ہفتہ، 28 جنوری، 2023

سموگ۔ آخر اپنے بچوں کو کہا ں لے کے کہاں جائیں ہم

 


سموگ۔ آخر اپنے بچوں کو کہا ں لے کے کہاں جائیں ہم
یہ اس وقت لاہور کے ہر شہری کی فریاد ہ یہ آفت ناگہانی حکومت وقت کی اپنے ہاتھوں بلائ ہو ئ ہے حکومت وقت نے لاہور شہر کو چا چاند لگانے کے لئے پنجاب  کو نظر انداز کر کے صرف صرف لاہور کو ترجیح میں رکھا ۔اس کے نتیجے میں آبادی کا فلُو سارے کا سارا لاہور کی جانب اس لئے چل پڑا لوگ آئے تو گاڑیاں بھی سڑکوں اپنی پوری حشر ساما نی کے ساتھ  آئیں اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ایک شہری کا کہنا ہے

کہ گزشتہ 7، 8 ماہ میں میری بیٹی متعدد بار بیمار ہوچکی ہے۔ تیز بخار اور کھانسی معمول کی علامات ہیں۔کئی مرتبہ تو کھانسی کے شربت اور بخار کی ادویات سے یہ مسئلہ ایک ہفتے میں ہی حل ہوجاتا تھا لیکن بعض دفعہ ٹھیک ہونے کے لیے اسے اینٹی بایوٹکس کا پورا کورس مکمل کرنا پڑتا ہے۔ کھانسی زیادہ دن تک رہتی ہے جبکہ وہ اس دوران اینٹی الرجی کی ادویات کے طویل کورس پر بھی کرچکی ہے

ہم واحد ایسے والدین نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہماری بیٹی کی جماعت اور اسکول میں متعدد بچے گزشتہ چند ماہ سے اسی طرح بیماریوں کا بار بار شکار ہورہے ہیں۔ بہت سے بچے بخار اور کھانسی کی وجہ سے کئی دنوں تک اسکول آنے سے بھی قاصر ہیں۔صرف لاہور میں ہی بیماری کے باعث اسکول نہیں جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ان کی موجودہ اور مستقبل کی صحت پر آلودگی کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے تمام بچوں کی بہبود خطرے میں پڑچکی ہے-جب میں اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں بعض بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کھانسی کے باوجود اسکول میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مجھے بہت سے دوستوں نے بتایا کہ یہ ایک عام بات ہے۔ رواں موسمِ سرما میں بے شمار بچے بیمار ہوئے لیکن ان بیماریوں کا شکار تو بچے موسمِ سرما سے پہلے بھی تھے۔کیا ہمارے بچے اپنی صحت گنوا کر سموگ اور آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت ادا کریں گے؟

حکومت بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے اور اس نے تمام اسکولوں کو جمعے کے روز بند کیا تاکہ بچے اسموگ کا شکار آلودہ ماحول میں گھر سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ سموگ کی وجہ سے موسمِ سرما کی تعطیلات میں بھی توسیع کی گئی۔سوشل میڈیا کے استعمال سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول میں رہنے کی قیمت صرف ہم اپنی صحت کے ذریعے ادا نہیں کرتے بلکہ طویل عرصہ آلودہ ماحول میں سانس لینے کی وجہ سے انسانوں کی عمر میں اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں بالخصوص ان کے آئی کیو میں واضح کمی واقع ہوتی ہے - فضائی آلودگی کے اثرات عمر کے کس حصے میں پڑتے ہیں اس کا تخمینہ لگانا تو کافی مشکل ہے کیونکہ کسی فرد نے آلودہ ماحول کا کتنا سامنا کیا اور اسی طرح کے دیگر عناصر پر اس کا انحصار ہوتا ہے لیکن صرف ان ماحولیاتی اثرات کی حقیقت ہی کافی خوفناک ہے۔ حکومت اس کی سنگینی کا ادراک تو رکھتی ہے لیکن وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتی نظر نہیں آتی۔

چین کے شہر بیجنگ میں مقیم میرے ایک دوست نے بتایا کہ کیسے دہائیوں پہلے بیجنگ میں فضائی آلودگی کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ تھی۔ اگرچہ آج بھی فضا میں آلودگی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوسکی ہے لیکن شہر کی صفائی کے بعد اب ہوا کا معیار لاہور سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔چینی حکومت نے آلودگی کو کم کرنے کے لیے صفائی کے کافی سخت اقدامات لینے کا آغاز کیا۔ ان اقدامات میں کوئلے کے استعمال کو ترک کرنا، صنعتوں کو شہر سے دُور کرنا، گیسوں کے اخراج کے حوالے سے سخت معیارات نافذ کرنا، ان معیارات کی نگرانی اور تعمیل نہ کرنے کی صورت میں صنعتوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنا اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ان ذرائع پر منتقل کرنا جس سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج نہ ہو، شامل ہیں۔

بیجنگ کی فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے کئی سالوں تک محنت اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑے۔ کچھ اندازوں کے مطابق شہر میں فضائی آلودگی کی کمی کے سبب رہائشیوں کی زندگیوں میں کم از کم 2 سال کا اضافہ ہوا ہے۔ مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ آلودگی سے صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں کمی بھی صحت پر پڑنے والے اثرات میں ہی شمار ہوتی ہے۔

لاہور کے شہریوں کے لیے یہ ایک ایسا واحد مسئلہ ہے جس کا نجی سطح پر کوئی حل دستیاب نہیں ہے۔ چند صاحبِ حیثیت لوگ گھروں اور گاڑیوں میں پیوریفائرز کی سہولت لگا سکتے ہیں لیکن کیا آپ بچوں اور بڑوں کی حرکات کو صرف گاڑی اور گھروں تک محدود کرسکتے ہیں؟ میرے خیال سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ان دنوں جب آلودگی کی شرح انتہا پر ہوتی ہے، وہ لوگ جو نقل مکانی کرسکتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لے کر کسی اور مقام پر منتقل ہوجاتے ہیں لیکن پہلی بات یہ کہ کتنے لوگ ہیں جو نقل مکانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ اسکول اور دفاتر وغیرہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے آلودہ فضا سے بچنے کے لیے یہ حل عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔صحت کے مسائل، تعلیم حتیٰ پینے کے پانی کے لیے بھی ہم ذاتی طور پر کوئی نہ کوئی حل نکال سکتے ہیں لیکن فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ لوگ صحت کے لیے نجی ہسپتالوں کا رخ کرسکتے ہیں، اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کروا سکتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کے لیے بوتل خرید سکتے ہیں لیکن پھر بھی نجی ذرائع سے سانس لینے کے لیے صاف فضا کا حصول کافی مشکل ہے۔

اس سے پہلے کہ عوام اس حد تک مجبور ہوجائیں کہ وہ اس مسئلے کو نجی طور پر حل کرنے کی کوششیں شروع کردیں، امید ہے حکومت آگے بڑھ کر عوامی سطح پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی۔اسکول بند کرنے اور دفاتر کے عملے کو گھر سے کام کرنے پر زور دینے جیسے وقتی اقدامات سے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس سے کچھ عرصے کے لیے شاید محسوس ہو کہ صورتحال قابو میں ہے اور شاید حکومت کو بھی کچھ وقت مل جائے لیکن یہ وقتی اقدامات کبھی بھی ان طویل مدتی منصوبوں کے متبادل نہیں ہوسکتے جن پر سختی سے عمل درآمد اور نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ 

ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ہم نے اس موڑ پر سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اسی طرح صنعتیں بنتی رہیں گی، سڑکوں پر مزید گاڑیاں آتی رہیں گی اور نہ صرف ہم یونہی آلودہ صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ اگر مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہ سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرتی ہیں تو یہ لاہور (اور دیگر آلودہ علاقوں) کے رہائشیوں کے قتلِ عام کے مترادف ہوگا۔جب تک ہماری حکومت سنجیدگی سے موثر حکمتِ عملی تیار کر کے اس پر عمل درآمد نہیں کرتی تب تک لاہور اور فضائی آلودگی کا شکار دیگر شہروں کے باسی اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کی بھاری قیمت چکاتے رہیں گے۔

یقیناً فضائی آلودگی سے بچوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے لیکن ہم بڑے بھی کم عمری کی اموات اور صحت کے مسائل کی صورت میں اس المیے کا خمیازہ بھگتیں گے۔ مگر حکومت اس انسانی المیے سے متعلق صرف چند بناوٹی اور سطحی اقدامات لینے کا اعلان کرکے ہی کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے لیکن کیا کوئی حکومت اس طرح کے اقدامات کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور کیا وہ ان اقدامات ہر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہے؟

جمعرات، 26 جنوری، 2023

کراچی کا مایہ ءنا زتعلیمی ادارہ-ڈی جے سائینس کالج -

اگر لاہور شہر میں سر گنگا رام نے لاہور کے نوجوانوں کے لئے تعلیمی خدمات کا بیڑہ اٹھا یا تھا تو ہم کو سندھ میں بھی ایک ایسی ہی بے لوث شخصیت تعلیمی میدان میں سرگرداں نظر آتی ہے جن کا نام دیوان دیارام جیٹھ مل ہے-

ء 1887میں انگریز دورِ حکومت سے قبل کراچی کے طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کے شہر بمبئی یا دنیا کے دوسرے ممالک جانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں طویل سفر زیادہ تر سمندری راستوں سے ہوا کرتے تھے لیکن ہوائی جہاز کے ذریعے بھی دوسرے ملکوں میں پہنچا جا سکتا تھا، البتہ عام آدمی کے لیے یہ سفر تقریباً ناممکن ہی تھا۔ کراچی گوکہ تعلیمی ‘ تجارتی‘ صنعتی اور معاشی طور پر سندھ کا مرکز تھا لیکن اعلیٰ تعلیم کا حصول یہاں ممکن نہیں تھا

کراچی میں واقع ڈی جے سائنس کالج کا شمار پاکستان کے معروف ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ کالج کی خوبصورت ار دلکش تاریخی عمارت حسنِ تعمیر کا حسین شاہکار ہے جس کا شمار بجا طور پر کراچی کی چند اہم اور قدیم تاریخی عمارات میں کیا جاسکتا ہے۔1887۔

کراچی کے شہریوں کی ان تکالیف کو دیکھتے ہوئے دیوان دیارام جیٹھ مل نے کراچی میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کراچی اور سندھ کے لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کام کا آغاز کیا‘ شہریوں کو اس نیک کام میں شامل کیا اور ممبئی جا کر اعلیٰ حکام سے کراچی میں کالج کے قیام کی درخواست کی، جسے مشروط طور پر منظور کر لیا گیا، شرط یہ تھی کہ وہ ایک مخصوص رقم کراچی کے شہریوں سے چندے کی صورت میں جمع کر یںگے او رباقی ماندہ رقم حکومت وقت انہیں فراہم کرے گی۔ 

سیٹھ دیارام جیٹھ مل نے کراچی واپس آکر پُرجوش انداز میں کالج کے قیام کی کوششوں کا آغاز کیا ۔شہر شہر جا کر لوگوں سے چندے کی درخواست کی جس کے جواب میں فراخ دل شہریوں نے دل کھول کر چندہ دیا۔ سیٹھ دیارام نے خود بھی خطیر رقم چندے میں دی ، یوں جلد ہی مقررہ رقم سے کئی گنا زائد رقم اکٹھی ہوگئی ۔عمارت پر لاگت کا تخمینہ سوادولاکھ روپے تھا۔ لیکن شہریوں نے سیٹھ دیا رام کے عظیم مقصد کو سمجھ لیا تھا اور وہ ہر طرح سے ان کے ساتھ تھے۔ 

مقصد نیک ہو تو منزل از خود قریب آجاتی ہے۔ آخر وہ دن آہی گیا جب جنوری 1887ء میں ایم اے جناح روڈ پر ٹھٹھائی کمپائونڈ کے ایک بنگلے میں کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا جس کے لیے ممبئی کے گورنر لارڈ ہیرس کو دعوت دی گئی کہ وہ کالج کا باقاعدہ افتتاح کریں۔ یوں سیٹھ دیارام کے اس خواب کو تعبیرملی جو انہوں نے اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے دیکھا تھا۔ یہ عمارت سولہ ہزار چار سو پچاسی مربع گز پر مشتمل ہے۔ اس شاندار عمارت کے آرکیٹکٹ مسٹر جے اسٹریچن تھے جنہوں نے اسلامی طرز تعمیر اور دنیا کی بہت ساری عمارات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ڈیزائن کیا اور ماسٹر پلان بناتے ہوئے رومن طرز تعمیر کو بھی پیش نظر رکھا ۔

اپریل 1889ء میں اس کالج کو ایک دو منزلہ بنگلے میں منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سندھ جیم خانہ واقع تھا۔14نومبر1887ء کو موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ ڈیفرن نے عمارت کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں معززین شہر نے بھی شرکت کی ۔ کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد تعمیری کاموں کا آغاز زور و شور سے ہوا اور تقریباً پانچ سال کی قلیل مدت میں عمارت کی تعمیر مکمل ہوگئی۔

1892ء کالج کا نام ’’سندھ آرٹس کالج‘‘ رکھا گیا جو پورے سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا واحد ادارہ تھا ۔ اس زمانے میں اس کالج میں پڑھنا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ سندھ کے علاوہ بھی دوسرے شہروں سے حصول علم کے لیے طلباء اس کالج کا رخ کرتے ،جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش بھی فراہم کی جاتی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کراچی کے باشعور شہری اپنے محسن سیٹھ دیارام کو بھلا دیں جنہوں نے علم و آگہی کے نئے چراغ روشن اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے اُن پر وا کیے تھے۔ 

وہ طلباء جو اس سے قبل ممبئی اور دوسرے شہریوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے تھے انہیں اپنے ہی شہر میں تعلیم کے مواقع میسر آنے لگے۔ کالج کا نام سیٹھ دیارام جیٹھ مل کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ جو اس بات کا اظہار تھا کہ کراچی کے شہری سیٹھ دیارام کا بے انتہا احترام کرتے ہیں اور اُن کی خدمات کو بھرپور انداز میں سراہتے ہیں ۔آہستہ آہستہ کالج کا نام مختصر کر کے ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج ، اب یہ کالج ڈی جے سائنس کالج کے نام سے مشہور ہے۔

محمد بن قاسم روڈ پر واقع اس کالج کی عمارت انتہائی پُرشکوہ اور 129سالہ شاندار تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کالج کے قریب ایس ایم لاء کالج ‘ برنس روڈ‘ سندھ سیکریٹریٹ‘ پاکستان چوک اور قومی عجائب گھر واقع ہیں۔ حال ہی میں یہاں حکومت سندھ نے پیپلز اسکوائر تعمیر کیا ہے جس میں زیر زمین کار پارکنگ کا وسیع نظام ہے اور شہریوں کی تفریح و طبع کے لئے فوڈ اسٹالز اور بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی ہے۔ پودوں اور درختوں سے پیپلز اسکوائر کو خوبصورت بنایا گیا ہے۔ کراچی کی عمارتوں کی تعمیر میں زیادہ تر جے پور اور جودھ پور کے سرخ پتھروں اور جنگ شاہی کے پتھر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پتھروں کی کٹائی کے بعد ان کو گھسا جاتا ہے۔ 

بعض عمارتوں کے پتھروں پر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں۔ سلاوٹ برادری کو سنگ تراشی کا ماہر تصور کیاجاتا ہے۔کراچی کی بیشتر عمارتیں انہی کی فنی مہارت کا بہترین نمونہ ہے لیکن ڈی جے کالج کی عمارت میں استعمال ہونے والے پتھر اجمیر شریف بھارت سے منگوائے گئے، جب کہ فرش میں استعمال ہونے والی ٹائلز بیلجیم سے درآمد کی گئیں۔آبنوس کی لکڑیوں پر نقش و نگار بنا کر چھت اور دروازے بنائے گئے ۔ باقی میٹریل اپنےملک کا استعمال کیا گیا۔ دلکش اور خوبصورت ڈیزائن سے مرصع یہ دروازے اب کالج میں نہیں ہیں البتہ کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں صرف ایک دروازہ موجود ہے

کالج کے پہلے پرنسپل ہونے کا اعزاز پروفیسر ڈاکٹر مولینکس آرویلمسلے Mullineux R. Walmsleyکو حاصل ہوا جو 1887ء سے 1888 ء تک پرنسپل تعینات رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تک اس کالج کے لیے 9پرنسپلوں نے اپنے فرائض انجام دیے۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک 30کے لگ بھگ شخصیات کو اس کالج کا پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ 



دہ گلونہ نندارہ ''جشن نو روز''


 دہ گلونہ نندارہ ''جشن نو روز''

کیا یہ شیعو ں کا تہوار ہے جبکہ ہمارے پشتون ہم وطن بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گُلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔نوروز بہاری اعتدالین کا دن ہے اور شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان رسومات ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں کبھی آپ کا جانا ہو  آپ دیکھیں گے وہاں مسلمانوں تہوار جیسے عیدبقرعید تو یہ اقوام ان دنوں کو ایک مقدّس فریضہ تو جانتے ہیں لیکن ان کے یہاں صحیھ معنوں مین اگر جشن ہوتا ہے تو نوروز کا ہوتا ہے - سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں نوروزکیسے منایا جاتا ہے نوروز ایک جشن ہے جس کو مناکر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ 

اپنی بنیاد میں ایرانی اور زرتشتی تہوار ہونے کے باوجود، نوروز کا تہوار دنیا بھر میں متنوع نسلی و لسانی گروہ مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسط ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار 3000 سالوں سے منایا جا رہا ہے۔ بیشتر تہوار منانے والوں کے لیے یہ ایک سیکولر تعطیل ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مناتے ہیں، لیکن زرتشتی، بہائی اور بعض مسلم گروہوں کے لیے یہ مذہبی دن ہے۔
نوروز کو ایرانی قوم کی مختلف نسلی گروہوں کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے: ایران نسلی گروہوں جیسے فارس ، آذربائیجانی، کورد، بلوچی، سمنانی، تالش، لور ، بختیاری ، گیلکی ، مازندرانی ، خوزستانی عرب اور گورگانی ترکمنوں سب مل کر یہ جشن مناتے ہیں. یہ جشن دوسرے ملکوں میں بھی منایاجاتاہے ۔اشکانیان اور ساسانیان کے دور میں بھی نوروز کا جشن منایاجاتاتھا اور ایرانیوں کا اہم ترین سالانہ جشن شمار ہوتا ہے-جبکہ حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ پوری سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں بھی مکمل جوش خروش سے منایا جاتا ہے

ممکن ہے موسم بہار کے آغاز کا جشن ارو اس موقع پر شہروں سے لوگوں کے باہر نکل جانے اور اجتماع کی روایت ایران کے کسانوں کی ہے اس لیے ایران کے کسان گذشتہ صدیوں سے اس طرح کا جشن منعقد کرکے بعض عقائد جیسے حلول بہار کو باطل پر کامیابی کی تشبیہ دے کر اس جشن میں شامل کر دیا اور اسے ممکل طورپر ایرانی جشن میں تبدیل کر دیا۔ قدیم زمانے سے یہ عوامی جشن غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے ایک عام عوامی جشن میں تبدیل ہو گیا اور آہشتہ آہستہ ایسے جشن میں تبدیل ہو گیا کہ حکومتوں نے بھی رسمی تقریب کے طورپراس جشن کو منتخب کر لیا ہے ۔

ایران کے معروف دانشور، ریاضی داں اور منجم ابو ریحانی کے نزدیک نوروز خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور ایسا دن ہے جو لوگوں کو اس بات پر تیار کرتاہے کہ اپنی پرانی چیزوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اور اپنی روح کو تازگی عطاکرے۔ نوروز اکیس مارچ مطابق یکم فروردین یعنی نئے سال کے آغاز جشن کا دن ہے جو بہت ہی قدیم چشن شمار ہوتاہے، نئے سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات کے ساتھ جشن نوروز کا آغاز ہوتاہے ۔

نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے پشتون بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔

مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔

وسطی ایشیا ء اور ایران میں نوروز کا جشن دو ہفتے تک منایا جاتا ہے۔ نوروز کے دن خاص پکوان پکتے ہیں جس میں سات”ش یا س” سے شروع ہونے والی ایشیا ء لازمی ہوتی ہیں مثلاً شیر(دودھ)، شہد، شیرنی، شراب ، سیب، سرکہ اور سبزہ شامل ہوتے ہیں۔ نوروز کے دن سے شروع ہونے والی تقریبات میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اور رشتے داروں خصوصاً اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ملنا اور ان کو تحائف دینا انتہا ئی لازمی ہوتا ہے۔ سات کے عدد کو متبرک سمجھنے والے اہل فارس تیرہ کے عدد کو چونکہ منحوس سمجھتے ہیں اس لئے نوروز کے تیرویں دن گھر میں کوئی نہیں رہتا سب باہر دن گزارتے ہیں اور یوں سات بدی اور سات اچھائی کی طاقتوں پر یقین رکھنے والے دو ہفتوں تک سات قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوکر پھر سے زندگی کے معمول کے ہل میں پورے سال کے لئے جوت جاتے ہیں۔

پہاڑی علاقوں میں لوگ سردیوں کا پورا موسم اپنے گھروں میں محدود رہ کر بہار کی آمد کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل کر کھیتی باڑی کرسکیں اور بند گھروں کے اندر سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جلائی جانے والی آگ کےدھویں سے ان کی جان چھٹے۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی سخت سردی کا خاتمہ اور کھیتی باڑی کے موسم کی آمد لوگوں کے لئے شکر ادا کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے جس کو نئے سال کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جنوبی اور شمالی ہندوستان کے بھی اپنے ایسے تہوار ہیں جو کاشتکاری کے نئے سال کی آمد پر منائے جاتے ہیں ۔ بسنت اور بیساکھی بھی در حقیقت موسمی تہوار ہیں جو ہمارے ہاں بھی بہار کی آمد اور فصل کی کاشت کے جشن تھے مگر اب وہ تاویلات کی موت مار کر شجر ممنوع قرار دیے جا چکے ہیں۔


پاکستان کے شمال گلگت بلتستان اور چترال میں بھی نوروز کا تہوار بڑذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ نوروز کو عورتوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن پورے گاؤں کی عورتیں ایک مرکزی مقام پر اکھٹی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس دن اس سال کے دوران پیدا ہونے والے تمام بچوں کی ڈا ڈا (پچوں کو پیٹ پر اٹھانے ) اور بال کاٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس دن عورتیں اپنے خاندان کی دیگر عورتوں اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر گاتی اور رقص کرتی ہیں۔ جب چھوٹے تھے تو ہمیں بھی نوروز کی زنانی محفل میں جانے کی اجازت تھی اور جب عمر بڑھ گئی تو ہمیں بھگا دیا جانے لگا ۔

لوگوں نے جشن نوروز کو مذہبی تہوار بناکر خصوصاً شیعوں کے مختلف فرقوں کیساتھ جوڑ کر اس موسمی تہوار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس تہوار کا آغاز اسلام سے قبل کا ہے اور جہاں جہاں یہ منایا جاتا ہے وہاں کے سبھی لوگ اہلیان تشیع کے کسی فرقے سے تعلق بھی نہیں رکھتے ہیں۔

علامہ اقبال بارگاہِ جناب سید ہ سلام اللہ علیہا میں

علامہ اقبال بارگاہِ جناب سید ہ سلام اللہ علیہا میں 

اپنی عقیدت کے پھول نچھاور  کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ مخدراتِ ملت اس عظیم ہستی کا محض زبانی اکرام و احترام کی حد تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں۔ بلکہ 

خاتونِ جنت کی اتباع و پیروی سے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائیں اور ملت و 

انسانیت کی تقدیر سنوارنے کااہم ترین کام بحسنِ خوبی انجام دیں۔ یہ اہم ترین کام جب ہی ہو گا جب مادرانِ ملت کی آغوش  میں امام حسین علیہ السلام جیسے فرزند پروان چڑھیں گے۔ اس گھرانے میں محمد الرسول اللہ ص جیسے باپ ہیں، علی ع جیسے شوہر اور


 حسنین ع جیسے فرزند ہیں۔  جیسی 

بیٹی اور فاطمۃ الزہرا  سلام اللہ علیہا  جیسی ماں ہیں۔ 


یہ پورا کا پورا گھرانا بارگاہ خداوند کی جانب سےمقدس و مطہر ہے۔ لہٰذا بار بار

 اس گھرکی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء، شعراء اور مفکرین نے اہلبیت علیہ السلام کی مدح سرائی کی ہے لیکن علامہ  اقبال رحمۂ اللہ علیہ کو ان مدح سراحوں میں مخصوص امتیاز حاصل

ہے۔ جب جب علامہ اقبال اہلبیت کی بارگاہِ فیض بخش میں حاضر ہوئے ہیں۔ اُن کا تخلیقی شعور 

اور عقیدت و احترام کاجذبہ عروج پر تھا۔ نتیجتاً مدحتِ اہلبیت علیہ السلام کے

 حوالے سے اقبال کے یہاں مخصوص اندازِ بیان، پاکیزہ

 فکر، اور افراط و تفریط

سے مبرا جذبۂ عشق پایا جاتا ہے۔محمد و آلِ محمد ص کی توصیف و تعریف میں انہوں نے قرآنی معیارات اور

 تاریخی حقائق کوہمیشہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ تعظیم و تکریم سے لبریز جذبات کے

 باوجود

 علامہ نے متوازن اصطلاحات اور شایانِ شان الفاظ کے ذریعے اپنی عقیدت کا 

اظہار کیا ہے۔ ثبوت کے طور ان اشعار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے جو ’’رموز بےخودی‘‘ میں علامہ اقبال نے جناب زہراء کےشان میں کہے ہیں۔ رموز بےخودی

 میں علامہ اقبال نے خواتینِ ملت کے لیے ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ان میں سے پہلا باب ’’درمعنی ایں کی بقائے نوع از امومت است و حفظ و احتر

امامومتِ اسلام است‘‘ دوسرا باب ’’درمعنی ایںکہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؑ اسوہ کاملہ ایست برائے نساءِ اسلام‘‘ تیسرا باب ’’خطاب بہ مخدراتِ اسلام‘‘ عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔ ان تینوں ابواب کے مرتبط مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ

 پہلا اور تیسرا باب اُس دوسرے باب کی جانب راجع ہیں جس میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کے سیرت و کردار کے حوالے سےلطیف و عمیق نکتے بیان ہوئے ہیں۔ اس

 باب کے آغاز میں علامہ اقبال نے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ جناب سیدہ  سے اپنی عقیدت کی وجہ بیان کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان 

کی فضیلتِ نسبی اور شرفِ نسبتی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس باب کے آسان تجزیہ و

 تحلیل  کے لئے اس میں درج اشعار کو چند 

عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔


علا مہ اقبال رحمۂ اللہ فرماتے ہیں جناب زہراؑ کے حسب و نسب کی پاکیزگی اور

 عظمت کیلئےاتنا کافی ہے کہ وہ رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ نسبت محض قریبی رشتہ ہی

 تک محدود نہیں ہے بلکہ

جناب سیدہ اپنے والدِ گرامی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشن میں ان کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ، رسول اللہ اپنی بیٹی کے تئیں جس عزت و تکریم اور انتہائی محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کا

 بنیادی محرک حضرت فاطمہ کی عظیم شخصیت اور اسلام کے تئیں ان کی لامثال 

فداکاریاں تھیں۔ جناب فاطمہ   نے کم سنی میں ہی اپنے عظیم المرتبت باپ کی اولوالعزمانہ شخصیت کو درک کیا تھا۔ آپ کارِ رسالت کی حساسیت اور سنگینی سے بخوبی واقف تھیں۔ فاطمہ سلام اللہ علہا  جانتی

 تھیں کہ ا کے پدربزرگوار پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث بہ رسالت ہیں۔ اس الہٰی مسؤلیت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو واحد راستہ ہے وہ فدا کاری کا

 راستہ ہے۔ 


یہی وجہ ہے کہ فاطمہ   نے اپنے بچپن کی تمام معصومانہ مشاغل کو تج دیا اور 

اوائل عمری سے ہی اپنےگفتار و کردار کے ذریعے اپنی جلالت و بزرگی کا مظہر

 بن گئیں۔آپ  سلام اللہ علہا  کا ہیولیٰ اور جسمانیپیکر طفلانہ خصائص سے مزّین تھا لیکن آپ کی معنویت

 کا یہ عالم تھا کہ طفلگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شانہ بشانہ 

تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔ کفارِقریش کی حشر سامانیوں کا اپنی آنکھوں سے

 مشاہدہ کیا۔ اپنے شفیق والد کے تئیں مخالفینِ اسلام کی ایذا رسانیوں پر انتہائی صبر کیا۔ شعبِ ابی طالب کے تلخ ترین تین سال گرسنگی و تشنگی کے عالم میں گزارے۔ مگر حرفِ اف تک اپنی زبانِ مبارک جاری نہ کیا۔ 


جب کبھی محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھکے ماندے گھر لوٹ آتے تو

 حضرت فاطمہ علیہاالسلام اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے وہی کام انجام دیتیں جو کام مادرِ رسول ص جناب آمنہ سلام للہ علیہا کے ہاتھوں انجام پاتا اگر وہ ان ایام میں بقیدِ حیات ہوتیں۔بارہا ایسا ہوتا رہاکہ پیغمبر گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گرد آلود اور

 مجروح حالت میں جب گھرتشریف لے آتے تو انکی یہ کم سن بیٹی زخموں پر مرہم لگاتی گرد و غبار کو صاف کرتیں جودشمنانِ پیغمبر ان پر وقتاً فوقتاً ڈال دیتے۔ اس

 پر مستزاد یہ کہ نہایت ہی کم سن بیٹی اپنے پدرِ بزرگوار کو معصومانہ لہجے میں

 کچھ یوں دلاسہ دیتی کہ جیسے فاطمہ سلام اللہ علیہاکے روپ میں  بی بی آمنہ متکلم ہوں ۔ بالفاظِ دیگر کارِ آمنہ بدست فاطمہ انجام پایا تو رسولِ خدا نے اپنی لختِ جگر

 فاطمہ کو ’’ام ابیھا‘‘ یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ کے خطاب سے نوازا۔


اس کے علاوہ رسولِ رحمت دوعالم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیش

 نظر وہ تمام قربانیاں بھی تھیں جو اسلام کی حفاظت کے لیے مستقبلِ قریب میں 

حضرت زہراء سلام اللہ علہا بالواسطہ یا بلاواسطہ دینے والی تھی۔ درج ذیل شعر کو اسلام کی ابتدائی تاریخ کے پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو باپ بیٹی کے مقدس رشتہ کے پشت پر ایک معنوی تمسک کا بھی کسی حد تک ادراک ہو سکتا ہے۔شاہ ولایت ع اور خاتون جنت   سلام اللہ علہا کی ازدواجی زندگی ہر جہت سے رسولِ کریم ص کے اس قول کی عملی تائید

 ہے کہ ’’اگر علی ع نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا‘‘۔ جس شان اور عنوان سے حضرت فاطمہ  نے بحیثیتِ دخترِ رسول فقید المثال کردار پیش کیا اُسی شان

 سے انہوں نے اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کےساتھ ایک مثالی زوجہ کا رول 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر