منگل، 20 جون، 2023

شہر لاہور میرے داتا کی نگری

  یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پرانے زمانے میں عوام النّاس  کی حفاظت کے لئے شہروں کے گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی   تھیں قران پاک کے سورہ کہف میں بھی ایک شہر فصیل کا زکر ملتا ہے -جبکہ کراچی کی قدیم تاریخ میں جس فصیل کا زکر ہے اس کے دو دروازے تھے ایک کھارا در اور دوسرا میٹھا در -اب یہ نام باقی رہ گئے اور شہر فصیل معدوم ہو چکی ہے-اسی طرح لاہور شہر کے گرد تعمیر کردہ فصیل میں متعدد جگہوں پر دروازے بنائے گئے تھے۔ یہ علاقہ اب اندرون شہر کہلاتا ہے۔ مغلیہ دور میں قائم ہونے والے ان دروازوں کو دوبارہ تعمیر کی نیت سے انگریزوں کے دور میں گرا دیا گیا اور اْسی طرز پر پھر سے تعمیر بھی کیا گیا۔

یہ سب دروازے انیسویں صدی تک اپنی اصل حالت میں قائم تھے۔ مگر 1947ء کے فسادات میں کچھ دروازوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ بعدازاں کچھ دروازے شکست وریخت کا شکار ہو کر یا تو بالکل ختم ہوگئے یا کچھ کے محض آثار ہی باقی بچے ہیں۔ اب کتابوں میں صرف ان کے نام اور تاریخ ہی ملتی ہے۔ تاحال 13 میں سے صرف 6 دروازے ہی اب تک باقی ہیں۔ہمارا بظاہر قیام امریکہ میں ہے مگر ہمارا دل پاکستان کے دل داتا کی نگری شہر لاہور میں اٹکا رہتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کی تفصیلی سیاحت تو شاید کبھی مکمل نہ ہو سکے البتہ ہر سال لاہور آمد پر اندرون شہر بلکہ اصل لاہور کا ایک پھیرا نہ لگا لیں۔ روح تشنہ رہتی ہے۔ دہلی دروازہ میں شاہی حمام بھی ایک تاریخی دریافت ہے جبکہ مسجد وزیر خان حقیقت میں تاریخی ورثہ ہے۔ بلند و بالا دیواریں اور شاندار گنبد ماہرین فن تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ’’مسجد وزیرخان‘‘ کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔

حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خود اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دہلی گیٹ کے علاوہ کھلی چھت کے رکشہ پر شام کی خوشگوار ہوائوں کے سنگ اندرون شہر کا چکر بھی لگایا۔

یکی گیٹ کا نام پہلے ذکی گیٹ ہوا کرتا تھا۔اور یہ نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر موجود ہیں۔ اکبری دروازہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر رکھا گیا۔جلال الدین اکبر نے ٹائون کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی جس کا نام اکبری منڈی ہے اور یہ اب بھی ویسی ہی مقبول اور اعلیٰ معیار کی ہے جیسے پہلے تھی۔ یہ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ ہے۔ اکبری منڈی سے گڑ خریدا جس کا ذائقہ آج بھی ہمیں بچپن کی مٹھاس کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیکسالی گیٹ اب موجود نہیں ہے لیکن یہاں کھانے بہت رنگ رنگ کے موجود ہیں جو کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ سکھوں کی مشہور مقدس عمارتیں پانی والا تالاب اور لال کھوہ یہیں واقع ہیں۔ شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اسکا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ بھاٹی گیٹ ایک بہت پرانے قبیلے بھٹی راجپوت کے نام پہ رکھا گیا۔ اسے لاہور کا چیلسی بھی کہا جاتا تھا۔ اسے علم و ادب کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ مغربی سمت میں واقع اس دروازے کا یہ نام اس لیے بھی پڑ گیا کہ جب شہر آباد ہونا شروع ہوا تو اس جگہ بھاٹ قوم آباد ہوئی۔ اصل دروازہ شکستہ ہونے پر انگریزوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔ بھاٹی گیٹ کی مشہور چیز اشیائے خوردنی کی مارکیٹ ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت داتا علی ہجویری المعروف داتا صاحب کا دربار بھی ہے۔ یہاں علامہ اقبال کا بھی ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا جہاں وہ مطالعہ اور کتب بینی کے شغل کے لئے آتے تھے۔ کشمیری گیٹ کے نام کی بڑی وجہ اس کا رخ کشمیر کی طرف ہونا ہے۔

 کشمیری گیٹ کے اندر کشمیری بازار اور ایک خوبصورت گرلز کالج واقع ہے۔ کالج کی بلڈنگ مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی سے سڑک نکل کر ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی مارکیٹ اعظم مارکیٹ کو جاتی ہے جو اس کی مشہوری کی خاص وجہ ہے۔ دہلی گیٹ بہت اہم دروازہ ہے جو شہنشاہ اکبر نے بنوایاتھا۔ یہ گیٹ دہلی کی طرف کھلتا ہے اس لئے اس کا نام دہلی گیٹ ہے۔ یہ کسی زمانے میں لاہور دہلی ٹرانسپورٹ کا واحد راستہ تھا۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہونے والے فسادات میں اس کو بہت نقصان پہنچا مگر اس کی تعمیر نو نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ مستی گیٹ شاہی قلعہ کی پشت پر واقع ہے۔ یہاں کی خالص دودھ کی بنی اشیا لاہور بھر میں مشہور ہیں۔ لاہوری گیٹ لاہور کا سب سے قدیم گیٹ ہے۔ چونکہ اس علاقے میں بہت سے لوہار تھے اور انہوں نے اس دروازے پہ بہت سی دکانیں بنا رکھی تھیں اسلئے اس کو یہ نام دیا گیا

۔ اب لوہاری گیٹ کے کلچر میں کھانا ہی کھانا ہے۔ لوہاری گیٹ کے سامنے لاہور کا مشہور زمانہ انارکلی بازار واقع ہے۔ موچی گیٹ کولاہور کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی مغل فن تعمیر ہے۔ یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچر کے بہت کارخانے موجود ہیں۔ اس کے بالکل دائیں ہاتھ پہ موچی باغ ہے جو پرانے وقت سے اب تک سیاسی جلسوں کی آماجگاہ ہے اور بہت مشہور ہے۔ موچی دروازہ کے اندر موجود مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی مغل فن تعمیر کی  خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ روشنائی گیٹ روشنیوں کا دروازہ مشہور تھا۔ یہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔

جمعہ، 16 جون، 2023

شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں

 

 

 شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں-اور اس صدیوں کی مسافت نے بھی اس شہر کو پرانا نہیں ہونے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج جوق در جوق سیاّاح اس کی قدیم تاریخ پڑھنے اس کے گلی کوچوں کی صحرا نوردی کرتے نظر آ تے ہیں-مغل بادشاہوں نے اپنے زریں دور سلطنت میں جو تعمیراتی یادگاریں چھوڑی ہیں ان میں بیش قیمت یادگار شاہجہاں مسجد ٹھٹھہ بھی ہے جو فن تعمیر کی  ایک مکمل دور کی عکّاس ہے - یہ مسجد مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 100 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔ اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے ۔اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے خطباء ایک ہی خاندان میں نسل در نسل چلے آرہے ہیں،اس وقت مسجد کے نویں خطیب حضرت علامہ عبد الباسط صدیقی ہیں۔یہ 1494 کی بات ہے جب مکلی کی پہاڑی کے ساتھ جام نظام الدین نے ایک شہر آباد کیا، چوں‌ کہ یہ پہاڑی کے نیچے واقع تھا، اس لیے مقامی لوگوں‌ نے اسے ‘‘تہ تہ‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ٹھٹھہ ہو گیا۔

یہ سندھ کا قدیم اور مشہور شہر ہے جو منسوب تو جام نظام الدین سے ہے، مگر بعض مؤرخین کے مطابق ٹھٹھہ پہلے سے آباد ایک بستی تھی۔ مختلف حوالوں اور تذکروں کے مطابق محمد شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو بہت پہلے ہوا تھا، مگر اسے جام نظام الدین نندا نے اپنے دور میں تعمیر و توسیع کے عمل سے گزارا اور یوں یہ شہر جام نظام الدین نندا سے منسوب ہو گیا۔اس شہر میں کئی تاریخی آثار اور اس زمانے کی یادگاریں موجود ہیں جب کہ سندھ کے کئی عالم، درویش، حاکم اور امرا یہاں دفن ہیں۔تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ کئی نام وَر اس سرزمین سے اٹھے۔ یہ اہلَ علم و فنون بھی تھے اور ہنر مند بھی۔ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد اور مکلی کے قبرستان کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ جھیل ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے جس کی مناسب اور ضروری دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حُسن ماند پڑ رہا ہے۔شہرہ آفاق مسجد کو چوں کہ شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شاہ جہاں مسجد کہلائی۔ کہتے ہیں یہ مسجد ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقا نے بنوائی تھی۔ اس کی تعمیر کا سن 1644 بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زمانے میں اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر 9 لاکھ خرچ ہوئے تھے۔مکلی کا قبرستان بھی ٹھٹھہ کی ایک وجہِ شہرت ہے۔ اس قدیم اور تاریخی قبرستان میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی، سید عبداللہ شاہ اصحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی کے مزارات ہیں۔ یہ تمام مزارات اور دیگر قبریں اس دور کے فنِ سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہیں۔جام نظام الدین نندا بھی اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔مکلی تقریباً 50 فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس اطراف کے علاقے کا نام ہے جو ٹھٹھہ شہر سے مغرب کی طرف ہے۔ 20 میل کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا، سندھ کی قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان، مکلی کا یہ پراسرارقبرستان ’ساموئی‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’پیر پٹھو‘ پر ختم ہوتا ہے۔اس شہرِ خموشاں میں 14 ویں سے 18 ویں صدی عیسوی تک کے وہ بادشاہ مدفون ہیں جنہوں نے اپنے لیے شاندار مقبرے اور قبریں بنوائے تاکہ مرنے کے بعد وہ اُن میں طمطراق سے دفن ہوسکیں۔ ان میں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل ادوار کے حکمران، سپہ سالار، ملکاؤں، گورنروں، صوفیوں، دانشوروں، فلسفیوں، امراء، خدا رسیدہ اور صاحبانِ کمال افراد کے علاوہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ 7 صدیوں کے راز دفن ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو کے مطابق یہ عظیم الشان قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں جسے دیکھنے کےلیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ ان مقبروں کی تعمیر کےلیے پتھر یا پختہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں جو ضرب لگنے پر بجتی ہیں اور ٹوٹنے کی حالت میں شیشے کی طرح چمکتی ہیں۔ اینٹوں کی دیواریں منقش روغنی ٹائلوں سے مزین مقبرے کی دیواروں پر جو شجری نقوش ابھارے گئے ہیں وہ سندھ، راجپوتانہ اور گجرات کے فنِ سنگ تراشی کی پرانی روایات کے بہترین نمونے ہیں۔ ان مقبروں کی عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1980 کی دہائی میں ثقافتی اہمیت کے پیشِ نظر مکلی کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حال ہی میں مکلی کو عالمی ورثہ کمیٹی سے ڈی لسٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے پولینڈ میں یونیسکو کے سامنے بہترین انداز میں مکلی کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ محکمہ ثقافت کی کاوشیں رنگ لائیں، تبھی مکلی عالمی ورثے کی فہرست میں برقرار رکھا گیا اور عالمی ورثہ کمیٹی نے مکلی پر کیے گئے بحالی اقدامات کو تسلی بخش قرار دیا۔مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس -مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات کی جانب سے پہلی عالمی مکلی کانفرنس منعقد کی گئی کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، لبنان، ایران، اسپین اور وطن عزیز کے نامور محققین نے تاریخی مقبروں، مقامات، شاندار فن تعمیر، شاہجہان مسجد اور دیگر پر 22 تفصیلی و تحقیقی

 مقالے پیش کئے اور اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں مکلی کی تاریخ پر نظر ڈالی -اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان اور دنیا کا گیارہواں بڑا قبرستان ہے، جو اپنے اندر سات صدیوں کے راز سموئے ہوئے ہیں، یہاں کم و بیش دس لاکھ مسلمان مدفن ہیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ مقبرے جاہ جلال اور شان و شوکت سے کھڑے ہیں، ان سے ماضی کی کئی سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے۔ اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلی معیار کا ہے۔ اس قبرستان میں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں۔ ان مقابر پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ وہ قبریں جو کسی سردار یا کسی بزرگ کی ہیں ان پر خوبصورت مقبرے تعمیر ہیں۔ مقابر کی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی بنائے گئے ہیں۔ قبروں کے تعویز اور ستونوں پر اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا کاریگروں کی تعریف کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔شاہی خاندانوں کے 80 سے زائد یادگار و مقبرے موجود ہیں جہاں بہت سے سلاطین، سردار، شہدا، علما کرام اور مسلمان مدفون ہیں۔ یہاں سندھ کے سابق حکمرانوں کی بھی قبریں ہیں۔ ان مقابر میں مغل سردار طغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، باقی بیگ ترخان، سلطان ابراہیم اور ترخان اول جیسے علما، سردار اور دیگر نامور لوگ اس قبرستان کی پہچان ہیں۔

 

بدھ، 14 جون، 2023

حضرت بایذید بسطامی محفل عید میں

 

 

 حضرت بایذید بسطامی محفل عید میں-حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کے دوران  استغراق  کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیا أوہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئی اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  ے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائی سلب ہو گئی۔راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جواب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے ئے آ کر شامل ہوا ہئےأراہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائےہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کرراہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئےاس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے

 جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نےتحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئی دوسرا نا ہو

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

عالم ہئے جس کا کو ئی شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئی  تیسرا نہیں ہئے

با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئی چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہو

بایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا 

  اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہو

بایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا

(جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں نا ہو

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17

  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو

بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے

 اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئی فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو

بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہو

راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج

 کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4کا

 حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج

 کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے 

راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃکیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2

راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

    راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

 

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ

 سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

 راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض

حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پرخرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں

  راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے

بایزید: بلبل کہتی ہئے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ ْ

راہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہئے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہئے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطال

راہب اعظم :مور کیا کہتا ہئے

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ

راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحل

راہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : لعن اللہ العشار

راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہئے

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہئے اور پھر طلوع ہوتا ہئے

راہب اعظم : طامّہ کیا ہئے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے

  بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ

   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئے

بایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے

وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیا

بایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے

راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?

بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں

راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیں

بایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیں

راہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہئے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہئے

بایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہئے جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہئے اور ان چاروں

 کا مرکز مغز ہئے جو کاسہء سر میں بند ہئے

راہب اعظم :جب دن ہوتا ہئے تو رات کہاں چلی جاتی ہئے اور جب رات چلی آتی ہئے تو دن کہاں چلا جاتا ہئے

 بایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہئے

راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کےہیں اور تین پھول سائے میں ہیں

بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہئےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی  ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہئے

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں

   راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے

بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا

ان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہالسّلام  اور امام حسین علیہالسّلام ہیں اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

 

 

پیر، 12 جون، 2023

آج تیسری دنیا کا تنہا ہوتا ہو ا سماج

 

 

آج  تیسری دنیا کا تنہا  ہوتا  ہو ا سماج

کیا عجب دستور دنیا ہے -ایک بچّہ جب اپنے ماں باپ کے آنگن میں پیدا ہوتا ہے تو گھر کے تمام رشتے اس کو اپنا بچّہ کہہ کر پکارتے ہیں -پھر وہ بچّہ پل بڑھ کر جوان ہو جاتا ہے اور ماں باپ بہت ارمانوں سے اس کی شادی کرتے ہیں خواہ لڑکی ہو یا لڑکا لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق یہ بچّہ جو کہ خود ایک گھر بارمالک بن چکا ہوتا ہے اپنے دیس کو چھوڑ کر پرائے دیس میں جابسنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر وہ دیس پرائے جا کر اس طرح آباد ہوتا ہے کہ جانووہ وہیں کے لئے پیدا ہواتھا اور اب اس کے پیچھے رہ جانے والے بوڑھے ماں باپ اس کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں -آ ج کی تیسری دنیا کا معاشرہ اسی المیہ سے دو چارہےآئے آپ کو میں انڈیا کے ایک شہر کی کہانی سناوں جس کے بوڑھے مکین تنہا اور اکیلے ہیں یہ مضمون میں نے بی بی سی اردو سے لیا ہے-دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک کا ویران قصبہ، جہاں ’بڑھاپا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن کر ایک طرف تو انڈیا چین کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے لیکن دوسری جانب ملک کے کچھ حصوں میں آبادی کا بحران ہے جہاں شرح پیدائش بہت نیچے آ گئی ہے اور نوجوانوں کی ہجرت نے اپنے پیچھے بوڑھوں کی آبادی والے قصبوں کو چھوڑ دیا ہے۔برسوں سے، کیرالہ کے اس قصبے میں سکولوں کو ایک غیر معمولی مسئلے کا سامنا ہے، یہاں طلبہ کی کمی ہے اور اساتذہ کو انھیں تلاش کر کے لانا پڑتا ہے۔ طلبا کو سکول لانے کے لیے بھی انھیں اپنی جیب سے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔کمباناد میں ایک ڈیڑھ سو سال پرانا گورنمنٹ پرائمری سکول، جو 14 سال کی عمر تک کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہاں صرف 50 طلبہ ہیں، جو 1980 کی دہائی کے آخر تک تقریباً 700 تھے۔

 ان میں سے زیادہ تر غریب اور پسماندہ خاندانوں سے ہیں جو شہر کے بالکل کنارے پر رہتے ہیں۔یہاں صرف سات طلبا کے ساتھ، ساتویں جماعت سب سے بڑی کلاس ہے۔ 2016 میں، اس کلاس میں صرف ایک طالب علم تھا۔ طلبا کو سکول میں لانا ایک چیلنج ہے۔ اس کے آٹھ اساتذہ میں سے ہر ایک طالب علموں کو گھر سے سکول لانے اور لے جانے کے لیے آٹو رکشہ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ 2,800 روپے خرچ کرتا ہے۔وہ گھر گھر جا کر شاگردوں کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ علاقے کے چند نجی سکول بھی اساتذہ کو طلبا کی تلاش کے لیے بھیج رہے ہیں، یہاں کے سب سے بڑے سکول میں بمشکل 70 طالبِعلم ہیں۔پرائمری سکول میں ایک دھندلی سی دوپہر میں آپ بمشکل ہی اسباق کی گونج اور بچوں کی آوازیں سن سکتے تھے جو ایک مصروف سکول میں سنی جا سکتی ہیں۔

 وہاں اس کے برعکس، اساتذہ چند بچوں کو نیم اندھیرے اور خاموش کلاس رومز میں پڑھا رہے تھے۔ باہر، دھوپ سے بھرے صحن میں چند طالب علم ادھر ادھر گھوم رہے تھے-سکول کی پرنسپل جیا دیوی آر نے کہا ’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس قصبے میں بچے ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہاں بمشکل ہی کوئی رہتا ہے۔‘تقریباً 15 فیصد گھروں میں تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ رہائشی نقل مکانی کر چکے ہیں یا اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم ہیں-کمباناد کیرالہ کے پٹھانمتھیٹا ضلع کے مرکز میں واقع ہے جہاں آبادی میں کمی آ رہی ہے اور بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہے جہاں 47 فیصد لوگ 25 سال سے کم عمر ہیں اور ان میں سے دو تہائی 1990 کی دہائی کے اوائل میں انڈیا میں آزاد معیشت کے دور کے بعد پیدا ہوئے۔

کمباناد اور اس کے آس پاس کے نصف درجن گاؤں میں تقریباً 25,000 لوگ رہتے ہیں۔ مقامی ویلج کونسل کی سربراہ آشا سی جے کا کہنا ہے کہ یہاں کے گیارہ ہزار سے زائد گھروں میں سے تقریباً 15 فیصد پر تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ مالکان اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک ہجرت کر چکےہیں۔ یہاں 20 سکول ہیں لیکن طلبہ کی تعداد بہت کم ہے۔ایک ہسپتال، ایک سرکاری کلینک، 30 سے زیادہ تشخیصی مراکز اور تین اولڈ ایج ہوم اس علاقے کی بزرگ آبادی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دو درجن سے زیادہ بینک، یہاں آنے والی ترسیلات کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔انڈیا نے پچھلے سال بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں سے جو 100 ارب ڈالر کی ترسیلات زر جمع کیں، ان میں سے تقریباً 10 فیصد کیرالہ میں آئے۔ریاست میں 30 سال سے شرح پیدائش فی عورت 1.7 سے 1.9 ہے۔ چھوٹے خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تعلیم ہو۔ اس سے نوجوان اپنے والدین کو گھر پر چھوڑ کر مواقع کے لیے ملک کے اندر اور باہر تیزی سے ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے والدین پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اناما جیکب کئی دہائیوں سے اپنے دو منزلہ گھر میں اکیلی رہ رہی ہیں ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر کے ایس جیمز نے کہا کہ ’تعلیم بچوں کو بہتر ملازمتوں اور زندگیوں کی ہوتی ہے اور وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔‘’ان کے آبائی شہروں یا قصبوں میں پھر ان کے بوڑھے والدین آباد ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اکیلے رہتے ہیں۔‘74 سالہ اناما جیکب کمبود میں اپنے دو منزلہ سرخ ٹائل والے گھر میں کئی دہائیوں سے تنہا رہ رہی ہیں۔ ان کے شوہر جو ایک سرکاری تیل کمپنی میں مکینیکل انجینیئر تھے، 1980 کی دہائی میں انتقال کر گئے۔ ان کا 50 سالہ بیٹا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ابوظہبی میں کام کر رہا ہے۔ ایک بیٹی چند میل دور رہتی ہے لیکن بیٹی کا شوہر دبئی میں تین دہائیوں سے سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ان کے پڑوسی غائب ہیں، ایک نے اپنے گھر کو تالا لگا دیا اور اپنے والدین کو بحرین لے گئیں جہاں وہ بطور نرس کام کرتی ہیں۔ دوسرا دبئی چلا گیا اور اپنا گھر ایک بزرگ جوڑے کو کرائے پر دے دیا۔

 یہ محلہ ویرانی کی تصویر پیش کرتا ہے۔انڈیا کے افراتفری اور ہلچل سے بھرے قصبوں کے برعکس، کمباناد کے کچھ حصے واقعی ویران اور وقت کے ساتھ آدھے منجمد ہیں۔ یہ ایک ایسا قصبہ ہے جسے اس کے بہت سے باشندوں نے ترک کر دیا لیکن یہ کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہو رہا۔ویران گھروں کو باقاعدگی سے پینٹ کیا جاتا ہے، تقریباً اسی طرح جیسے کسی بھی دن وہاں کے مکین واپس آ سکتے ہیں حالانکہ وہ شاذو نادر ہی وہاں آتے ہیں۔ اناما جیکب کا کہنا تھا کہ ’یہاں زندگی بہت تنہا ہے۔ میری صحت بھی اچھی نہیں۔‘74 سالہ چاکو ممین اپنی خراب صحت کے باوجود کیلے کی کاشت کر رہے ہیں -دل کی بیماری اور جوڑوں کے درد کے باوجود، جیکب اپنے بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بیرون ملک سفر کر چکی ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ اردن، ابوظہبی، دبئی اور اسرائیل می

 

اتوار، 11 جون، 2023

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت مبارک ہو

 

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو-فرزندرسولۖ، سلطان عرب و عجم حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام گیارہ ذی القعدہ ایک سو اڑتالیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں گلستا ن نبوت میں امامت کی منزل ہشتم  پر تشریف لائے- امام رضا علیہ السلام کے علم کا اتنا شہرہ تھا کہ رضا کے ساتھ ساتھ آپ کو عالم آل محمد کے نام سے بھی شہرت حاصل تھی- آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابوالحسن ہے۔آپ کا نام مبارک روز ازل سے اللہ کریم کی بارگاہ میں لوح محفوظ پر درج تھا

لقب رضاْ کی وضاحت: ہمارے ائمہ علیہ السلام کے نام، لقب اور کنیت میں ایک خاص پیغام ہوتا ہے  مثلاً سجادعلیہ السّلام، باقرعلیہ السّلام -صادق  علیہ السّلام  -ابن جریر طبری نے سال ٢١ھ کے واقعات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس سال مامون رشید نے امام علی بن موسیٰ بن جعفرعلیہ السّلام  کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور ان کو ”الرضا من آلِ محمد علیہ السّلام ” کے نام سے مخصوص کیا۔ البتہ ابن خلدون نے ”الرضا ” کی جگہ ”الرضی ” تحریر کیا ہے۔ لیکن محمد جواد معینی (مترجم) کتاب ” امام علی بن موسیٰ علیہ السّلام الرضا علیہ السّلام ” نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ دلیل دی ہے کہ اس لقب کا ولی عہدی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مامون رشید کے وزیر خاص فضل بن سہل نے امام کے نام اپنے تمام پیغامات میں الفاظ ” بعلی بن موسیٰ الرضا علیہ السّلام  ” سے مخاطب کیا ہے جو اس لقب کی قدامت پر دلیل ہے۔ اس کے علاوہ ابوالحسن ، ابو علی اور ابو محمد آپ علیہ السّلام کی کنیت ہیں۔ امام علیہ السّلام کے رضا علیہ السّلام  کے علاوہ اور بھی القاب ہیں جنہیں سراج اﷲ ، نور الھدیٰ ، سلطان انس وجن، غریب الغربا اور شمس الشموس وغیرہ ہیں جو آپ کی زیارتوں میں شامل ہیں۔ 

اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ

بو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا" کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمدؐ اور امام رئوف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔ 

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ سنہ 200 ہجری یا سنہ 201 ہجری کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور اور توحید و اس کے شرائط جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کے تحت مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت اور علمی بلندی کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے ہیں جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مأمون کے ساتھ ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو مشرق و مغرب میں میرا حکم چلتا تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔ 

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میں مسجد نبوی میں بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی علمی مشکل سے دوچار تھے تو وہ لوگ اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا-یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تاکہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کی جانب سے امام رضاؑ کے استقبال کے لیے متوقع اجتماعات سے خوفزدہ تھا۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔ کتاب "اطلسِ شیعہ" کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: «اگر حکومت تیرا حق ہے تو تم کیوں کسی دوسرے کو دوگے اور اگر تمہارا حق نہیں ہے تو تم اس بات کے لائق ہی نہیں ہو کہ کسی دوسرے کو بخش دے۔؟. اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا

۔ اس موقع پر مأمون نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں حکومتی معاملات کے سلسلے میں نہ کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔  اس طرح مومون نے سنہ201ھ، 7 رمضان بروز پیر امام رضاؑ کے دست مبارک پر بعنوان ولی عہد بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہونے کے بجائے سبز کپڑے پہننے کا حکم جاری کیا۔ سوائے اسماعیل بن جعفر ہاشمی کے سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔بعد از آں لوگوں سے امام کی بیعت لی گئی، امام کے نام پر لوگوں کے مابین خطبے پڑھے جانے لگے اور امام کے نام پر سرکاری سکے جاری کیے

-اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس اور مرو. 

شیخ مفید لکھتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جبکہ امام رضاؑ کو کسی دوسرے مقام پر ٹھہرایا اور آپ کی تکریم و تعظیم کی -اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو

بدھ، 7 جون، 2023

شاہد ہے ادائے میثم بھی

 

 

شاہد ہے ادائے میثم بھی ہم ہیں وہ علیؑ کے دیوانے

جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہے اُس پیڑ کو پانی دیتے ہیں

میں نے یہ شعر لکھنو کے ایک شاعر جن کا نام مجھے نہیں معلوم ان کی منقبت سے لیا ہے-روائت ہے کہ مولا علی نے ایک بار کسی درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میثم تم کو میری محبّت کے جرم میں اس پیڑ پر پھانسی دی جائے گی-تب سے حضرت میثم تمّار اس درخت کو بڑی تو جہ سے پانی دیا کرتے تھے-وہ علم تفسیر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔  مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ 

لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے یہ خبر کہانت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عجمی والدین نے تمہارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی  امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمہیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔

 ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی۔ عاشق علی میثم تمار کی شہادت نمونہ حق گوئی ہےامام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل جناب میثم کی 60 ہجری میں ابن زیاد کے حکم سے شہادت ہوئی۔22 ذي الحجہ سنہ 60 ہجری قمری کو رسول اکرم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کے یہ صحابی میثم تمّار شہید ہوئے ۔میثم تمّار ایک غلام تھے جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کردیا تھا ۔وہ حضرت علی علیہ السلام کے بھی انتہائي قریبی ساتھی اور وفادار صحابی تھے ۔میثم تمار کو اموی حکمرانوں نے اہل بیت رسول (ص) سے مودت و عقیدت کے جرم میں شہید کردیا۔آپ کا مزار عراق کے شہر کوفے میں مرجع خلائق ہے جب عبید اللہ بن زیاد کوفہ آیا تو اس نے معرف کو بلایا اور اس سے میثم کے بارے میں تفتیش کی، معرف نے کہا: حج پر گئے ہیں، ابن زیاد نے کہا: اگر اس کو نہ لایا تو تجھے قتل کردوں گا، معرف نے مہلت مانگی، اور جناب میثم کے استقبال کیلئے قاسدیہ گیا اور جناب میثم کے آنے تک وہیں پر انتظار کرتا رہا ، پھر ان کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا،

جس وقت مجلس میں داخل ہوئے تو حاضرین نے کہا یہ علی(علیہ السلام)کے سب سے نزدیکی دوست ہیں، عبید اللہ نے کہا: کیا تم میں جرائت ہے کہ علی سے بیزاری اختیار کرو،جناب میثم نے فرمایا: اگر میں یہ کام نہ کروں تو تم کیا کروگے؟ اس نے کہا خدا کی قسم تمہیں قتل کردوں گا، جناب میثم نے فرمایا: میرے مولا علی(علیہ السلام)نے مجھے خبر دی ہے کہ تو مجھے قتل کرے گااور دوسرے نو افراد کے ساتھ عمرو بن الحریث کے گھر میں پھانسی پر لٹکائے گا۔عبیداللہ نے حکم دیا کہ مختار اور میثم کو زندان میں ڈال دو، میثم نے مختار سے کہا تم آزاد ہوجاؤ گے لیکن یہ شخص مجھے قتل کرےگا، پھر مختار کو قتل کرنے کیلئے باہر لے گئے، اسی وقت ایک قاصد یزید کے پاس سے آیا کہ مختار کو آزادکردے، لیکن میثم کو عمرو نب الحریث کے گھر میں پھانسی دیدے، عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ پھانسی دینے کی جگہ کو صاف کردے اور اور گھر میں خوشبو لگادے ،میثم نے دار سے اہل بیت (علیہم السلام)کے فضائل بیان کرنے شروع کئے اور بنی امیہ پر لعنت کی اور بنی امیہ کے منقرض ہونے کی خبر دی، یہاں تک کہ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے تجھے ذلیل و رسوال کیاہےاس ملعون نے حکم دیا کہ ان کے منہ کو لگام سے باندھ دو تاکہ بول نہ سکے-

تیسرے دن اس ملعون کو ایک اسلحہ مل گیا اس نے کہا : خدا کی قسم اس اسلحہ کو تمہارے ضرور ماروں گا، جبکہ جناب میثم دن میں روزہ سے تھے اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتے تھے اس نے وہ اسلحہ آپ کے پیٹ کے نیچے مارا جو اندر تک چلا گیا، تیسرے دن آپ کی ناک سے خون آیا اورآپ کی ڈاڈھی اور سینہ مبارک پرجاری ہوگیااور آپ کی روح عالم بقاء کی طرف پرواز کر گئی۔ میثم کی شہادت امام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل ہوئی،۔رات کو سات  خرما فروش خاموشی سے آئے اور انہوں نے جسد مبارک کو سولی سے اتار کر مخفی طورپر نہر کے کنارے دفن کردیا، پھر اس کے اوپر پانی ڈال دیا تاکہ کسی کو آپ کی قبر کا پتہ نہ چلے، اس کے بعد ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ کی قبر کو بہت تلاش کیا لیکن انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اتوار، 4 جون، 2023

نوابین کی ریاست بہاول پور

<\head>

 

نوابین کی ریاست بہاول پور کے لئے بتایا جاتا ہے کہ بغداد کی تباہی کے بعد وہاں سے آئے ہوئے عبّاسی حکمرانوں نے-نواب صادق محمد خان اول عباسی کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی نے 1774ءمیں دریائے ستلج کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک نئے شہر بہاول پور کی بنیاد رکھی اور ریاست کے وسط میں ہونے کی بنا پر اسے ریاست کا دار الخلافہ قرار دیا گیا،یہ بڑے ہی صاحبان علم و ہنر کے دلدادہ حاکم ثابت ہوئے اور انہوں نے بہاول پورکے چپّہ چپّہ پر علم کی شمعیں جلانے کے لئے اسکول 'کالج' مدرسوں کا جال بچھا دیا اتو دوسری جانب انتہائ خوبصورت عمارتوں کی بنیادیں رکھتے گئے -وہ اب اگلے جہان جا چکے ہیں لیکن بہاول پور کی سرزمین پر ا نکی یادگاریں ایک جانب علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی تعمیرات سیّاحوں کو دعوت نظارہ دیتی دکھائ دے رہی ہیں

تاریخ کہتی  ہے کہ مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔ نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔

نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ے جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔

ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ 

اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔ قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکرغیر آباد زمینوں کو لہلہاتی فصلوں کے کھیتوں میں بدل دیا 

 ۔ عباسی خاندان نے اپنے دور میں بہاولپور میں جو خوبصورت اور عظیم الشان محلات بنوائے تھے ان میں نور محل، دربار محل، نشاط محل، ڈیرہ نواب صاحب کا صادق گڑھ پیلس شامل ہیں جبکہ قلعہ جات میں قلعہ ڈیراور، قلعہ موج گڑھ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ ولر، قلعہ پھولڑہ، قلعہ مٹو اور قلعہ بجنوٹ وغیرہ شامل ہیں، نوابوں نے فن تعمیرات کے نمونہ محلات تو اس وقت شہر کے قریب خوبصورت اور پرفضا مقامات پر بنوائے تھے، جبکہ قلعہ جات شہر سے دور ریگستان میں ریت کے  ٹیلوں کے درمیان بنائے گئے تھے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر