھی 25 فی صد حصہ ہو گا، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں دیگر معاشی فوائد بھی ملیں گی۔بلوچستان کی حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی کی ادائیگی ہوا کرے گی۔ملازمتوں کی مد میں بھی بلوچستان کو کافی فائدہ متوقع ہے۔ منصوبے کے عروج کے دوران  لازمتیں پیدا ہوں گی۔حکومتی بیان کے مطابق فی الحال ریکوڈک مائنگ کمپنی کے ملازمین میں 77 فیصد بلوچستان سے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لیے دیگر مختلف اقدامات کیے گئے ہیں: جس کے ذریعے علاقے میں صحت، تعلیم اور دیگر  انفراسٹرکچر پر کام جاری ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ  مقامی طلبہ کو بھی سکالر شپس بھی فراہم کی جا رہی ہیں-حکومت کی ان سکیموں کا بظاہر مقصد مقامی افراد کو اس اہم منصوبے کا شراکت دار بنانا اور وسائل کے غلط استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا ہے۔


ایک تجویز یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اس منصوبے سے ملنے والی آمدن میں بلوچستان کے حصے کا 75 فیصد اس کے اردگرد اضلاع پر ہی خرچ کیا جائے۔وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ ریکوڈک منصوبے میں جائز تقسیم اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا طریقہ کار موجود ہے۔ریکوڈک مائننگ کمپنی کی نگرانی ایک بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے جس کی صدارت بلوچستان کے چیف سیکرٹری کرتے ہیں، جس میں سیکرٹری معدنیات اور دیگر وفاقی ریاستی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔یہ بورڈ منصوبے کی ترقی جانچنے کے لیے سہ ماہی اجلاس منعقد کرتا ہے اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔بس اب دیکھنا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی ادائگی کیسے ہوتی ہے  

مضمون انٹرنیت کی مدد سے لکھا گیا 

پیر، 26 مئی، 2025

شاہرا ہ بلتستان کی اندھی کھائیاں اور اندھے موڑ

 

  خوبصورت  وادیاں  'بل کھاتی سڑکیں 'تاحد نظر سرسبز لہلاتی  سطح مرتفع  یہ مناظر کس قدر رومان پرور ہو سکتے ہیں       -اور  وہ  ہر دم    ساتھ ساتھ  رہنے والے مر نے  کے لئے بھی ساتھ چل دئے -یہ     تینو ں دوست قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ عمر احسان، کوٹ گھکہ کا اکیس سالہ نوجوان، اسکول ٹیچر احسان کا لخت جگر تھا۔ اس کے ساتھ اس کا پھوپھی زاد سلیمان نصراللہ، جسوکی کا رہائشی، جو چند ماہ قبل اٹلی سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ ان کے ہمراہ عمر کا بہنوئی، بیالس سالہ واصف شہزاد بھی تھا، جو دو معصوم بیٹیوں کا باپ تھا۔ چوتھا دوست عثمان، ساروکی کا رہائشی، ان سب کا پرانا ہمسفر تھا۔ سب نے ایک ساتھ سفر کیا، ایک ساتھ ہنسے، ایک ساتھ خواب دیکھے — اور اب ایک ساتھ موت کی وادی میں اتر گئے۔حادثہ گنجی پڑی کے قریب پیش آیا جہاں بل کھاتی سڑکیں اور اندھی کھائیاں اکثر موت کا باعث بنتی ہیں۔ بلتستان شاہراہ کو بلاوجہ خونی سڑک نہیں کہا جاتا۔ یہ سڑک کسی کالی سانپ کی مانند پہاڑوں میں لپٹی، بل کھاتی، موت کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔



یہاں گاڑیوں کو آہستہ، ہوشیاری اور چوکسی سے چلانا لازم ہے، مگر بعض اوقات ذرا سی لغزش انسان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے۔حادثے کی منظرکشی دل دہلا دیتی ہے۔ سامنے آنے والی تصاویر کے مطابق تین دوست گاڑی کے اندر ہی کچلے گئے، جب کہ چوتھا دوست گاڑی سے نکل کر کسی چٹان کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور شاید آخری سانسوں تک زندگی کیلئے لڑتا رہا۔ ممکن ہے اس نے بچاؤ کے لیے کچھ سوچا ہو، خدا کو یاد کیا ہو، یا بس آخری لمحے خاموشی سے موت کا سامنا کیا ہو۔ مگر قدرت نے اسے بھی نہیں بخشا۔ایک تصویر میں ممکنہ طور پر تھکن سے چور نوجوان کو گاڑی کی کھڑکی سے سر ٹکائے سوتے بھی دیکھا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان تھکے ہوئے تھے۔جائے حادثہ کا معائنہ کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ڈرائیور کی ناتجربہ کاری، ڈرائیونگ کے دوران نیند آنے اور تیز رفتاری کے باعث پیش آیا ہوگا۔ لیکن جس مقام پر حادثہ پیش آیا  وہاں ایک حفاظتی    دیوار یا جنگلے کا کوئ وجود  نہیں ہے اور سڑک کا یہ حصہ خونی موڑ کہلاتا ہے ۔


 اہلکاروں نے کہا کہ اگر اس جگہ مناسب حفاظتی انتظامات ہوتے تو شاید حادثے میں قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہوتا یا کم از کم وہاں حادثے کے آثار ملنا ممکن ہوتا۔سات دن گزر گئے۔ پہاڑوں میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ چیلیں اور گِدھیں ہی وہ پہلا اشارہ بنیں جنہوں نے انسانوں کو متوجہ کیا۔ پرندوں کی غیر معمولی موجودگی نے ان کی موجودگی کا راز کھول دیا۔ لاشیں نکال لی گئیں، مگر گھروں میں جو صف ماتم بچھی، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔گجرات کے ان گھروں میں جہاں کبھی ان نوجوانوں کی قہقہے گونجتے تھے، اب صرف آہ و بکا باقی ہے۔ جو ایک لمحے کے حادثے نے چھینا، وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔اس حادثے نے ایک بار پھر گلگت بلتستان کی سڑکوں کی خطرناکی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سیاحوں سے گزارش ہے کہ یہاں گاڑی چلاتے وقت انتہائی احتیاط کریں۔ ایک طرف بلند پہاڑ، دوسری طرف گہری کھائیاں، اور درمیان میں صرف ایک گاڑی کی گزرگاہ۔ ایسے میں ذرا سی بےاحتیاطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی کو جلدی پہنچنے کی نہیں، بلکہ محفوظ پہنچنے کی ضرورت ہے۔


 ایل ای ڈی لائٹس کا بےجا استعمال، تیز رفتاری اور مسلسل ڈرائیونگ، یہ سب کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔زندگی ایک امانت ہے۔ یہ راستے، یہ پہاڑ، یہ وادیاں خوبصورت ضرور ہیں، مگر ان کے سینے میں بے شمار راز دفن ہیں۔ کہیں ان چار دوستوں کی طرح کسی اور کا ہنستا کھیلتا چہرہ نہ خاموش ہو جائے۔ اس لیے سفر کریں، دیکھیں، محظوظ ہوں، مگر ہمیشہ محتاط رہیں۔ کیونکہ ایک لمحے کی بے خبری، ایک قدم کی لغزش، اور سب کچھ ختم۔ہمیشہ کے لیے گلگت بلتستان کی بلند و بالا چٹانوں، دلکش وادیوں اور جادوئی فضاؤں نے ایک بار پھر اپنے پاس آنے والوں کو ہمیشہ کیلئے اپنے پاس ہی روک لیا۔ پنجاب کے شہر گجرات سے شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لیے آنے والے چار دوست، جو خوشیوں سے بھرے گھر سے نکلے تھے، اب سرد لاشوں کی صورت واپس لوٹ رہے ہیں۔ وہ جو ہنستے کھیلتے گلگت کی وادیوں میں داخل ہوئے تھے، وہ جو زندگی کی رنگینیوں سے لبریز تھے، وہ اب زندگی کی سب سے تاریک کہانی بن چکے ہیں۔


سلیمان نصراللہ، واصف شہزاد، عمر احسان اور عثمان کا تعلق گجرات سے تھا۔ یہ نوجوان 12 مئی کو سفید رنگ کی ہونڈا سیوک نمبر 805-ANE پر اپنے شہر سے روانہ ہوئے تھے۔ ابتدا میں ان کا سفر حسین اور یادگار رہا۔ دنیور میں قیام کے بعد انہوں نے 15 مئی کی رات گلگت سے سکردو کا رخ کیا، مگر پھر ایسا اندھیرا چھایا جو ایک ہفتے تک چھٹ نہ سکا۔ 16 مئی کی صبح ان کا آخری بار رابطہ ہوا، اس کے بعد ان کے موبائل بند ہو گئے، اور جیسے وہ زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو — کوئی سراغ، کوئی آواز، کچھ نہ بچا۔پولیس، ریسکیو ٹیمیں، سیکیورٹی ادارے دن رات انہیں تلاش کرتے رہے۔ گلگت سے سکردو تک کے تمام راستے چھان مارے گئے، لیکن زندگی کے ہر شور سے دور وہ موت کی آغوش میں سو چکے تھے۔بالآخر گنجی پڑی کے مقام پر ان کی گاڑی سیکڑوں فٹ گہری کھائی میں ملی۔ چاروں دوست موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے۔ گاڑی کا کچھ پتہ نہ چلنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ایسے مقام پر گری جہاں سے نیچے دیکھنا بھی ممکن نہ تھا ۔چنانچہ جب گدھ آسمان پر نظر آئے تب عوام کو ان کی گاڑی اور خود ان کی لاشوں  کا سراغ ملا 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر