ہفتہ، 7 اکتوبر، 2023

حمّا س اور اسرائیل-یہ دن تو آنا تھا

 دونوں جانب لاوہ بہت دنوں سے پک رہاتھا-خاص طور پر غزّہ سے برسہا برس سے آباد فلسطینیوں کے گھر مسمار کر کے ان کی جبری بےدخلی اور اسرائیل کے دیگر مظالم -لیکن دیکھئے لڑائ کہیں بھی ہو اس کے اسباب بھی کیا ہوں لیکن نقصان تو صرف عام عوام کا ہوتا ہے   اب ایک جانب اسرائیل  کے جیٹ طیاروں نے حماس کے فوجی اہداف کے طور پر بیان کردہ دو عمارتوں پر حملہ کر کےعمارتوں کو نشانہ بنایا ہے، ان حملوں میں غزہ میں کم از کم 232 افراد ہلاک اور دیگر 1,697 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر دی ہے اوراسرائیل کے اندر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہےحماس یروشلم اور مغربی کنارے میں مسجد الاقصی پر اسرائیل کے حالیہ اقدامات پر اسرائیل پر اپنے بے مثال حملے کا الزام لگا رہی ہے۔ لیکن اسرائیل کی اتحادی حکومت ایک سال سے زائد عرصے سے فلسطینی انتہا پسندوں اور بڑھتے ہوئے فلسطینی دہشت گرد حملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ماہ این بی سی نیوز کے لیسٹر ہولٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم اپنے علاقائی ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان کسی بھی دوطرفہ تعلقات کے خلاف ہیں،" اسرائیل کے حوالے سے۔ رئیسی نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صیہونی حکومت خطے میں اپنے لیے سلامتی پیدا کرنے کے لیے علاقائی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔حالیہ ہفتوں میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارت کاروں نے این بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن سبھی نے اس معاہدے کی حمایت کا اظہار کیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لے گا۔ . اگرچہ تینوں فریقوں کے پاس ایسے معاہدے کے لیے پیچیدہ شرائط ہیں۔اہدے کے لیے پیچیدہ شرائط ہیں۔

 ادھرشہزادہ بن محمد سلمان، ماضی کے سعودی حکمرانوں کے برعکس، یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ اس سے سعودی عرب کو وسیع اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ لیکن سعودی چاہتے ہیں کہ امریکہ سویلین نیوکلیئر پروگرام تیار کرنے میں ان کی مدد کرے، جس کی نیتن یاہو کے اتحاد کے سخت دائیں بازو کے ارکان اور امریکی سینیٹ کے ارکان نے مخالفت کی، جس کے لیے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کو منظور کرنا ہوگا۔علیحدہ طور پر، جب وہ گزشتہ ماہ نیویارک میں ملے تھے، صدر بائیڈن نے نیتن یاہو سے کہا تھا کہ کسی بھی معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے زمین کو شامل کرنا ہو گا تاکہ وہ ایک قابل عمل ریاست قائم کر سکیں، جس میں نیتن یاہو کی مغربی کنارے میں جاری آبادکاری کی توسیع کو روکا جائے گا۔ پچھلے ہفتے سینیٹرز کے ایک دو طرفہ گروپ نے وائٹ ہاؤس کو لکھے گئے ایک خط میں انہی خدشات کا اظہار کیا تھا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ دوسری عرب ریاستوں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس طرح کے معاہدوں کی ایک سیریز سے اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان 1948 کی دہائیوں کی دشمنی ختم ہو جائے گی۔ آج کے حماس کے حملے سے پہلے، یہ اطلاعات تھیں کہ سعودی عرب نے وائٹ ہاؤس کو کہا تھا کہ وہ ایک معاہدے کو مضبوط کرنے میں مدد کے لیے اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے گا۔ بائیڈن وائٹ ہاؤس نے دو سال کی مہلت مانگی ہے۔7 اکتوبر 2023، شام 6:26 EDT کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے آج علی الصبح اسرائیل پر ایک حیرت انگیز اور بے مثال حملہ شروع کیا، ایک کثیر محاذی گھات لگا کر حملہ کیا جس میں کچھ سوالات ہیں کہ اسرائیل کی مضبوط انٹیلی جنس کس طرح بے خبر پکڑی گئی-اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملک حماس کے ساتھ جنگ میں ہے اور مسلح افواج کو بڑھانے کے لیے ریزروسٹ کو بلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا، "دشمن کو وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کا اسے پہلے کبھی علم نہیں تھا۔" اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ 200 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

 غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ جوابی اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 232 افراد مارے گئے۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ حماس کے جنگجوؤں نے متعدد شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے، آپریشن شروع ہونے کے کئی گھنٹے بعد جنوبی اسرائیل میں لڑائی جاری ہےصدر جو بائیڈن نے اسے "حماس کے دہشت گردوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف خوفناک حملہ" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ "اسرائیل کو اپنے اور اپنے لوگوں کے دفاع کا حق حاصل ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کی سلامتی کے لیے میری انتظامیہ کی حمایت ٹھوس اور غیر متزلزل ہے۔"یہ خونریزی گذشتہ برسوں میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں سب سے نمایاں اضافہ ہے۔یونیسیف نے دشمنی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ڈینس رومیرو-اقوام متحدہ کے بچوں کی وکالت کرنے والے گروپ، یونیسی نے حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے جنگ کے اعتراف کے بعد فوری طور پر لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔


منگل، 3 اکتوبر، 2023

دنیا کی تاریخ میں زلزلے


 کافی دنوں پہلے کا زکر ہے جب میرا کراچی کے ساحل سینڈز پٹ پر جانا ہوا تو میں نے دیکھاکہ سمندر کے اندر ڈھلان میں پانی کی جانب سینکڑوں انسانی پیروں کے بہت بڑے بڑے نشان جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے میں وہیں ٹہر گئ اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ تو آتش فشاں کا لاوہ ہے جو سمندر کی جانب بہتا ہوا گیا ہے -وہ تمام جگہ کا لے چٹانی حصّہ پر مشتمل تھی -خیر پکنک ختم ہو گئ سب ہی اپنے اپنے گھر لوٹ آئے-اس زمانے میں کمپیوٹر تو تھا نہیں جو گوگل کر لیتے -میں نے گھر میں تذکرہ کیا تو میرے شوہر نے مجھے کے ایم سی کا کتابچہ لا کر دیا جس میں کراچی میں آنے والے زلزلوں کی ہسٹری موجود تھی-تب مجھےمعلوم ہوا کہ کراچی بھی زلزلوں کی اپنی تاریخ رکھتا ہے اب آئیے دنیا کی تاریخ میں زلزلوں کی ریکارڈ دیکھتے ہیں- دنیا  کی تاریخ میں  قدیم ترین زلزلہ کب اور کہاں آیا، یہ تو وثوق سے نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ پہلا زلزلہ جو انسان نے اپنی تحریر میں ریکارڈ کیا تقریباً تین ہزار برس قبل 1177 قبل مسیح میں چین میں آیا تھا۔ اس کے بعد قدیم ترین ریکارڈ 580 قبل مسیح میں یورپ اور 464 قبل مسیح میں یونان کے شہر اسپارٹا کے زلزلے کا ملتا ہے۔ مورخین کا خیال ہے یہ زلزلہ اسپارٹا اور ایتھنس کے درمیان لڑی جانے والی پولینیشین جنگ کے دور میں آیا تھا۔پورے شہر کو ملیا میٹ کردینے والا زلزلہ 226 قبل مسیح یونان کے جزیرے رہوڈس میں آیا تھا۔ جس نے یہاں کے شہر کیمر یوس کو نیست و نابود کر دیا اور ساتھ ہی اس شہر کے ساحل پر نصب عظیم الشان مجسمہ ہیلوس بھی تباہ ہو گیا جس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے۔

63 عیسوی میں اٹلی کے شہر پومپائی میں زبردست زلزلہ آیا جس سے اس کی تمام عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ پھر اس شہر کی ازسِر نو تعمیر میں 16 سال لگ گئے مگر 24 اگست، 79ءیہاں دوبارہ زلزلہ آیا اور اس شہر کے پہاڑ کوہ وسیوس کا آتش فشاں پھٹ پڑا چنانچہ پومپائی اور ہرکولینم شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق تقریباً 25 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔365ءمیں یونان کے جزیرہ کریٹ میں زلزلہ آیا جس سے اس کا شہر کنوسس کُل 50 ہزار نفوس کے ساتھ برباد ہو گیا۔ اس زلزلے کی شدت کا اندازہ 8.1 میگنیٹیوڈ لگایا گیا ہے۔ تاریخ میں اسی سال لیبیا کے شہر سیرین Cyrene میں بھی ایک زلزلہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

20 مئی، 526ء کو شام کے شہر انطاکیہ Antiochia میں خوفناک زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ 844ء میں دمشق شہر میں شدید زلزلہ آیا جس سے تقریباً 50 ہزار جانیں ضائع ہوئیں، ماہرین کا خیال ہے کہ ریکٹر اسکیل کے مطابق اس کی شدت 6.5 رہی ہوگی۔ 847ء میں دمشق میں دوبارہ زلزلہ آیا۔ 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً نصف شہر تباہ ہو گیا، سائنسدن اس زلزلہ کی شدّت 7.3 میگنیٹیوڈ سے زیادہ بتاتے ہیں۔ اسی سال عراق کے شہر موصل میں بھی زلزلہ آیا جس سے 50 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ 22 دسمبر، 856ءکو ایران میں زلزلے سے تباہی ہوئی جس سے دمغان اور قومیس شہر کو نقصان پہنچا اور کُل دو لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی سال یونان کے شہر کورنتھ میں بھی زلزلے سے 45 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔

893ء میں تاریخ کے تین بڑے زلزلے آئے۔ ایک کائوکاسس Caucasus شہر میں جس سے 84 ہزار نفوس ہلاک ہوئے،دوسرا ایران کے شہر ارادبِل میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں اور تیسرا زلزلہ ہندوستان میں وادی سندھ کے قدیم شہر دے پور Daipur یعنی دیبل میں آیا اور تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تاریخ ابن کثیر میں تحریر ہے کہ اُس وقت سندھ پر عبد اﷲ بن عمر ہباری کی حکومت تھی جو خلیفہ بغداد معتضد باﷲ کی جانب سے مقرر کردہ تھے۔ یہ زلزلہ 14 شوال 280 ہجری میں برپا ہوا اور اس دوران چاند گرہن اور تیز آندھی کے آثار بھی روایتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ ابن کثیر کے مطابق نصف شب یکے بعد دیگرے پانچ زلزلے آئے اور بمشکل سو مکان ہی سلامت رہ سکے۔ طبری اور ابن کثیر نے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار بتائی ہے۔

گیارہویں صدی عیسوی کے دوران 1036ء میں چین کے شہر شانکسی میں زلزلہ سے 23 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1042ء میں شام میں تبریز، پالرا اور بعلبک کے مقام پر زلزلے سے 50 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور تبریز شہر کی نصف آبادی ختم ہو گئی۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ زلزلہ 7.3 میگنیٹیوڈ کی شدّت کا رہا ہوگا۔ 1057ء میں چین کے شہر چیہلی Chihli میں 25 ہزار افراد زلزلے کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔بارہویں صدی عیسوی کے سال 1138ء میں شام میں گنزہ Ganzah اور الیپو Aleppo کے مقام پر خوفناک زلزلہ آیا اور تقریباً 2 لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے، اس کی شدّت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر 8.1 میگنیٹیوڈ کے برابر لگایا گیا ہے۔ 1156ء اور 1157ء کے دوران بھی شام میں زبردست زلزلے سے تیرہ شہر برباد ہو گئے۔ 1169ءمیں شام میں شدید زلزلہ آیا اور کُل 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ 1170ء میں سسلی میں زلزلے سے 15 ہزار افراد موت کا شکار ہوئے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں 5 جولائی 1201ءکے دوران بالائی مصر اور شام میں تاریخ کا بدترین زلزلہ برپا ہوا جس میں کُل گیارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ 1268ءمیں ترکی کے شہر اناطولیہ اور سلسیہ Cilcia میں زلزلے سے 60 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ 27 ستمبر 1290ءچیہلی (چین) میں 6.7 میگنیٹیوڈ کا زلزلہ آیا جس سے ایک لاکھ انسانوں کی اموات ہوئیں۔ اس کے تین سال بعد 20 مئی 1293ءمیں جاپان کے شہر کاماکورا میں آنے والے زلزلہ سے تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔چودھویں اور سترھویں صدی کے دوران 6 بڑے زلزلے آئے۔ 18 اکتوبر 1356ءمیں سوئٹرزلینڈ کے علاقے باسِل میں زلزلے سے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی تاریخ کا سب سے قدیم ترین زلزلہ 1471ءمیں پیرو میں آیا تھا۔ مگر اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ 26 جنوری1531ءمیں پُرتگال کے علاقے لِسبن میں زلزلے سے تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تاریخ کا دوسرا بڑا زلزلہ 23 جنوری 1556ءکو شانکسی (چین) میں آیا، جس سے 8 لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ نومبر 1667ءمیں شماکھا (آذربائیجان) 80 ہزار افراد زلزلے سے جاں بحق ہوئے۔ 17 اگست 1668ءمیں اناطولیہ (ترکی) میں زلزلے سے 8 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔

اٹھارہویں صدی میں تقریباً 13 بڑے زلزلے آئے۔ 26 جنوری 1700ءمیں امریکا کی پلیٹ کاسکاڈیا میں حرکت کی وجہ سے زلزلہ آیا جس کا اثر نارتھ کیلیفورنیا سے وان کودر آئی لینڈ تک پہنچا۔ یہ زلزلہ 9 میگنیٹیوڈ کا تھا۔ 1703ءمیں جاپان کے شہر جے ڈو Jeddo میں زلزلہ سے ایک لاکھ 90 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1707ءمیں جاپان میں زیرِسمندر زلزلہ ”سونامی“ آیا جس سے تیس ہزار افراد کی اموات ہوئیں۔ 30 ستمبر 1730ءکو جاپان کے ہوکائیڈو آئی لینڈ کے ایک لاکھ 37 ہزار افراد زلزلہ کی زد میں آئے 

-----

اس مضمون میں وکیپیڈیا سے میں نے مدد لی ہے

منگل، 26 ستمبر، 2023

سورہ الفاتحہ- پورے قران کا خلاصہ

 

 

سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں ۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے ۔اس کا  نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا ومناجات ہے جوبندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے ۔اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہےیہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔

ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ) 4۔النساء:69) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔  قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے سورہ فاتحہ‘ چونکہ اس سورہ سے قرآن حکیم کا افتتاح ہوتا ہے اس لیے یہ سورہ فاتحہ کہلاتی ہے۔ اس کا پورا نام ” فاتحہ الکتاب“ یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی سورہ ہے اس سورہ کو افضل القرآن کا نام بھی دیا گیا ہے اور یہ نام اس کی عظمت و رفعت پر دلالت کرتا ہے۔

 اس کے علاوہ احادیث میں بھی اس سورہ کے 30 نام اور بھی مذکور ہوئے ہیں اور شاید قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے۔ اس کا ایک نام ام القرآن ہے۔ اسے ام القرآن اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سورہ قرآن حکیم کے تمام مضامین کا نچوڑ ہے اور تمام روحانی عقائد کی بنیاد ہے۔ بعض علماءنے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ متن ہے اور پورا قرآن اس متن کی شرح ہے۔ اس سورہ کو ”سورہ الشفا“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ مختلف بیماریوں کیلئے وجہ شفا ثابت ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ کسی شخص کو سانپ نے کاٹ لیا۔ حضرت ابوسعید خدری نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ تفسیر بیضاوی میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ تمام جسمانی بیماریوں کیلئے شفاءہے۔ اس سورہ کا ایک نام ”کافیہ“ بھی ہے۔ یہ سورہ ایک مومن کیلئے ہر اعتبار سے کافی ہے۔

 یہ سورہ دوسروں کی محتاجی سے روکتی ہے۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور بقیہ تمام قرآن فاتحہ کے علاوہ ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھدیں تو سورہ فاتحہ کا وزن سات قرآنوں کے برابر ہوگا۔ (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر عزیزی) اس سورہ کا ایک نام ”کنز“ بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عرش الٰہی کے خصوصی خزانوں میں سے عطاءکی گئی ہے۔ صوفیاءسے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں موجود ہے اور جو کچھ قرآن حکیم میں ہے۔ اس کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے اس کا خلاصہ بسم اللہ میں ہے۔ اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ‘تمام قرآن میں سے صرف اسی صورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔ اتنے اوصاف والی قرآن کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ اس سورت کے ناموں میں سے سورہ الحمد اور سورۃ الحمدللہ رب العالمین بھی ہے۔

 ( بخاری و دار قطنی ) اس لئے کہ اس میں اصولی طور پر خدائے تعالی کی تمام محامد مہمہ مذکور ہیں اور اس کو الشفاء و الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ سنن دارمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے ( دارمی ‘ رضی اللہ عنہ 430 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابی نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی ( بخاری ) ان ناموں کے علاوہ اور بھی اس سورۃ شریفہ کے کئی ایک نام ہیں مثلاالکنز ( خزانہ ) الاساس بنیادی سورہ الکافیہ ( کافی وافی ) الشافیہ ( ہر بیماری کے لئے شفاء ) الوافیہ ( کافی وافی ) الشکر ( شکر ) الدعاء ( دعا ) تعلیم المسئلہ اللہ سے سوال کرنے کے آداب سکھانے والی سورت ) المنا جاۃ ( اللہ سے دعا ) التفویض ( جس میںبندہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ) اور بھی اس کے کئی ایک نام مذکور ہیں یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اعطیت فاتحۃالکتاب من تحت العرش ( الحصن ) یعنی یہ وہ سورت ہے جسے میں عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دیا گیا ہوں جس کی مثال کوئی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن میں یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے عطاہوئی 

ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ

  ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کے گوشے گوشے کو اپنی قدرت کے بیش بہا خزانے عطا کئے ہیں لیکن یہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ ان کو حکومت کی جانب سے کوئ بھی ریلیف نہیں ملتا نتیجہ میں وہ اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔جس کی ایک اندوہناک  مثال  جنوری کے مہینہ کی آخری تاریخوں  میں ہونے والا تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں 29 جنوری کو کشتی حادثے کا شکار ہو  گئ   خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں شکار ہونے والے  تمام بچو ں کی ۵۲میتوں  کو پانی سے نکال لیا گیا  جبکہ چھ افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق کشتی میں کل 58 افراد سوار تھے بعض حادثات انسان کی اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں مزید نقصانات سے بچنے اور ان کے سدبا  ب اور  حادثات کے اسباب و عوامل کا تعین کرناضروری ہوتا ہے ایسا نہ کرنا مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کے زمرے میں آتاہے ۔

ا یسی ہی غفلت کا مظاہرہ شہر کوہاٹ نے چندروز قبل29 جنوری کی صبح شہر کے جنوب مغرب میں واقع واحد تفریحی مقام تاندہ ڈیم کے مقام پر ایک دلخراش سانحے کی صورت میں دیکھاجوگنجائش سے زیادہ بچوں کو ایک کشتی میں بٹھانے بلکہ لادنے کی وجہ سے رونما ہو ا۔ اس روز ایک مقامی مدرسے کا مہتمم مدرسے کے امتحانات ختم ہونے پر بچوں کو سیر کی غرض سے ڈیم کی دوسری جانب واقع ایک چھوٹے سے جزیرے پر لے جا رہاتھا۔ سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں -حادثے کے بعد دو دن تک نہ تو مدرسہ اور نہ ہی پولیس ناموں کی مکمل فہرست جاری کرسکی تھی۔ دوسری جانب عوام اس بات پر بھی برہم دکھائی دیے کہ آخر ضلعی انتظامیہ یا کسی محکمے نے تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں ایک ماہی گیروں کی اور دوسری حادثے کا شکار ہونے والی حفیظ اللہ ملاح کی تھی، جو کا فی عرصے سے یہاں کشتی چلا کر گزر بسر کر رہے تھے۔

عمر رسیدہ حفیظ اللہ خود بھی  اس حادثے کا شکار ہوئے-حادثے کا شکار ہونے سے قبل کشتی کم وبیش سترہ بچوں کوپکنک کے سامان اور لوازمات سمیت مذکورہ جزیرے پر بحفاظت چھوڑ کر باقی بچوں کو لینے واپس آئی اور مہتمم مدرسہ کی نگرانی میں ایک ایسی کشتی جس میں سیفٹی معیار کے مطابق آ ٹھ سے دس بالغ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اس میںساٹھ کے قریب بچوں کو بٹھا دیا گیا۔ابھی بمشکل آدھا ہی سفر طے ہوا تھا کہ بدقسمت بچوں سے لدی کشتی اچانک الٹ گئی اور ملاح سمیت کشتی میں سوار تمام بچے ڈیم کے منفی ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں گر گئے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندا ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل منگل کو بھی جاری ہے اورڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔  کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں بیشتر افراد اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔جب انھیں تاندہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملی تو وہ بھی موقع پر پہنچے اور پانی سے بچوں کو نکالنے کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔وہ چھ، سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔الٹنے والی کشتی یں شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھتیجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ماہر تیراک جس کے اپنے بچے بھی پانی کی نذر ہو گئےشاہ محمود چھ سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے تب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔

شاہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام  میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 امواتشاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں۔شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے  بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔ پہلے روز جب  یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے۔

شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں مگر ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں کہ اسے تسلی ہو‘تاندہ ڈیم پر سرچ آپریشن پر نظر رکھے کئی بچوں کے والد اور بھائی بے چین نظر ائے۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہاں بڑی تعداد میں مقامی لوگ پہنچ گئے تھے ۔دولت خان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے اس کشتی میں سوار تھے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے۔دولت خان کہہ رہے تھے کہ ’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے لیکن ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں تاکہ اسے تسلی ہو کیونکہ وہ تو ایسی ہے کہ نہ زندہ ہے اور نا ہی مردہ ہے بس بچوں کو یاد کر رہی ہے۔‘دولت خان کے ساتھ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر مکمل خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ چھ سال کے تھے جب سے وہ اس ڈیم میں تیراکی کرتے آئے ہیںانھوں نے بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس ڈیم کے نیچے کہاں ریت ہے، کہاں مٹی ہے اور کہاں جھاڑیاں ہیں اس لیے انھیں اجازت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو نکال سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن 18 بچوں کو نکالا گیا ہے وہ سب مقامی لوگوں نے نکالا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں۔پروفیسر مکمل خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں میں ماتم ہے، خواتین سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ انھیں یہ امید ہے کہ بچے ڈیم سے زندہ نکل آئیں گے اور اسی امید پر وہ جی رہے ہیں۔‘سلمان تالاب گاؤں  کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے‘-کم از کم میں اس حادثہ کا تجزیہ کرتے ہوءے سوچ رہی ہوں کہ  جنوری کے مہینہ میں پانی کی پکنک ہونی ہی نہیں چاہئے تھی -والدین کو اس پکنک کی شدید مخالفت کرنی چاہئے تھی کہ موسم کے بہتر ہونے پر وہ اپنے بچوں کو پکنک پر بھیجیں گے-انتہائ ناقص کشتی پر گنجائش سے کہیں زیادہ  بچے کشتی میں بٹھائے گئے اور کسی کو لائف جیکٹ بھی نہیں پہنائ گئ -اللہ پاک ہمارے سماج کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے آمین


جمعہ، 22 ستمبر، 2023

پیارا پاکستان ۔ تہذیب، ثقافت اورمرکز سیاحت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے  ہیں - دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ ۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ ۔ 

بلوچستان کی ثقافت-کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔ہے۔پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

آج پاکستان میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پختون،سرائیکی اور بلتی سمیت کتنے ثقافتی رنگ ایسے ہیں جو مقامی ہیں اور بہت سے رنگ مہاجر پاکستانی لائے ہیں۔اسی تنوع سے وہ ثقافتی یک رنگی وجود میں آتی ہے جسے پاکستانی ثقافت کہتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ثقافت دراصل اس خطے کی اجتماعی ثقافت کا نام ہے۔اب اگر ہم 14اگست 1947 سے پاکستان کی تاریخ کا آغاز کریںتودراصل یہ ایک عظیم ثقافتی تاریخ کا احیا ہے جو صدیوں پر محیط ہے اورپاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نیا ہونے کے باجود قدیم ترین تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔اس لئے آج ہمیں مصنوعی طورپرکوئی ثقافت پیدا کر نے کی ضرورت نہیں۔تاہم اس پس منظر کے ساتھ،پاکستان ایک نئی شناخت بھی ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ثقافتی رنگا رنگی کو اس طرح ہم رنگ بنائیں کہ وہ قدیم ہونے کے باجود جدید بھی ہو۔یہ کام اگرچہ فطری طور پر ہو تا ہے لیکن اس فطری مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،اگر کوئی شعوری کوشش کی جائے تو اس میں نیا پن پیدا کیاجا سکتا ہے عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ،

 یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔

 ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے ۔ دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔ 

پیر، 18 ستمبر، 2023

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ-باد صبا کا نر م جھونکا

بہت دنوں کے بعد پاکستان کی  گرم اور مسموم سیاسی فضاؤ ں سے ایک نرم  ہوا کے جھونکے نے دل کو چھوا ہے اور بہت 'بہت پیاری خبر پڑھنے کو اور ا حباب سے سننے کو ملی ہے کہ  عدالت عالیہ کی سپریم  کرسی پر براجمان ہو نے والے نئے محترم  چیف جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سنئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا، صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس نے حلف لیا-تقریب کے بعد صد رمملکت عارف علوی نے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ،صدر عارف علوی ،نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی اورعہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اتوار کے روز ایوان صدر میں چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب کے بعد صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے نئے چیف جسٹس کے لئے استقبالیہ دیا گیا جس میں نگران وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی ،صدر مملکت عارف علوی ،نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی ،قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد باد دی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خوشگوار موڈ میں ان سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور مبارک باد پر ان کا شکریہ ادا کیا ،صدر عارف علوی نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف ،چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس پاکستان کا منصب سنبھالنے پر مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اب عدل کے ایوانوں میں عدل کی روایات کا ڈنکا بجے گا ،عدل آئین، قانون اور ضابطوں کی پاسداری سے ہی ممکن ہے ،عوام عدل وانصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں ،امید ہے کہ دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا،دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہوں، آمین سابق وزیر اعظم نے نئے چیف جسٹس پاکستان کے لئے نیک تمناوں کا اظہارکیاہے۔

آئیے کچھ نئے چیف جسٹس کا مختصر تعارف ہو جائے۔

، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے. ان کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے اے اوراو لیول مکمل کیا جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول آف لاء سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا. چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے. تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے. اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا. 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا-

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز  میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے.  حلف برداری کی اس تقریب میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘۔انھوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی ہے اور ملک کھو سکتے ہیں‘اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُنھوں نے بطور وکیل 1991 میں ایک مضمون میں سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ان کے مطابق اس خبرنامے میں اس وقت کے وزیر داخلہ کے اپوزیشن لیڈر پر الزامات ٹی وی پر دکھائے گئے لیکن اپوزیشن لیڈر کا جواب نہیں دکھایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں اور رپورٹس کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجات میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 139 نمبر تھا جو 2019 میں 142 نمبر پر پہنچ گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت کی ریڑ کی ہڈی ہے، آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور کرپشن کو آشکار کرتی ہے‘۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ان پر تنقید ہو تو وہ برا نہیں مانتے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے کتاب لکھی تھی اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ناانصافی اور بدعنوانی کو سامنے لایا جائے

 یہاں یہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر گئ کہ چیف جسٹس نے پو لیس کی جانب سے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا  تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ   اپنی ذاتی گاڑی میں  پہنچے،عدالت پہنچنے پر عملے سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کا بہت شکریہ ، آپ لوگوں کا بہت سا تعاون چاہیے ، آج میری میٹنگز اور فل کورٹ ہے،آپ لوگوں سے تفصیلی ملوں گا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ لوگ سپریم کورٹ خوشی سے نہیں آتے،لوگ اپنے مسائل ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ آ تے ہیں,آنے والے لوگوں سے آپ لوگ مہمان جیسا سلوک کریں  . چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا. جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ میں 184 تین کے اختیارات اور بنچز کی تشکیل کے معاملے پر حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عملدرآمد نہ کرنے اور حکم امتناع دینے پر بطور احتجاج پچھلے پانچ ماہ سے کوئی مقدمہ نہیں سنا اور چیمبر ورک کرتے رہے. جسٹس قاضی فائزعیسی اپنے بعض اہم فیصلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جن میں میموگیٹ کمیشن ، سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن 2016، آرٹیکل 183 تین کی تجدید کا معاملہ 2018، فیض آباد دھرنا فیصلہ 2019 ، پی سی اوججزکیس اور ان کیخلاف صدارتی ریفرنس بھی شامل ہیں.میں بحیثیت ایک پاکستانی کے  دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت  جناب قاضی فائز عیسیٰ کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے  آمین


ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

میں مرنے والا ہوں پلیز!

  ہاتھی ایک معزز مرتبہ والا انسان تھا لیکن اللہ کی نافرمانی کے سبب ہاتھی بنا دیا گیا -اللہ کی نافرمان قوم بارہ ہزار کی تعداد میں تھے جو بندر بنادئے گئے  لیکن عذاب کی اس شکل سے پہلے وہ تین بار سنبھلنے کا موقع دیتا ہے-دراصل گناہ انسان کی سرشت میں ہے لیکن یہی گناہ گار انسان جب اللہ کی بارگاہ میں لوٹ آتا ہے تو وہی رب اس گرے ہوئے انسان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے-کیا مہک بخاری اور اس کی ماں کو اللہ کریم نے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا ہوگا -برطانیہ کے شہر لیسٹر میں عدالت نے دو نوجوانوں کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے جرم میں ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت چار افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے جبکہ دیگر تین افراد کو غیر ارادی قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس کیس پر کورٹ روم سے رپورٹنگ کرنے والی بی بی سی کی نامہ نگار ایملی اینڈرسن نے بتایا ہے کہ مہک اور عنصرین دونوں نے سپاٹ چہروں کے ساتھ سزا سنی اور سزا سننے کے بعد مہک بخاری نے اپنے والد کو دور سے ہی بوسہ دیا اور ان سے کہا کہ میں ’مجھے کال کریں۔‘جمعے کو اس کیس کی کارروائی کے آغاز پر وکیلِ استغاثہ کالنگ وڈ تھامسن نے قتل کیے جانے والے 21 سالہ ثاقب حسین کے اہلخانہ کے بیانات پڑھ کر سنائے جس کے بعد دوسرے مقتول ہاشم اعجاز الدین کے اہلخانہ کی جانب سے بیانات پیش کیے گئے۔

اگست 2023 کے آغاز میں مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت سات افراد کو عدالت نے 21 سالہ ثاقب اور ہاشم کو فروری 2022 میں منصوبہ بندی کے تحت سڑک کے حادثے میں ہلاک کروانے کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔جیوری نے مہک اور ان کی والدہ کے علاوہ ریحان کاروان اور رئیس جمال نامی ملزمان کو بھی قتل میں ملوث قرار دیا تھا جبکہ برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 23 سال کی نتاشا اختر، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ امیر جمال اور 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ کو قتل کے الزام سے تو بری کر دیا تاہم انھیں غیر ارادی قتل میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔پینتالیس سال کی عنصرین بخاری اور ان کی بیٹی مہک بخاری کو جیوری نے 28 گھنٹے کی مشاورت کے بعد مجرم قرار دیا تھا اور جس وقت جیوری کی جانب سے فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو 24 سالہ ٹک ٹاک انفلوئنسر اور ان کی والدہ رونے لگی تھین ۔اس کیس کی سماعت کے دوران لیسٹر کراؤن کورٹ میں جیوری کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین نے عنصرین بخاری کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر کو عام کر کے ان دونوں کے افیئر کے بارے میں سب کو بتا دیں گے۔مہک بخاری کے ٹک ٹاک پر تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار فالوورز ہیں اور وہ فیشن سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں۔ تین مہینے کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات بتائی گئی کہ مہک بخاری نے ثاقب حسین کے لیے ’جال تیار کیا۔‘استغاثہ کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین کو عنصرین بخاری سے ملاقات کا ’لالچ‘ دے کر بلایا گیا۔ انھیں یہ کہا گیا کہ انھوں نے جو تین ہزار پاؤنڈ اپنی معشوقہ پر خرچ کیے تھے وہ انھیں واپس دیے جائیں گے۔ثاقب حسین کو ان کے دوست ہاشم اعجاز الدین گاڑی چلا کر لیسٹر اس ملاقات کے لیے لے کر جا رہے تھے جب دو گاڑیوں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ 11 فروری 2022 کو ہاشم اعجاز الدین کی گاڑی ایک درخت کے ساتھ ٹکرا کر دو ٹکروں میں بٹ گئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ریحان کاروان اور رئیس جمال تعاقب کرنے والی گاڑیاں چلا رہے تھے۔جیوری کو حادثے سے چند لمحے پہلے ثاقب حسین کی طرف سے پولیس کو کی گئی کال کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی تھی۔

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں پر ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں ’وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ لوگ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین اور مہک کی والدہ عنصرین بخاری کے درمیان معاشقے کا آغاز 2019 میں ہوا اور یہ تعلق جنوری 2022 میں ختم ہوگیا تھا۔استغاثہ کے وکیل کولن وڈ تھامپسن نے بتایا کہ ثاقب کے پاس عنصرین کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر تھیں اور تعلقات ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ بار بار عنصرین سے رابطہ کرتا رہا۔اس مقدمہ میں سوشل میڈیا انفلوئنسر مہک بخاری کو کم سے کم 31 برس اور آٹھ ماہ قید اور ان کی والدہ عنصرین بخاری کو 26 برس اور نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔مہک بخاری نے اپنے خلاف قتل کے دونوں الزامات کو مسترد کیا ہے-عدالت میں بتایا گیا کہ ’ثاقب حسین کا رویہ دن بدن جنونی ہوتا جا رہا تھا اور وہ عنصرین کو حاصل کرنے کے لیے غصے اور جھنجلاہٹ کا مظاہرہ بھی کرنے لگا تھا۔‘استغاثہ کے بقول ’اسی غصے کے نتیجے میں اس نے عنصرین کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں دوبارہ رابطہ بحال کرنے پر مجبور کر سکے۔‘ تھامپسن نے کہا ’وہ انہیں دھمکی دینے لگا کہ اگر انھوں نے رابطہ نہیں کیا تو وہ ان کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز انسٹاگرام پر شائع کر دے گا اور ان کے شوہر اور بیٹے کو بھیج دے گا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عنصرین کی بیٹی کو اس افیئر کے بارے میں معلوم تھا اور جب انھیں بلیک میلنگ کے بارے میں پتا چلاتب انہوں نے ثاقب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اس کی جان لے لی 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر