پیر، 19 مئی، 2025

جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی-حسہ دوم

  


 ہنستے ہنستے میں آس پاس بیٹھے ہوئے زائرین کو روندتا ہوا باہر بھاگ آیا۔‘اگلے روز ہاتھ جوڑ کر چندراوتی سے معافی مانگی لیکن وہ بدستور روٹھی رہی۔ اس پر ناک سے لکیریں نکالنے کا ڈرامہ رچایا، آشرم کے دروازے پر ایسی حرکت سے جگ ہنسائی کا خطرہ تھا اس لیے وہ مان گئی اور دونوں سائیکل پر لارنس گارڈن چلے گئے۔ اس روز چندراوتی کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس نے دو 3 بار شہاب کا سانس سونگھنے کی کوشش کی کہ کہیں نشہ تو نہیں کرنے لگا۔سائیکل کی سواری سے اس کا جی بھر گیا تھا۔ شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر اور لارنس گارڈن کی کشش ختم ہوگئی تھی۔ بیڈن روڈ کے دہی بھلوں اور گول گپوں کا شوق بھی پورا ہوگیا تھا۔ کامران کی بارہ دری میں اکٹھے بیٹھ کر گھنٹوں راوی کی لہریں گننے کا مشغلہ بھی دم توڑ گیا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر الجھنے لگی تھی۔ ایک روز وہ کسی دکان سے قمیص کا کپڑا خرید رہی تھی۔ شہاب نے رنگوں کے انتخاب پر کچھ بات کی تو وہ خریداری چھوڑ کر پیدل ہی آشرم کو لوٹ گئی۔ اگلے روز علم ہوا کہ اس نے آشرم چھوڑ دیا ہے اور وہ ایمن آباد چلی گئی تھی۔شہاب اس کے تعاقب میں بھاگم بھاگ ایمن آباد پہنچے


وہ ایک چٹائی پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی، نظریں سلائی پر گاڑے خاموشی سے مشین چلاتی رہی اور سر اوپر اٹھائے بغیر اس نے دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں کپڑے سی کر کچھ پیسے جمع کرے گی اور ستمبر میں ماتا کو لیکر گنگا اشنان کے لیے بنارس چلی جائے گی۔ پھر آدھا گھنٹہ دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر شہاب یہ کہہ کر چلا آیا کہ ‘اب میں جاتا ہوں پھر کسی روز آؤں گا۔‘ چندراوتی نے جلدی سے کہا ’اب چھٹیوں میں بالکل نہ آنا، میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘شہاب نے گرمیوں کی چھٹیوں میں 2 مہینے کے لیے کیمبل پور میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ منت سماجت کرکے 100 روپیہ پیشگی وصول کرلیا اور چندراوتی کی خدمت میں بھیج دیا۔ لکھا کہ سلائی مشین پر وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنے امتحان کی تیاری کریں، بنارس یاترا کے لیے 2 سو روپیہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن چند روز بعد منی آرڈر جوں کا توں واپس آ گیا۔ اگلے مہینے 2 سو روپے کا منی آرڈر بھیجا وہ بھی واپس آ گیا۔چھٹیاں ختم ہوتے ہی شہاب ایمن آباد گیا۔ وہ چارپائی پر بیمار پڑی تھی، اس کی ماں پاس بیٹھی پنکھا جھول رہی تھی۔ شہاب کو دیکھتے ہی چندراوتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور تنک کر بولی ’منی آرڈر کیوں کیا تھا؟ خود کیوں نہیں لائے؟‘۔ شہاب نے جواب دیا کہ ’خود کیسے لاتا؟ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چھٹیوں میں یہاں نہ آنا میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘ چندراوتی نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا ’ہائے رام، تم میری ہر بات کو سچ کیوں مان لیتے ہو؟‘۔چندراوتی نے بستر پر بیٹھے بیٹھے بیماری کی رام کہانی سنائی۔


ایک روز اسے ہلکی حرارت شروع ہوئی پھر کھانسی کے ساتھ تیز بخار ہو گیا۔ وید ٹھنڈے شربتوں سے علاج کرتا رہا لیکن کھانسی بڑھتی گئی، 21 دن بعد بھی بخار نہ ٹوٹا تو گوجرانوالہ میں سول سرجن کو دکھایا جس نے تپ دق تشخیص کی۔ ٹی بی کی خبر سن کر جگدیش چندر نے چندراوتی کی ماں کو گھریلو ملازمت سے نکال دیا۔ محلے والوں نے بھی ان کے ہاں آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ماں بیٹی سلائی مشین بیچ کر کھانا پینا اور دوا دارو کر رہی تھیں۔شہاب ہر دوسرے تیسرے دن ایمن آباد چلے جاتے تھے۔ سارا دن ماں بیٹی کے ساتھ تاش کھیلتے اور گپیں ہانکتے اور شام کو سائیکل پر لاہور آ جاتے۔ رفتہ رفتہ چندراوتی کی کھانسی کے دورے بڑھنے لگے تھے اور وہ بے سدھ ہو کر بستر پر گر جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر شہاب ایمن آباد آ گئے دن بھر چندراوتی کے پاس رہتے اور رات کو مقامی مسجد کے صحن میں سو جاتے تھے۔ایک دن چندراوتی کھانس رہی تھی تو پچکاری کی طرح منہ سے خون نکل آیا۔ اب نہ وہ اٹھ سکتی تھی، نہ بیٹھ سکتی تھی۔ چندراوتی کا حال دیکھ کر شہاب گوجرانوالہ کے سول سرجن کے پاس گئے، احوال سننے کے بعد بھی سرجن نے ایمن آباد آنے انکار کر دیا لیکن 16 روپے فیس لیکر نئے مکسچر کا نسخہ لکھ دیا۔ شہاب مسکچر بنوا کر ایمن آباد پہنچے تو چندراوتی دنیا چھوڑ چکی تھی۔شام گئے شمشان میں اڑھائی من سوکھی لکڑی کی چتا بنائی گئی۔ چندراوتی کو اس میں لٹا کر بہت سا گھی چھڑکا اور صندل کے چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے آگ دکھا دی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی جل کر راکھ ہو گئی جس نے کبھی شہاب کے ہاتھ کا چھوا پانی تک نہ پیا تھا۔ چندراوتی کی ماں نے لالٹین کی مدھم روشنی میں بیٹی کے پھول چنے اور راکھ پوٹلی میں باندھ لی۔ شہاب نے سائیکل بیچ کر چندراوتی کی ماں کو بیٹی کے ’پھول‘ گنگا میں بہانے کے لیے بنارس جانے والی گاڑی میں سوار کرا دیا تھا۔لاہور ریلوے سٹیشن سے ٹرین روانہ ہوئی تو اس کی پچھلی سرخ بتی دور تک اندھیرے میں خون آلود جگنو کی طرح ٹمٹماتی رہی۔ شہاب کئی روز تک دن رات ان شاہراہوں پر پا پیادہ گھومتے رہے جہاں وہ سائیکل پر چندراوتی کو گھماتے تھے۔ چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے جب مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تو گورنمنٹ کالج کے لان میں پہلا افسانہ لکھنے بیٹھ گئے۔ افسانے کا عنوان تھا ’چندراوتی‘ اور اس کا پہلا جملہ تھا 

’جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘

1 تبصرہ:

  1. افسانہ ہے یا واقعئ قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی جو طھی دل کو چھو لینے والی تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر