کیا کوئ کہ سکتا ہے کہ پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاست بہاول پور آج پاکستان کا دھول اڑاتا بہاول پور ہے -آج دنیا کی جدید سہولتوں سے آراستہ شہروں کے مقابلے میں یہاں کا نوجوان محرومی کا شکار ہے-آئیے ماضی کی اس پر شکوہ ریاست کا احوال جاننے کے لئے اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں -ریاست بہاول پور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ، اللہ آباد اس کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ قبلِ ازیں1258ء میں مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔
نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں رجسٹرار، پنجاب یونی ورسٹی، ڈاکٹر وُلز نے بہ طورِ خاص بہاول پور آکر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ 1935ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایک امدادی ٹرین کوئٹہ روانہ کی اور اسی سال فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً ایک سو افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔
سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹرکاریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بہ طور تحفہ دے دیں۔ مسجدِ نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے اور اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا شمار اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ریاست میں ماہرینِ علم وفن، ادبا، شعراء اور علماء کی قدردانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرشیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) 1942ء سے 1946ء تک بغداد، الجدید ہائی کورٹ، بہاول پورکے چیف جسٹس رہے۔ ابوالاثر حفیظؔ جالندھری بہ طور درباری شاعر، بہاول پور میں طویل عرصے ملازم رہے۔1943ء میں نواب سر صادق کی سرپرستی اور سر عبدالقادر کی صدارت میں صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں برصغیر کے طول و عرض سے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کی۔ نواب سر صادق کے مطابق، دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ نے پہلی بار سرائیکی کے قادر الکلام صوفی شاعر، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمے اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں شایع کیا۔ ریاست کے طول و عرض میں موجود بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزارات کی تعمیر اور مرمّت کی گئی۔ 1950ء میں صادق ایجرٹن کالج میں عالمی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے سائنس دانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ایک سائنسی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجراء کیا گیا۔
اسی سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ بہاول پورمیں ترویجِ اسلام کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا، اس حوالے سے اُس وقت کے حکمراں، اسلامی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند تھے،بلکہ شہریوں کو بھی خصوصی مراعات دیتے تھے۔ حج کے موقعے پر حاجیوں کوتین ماہ کی چھٹی مع ایڈوانس تن خواہ دی جاتی۔ بہاول پور حکومت کی طرف سے مکّے اور مدینے میں سرائے موجود تھیں، جہاں بہاول پور کے حجاج کے لیے مفت رہائش اور خوراک کا انتظام ہوتا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام مساجد میں حکومت کی طرف سے مرمّت اور سفیدی کروائی جاتی۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی اپنے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق حاصل تھے۔ دورانِ تعلیم وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اورنابالغ بچّوں کی کفالت کے لیے پینشن مقرر کی جاتی ۔
بہاول پور اور ڈیرہ نواب صاحب میں قائم یتیم خانے میں مفت رہائش اور خوراک کے علاوہ ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ اردو اور سرائیکی کے معروف شاعر اور ادیب، پروفیسر عطا محمد دلشاد کلانچوی، ٹیکنیکل ہائی اسکول کے سابق پرنسپل، عبدالقادر جوہرؔ اور متعدد مشاہیر نے اسی یتیم خانے میں پرورش پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی وزارت قائم کرکے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقے سے آباد کیا گیا-تقسیم برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سرصادق کو خصوصی آفر کی گئی کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیں، تو نواب صاحب نے اس موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا کہ’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان اور پچھلا ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدروفت پسند کرتا ہے