ہفتہ، 24 مئی، 2025

روحانی عظمت کا حامل شہر''اچ شریف""

 



دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی قدیم تاریخی ثقافتی ورثہ کے حامل شہر موجود ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، انہی میں پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل احمد پور شرقیہ کا شہر اُچ شریف بھی شامل ہے، جسے اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کہا جاتا ہے۔  جنوبی پنجاب کی داستان بیان کرتا ہوا تاریخی شہر1998ء میں یونیسکو نے اچ شریف کے دو مقامات کو اپنی لسٹ میں شامل کیا اولڈ بگ سٹی کے خطاب سے بھی نوازابہاولپور سے 73 کلو میٹر دور جنوب مغرب میں 5 دریائوں کے سنگم میں واقع اُچ شریف کسی زمانہ میں سات آبادیوں میں تقسیم تھا، 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر پھیلا یہ شہر بزرگان دین کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، 400 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے یہاں آنے والی ہن قوم اس شہر پر حملہ آور ہوئی اور اس کو نیست و نابود کر ڈالا، زمانے کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑ اور آباد ہو کر کئی نشیب و فراز دیکھے، قدامت اور تہذیبی لحاظ سے اس کے تانے بانے ہڑپہ اور موہنجودڑو سے ملتے ہیں، صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر اُچ شریف نے بہت سے عروج و زوال دیکھے،  راوی کہتا ہے کہ اُچ شریف دریائے ہاکڑا کے کنارے آباد ہوا، جس کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں،



 چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاس ہیں کہ کبھی یہاں دریائے ہاکڑا بہتا تھا اور یہ خطہ زرخیزی اور خوشحالی کا ایک باب تصور ہوتا تھا۔بر صغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو ریاست کا حصہ تھا اور اُچ اس کا اہم شہر، اس دوران علاقہ میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر کرائی گئیں، سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہ و برباد ہوئی اور پھر اس کے بعد اُچ شریف کو عروج اور لازوال ترقی ملی، اس شہر میں علوم اسلامی کی ابتداء 370 ہجری میں حضرت سید صفی الدین گاذرونی کے پہنچنے سے ہوئی، وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں اُچ شریف میں تشریف لائے اور بر صغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی، جس نے اس وقت برصغیر میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور ترویج کا فریضہ سر انجام دیا۔ جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار نہیں تھی‘ جامعہ فیروزیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور ایرانی مؤرخ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے عالم اس ادارہ کے صدر تھے‘ اس مدرسہ میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے‘ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اُچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور یہ عرصہ اُچ شریف کیلئے خوشحالی کا دور تھا‘ منگولوں کے حملے کے باوجود اس شہر کی اہمیت برقرار رہی، لیکن باد شاہ شمس الدین  التمش نے اس شہر پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں و کتب خانوں کو نیست و نابود کر دیا‘ تباہی کے بعد جب وہ حاکم وقت بنا تو اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنا لیا‘ جس کے بعد اُچ شریف کو کبھی اس کی کھوئی ہوئی حیثیت واپس نہ مل سکی‘ یہاں اب صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔



اس شہر میں علوم اسلامی کی ابتداء 370 ہجری میں حضرت سید صفی الدین گاذرونی کے پہنچنے سے ہوئی، وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں اُچ شریف میں تشریف لائے اور بر صغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی، جس نے اس وقت برصغیر میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور ترویج کا فریضہ سر انجام دیا۔ جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار نہیں تھی‘ جامعہ فیروزیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور ایرانی مؤرخ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے عالم اس ادارہ کے صدر تھے‘ اس مدرسہ میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے‘   حضرت صفی الدین گاذرونیؒ‘ حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ‘ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ‘ حضرت صدر الدین راجن قتالؒ‘ حضرت فضل الدین لاڈلا ؒ‘ حضرت جلال الدین خنداں روؒ‘ حضرت کبیر الدین حسن دریاؒ‘ حضرت غوث بندگیؒ‘ حضرت بہاول حلیم ؒجیسی عظیم ہستیاں اُچ شریف میں آسودہ خاک ہیں۔ اس شہر میں ایسے نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں جو اس علاقہ کے تقدس میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔


  بتایا جاتا ہے کہ ہمایوں کی بادشاہت کے دور میں اُچ شریف پر مرزا کامران کی حکمرانی تھی، جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت اکٹھی ہوئی تو اُچ شریف کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا دیا گیا، اس دور حکومت میں بہت سے مقبروں، مزارات کی تعمیر و مرمت کرائی گئی، جب بہاولپور میں عباسی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تو اُچ شریف اس ریاست کا حصہ بن گیا۔  1817ء میں آنے والے سیلاب نے اس تاریخی اہمیت کے حامل شہر کے قدیم آثار کو بری طرح تباہ کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا لیکن اس کی چند باقیات آج بھی منہدم ہونے سے پہلے آخری نشانی کی صورت میں موجود ہیں۔ تین مشہور مقبرہ جات اپنی خستہ حالی کے باعث کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتے ہیں، ان میں پہلا ادھورا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی ؒکا ہے، جو حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت ؒکی درویش پوتی تھیں، اس مقبرے کو خراساں کے حکمران محمد دلشاد نے پندرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا، دوسرا مقبرہ حضرت جہانیاں جہان گشت ؒکے استاد حضرت بہاول حلیم ؒکا ،تیسرا ان اکابر کے استاد نوریہ کا ہے، جن کی خوبصورت کاریگری نے اس عہد گم گشتہ میں ان مقبروں کو شان و شوکت بخشی تھی، یہ تینوں نادر و نایاب مقبروں کے در و دیوار آج حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اچ شہر خوبصورت اور سفید رنگت والی آریائی قوم نے آباد کیا اور یہ نسل ہندو آبادی سے کافی ترقی یافتہ تھی، اس وقت اس علاقہ میں ذات پات کا نظام تھا، جو اچ شہر کی تعمیرات میں بھی نمایاں نظر آتا تھا، آریائی قوم کے نقوش آج بھی علاقہ میں موجود ہیں لیکن اس ورثہ کو بچانے والا کوئی مسیحا موجود نہیں، 1998ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اچ شریف کے دو مقامات کو اپنی لسٹ میں شامل کیا۔ فن تعمیر کے بہترین شاہکار مقبرہ بی بی جیوندیؒ کی وجہ سے ایک امریکی کمپنی نے اچ شریف کو اولڈ بگ سٹی کے خطاب سے نوازا۔


 ملتانی فن تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ 2000ء میں ہونے والے سروے میں دنیا بھر کی 100 قدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں سرفہرست تھا، امریکی قونصلیٹ برائن ڈی ہنٹ نے 2006ء جبکہ پیٹر سن نے 2008ء میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی ورثہ کو محفوظ بنانے کیلئے 50 ہزار امریکی ڈالر عطیہ بھی کیا، جس کا کچھ حصہ بھی اچ شریف کے آثار قدیمہ پر لگا ہوتا تو ان کی حالت بدل گئی ہوتی۔اچ شریف کو 1959ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان کے نافذ کردہ بنیادی جمہوری نظام میں پہلی بار میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کر محمد اعظم خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا، بعد ازاں مخدوم الملک مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی انتخابات کے بعد پہلے چیئر مین منتخب ہوئے، صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 1979ء کے تحت اُچ شریف کو میونسپل کمیٹی سے ٹاون کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا، 2001ء میں صدر پرویز مشرف کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام میں اس شہر کوجو کبھی سلطنت کا دارالخلافہ تھا سے نامناسب سلوک کرتے ہوئے اسے یونین کونسل کا درجہ دے دیا گیا، 2 جنوری 2017ء کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کے تحت اُچ شریف کی میونسپل کمیٹی کی حیثیت بحال کی گئی، نومبر 2019 کو تحریک انصاف کے وضع کردہ نئے بلدیاتی نظام میں بھی اس میونسپل کمیٹی کی حیثیت قائم رکھی گئی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اُچ شریف میں کسی دور حکومت میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوئے، یہاں نہ تو نوجوانوں کے کھیلنے کیلئے کوئی مناسب گراؤنڈ ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر طبی سہولت کا ہسپتال، نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ ہے اور نہ ہی یہاں شہریوں کے پینے کیلئے صاف پانی کی سہولت۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور بوسیدہ حال گلیاں اس شہر کی شناخت ہیں حالانکہ یہ شہر جنوبی پنجاب کی ایک داستان ہے۔حکومت وقت کو اُچ شریف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ اولیاء اورولیوں کا تاریخی ورثہ محفوظ رہ سکے۔

  

جمعہ، 23 مئی، 2025

نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار-کینیڈا

 

  کینیڈا تمام دنیا کی خوابوں کی سرزمین   ہے آج ہم اس پیاری سرزمین کے  ایک صوبے  نیو فاؤنڈ لینڈ کی بابت   اس مضمون میں  اس کی تاریخ پڑھیں گے -نیو  فاؤنڈ لینڈ دراصل انگریزی زبان  کا لفظ ہے جس کا مطلب نئی دریافت شدہ زمین ہے۔جبکہ  لیبرے ڈار پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب زمین کا مالک ہے۔ اسے پرتگالی مہم جوآؤ فریننڈس لیوروڈور نے دریافت کیا۔نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جس نے دسویں نمبر پر یعنی سب سے آخر میں الحاق کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرہ اور لیبرے ڈار جو کہ بقیہ ملک سے جڑا ہوا ہے۔ 1949 میں کینیڈا میں شمولیت کے وقت پورا صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کہلاتا تھا لیکن تب سے یہاں کی حکومت خود کو نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کی حکومت کہتی ہے۔ 6 دسمبر 2001 کو کینیڈا کے آئین میں ترمیم کر کے صوبے کا نام سرکاری طور پر بدل کر نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار رکھ دیا گیا۔ کینیڈا کے باشندے ابھی تک اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کے صوبے کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ لیبرے ڈار کے حصے کو لیبرے ڈار کہتے ہیں۔اکتوبر 2007 کے مطابق صوبے کی آبادی 507475 نفوس ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کے لوگ نیو فاؤنڈ لینڈر کہلاتے ہیں اور لیبرے ڈار کے لوگ لیبرے ڈارین کہلاتے ہیں۔ 


نئو فاؤنڈ لینڈ کا انگریزی، فرانسیسی اور آئرش زبانوں کے لئے اپنے لہجے ہیں۔ لیبرے ڈار میں بولی جانے والی انگریزی کا لہجہ نیو فاؤنڈ لینڈ سے بہت ملتا جلتا ہے۔نیو فاؤنڈ لینڈ تاریخی اعتبار سے کئی چیزوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ مثلاً براعظم امریکہ میں یورپیوں کی طرف سے بسائی جانے والی پہلی کالونی یہاں ہے۔ یہ جگہ تقریباً 1000 عیسوی میں دریافت کی گئی تھی۔ اس دور کے کھنڈرات اور نمونے ابھی تک اس جگہ موجود ہیں اور اسے اب عالمی وراثتی جگہ کا نام دیا گیا ہے۔یہ جزیرہ پہلے بیوتھک اور پھر میکماک سے آباد رہا۔جان کبوٹ وائی کنگ کے بعد یہاں آنے والا پہلا یورپی تھا جو 24 جون 1497 میں ادھر پہنچا۔ 5 اگست 1583 کو سر ہمفرے گلبرٹ نے نیو فاؤنڈ لینڈ کو باقاعدہ طور پر انگلستان کی بیرون ملک پہلی نو آبادی کا بنانے کا اعلان کیا۔1610 سے 1728 تک مالکانہ حقوق کے ساتھ گورنر متعین کئے جاتے رہے تاکہ جزیرے پر نئی آبادیاں بنتی رہیں۔ جان گائے کوپر کوؤ میں بننے والی پہلی نو آبادی کا گورنر تھا۔ دوسری نو آبادیوں میں برسٹلز ہوپ، ری نیوز، ساؤتھ فاک لینڈ اور آوالون شامل ہیں۔


 آوالون بعد ازاں 1623 میں صوبہ بنی۔ وہ پہلا گورنر جسے نیو فاؤنڈ لینڈ پر مکمل قبضہ دیا گیا سر ڈیوڈ کرکے تھے۔ انہیں یہ اختیار 1638 میں ملا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کا جزیرہ 1690 میں فرانسیسیوں نے تقریباً فتح کر لیا تھا۔نیو فاؤنڈ لینڈ کو نو آبادیاتی اسمبلی1832 میں دی گئی جسے ابھی تک ہاؤس آف اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ولیم کارسن، ایڈورڈ موریس اور جان کینٹ جیسے انقلاب پسندوں کی کاوش تھی جنہوں نے جنگ لڑ کر اسے پایا۔ نئی حکومت غیر مستحکم تھی اور اس کے اراکین مذہبی اور سیاسی طور پر منقسم ہو گئے۔صورتحال اتنی بری ہو گئی کہ 11 جنوری 1841 کو دی ٹائمز، لندن نے اسے اتنی بری مثال کے طور پر پیش کیا کہ مستقبل میں آئر لینڈ ایسا ہو سکتا ہے۔ 1842 میں منتخب شدہ ہاؤس آف اسمبلی کو متعین کردہ قانون ساز کونسل سے ملا دیا گیا۔ 1848 میں یہ صورتحال پھر تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے لئے تحریک شروع ہوئی جس میں بشپ ملوک نے کافی اہم کردار ادا کیا۔


نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن-1854 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کو برطانوی حکومت کی طرف سے ذمہ دار حکومت سونپ دی گئی۔ 1855کے انتخابات میں فلپ فرانسز لٹل جو کہ پرنس ایڈورڈ کے جزیرے کا باشندہ تھا، نے ہف ہوئلز اور کنزریویٹو پر برتری حاصل کر لی۔ لٹل نے اپنی پہلی حکومت 1855 سے 1858 تک بنائی۔ 1861 میں تاہم گورنر بینرمین نے لبرلز کو ہٹا دیا اور کانٹے دار انتخابات کے بعد، جس میں بہت بدمزگی اور ہنگامے ہوئے، ہف ہوئلز نے حکومت بنا لی جس میں اس نے مذہبی لوگوں کو ساتھ ملایا اور نوکریوں وغیرہ کو اپنی مرضی سے دینا شروع کیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کی تجویز کو 1869 کے عام انتخابات میں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد وہ ترقی ہوئی کہ بلیک وڈز کے میگزین نے آئرلینڈ میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی مثالیں دینی شروع کر دیں۔لیبرے ڈار کی ملکیت کا تنازعہ کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے بیچ چلتا رہا حتیٰ کہ برطانوی پریوی کونسل نے مغربی سرحد کو الگ کر کے لیبرے ڈار کا رقبہ بڑھا دیا اور اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کو دے دیا۔


 نیو فاؤنڈ لینڈ وزیر اعظم سر رابرٹ بانڈ کے زیر انتظام اپنے عروج کو پہنچا۔ یہ لبرل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔1934 میں معاشی مسائل کے باعث ڈومینن کو اپنی خود مختار حکومت کو ترک کرنا پڑا اور حکومتی کمیشن قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیشن نے ایک انتخابات منعقد کرائے جس میں 1946 تا 1947 ڈومینن کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ دو ریفرنڈموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیو فاؤنڈ لینڈرز نے کمیشن کو ختم کر کے 1949 میں کینیڈا کی کنفیڈریشن سے الحاق کو چنا۔نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کا صوبہ-1946 کے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے کمیشن کے لئے ہونے والے انتخابات میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے اس میں تجاویز پیش کی گئیں جن کے تحت یہاں کے باشندوں کو مختلف صورتیں دی گئیں۔ بہت سارے ممبران نے صرف گورنمنٹ کمیشن کو جاری رکھنے یا ذمہ دار حکومت کی بحالی کی حد تک اس ریفرنڈم کو مخصوص کرنے کی حمایت کی۔

پیر، 19 مئی، 2025

جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی-حسہ دوم

  


 ہنستے ہنستے میں آس پاس بیٹھے ہوئے زائرین کو روندتا ہوا باہر بھاگ آیا۔‘اگلے روز ہاتھ جوڑ کر چندراوتی سے معافی مانگی لیکن وہ بدستور روٹھی رہی۔ اس پر ناک سے لکیریں نکالنے کا ڈرامہ رچایا، آشرم کے دروازے پر ایسی حرکت سے جگ ہنسائی کا خطرہ تھا اس لیے وہ مان گئی اور دونوں سائیکل پر لارنس گارڈن چلے گئے۔ اس روز چندراوتی کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس نے دو 3 بار شہاب کا سانس سونگھنے کی کوشش کی کہ کہیں نشہ تو نہیں کرنے لگا۔سائیکل کی سواری سے اس کا جی بھر گیا تھا۔ شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر اور لارنس گارڈن کی کشش ختم ہوگئی تھی۔ بیڈن روڈ کے دہی بھلوں اور گول گپوں کا شوق بھی پورا ہوگیا تھا۔ کامران کی بارہ دری میں اکٹھے بیٹھ کر گھنٹوں راوی کی لہریں گننے کا مشغلہ بھی دم توڑ گیا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر الجھنے لگی تھی۔ ایک روز وہ کسی دکان سے قمیص کا کپڑا خرید رہی تھی۔ شہاب نے رنگوں کے انتخاب پر کچھ بات کی تو وہ خریداری چھوڑ کر پیدل ہی آشرم کو لوٹ گئی۔ اگلے روز علم ہوا کہ اس نے آشرم چھوڑ دیا ہے اور وہ ایمن آباد چلی گئی تھی۔شہاب اس کے تعاقب میں بھاگم بھاگ ایمن آباد پہنچے


وہ ایک چٹائی پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی، نظریں سلائی پر گاڑے خاموشی سے مشین چلاتی رہی اور سر اوپر اٹھائے بغیر اس نے دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں کپڑے سی کر کچھ پیسے جمع کرے گی اور ستمبر میں ماتا کو لیکر گنگا اشنان کے لیے بنارس چلی جائے گی۔ پھر آدھا گھنٹہ دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر شہاب یہ کہہ کر چلا آیا کہ ‘اب میں جاتا ہوں پھر کسی روز آؤں گا۔‘ چندراوتی نے جلدی سے کہا ’اب چھٹیوں میں بالکل نہ آنا، میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘شہاب نے گرمیوں کی چھٹیوں میں 2 مہینے کے لیے کیمبل پور میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ منت سماجت کرکے 100 روپیہ پیشگی وصول کرلیا اور چندراوتی کی خدمت میں بھیج دیا۔ لکھا کہ سلائی مشین پر وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنے امتحان کی تیاری کریں، بنارس یاترا کے لیے 2 سو روپیہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن چند روز بعد منی آرڈر جوں کا توں واپس آ گیا۔ اگلے مہینے 2 سو روپے کا منی آرڈر بھیجا وہ بھی واپس آ گیا۔چھٹیاں ختم ہوتے ہی شہاب ایمن آباد گیا۔ وہ چارپائی پر بیمار پڑی تھی، اس کی ماں پاس بیٹھی پنکھا جھول رہی تھی۔ شہاب کو دیکھتے ہی چندراوتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور تنک کر بولی ’منی آرڈر کیوں کیا تھا؟ خود کیوں نہیں لائے؟‘۔ شہاب نے جواب دیا کہ ’خود کیسے لاتا؟ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چھٹیوں میں یہاں نہ آنا میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘ چندراوتی نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا ’ہائے رام، تم میری ہر بات کو سچ کیوں مان لیتے ہو؟‘۔چندراوتی نے بستر پر بیٹھے بیٹھے بیماری کی رام کہانی سنائی۔


ایک روز اسے ہلکی حرارت شروع ہوئی پھر کھانسی کے ساتھ تیز بخار ہو گیا۔ وید ٹھنڈے شربتوں سے علاج کرتا رہا لیکن کھانسی بڑھتی گئی، 21 دن بعد بھی بخار نہ ٹوٹا تو گوجرانوالہ میں سول سرجن کو دکھایا جس نے تپ دق تشخیص کی۔ ٹی بی کی خبر سن کر جگدیش چندر نے چندراوتی کی ماں کو گھریلو ملازمت سے نکال دیا۔ محلے والوں نے بھی ان کے ہاں آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ماں بیٹی سلائی مشین بیچ کر کھانا پینا اور دوا دارو کر رہی تھیں۔شہاب ہر دوسرے تیسرے دن ایمن آباد چلے جاتے تھے۔ سارا دن ماں بیٹی کے ساتھ تاش کھیلتے اور گپیں ہانکتے اور شام کو سائیکل پر لاہور آ جاتے۔ رفتہ رفتہ چندراوتی کی کھانسی کے دورے بڑھنے لگے تھے اور وہ بے سدھ ہو کر بستر پر گر جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر شہاب ایمن آباد آ گئے دن بھر چندراوتی کے پاس رہتے اور رات کو مقامی مسجد کے صحن میں سو جاتے تھے۔ایک دن چندراوتی کھانس رہی تھی تو پچکاری کی طرح منہ سے خون نکل آیا۔ اب نہ وہ اٹھ سکتی تھی، نہ بیٹھ سکتی تھی۔ چندراوتی کا حال دیکھ کر شہاب گوجرانوالہ کے سول سرجن کے پاس گئے، احوال سننے کے بعد بھی سرجن نے ایمن آباد آنے انکار کر دیا لیکن 16 روپے فیس لیکر نئے مکسچر کا نسخہ لکھ دیا۔ شہاب مسکچر بنوا کر ایمن آباد پہنچے تو چندراوتی دنیا چھوڑ چکی تھی۔شام گئے شمشان میں اڑھائی من سوکھی لکڑی کی چتا بنائی گئی۔ چندراوتی کو اس میں لٹا کر بہت سا گھی چھڑکا اور صندل کے چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے آگ دکھا دی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی جل کر راکھ ہو گئی جس نے کبھی شہاب کے ہاتھ کا چھوا پانی تک نہ پیا تھا۔ چندراوتی کی ماں نے لالٹین کی مدھم روشنی میں بیٹی کے پھول چنے اور راکھ پوٹلی میں باندھ لی۔ شہاب نے سائیکل بیچ کر چندراوتی کی ماں کو بیٹی کے ’پھول‘ گنگا میں بہانے کے لیے بنارس جانے والی گاڑی میں سوار کرا دیا تھا۔لاہور ریلوے سٹیشن سے ٹرین روانہ ہوئی تو اس کی پچھلی سرخ بتی دور تک اندھیرے میں خون آلود جگنو کی طرح ٹمٹماتی رہی۔ شہاب کئی روز تک دن رات ان شاہراہوں پر پا پیادہ گھومتے رہے جہاں وہ سائیکل پر چندراوتی کو گھماتے تھے۔ چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے جب مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تو گورنمنٹ کالج کے لان میں پہلا افسانہ لکھنے بیٹھ گئے۔ افسانے کا عنوان تھا ’چندراوتی‘ اور اس کا پہلا جملہ تھا 

’جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘

جب مجھے چندرا وتی سے محبت ہوئ حصہ اول

 


   قدرت اللہ  شہاب  کوزمانہ طالب علمی میں لاہور میں ایک ہندو لڑکی سے محبت ہو گئی تھی، جسے وہ تاحیات بھُلا نہ پائے۔ شہاب نامہ میں بھی اس لڑکی کا ذکر ’چندراوتی‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ان کے پہلے افسانے کا نام بھی ’چندراوتی‘ ہے۔ انہوں نے ’چندراوتی‘ اختر شیرانی کو بھجوایا جو انہوں اپنے رسالے ’رومان‘ میں شائع کیا۔ 1938 میں شائع ہونے والا افسانہ ’چندراوتی‘ قدرت اللہ شہاب کی کسی بھی کتاب شامل نہیں۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’افسانہ لکھتے لکھتے میں کئی بار رویا کئی بار ہنسا، جب میں افسانہ لکھ رہا تھا تو پروفیسر ڈکنسن کلاس لے کر حسب معمول کالج کے لان سے گزرے تو مجھے دیکھ کر رک گئے اور بولے:

“Hello, roosting alone? Where is your golden girl?”

میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گئی اور میں نے سسکیاں لے کر کہا:

“Sir. She has reverted to the gold mine.”

چندراوتی لیڈی میکلیگن کالج کی سٹوڈنٹ تھی اور موہنی روڈ پر آشرم میں رہتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی، شہاب نے اپنے نام جاری کروائی کتاب بصد اصرار اسے دیدی پھر کیا تھا کہ وہ گورنمنٹ کالج آنے جانے لگی، شہاب کلاس چھوڑ کر اس کے ساتھ لان میں بیٹھ جاتے اور اسے بڑی محنت سے پڑھاتے رہتے تھے۔ایک دن دونوں لان میں بیٹھے تھے کہ پروفیسر ڈکنسن قریب سے گزرے تو شہاب کو دیکھ کر رک گئے اور مسکرا کر بولے۔ ’تمہارے لیے یہی مناسب مقام ہے کلاس روم میں تو ایک بھی ایسی گولڈن گرل نہیں۔‘چندراوتی نے نہ جہانگیر کا مقبرہ دیکھا تھا، نہ نورجہاں کے مزار پر گئی تھی اور نہ ہی شالیمار باغ کی سیر کی تھی۔ شہاب ہر اتوار سائیکل کرائے پر لیتے اور اسے کیریر پر بٹھا کے تاریخی مقامات کی سیر کرا لاتے۔ وہ بھی آشرم سے آلو کی بھجیا اور پوریاں بنا لاتی پھر کہیں نہ کہیں بیٹھ کر پکنک منا لی جاتی تھی۔شہاب نے کرائے سے بچنے کے لیے اپنی سائیکل خریدنے کا تہیہ کیا اور ٹیوشن پڑھا پڑھا کر 72 روپے کی فلپس سائیکل خرید لی تھی۔ لاہور میں کسی ٹریفک سارجنٹ نے بھی اتنی گشت نہیں کی ہوگی جتنی ان دونوں نے کی۔ ایک اتوار چندراوتی آشرم میں اداس بیٹھی تھی اور اپنی ماں کے لیے فکر مند تھی۔ شہاب نے اسے کیریر پر بٹھایا اور ایمن آباد کی راہ لی، 27 میل کا فاصلہ باتوں ہی باتوں میں کٹ گیا۔


ایمن آباد کی تنگ و تاریک گلی میں چھوٹا سا بوسیدہ گھر جہاں چندراوتی کی بیوہ ماں رہتی تھی جو ایک آڑھتی کے ہاں برتن مانجھنے کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی پر مامور تھی۔ جگدیش چندر اسے معقول تنخواہ دیتا تھا اس وجہ سے کہ اس کی بیٹی خوبصورت تھی۔ جب کبھی وہ لاہور آتا تو چندراوتی کو اس کی ماں کی خیر خیریت بتانے آشرم ضرور جاتا تھا۔ جب کبھی چندراوتی آلو کی بھجیا اور پوریوں کے ساتھ مٹھائی لاتی تھی تو شہاب سمجھ جاتے تھے کہ جگدیش چندر آیا ہوگا۔تیسرے پہر دونوں لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو سائیکل کے پیڈل اس طرح گھومنے لگے جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ہوا میں اڑتے ہیں۔ شہاب نے ترنگ میں عاشقانہ شاعری موزوں کرنا شروع کر دی، دو 3 بار چندراوتی نے سختی سے ٹوکا لیکن جب شہاب نہ مانا تو اس نے چلتی ہوئی سائیکل سے چھلانگ لگا دی، وہ منہ کے بل گری اور اس کی بائیں کہنی چھل گئی۔ شہاب نے اپنا رومال پیش کیا تو اس نے جھٹک کر زمین پر پھینک دیا۔ چندراوتی کا اصرار تھا کہ وہ پیدل لاہور جائے گی سائیکل پر نہیں بیٹھے گی۔ شہاب نے اپنے کان کھینچے ہاتھ جوڑے، معافی مانگی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ شہاب زمین پر ناک سے لکیریں کھینچنے لگے تو وہ کھکھلا کر ہنس دی اور سڑک پر پھینکا ہوا رومال اٹھا کر دیا کہ اپنی ناک صاف کرلو۔


چندراوتی کی حسرت تھی کہ وہ کسی طرح بنارس جا کر گنگا اشنان کرلے لیکن شہاب کا کہنا تھا کہ پہلے وہ پاپ کمائے پھر گنگا میں نہائے، اشاروں، کنایوں، تلمیحوں، تشبیہوں، استعاروں اور طرح طرح کی ترکیبوں سے اس کا ذہن برانگیختہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار منہ کی کھانا پڑتی۔ یوں شہاب کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں چندراوتی کے ساتھ جھگڑا کرنا معمول بن گیا۔ دن بھر سائیکل پر گھومنا احمقانہ حرکت محسوس ہونے لگی، وہ گناہ بے لذت سے جھنجھلانے لگے تھےشہاب ایک رات نیند نہ آنے پر بے وضو ہی داتا دربار چلے گئے اور مزار کی محراب سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، آنکھیں بند کرکے انتہائی انہماک کے ساتھ ’چندراوتی، چندراوتی‘ کا ورد کرتے رہے۔ پھر ایکایک دبی خواہشات کا کھولتا ہوا لاوا ابل کر روئیں روئیں سے پرنالوں کی طرح بہنے لگا اور وہ بڑی دیر تک محراب کے کونے میں سر دیے بلک بلک کر روتے رہے۔شہاب کہتے ہیں ’میرے گرد و پیش میں کئی لوگ بڑے خضوع و خشوع سے اپنی مرادیں مانگ رہے تھے، میں نے بھی یکسوئی سے اپنی مراد مانگنے کی تیاری کی لیکن میرے دل کی آرزو اس قدر ننگی تھی، کہ الفاظ کا کوئی جامہ اس پر پورا نہ اترتا تھا، ایک فقرہ بھی ایسا نہ تھا جو دراصل چندراوتی کو بے آبرو نہ کرتا ہو، اس قسم کی تمنا سے مجھے حجاب آ گیا، داتا صاحب بھی کیا سوچیں گے، کہ یہ بیوقوف میرے سامنے کیسی الٹی باتیں کر رہا ہے، تصور ہی تصور میں مجھے داتا صاحب ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں جوتا اٹھائے اپنی جانب لپکتے ہوئے نظر آئے تو مجھے زور سے ہنسی آ گئی،

اتوار، 18 مئی، 2025

بریگیڈئر صدیق سالک زندگی کے مختلف ادوار میں

  


ہر محب وطن کی طرح  صدیق سالک  کا رواں رواں  اپنے وطن  پاکستان کی  محبت سے سرشار تھا  اور شو مئ قسمت  بھارتی  قید کی اسیری   نے اس میں بے پناہ   اضافہ کیا تھا۔ بہر حال  اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ  پاکستان واپس آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کی ہے۔ صدیق سالک بنیادی  طور پر  ایک مزاح نگار   نثر میں مہارت  رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول  حقیقت سے قریب ہونے کی بنیاد پرقارئین میں بہت  مقبول ہوا ۔  ناول پریشر  کی کہانی ممتازمصور غلام رسول کی زندگی کی کہانی ہے جس کے پردے میں سالک نے اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی ہے۔  جس میں بہت دخل اندازِ بیان کا بھی ہے سالک نے بہت سادہ اور فطری انداز میں اپنی بات قارئین تک پہنچائی ہے۔


عشق‘ محبت   کی عدم موجودگی کے باوجود یہ ناول مقبول ہوا جس کی اہم وجہ یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک عام پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ اس ناول کے ذریعے سالک نے ناول نگاری میں پاکستانی قومیت کے تصور کو بھی فروغ دیا ہے”اسلوب بیان کے اعتبار سے یہ ناول کلاسیکی روایت کی ایک ترقی یافتہ صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اس میں داستان گوئی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں اگرچہ روایتی رومانویت نہیں لیکن یہ اپنی ایک نئی رومانویت تخلیق کرتا ہے‘ جبر اور ظلم کو سہنے کی ‘ برداشت کرنے کی رومانویت فطرت اور پریشر ککر ہمارے معاشرتی رویوں کی علامتیں بھی ہیں“ ”صدیق سالک کے دو ناول ”پریشر ککر“ اور”ایمرجنسی“ میں پاکستانی معاشرے کی سماجی زندگی ‘ اخلاقیات کے زوال اور روح کی زبوں حالی کو واقعاتی صداقت اور کرداروں کا وجود معنویت سے پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں پوری انسانیت  ایمرجنسی‘ کی زد میں آ کر پریشر ککر میں محبوس نظر آتی ہے پس منظر میں دیہات موجود ہے جو شہر کی باطل قوت سے دست بگر بیاں ہے۔ ان ناولوں کا اسلوب کلاسیکی ہے ا “بیسویں صدی کے آخر تک اردو ناول تکنیک کے اعتبار سے بہت سے اوصاف سے مالا مال ہو چکا تھا۔


 اس میں کرداروں کی تعمیر‘ پلاٹ کی بنت کے لحاظ سے تکنیکی تنوع آ چکا تھا جیسے شعور کی رو‘ خودکلامی‘ فلیش بیک کی تکنی۔ صدیق سالک ان تجربات اور روایات سے استفادہ کرتے نظر نہیں آتے۔سالک کے ہاں زیادہ حصہ سوانحی ادب کا ہے۔ ان کا افسانوی ادب جو ان کے ناولوں پر مشتمل ہے میں بھی سوانحی رنگ بہت گہرا ہے خصوصاً ”پریشر ککر“ مصور غلام رسول کے ساتھ خود سالک کی زندگی کا مرقع ہے۔دو اشخاص کی زندگی کی کہانی کے ساتھ اسے مکمل افسانوی نثر نہیں کہا جا سکتا۔اسی طرح ایمرجنسی پر امجد اسلام امجد کے ڈرامے ”وارث“ کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جاگیرداری نظام پر لکھے گئے ناولوں کے مشترک عناصر بھی اس میں موجود ہیں۔ ان کی دیگر تحریروں کے تناظر میں جب ان کے ناولوں کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخلیقی مزاج افسانوی نثر سے میل نہیں کھاتا۔ بطور ناول نگار ناقدین نے صدیق سالک کی ناول نگاری خصوصاً ”پریشرککر“ کو اہمیت دی ہے۔


ڈاکٹر سید عبد اللہ ‘ ڈاکٹر انور سدید ‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ فتح محمد ملک اور ڈاکٹر شاہین مفتی جیسے نقادوں نے”پریشرککر“ کو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک منفرد ‘غیر روایتی اور کامیاب ناول قرار دیا ہے  فوج میں شمولیت1964ءمیں بطور کپتان مسلح افواج میں شامل ہو گئے اور دلچسب بات یہ ہے کہ ان کی ملازمت کے آغاز وہی دن تھا جو ان کی پیدائش کا دن تھا، 6ستمبر ،  ابتدائی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کا تقرر بطور پبلک ریلیشن آفیسر آئی ایس پی آر کے ہیڈ کواٹر میں کر دیا گیا۔ 1970میں میجرکے عہدے پر ترقی پا کر ڈھاکہ چلے گئے۔ پھر سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا۔ یہ بھی جنگی قیدی کی حیثیت سے  دوسال ہندوستانی قید میں رہے۔ اسیری کے ان دو سالوں پر انھوں نے ایک کتاب “ہمہ یاراں دو زخ “ کے نام سے لکھی- رہائی کے بعد 1973ء میں واپس آئے۔1977ء میں لفٹینٹ کرنل بنا دیے گئے اسی سال فل کرنل ہو گئے۔ جب ضیا الحق نے زمامِ اقتدار سنبھالا تو انھیں چیف مارشل لا سیکریٹریٹ میں پریس سیکریٹری مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران وہ صدر کے لیے تقریر نویس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ 





 انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر کا عہدہ   1985 میں ملا - زندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے اگرچہ ساتھ ساتھ صدر ضیا الحق کے پریس سیکرٹری اور تقرر نویس کا کام بھی چلتا رہا۔1  گئے۔ پسماندگان میں تین بیٹاں اور ایک بیٹا چھوڑا ان کا بیٹا سرمد سالک صحافت اور ادب سے رشتہ وراثت میں لے کر پیدا ہوا اور آج بھی صحافی ہے اور اپنی ایک نیوز ایجنسی چلانے کے علاوہ مختلف نیوز چینلز اوراخبارات سے بھی وابستہ ہیں۔ دو بیٹوں صحیفہ سالک اور صائمہ سالک نے ایم اے انگریزی کیا اور سب سے چھوٹی صاحبزادی آئینہ سالک نے نفسیات میں ایم فل کیا۔ صدیق سالک ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس خیالِ خام کو غلط ثابت کیا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے تمام کٹھنائیوں کے باوجود نہ صرف اپنا راستہ تلاش کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے کیونکہ انھوں نے ادب کی تاریخ میں ایسا قیمتی اثاثہ شامل کر دیا جو ہماری ادبی تاریخ کا لازوال حصہ ہے ۔

 جاری ہے

 

ہفتہ، 17 مئی، 2025

ہم شکل پیمبر(ص)حضرت علی اکبر

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم- نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کرتے تھے۔آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست،  کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔جیسا کہ اس  خدا نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔


مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع(  انا للہ و انا الیہ راجعون جاری تھا)۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا: بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کرتے تھے۔


ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی ۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے ۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:ترجمہ آئت :-"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ ا جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں   مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے  -خیام اہل بیت میں شور شین برپا ہوا کہ جناب علی اکبر  جنہیں  جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ امام حسین محافظ شریعت ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے پر مصمم تھے اور ہر قیمت پر، ہر قربانی پر شجر اسلام کی جوانی کے خواہاں تھے۔  حفاظت  دین کے وعدے اچھی طرح یاد تھے  ، سوچا اگر بر وقت دین کی جوانی کی ضمانت پیش نہ کی جائے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کی محنتیں بے ثمرہ ہو کر رہ جائیں گی۔


 محافظ شریعت نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی آغوش مبارک میں پرورش پائی تھی، اس لیے دین کی بربادی ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے، اچھی طرح یاد تھا کہ نانا پاک نے جب آغوش میں ایک طرف اپنے اسی نواسے اور دوسرے طرف اپنے فرزند ابراہیم کو بٹھایا ہوا تھا۔ خداوند متعال نے امتحان لیا تھا کہ ان دو بچوں میں سے جو زیادہ عزیز ہے، دوسرے کو اس پر قربان کرنا ہو گا تو اس قدسی وجود نے اپنے فرزند کو نواسے پر قربان کر لینا منظور کیا تھا اور فرمایا تھا کہ:حسین منی وانا من الحسین، اب اس حدیث شریف کے ذیل کے اثبات کا موقع تھا۔ دین خدا سوالی تھا، سوال جوانی کا سوال تھا، ہجرت ختمی مرتبت کے ساٹھ سال گزر چکے تھے، ساٹھویں سال کا نصف حصہ گزرنے کے بعد ماہ رجب کے اواخر میں نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوم محرم الحرام 61 ہجری کربلا پہنچ چکے تھے۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے نو دن گزر چکے تھے ایک رات کی مہلت لی تھی وہ بھی گزر چکی تھی۔ اعوان و انصار اپنی نصرت کے وعدے نبھا چکے تھے، دین کو کچھ قوت ملی تھی،اب جبکہ ہاشمی خون دین کے کام آیا چاہتا تھا،


حضرت علی اکبر کی شخصیت کو حضرت نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے "اللھم  اشھد علی ھٰولآء القوم قد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا  اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجھہ "خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول سے  گفتار ،کردار ،اور رفتارمیں  سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا  تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے   جناب علی اکبرنےجب باپ کی غربت اور تنہائی کو دیکھا تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپکی   آنکھوں سے  اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر کو سینہ سے لگایا اور پھول کی طرح سونگھ کر رونے لگے حسین نے خود اپنے ہاتھوں سے اکبر کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا  جو امیر المؤمنین کے تبرکات میں سے تھاکمر پر باندھا اور عقاب جو کہ  ایک خاص مرکب تھا سواری کے لئے آمادہ کیا صاحب الدمعۃ الساکبۃ تحریر فرماتے ہیں  "لمّا توجہ الی الحرب اجتمعت النسآء حولہ کالحلقۃ "جب علی اکبر میدان  کو جانے لگے تو تمام عورتوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہنے لگیں "ارحم غربتنا "اکبر ہماری غربت پر رحم کھاؤ ہم کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ ! "و لا تستعجل  الی القتال "میدان قتال کو  جانے میں اتنی جلدی نہ کرو "فانہ لیس لنا طاقۃ فی فراقک " ہم سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہو سکے گی   پھر نفس مطمئنہ نے لفظ عشق کے مقدس پیکر کو جاودانی معانی کی ابدی زندگانی عطا فرما کر وہ جلوہ خلق فرمایا کہ دین محفوظ، انبیاء راضی، سید الانبیاء خوشنود اور خالق اکبر أحسن الخالقین کی رضایت بھری آواز میدان کربلا میں  آئت قران کی گونج سنائ دی :

یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی


جمعرات، 15 مئی، 2025

ترکی کی سلیمانیہ جامع مسجد




ابتدائے اسلا م  سے ہی  تمام دنیا کے اسلامی ممالک میں مسجدیں بنانے پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ رہی ہے  اور خاص طور پر اسلامی  بادشاہان وقت نے کثیر سر مائے  سے   عظیم الشان مسجدیں بنائیں  ایسی ہی ایک  عطیم الشان  مسجد ہمار ے برادر اسلامی ملک  تر کی کے شہر استنبول  میں    ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ ۔ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا)اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔1660ء میں آتش زدگی کے نتیجے میں مسجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سلطان محمد چہارم نے اس کی بحالی کا کام کرایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسجد میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد مسجد کی آخری تزئین و آرائش 1956ء میں کی گئی۔آج کل یہ استنبول کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔


فن تعمیر-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، خود بھی مسجد کے داخلی راستے کے سامنے ایک مرکزی چشمہ ہے۔ صحن کی تعمیر سنگ مرمر، گرینائٹ اور پورفری کے کالموں کے ساتھ غیر معمولی شان و شوکت کا مظہر ہےصحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔دونوں لمبے لمبے میناروں میں تین گیلری ہیں اور ان کی اونچائی 63،8 میٹر (209 فٹ) تک پہنچ جاتی ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔ اگر کوئی شہزادی یا شہزادہ مسجد تعمیر کرتا تھا تو وہ دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔ میناروں میں کل 10 گیلریاں ہیں، جو روایت کے مطابق اشارہ کرتی ہیں کہ سلیمان اول دسویں عثمانی سلطان تھے۔مرکزی گنبد کی اونچائی 53 میٹر (174 فٹ) ہے اور اس کا قطر 26.5 میٹر (86.9 فٹ) ہے۔ جس وقت یہ تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت گنبد عثمانی سلطنت کا سب سے اونچا گنبد تھاسلیمانیہ مسجد کا اندرونی حصہ سلیمانیہ مسجد کی محراب-مسجد کا اندرونی حصہ ایک مربع ہے، جس کی لمبائی 59 میٹر 194 فٹ) اور چوڑائی 58 میٹر (190 فٹ) ہے، جس سے ایک وسیع و عریض جگہ بنتی ہے۔گنبد کے ساتھ آدھے گنبد جڑے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر قرآن پاک کی سورہ فاتح کی آیات کندہ ہیں۔


مسجد کی قبلہ دیوار کی طرف سلطان سلیمان اول اور ان کی اہلیہ حورم سلطان کے الگ الگ مقبرے موجود ہیں۔حورم سلطان کا مقبرہ ان کی وفات کے سال 1558 میں تعمیر ہوا۔  جبکہ سلطان سلیمان کے مقبرہ کی تعمیر ان کی وفات کے سال 1566 میں شروع ہوئی تھی اور یہ حورم سلطان کے مقبرے سے بڑا ہے اور اس مقبرے میں ان کی بیٹی مہریمہ سلطان اور بعد میں دو سلطانوں سلطان سلیمان دوم (1687–1791 میں حکومت کی) اور سلطان احمد دوم (1691–1796) کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان سلیمان اول کی والدہ دل آشوب صالحہ اور ہمشیرہ عائشہ کی قبریں بھی انہی مقبروں میں موجود ہیں۔ سلطان مصطفٰی ثانی کی صاحبزادی صفیہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ مسجد کی دیواروں کے ساتھ ہی شمال کی جانب سنان پاشا کا مقبرہ ہے۔کمپلیکس-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، سلیمانی مسجد کو رفا ع عامہ کے طور پر بنایا گیا تھا تاکہ مذہبی اور ثقافتی دونوں ضروریات پوری کی جا سکیں۔اصل کمپلیکس میں خود ہی مسجد، ایک اسپتال، پرائمری اسکول، پبلک حمام، ایک کاروان سرائے، چار قرآن اسکول، حدیث کی تعلیم کے لیے ایک خصوصی اسکول اور ایک میڈیکل کالج شامل تھے۔


 ایک عوامی باورچی خانہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس نے غریبوں کو کھانا پیش کیا۔ ان میں سے بہت سے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں اور سابقہ ​​عمارت اب ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے۔ سابقہ ​​اسپتال اب ایک چھپائی کی فیکٹری ہے جس کی ملکیت ترک فوج کی ہے۔ مسجد کی دیواروں کے بالکل بالکل شمال میں، آرکیٹکٹ  سینان کا مقبرہ ہے۔ اسے 1922 میں مکمل طور پر بحال کیا گیا تھا۔ ترکی میں مساجد صرف نماز ادا کرنے کی جگہ نہیں بلکہ ان کی مرکزی حیثیت ہے. جیسا کہ ستنبول کی نیلی مسجد میں مدرسہ، اسپتال اور دیگر ضرورت کی چیزیں بھی  دیکھی جا سکتی ہیں  جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ترکی میں مسجد کو  صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ عوام الناس کی فلاح کا ادارہ بھی کہا جا سکتا ہے-سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ترین معمار سنان پاشا   کا سب سے بڑا شاہکار تھی سلیمانیہ مسجد جسے بنوایا بھی سب سے عظیم سلطان نے تھا، سلطان سلیمان عالیشان نے۔ 1557ء میں بننے والی اس مسجد کی اونچائی 174 فٹ ہے جبکہ میناروں کی تعداد چار ہے۔ دو بڑے مینار 249 فٹ بلند ہیں اور دو نسبتاً چھوٹے ہیں اور 209 فٹ کے ہیں۔


تقریباً ساڑھے چار سو سالوں تک استنبول شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز اسی سلیمانیہ مسجد کو حاصل رہا-لیکن اگر  کو  ئ پرانا عثمانی طرزِ تعمیر دیکھنا  چاہے  تو اس  کو ترکی کے شہر بورصہ جانا پڑے گا جہاں کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی،جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی تھی اور آج بھی اس خوبصورت شہر کے مرکز میں پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں یورپ کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ یہ ایک صلیبی جنگ تھی جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔بہرحال، اس جامع مسجد کے چھوٹے بڑے کُل 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ مسجد 3 ہزار مربع میٹرز سے زیادہ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر